محمد بن مسلم بن عقیل
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
محمد اور ان کے بھائی ابراہیم حضرت
مسلم بن عقیل کے دو جوان فرزند تھے جو واقعہ عاشور کے بعد
شہید ہو گئے۔
[ترمیم]
تاریخی مصادر میں ابراہیم اور محمد نام کے دو بچوں کا نام ذکر کیا جاتا ہے۔
والد کے نام اور ان کی گرفتاری اور شہادت کے بارے میں اختلاف ہے، تاہم ان کی شہادت کا واقعہ مختلف مصادر میں نقل ہوا ہے، اس لیے ان کے بارے میں قارئین کیلئے کوئی شک و تردید باقی نہیں رہتی۔
[ترمیم]
اس بات میں اختلاف ہے کہ محمد کس کے بیٹے ہیں!
قدیم مصادر میں بعض نے ان دونوں کو
عبد اللہ جعفر کے بیٹوں یا نواسوں میں سے شمار کیا ہے اور نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے
قبیلہ طے کے ایک شخص کے گھر میں پناہ لی اور اس نے ان دونوں کا سر تن سے جدا کر کے ابن زیاد کے پاس لے گیا۔ مگر اس نے حکم دیا کہ
قاتل کا سر تن سے جدا کر کے اس کا گھر گرا دیا جائے۔
بعض نے ان دونوں کو عبد اللہ جعفر کے فرزند قرار دیا ہے اور کہتے ہیں: انہوں نے
عبد الله بن قطبہ طائی کے گھر میں پناہ لی، دوسری طرف سے
عمر سعد نے اعلان کیا کہ جو بھی ان دونوں کے سر لائے تو اسے ہزار درہم انعام دیا جائے گا۔ خاتون نے جب یہ دیکھا تو اپنے شوہر سے کہا کہ انہیں مدینہ بھجوا دے اور انہیں ان کے گھر والوں کے حوالے کر دے۔ اس مرد نے قبول کر لیا مگر انہیں اپنی تحویل میں لینے کے بعد دونوں کے سر تن سے جدا کر دئیے اور انعام کی امید پر انہیں
عبیدالله کے پاس لے گیا۔ مگر عبید اللہ نے اسے کچھ نہیں دیا اور کہا میں چاہتا تھا کہ انہیں زندہ سلامت میرے پاس لاؤ؛ تاکہ عبد اللہ جعفر پر احسان کروں۔ عبد اللہ نے یہ خبر سن کر کہا: اگر بچوں کو میری تحویل میں دیتے تو دو ملین درہم انعام دیتا۔
بعض کا خیال ہے کہ یہ دونوں بچے
جعفر طیار کے فرزند ہیں مگر اس کی صحت میں بہت تردید ہے؛ کیونکہ جعفر سنہ آٹھ ہجری کو
جنگ موتہ میں شہید ہوئے اور سنہ ۶۱ ہجری یعنی اس واقعے کے ۵۲ برس بعد ان کے بچے کم سن نہیں ہو سکتے! اس کے علاوہ جعفر کے بیٹوں کے نام تاریخ میں متعین ہیں اور ان میں مذکورہ اسما نقل نہیں کیے گئے۔
[ترمیم]
متاخر مؤلفین کی اس بارے میں مختلف آرا ہیں:
شیخ عباس قمی شیخ صدوقؒ کی داستان نقل کرنے کے بعد بیان کرتے ہیں: اس کیفیت کے ساتھ دو بچوں کی شہادت بعید معلوم ہوتی ہے مگر چونکہ
شیعہ محدثین کے رئیس
شیخ صدوقؒ اور علوم اہل بیتؑ کے مروج نے اسے نقل فرمایا ہے اور روایت کی
سند میں ہمارے بعض بزرگ علما واقع ہوئے ہیں۔ اس لیے ہم نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اس واقعہ کو نقل کر دیا ہے۔واللَّه تعالى العالم. مرحوم صدوقؒ انہیں مسلم کے فرزند قرار سمجھتے ہیں۔
[ترمیم]
شعرانی کہتے ہیں: ان ستم کاروں
آل محمدؐ پر ظلم اس سے زیادہ ہیں۔ اگر حدیث کی اسناد میں ضعیف افراد ہوں تو ان کے ضعف سے
روایت کا کذب معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا نقل جائز نہ ہو۔۔
[ترمیم]
محمد کی شہادت کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔
اس حوالے سے
ملا حسین کاشفی نے زیادہ شخصیات کو داستان کے ضمن میں شامل کیا ہے۔
ملا حسین کاشفی کے کلام کا خلاصہ یہ ہے:
مسلم بن عقیل کی
شہادت کے بعد ان کے بچے والد کی وصیت کے مطابق
شریح قاضی کے گھر میں پناہ گزین ہو گئے۔ ابن زیاد کو خبر ہوئی کہ مسلم کے دونوں بچے
کوفہ میں ہیں تو دھمکی دی کہ جو بھی انہیں پناہ دے اور ہمارے حوالے نہ کرے، اس کا خون مباح ہے اور اس کا مال بھی ضبط کر لیا جائے گا۔اس لیے شریح نے بچوں کو بلایا۔ پہلے گریہ زاری کرنے لگا اور جب بچوں نے سبب پوچھا تو کہا: آپ کے والد کو شہید کر دیا گیا ہے۔ دونوں بچے رونے لگے اور اپنے گریبان چاک کر دئیے۔ شریح نے کہا: گریہ نہ کرو کیونکہ ابن زیاد تمہارے تعاقب میں ہے اور تمہیں گرفتار کرنا چاہتا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں کسی ایسے امین کے حوالے کروں جو تمہیں
مدینہ پہنچا دے۔ پھر اپنے بیٹے اسد کو بلا کر کہا: ان دونوں کو باب العراقیین پر لے جا کر
مدینہ جانے والے کاروان کے ساتھ ملحق کر دو۔ جب یہ لوگ پہنچے تو کاروان کچھ راستہ طے کر چکے تھے۔ اسد نے دور سے ایک سایہ دیکھا اور کہا: یہ کاروان والے ہیں، جلدی کرو اور ان کے ساتھ ملحق ہو جاؤ اور خود واپس آ گیا۔ بچے راستے سے آشنا نہیں تھے، گم ہو گئے اور کوفیوں کے ہاتھ لگ گئے۔ وہ انہیں ابن زیاد کے پاس لے گئے۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ انہیں قدی کر دیا جائے۔ زندان کا داروغہ مشکور نامی شخص
اہل بیتؑ کا عقیدت مند تھا۔ اس نے بچوں کو آزاد کر کے انہیں راستہ بتایا لیکن وہ پھر گم ہو گئے اور اتفاقا حارث کے گھر چلے گئے جو ان کے تعاقب میں تھا۔ ۔
تا آخر داستان.
مورخین نے محمد بن مسلم بن عقیل کا نام بھی ذکر کیا کہ
عاشور کے دن کربلا میں شہید ہوئے۔ محمد بن مسلم نے کوفیوں کے ساتھ جنگ کی اور آخر کار
ابو مریم ازدی نامی شخص نے انہیں
نیزے کی ضرب لگا کر قتل کر دیا۔۔
بعض نے ان کے
قاتل ابو مریم ازدی اور
لقیط بن ایاس جھنی کا ذکر کیا ہے۔
(البتہ مذکورہ کتاب میں اس کے قاتل کا نام ابو مریم کی بجائے غلطی سے «ابومرهم» مرقوم ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
پژوهشی پیرامون شهدای کربلا، جمعی از نویسندگان، ص۶۴-۶۶۔ پیشوایی، مهدی، مقتل جامع سیدالشهداء، ج۱، ص۸۲۵۔