نسبت تحقیقی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



نسبت تحقیقی کی دلالت اس نسبت پر ہوتی ہے جو فاعل سے کسی فعل کے صادر ہونے کے وقت متحقق ہوتی ہے۔


تعریف

[ترمیم]

نسبتِ تام خبری کی ایک نوع نسبتِ تحقیقی ہے جوکہ خارج میں حدث (فعل) اور فاعل کے مابین ہوتی ہے اور فاعل سے صدورِ حدث کے متحقق ہونے پر دلالت کرتی ہے، مثلا فعل ماضی اور دیگر افعال میں موجود نسبت۔

جملہِ فعلیہ میں نسبتِ تحقیقی کا ہونا

[ترمیم]

جملہِ خبریہ میں سے صرف جملہ فعلیہ میں نسبتِ تحقیقی پائی جاتی ہے۔ جملہ اسمیہ میں نسبتِ تحقیقی نہیں ہوتی۔ جملہِ فعلیہ میں نسبتِ تحقیقی فاعل سے عرض کے صادر ہونے کے تحقق پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ خارج میں عرض کو فاعل سے منسوب کیا جاتا ہے اور اسی سے یہ صادر ہوتی ہے۔ یہ انتساب نسبتِ تام خبری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

چند نکات

[ترمیم]

نسبتِ تحقیقی کو مزید سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات پر توجہ کرنا چاہیے:

← پہلا نکتہ


خارج میں عرض اور فاعل میں ایک نوعِ تغایر و اختلاف پایا جاتا ہے۔ البتہ وجود کے اعتبار سے یہ ایک وجود میں مرکب صورت میں موجود ہوتے ہیں، یعنی خارج میں عرض اور فاعل متحد ہیں۔

← دوسرا نکتہ


جملہِ فعلیہ میں نسبت یا تو تحقیقی ہوتی ہے یا حلولی، مثلا عَلِمَ جب کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ذاتِ عالم میں علم حلول کر گیا ہے اور علم و عالم کے درمیان نسبت اس معنی کا فائدہ دیتی ہے۔
[۱] الاصول، شیرازی، محمد، ج۲، ص۳۴۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. الاصول، شیرازی، محمد، ج۲، ص۳۴۔
۲. فوائد الاصول، نائینی، محمد حسین، ج۱-۲، ص۱۰۰۔    
۳. فوائد الاصول، نائینی، محمد حسین، ج۱-۲، ص۲۲۲۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۸۲۵، مقالہِ نسبت تحققی سے یہ تحریر کی گئی ہے۔    






جعبه ابزار