کشف المراد (علامہ حلیؒ)
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
«تجرید الاعتقاد»
علم کلام کی ایک اہم اسلامی کتاب ہے جسے
خواجه نصیر الدین طوسیؒ نے تحریر کیا ہے اور
علامه حلیؒ نے تجرید پر بہترین انداز سے شرح لکھی کہ جس کا نام ’’کشف المراد‘‘ ہے۔
[ترمیم]
علامہ حلیؒ، خواجہ طوسیؒ کی عظمت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’شیخ‘‘ عقلی علوم میں اپنے اہل عصر میں سے افضل شمار ہوتے تھے اور
حکمت و شریعت کے علوم میں ان کی تصنیفات بکثرت ہیں۔ علامہ حلیؒ نے جدت کے ساتھ تجرید کے مطالب کی تشریح کی ہے اور اس کا نام کشف المراد رکھا ہے۔
فاضل قوشجیؒ اس کتاب کی اہمیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر علامہ کی کشف المراد نہ ہوتی تو ہم خواجہ طوسیؒ کے نظریات کو درک نہ کر پاتے۔ البتہ ایک اور شرح
شمس الدین اصفہانی کی شرح کے عنوان سے معروف ہے مگر یہ واضح ہے کہ علامہ کی شرح بہت اہمیت کی حامل ہے چونکہ علامہ خواجہ کے شاگرد تھے۔ لہٰذا اپنے استاد کے افکار و نظریات سے مکمل طور پر مطلع تھے۔ انہوں نے یہ کتاب چھ مقاصد میں تدوین کی۔ ہر مقصد میں فصول اور مختلف مسائل ہیں۔ استاد
علامہ حسن زادہ آملی ہمارے زمانے کے ایسے نادر افراد میں سے ہیں جو مختلف علوم میں بہت زیادہ تبحر اور تسلط رکھتے ہیں اور ان کے بہت زیادہ آثار ہیں۔ آپ کی اسلامی کلام میں بھی تالیفات ہیں اور کشف المراد پر آپ کے تعلیقات سے علم کلام پر آپ کی مہارت کا پتہ چلتا ہے۔ اگر استاد کے تعلیقات کو دیکھیں تو آپ کی اسلامی کلام میں گہرائی بخوبی آشکار ہو گی۔
[ترمیم]
تجرید اور شرح تجرید حکمتِ مشاء کی بنیاد پر تدوین کی گئی ہے۔ لہٰذا اس میں بہت سے اشکالات ہیں جن میں سے بعض ’’توحید صمدی‘‘ سے منافات رکھتے ہیں۔ اس امر کا ذکر لازم ہے کہ ’’وحدتِ شخصی وجود‘‘ یا
توحیدِ صمدی کا نظریہ
الہٰیات کے شعبے میں برترین انسانی تفکر ہے۔ اس گروہ کے مشرب میں حقیقتِ وجود وہی حق سبحانہ ہے اور ’’وحدت حقہ حقیقیہ‘‘ رکھتا ہے۔ اس گروہ کے نقطہ نظر سے مشاء کے نظریات نامکمل ہیں اور فکری اعتبار سے نچلے درجے کے ہیں۔ استاد علامہ نے اس کتاب میں مطالب کی وضاحت کے علاوہ خواجہ و علامہ کے اقوال پر بھی نقد وارد کی ہے۔ پھر عرفا میں سے محققین کا نظریہ مختصر طور پر الہٰیات میں دلچسپی رکھنے والوں کے سامنے پیش کیا ہے۔
وہ مقصد اول کے چھتیسویں مسئلے کے ضمن میں پہلے خواجہ اور علامہ کے فکری مبنیٰ کو بیان کرتے ہیں پھر ان کے اقوال پر نقد کرتے ہوئے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس گروہ کے مشرب میں ہر چیز کی حقیقت اس کا وجودِ خاص ہے کہ اس معنی میں حقیقت وجود کے مساوی ہے اور وجود جو ’’تعالِی‘‘ کی قسطِ اول ہے، کامل ترین وجود ہے اور موجودات حقائق متباینہ ہیں اور وجود تحقق میں اصل ہے اور ماہیت اعتباری ہے اور یہ متخالف حقائق وجود عام و مطلق کے ملزوم و معروض ہیں کہ وجود مطلق کا ان سب پر بصورتِ تشکیک حمل ہوتا ہے، پھر جسے اشیا پر بطور تشکیک حمل کیا جائے اس کیلئے اشیا کا مقوِّم ہونا محال ہے یعنی اس کا بعینہ حقیقتِ اشیاء ہونا یا ان کی جزء حقیقت ہونا محال ہے کہ پہلی کی بنا پر نوع اور دوسرے کی بنا پر جنس ہو بلکہ وہ ان سے خارج ہے اور انہیں لازم ہے اور صحیح ہے کہ مختلف حقائق لازمِ واحد میں مشترک ہوں اور اس امر سے کہ لازمِ واحد حقائق متخالفہ و مشکک ہوں یہ لازم نہیں آتا کہ ملزومات بھی مشکک ہوں یا ملزومات احکامِ وجودیہ میں یکساں ہوں۔ لہٰذا صحیح ہے کہ مثلا ملزومات میں سے ایک وجودِ محض اور انیتِ صرف ہو جو ذات واجب ہے یعنی ’’الحق انیتہ ماھیتہ‘‘ اور دوسرے ملزوم جو ممکنات ہیں، ان کا وجود زائد بر ماہیت ہو اور نیز یہ کہ لازم جو وجود عام ہے، بدیہی ہے کہ اس کے ملزوم کا بدیہی ہونا لازمی نہیں ہے ۔۔۔ لہٰذا وجود کا عام مفہوم، اولی التصور اور اعرف اشیاء ہے لیکن ملزوم مثلا واجب کی حقیقت، نہایت خفی ہے۔ یہ نظریہ نہایت اشتباہی ہے کیونکہ اس قول کا لازمہ تشبیہہ ہے عین تنزیہ میں جو توحیدِ صمدی کے ساتھ شدید منافات رکھتی ہے۔ البتہ ایسا انحراف بعد کے مسائل میں بھی انحراف کا موجب ہے۔ یہ جماعت اللہ تعالیٰ کے جزئیات کے بارے میں علم کو بصورت کلی قرار دیتی ہے اور اسی طرح واحد کے کثرت سے صدور کے بارے میں ضعیف اقوال کی قائل ہے۔
کشف المراد مقصد دوم کے تیرہویں مسئلے ’’مسئلہ علم‘‘ کے بارے میں خواجہ اور علامہ انطباع کے قائل ہیں۔ استاد علامہ کی نگاہ میں انطباع اور ارتسام کی قبولیت کا مسئلہ مشاء کے
فلسفہ میں رائج ہے اور بنیادی طور پر یہ اشتباہ ہے اور علم کی حقیقت ان باتوں سے بالاتر ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سافٹ وئیر خواجہ نصیرالدین طوسیؒ،مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی۔