ابو مھدی المھندس

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



جمال جعفر ابراہیم المعروف ابو مہدی المھندس ۱۹۵۴ء کو بصرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ مزاحمتی محور کے عراقی کمانڈر تھے اور کچھ عرصہ تک ملکی پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہے۔ جمال جعفر نے سنہ ۱۹۷۳ء میں پولی ٹیکنیک یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور بمطابق سنہ ۱۹۷۷ء اپنا ڈگری کورس مکمل کیا۔ آپ آگے چل کر حزب اسلامی الدعوۃ میں شامل ہو گئے اور ۱۹۷۹ء کے رجب میں اٹھنے والی تحریک کے بعد آپ سمیت بہت سے عراقی طلبہ حکومت کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے۔
شیعہ مرجع تقلید سید محمد باقر الصدر کی شہادت اور صدام کے برسر اقتدار آنے کے بعد ابو مہدی المھندس عراق سے ہجرت پر مجبور ہو گئے۔ آپ کچھ عرصہ تک کویت میں رہے تاہم ۱۹۸۳ء میں اپنے چند ساتھیوں کی کویت میں گرفتاری کے بعد یہاں سے نکل کر ایران تشریف لے آئے۔ آپ ۲۰ سال تک ایران میں قیام پذیر رہے اور اس کے ساتھ ساتھ مجلس اعلائے اسلامی عراق کی رکنیت بھی اختیار کر لی۔ آپ نے اس جماعت میں ایک سیاستدان کے عنوان سے جبکہ سپاہ بدر میں ایک سپاہی کی حیثیت سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں؛ پھر آگے چل کر آپ سپاہ بدر کے کمانڈر بن گئے۔ المھندس نے صدام حسین کی حکومت کے سقوط کے بعد سپاہ بدر کی سربراہی کو چھوڑ دیا اور مستقل طور پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
دہشت گرد جماعت داعش کی حکومت قائم ہونے کے بعد آپ الحشد الشعبی کے نام سے بننے والی نئی جہادی تنظیم میں ایک کمانڈر کی حیثیت سے شامل ہو گئے ۔ آپ نے داعش کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں داعش کا خطے سے قلع قمع ہو گیا۔
آخرکار ابو مھدی المھندس ۶۶ برس کے سن میں ۳ جنوری ۲۰۲۰ء بروز جمعۃ المبارک کی صبح کو دہشت گرد امریکہ کی کاروائی کے نتیجے میں سردار قاسم سلیمانی اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہو گئے۔



ولادت اور تعلیم

[ترمیم]

جمال جعفر ابراہیم المعروف ابو مہدی المھندس کی ولادت بصرہ میں ۱۹۵۴ء کو ہوئی۔ آپ کے والد عراقی اور والدہ ایرانی تھیں۔ آپ ۱۹۷۳ء میں بغداد کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور سنہ ۱۹۷۷ء میں کامیابی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔
ضروری فوجی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد آپ نے بصرہ کے آہن و فولاد انسٹیٹیوٹ میں انجینئر کے عنوان سے کام شروع کر دیا۔ پھر سیاسیات میں ایم۔اے پاس کیا۔

حزب الدعوة میں فعالیت

[ترمیم]

ابو مہدی المھندس ۱۹۷۰ء کے اوائل میں جب وہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے؛ نے حزب الدعوۃ کی رکنیت حاصل کی اور حوزہ آیت اللہ العظمیٰ حکیم بصرہ میں ابتدائی حوزوی تعلیم حاصل کی۔ اس زمانے میں حزب الدعوۃ بعثیوں کے شدید حملوں اور دباؤ کے تحت تھی اور اسی دوران حزب کے رہنماؤں شیخ عارف اور ’’گروہ الھدیٰ‘‘ کو قتل کر دیا گیا۔
حزب دعوت اسلامی عراق میں اہل تشیع کی اسلام پسند سیاسی جماعت ہے جو سنہ ۱۹۵۷ء میں سید مرتضیٰ عسکری اور سید محمد باقر صدر کے شاگردوں اور پیروکاروں کے توسط سے قائم کی گئی۔ یہ حزب پہلے ایک مذہبی تحریک کی صورت میں شروع ہوئی جو اسلامی اقدار اور سیکولرزم کے خلاف برسرپیکار تھی۔ ۱۹۷۰ء میں اس جماعت کی جوانوں اور علما میں مقبولیت بڑھتے ہی حزب بعث کی حکومت نے اسے دبانا شروع کر دیا کہ جس سے یہ جماعت ایک انقلابی تحریک کی شکل اختیار کر گئی جو حکومت کے خلاف مزاحمت کر رہی تھی۔ حزب الدعوۃ اور بعثی حکومت کی دشمنی اس تحریک کے روحانی پیشوا سید محمد باقر صدرؒ کی ۱۹۸۰ء میں شہادت کے بعد عروج پر پہنچ گئی۔
یہ تحریک نیٹو اتحاد کے ہاتھوں ۲۰۰۳ء میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد عراق کی اہم ترین سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اسی لیے عراق کے پہلے تین وزرائے اعظم حیدر العبادی، نوری المالکی اور ابراہیم الجعفری کا تعلق حزب دعوت سے تھا۔ حزب دعوت پہلوی حکومت کے مخالفین کی حامی تھی اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت میں سرگرم عمل ہو گئی۔ لہٰذا ایران کے ساتھ بعثی حکومت کی جنگ کے دوران یہ جماعت صدام کے خلاف ایران کے ساتھ فوجی تعاون میں بھی حصہ لیتی رہی۔

ایران کی طرف ہجرت

[ترمیم]

ابو مہدی المھندس انتفاضہ شعبانیہ (۱۹۷۹ء میں عراقی عوام کے بعثی حکومت کے خلاف قیام) میں شرکت اور آیت اللہ سید محمد باقر صدر کی گرفتاری کے بعد عدالت کی طرف سے اشتہاری قرار پائے۔ عراق میں ۱۶ جنوری ۱۹۷۹ء میں صدام حسین کے اقتدار سنبھالنے کے بعد حزب دعوت کو کچلنے کا عمل تیز ہو گیا۔ صدام حکومت نے حزب کے اراکین کو گرفتار کر کے ایک علامتی عدالتی کاروائی کے بعد انہیں سزائے موت دے دی۔ ان حالات میں ابو مہدی ۱۹۸۰ء میں عراق چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور براستہ کویت ایران چلے گئے۔

مجلس اعلائے اسلامی کی نمائندگی

[ترمیم]

ابو مہدی المھندس سنہ ۱۹۸۵ء کو ایران میں پناہ لینے کے بعد مجلس اعلائے اسلامی کے رکن منتخب ہوئے۔ مجلس اعلیٰ کو ۱۹۸۲ء میں صدام حسین کی حکومت گرانے کی غرض سے قائم کیا گیا تھا۔ یہ جماعت ۲۰۰۳ء میں نیٹو اتحاد کے ہاتھوں صدام حکومت کے سقوط کے بعد عراق کی اہم ترین جماعت بن گئی اور ابھی تک عراقی پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت شمار ہوتی ہے۔
ابو مھدی المھندس سنہ ۲۰۰۳ء میں عراق کی بعثی حکومت کے سقوط کے بعد عراق واپس چلے گئے اور ۲۰۰۵ء کے پارلیمانی انتخابات میں شرکت کے بعد صوبہ بابل سے نمائندہ پارلیمنٹ منتخب ہو گئے۔ مگر امریکیوں نے انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں دی اور وہ ایران واپس آنے پر مجبور ہو گئے۔

سپاه بدر کی سربراہی

[ترمیم]


سنہ ۱۹۸۳ء میں مجلس اعلائے انقلاب اسلامی عراق کی فورسز جو صدام مخالف تھیں اور ایران میں پناہ گزین تھیں؛ نے رضاکارانہ طور پر ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں بھی شرکت کی۔ یہ فورسز سپاہ پاسداران میں ایک بٹالین کے طور پر شامل ہوئیں اور پہلی مرتبہ خیبر آپریشن جو ایرانی فورسز کی جانب سے بعثی حکومت کے خلاف تھا؛ میں شرکت کی۔ سپاہ بدر نے سپاہ پاسداران کے زیر کمانڈ آپریشن کیا۔ اسی طرح سپاہ بدر نے آپریشن قدس ۴ اور آپریشن کربلائے ۲ میں بھی شرکت کی۔ سنہ ۲۰۰۱ء میں ابو مہدی المھندس ابو علی بصری کی جگہ پر بدر فورس کے کمانڈر بن گئے۔

سیاسی سرگرمیوں میں دوبارہ شمولیت

[ترمیم]

صدام حسین کے سقوط سے کئی مہینے قبل انہوں نے سپاہ بدر کی ذمہ داری کو شورائے عالی کے حوالے کر دیا اور مستقل حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا جبکہ اس دوران آپ نے سب لوگوں سے اپنے تعلقات برقرار رکھے۔
شہید ابو مہدی المھندس نے بعثی حکومت کے گرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر عراق میں سیاسی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ انہوں نے قومی اتحاد ’’موحد‘‘ کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آپ اس قومی اتحاد کے علاوہ موجودہ وطنی اتحاد کے بانیوں میں سے ہیں۔

الحشد الشعبی کے نائب کمانڈر

[ترمیم]


الحشد الشعبی کی تشکیل کے بعد المھندس نائب کمانڈر کے طور پر منتخب ہوئے اور ہمیشہ جنگ کے تمام محاذوں پر شرکت کرتے رہے۔
عراقی رضاکارانہ فورس یا حشد شعبی؛ عراق کی عوامی فورس کو کہا جاتا ہے جو یہاں کی سرکاری فوج کے شانہ بشانہ لڑائی میں شرکت کرتی ہے اور اسے داعش کا مقابلہ کرنے کی غرض سے تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ فورس تقریبا ۴۰ مختلف گروہوں سے تشکیل پائی ہے جن میں سے زیادہ تر گروہ شیعہ ہیں۔ تاہم سنی، عیسائی اور ایزدی گروہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سے شیعہ گروہ اپنے اپنے طور پر نیٹو اتحاد کے خلاف لڑائی بھی کرتے رہے ہیں۔ ۲۶ نومبر ۲۰۱۶ء میں عراقی پارلیمنٹ نے کثرت آرا سے اسے فوج سے ہٹ کر ایک فورس کی حیثیت سے قانونی شکل دے دی ہے۔ حیدر عبادی رضاکارانہ فورس کے سربراہ ہیں اور ابو مھدی مھندس رضاکارانہ فورس کے نائب سربراہ اور آپریشنل کمانڈر تھے۔ شہید ابو مہدی المھندس نے دہشت گرد گروہ داعش کی نابودی کیلئے فوجی حکمت عملی ترتیب دینے اور اس پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے نمایاں کردار ادا کیا اور اسی دوران امریکہ نے انہیں اپنے مطلوب افراد کی فہرست میں بھی شامل کر لیا تھا۔

شہادت

[ترمیم]


۳ جنوری ۲۰۲۰ء بمطابق جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب امریکی ہیلی کاپٹروں کی جانب سے بغداد ائیرپورٹ کے نزدیک دو گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں سپاہ قدس کے سربراہ سردار قاسم سلیمانی کے ساتھ حشد الشعبی کے نائب کمانڈر ابو مہدی المھندس بھی سپاہ قدس اور حشد الشعبی کے چند دیگر ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔
قاسم سلیمانی اور ابو المہدی المھندس کی شہادت کے بعد عراق کی سیاسی جماعتوں اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے امریکی فوج کے ملک سے نکلنے کا مطالبہ کیا۔ عراقی پارلیمنٹ نے ایک ہنگامی اجلاس منعقدہ ۵ جنوری ۲۰۲۰ء کو عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کر لی۔
قاسم سلیمانی، ابو مہدی المھندس اور ان کے دیگر ساتھیوں کی آخری رسومات عراق کی سیاسی و مذہبی شخصیات کی شرکت کے ساتھ بغداد ، کربلا اور نجف میں منعقد ہوئیں۔ پھر ان اجساد کو ایران منتقل کیا گیا اور بعض شہروں جیسے اہواز، مشہد، تہران اور قم میں بھی ان کی تشییع جنازہ ہوئی جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابومهدی المهندس کیست؟    
۲. درباره ابومهدی المهندس۔    
۳. شهید ابومهدی المهندس را بهتر بشناسیم۔    
۴. ابومهدی المهندس کیست؟    
۵. شهید ابومهدی المهندس را بهتر بشناسیم۔    
۶. ابومهدی المهندس کیست؟    
۷. درباره ابومهدی المهندس۔    
۸. ابومهدی المهندس کیست؟    
۹. درباره ابومهدی المهندس۔    
۱۰. درباره ابومهدی المهندس۔    
۱۱. شهید ابومهدی المهندس را بهتر بشناسیم۔    
۱۲. درباره ابومهدی المهندس۔    
۱۳. شهید ابومهدی المهندس را بهتر بشناسیم۔    
۱۴. درباره ابومهدی المهندس۔    
۱۵. درباره ابو مهدی المهندس۔    
۱۶. مفاد تصمیم پارلمان عراق درباره اخراج نیرو‌های آمریکایی۔    
۱۷. پیکرهای پاک سردار سلیمانی و المهندس وارد نجف شدند۔    


ماخذ

[ترمیم]

گروه تحقیقاتی ویکی فقہ۔






جعبه ابزار