کیف استعدادی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



کیفِ استعدادی علم منطق کی ایک اصطلاح ہے جس کا معنی کسی شیء سے بچاؤ اور دفاع کی صلاحیت و استعداد کا ہونا یا کسی شیء کا اثر قبول کرنے کی استعداد اور صلاحیت کا ہونا ہے۔


کیف کی اقسام

[ترمیم]

حکماء اور اہل منطق نے ماہیات کو جوہر اور اعراض میں تقسیم کیا ہے۔ اعراض کی تعداد نو (۹) شمار کی ہے جن میں سے ایک کیف ہے۔ کیف کو ابتدائی طور پر چار اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:
۱. کیفیاتِ محسوسہ، اس کو کیفیات جسمانی بھی کہا ہے۔
۲. کیفیاتِ نفسانیہ؛
۳. کیفیات جو کمیات کے ساتھ مختص ہیں؛
۴. کیفیاتِ استعدادی۔

اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

کیفِ استعدادی سے مراد ایک شیء میں موجود وہ قوت یا حالت ہے جس سے ایک اثر تیزی یا آسانی سے قبول کیا جاتا ہے، یا ایک شیء ایسی قوت یا حالت ہو جس کے ذریعے سے تیزی سے اثر انداز ہونے والی چیزوں سے مقاومت اور دفاع کیا جائے یعنی اس قوت کے ذریعے سے اثر پڑنے سے بچا جاتا ہے۔ بعض نے کیف استعدادی کی تعریف اس طرح سے کی ہے کہ کسی شیء میں کسی اثر کو قبول کرنے کی استعداد اور قابلیت کا شدید ہونا یا کسی اثر کو قبول نہ کرنے کی استعداد اور قابلیت کا شدید ہونا کیفِ استعدادی کہلاتا ہے۔

اگر دونوں تعریفوں پر دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ کیفِ استعدادی سے مراد قبولیت کی شدید قوت بھی ہے اور عدمِ قبولیت کی شدید قوت یعنی قبول کرنے کی قوت کا نہ ہونا بھی مراد ہے۔ اگر نفس میں کسی کمالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مقاومت اور کسی اثر کو قبول نہ کرنے اور قبولیت کے اثر کا انکار کرنے کی استعداد اور قابلیت کو مدنظر رکھیں تو اس کو قوتِ طبیعہ کہہ دیا جاتا ہے، صحت کا ہونا مرض کو قبول نہ کرنے کا باعث ہے یا ٹھوس چیز چیرے جانے کو قبول نہیں کرتی۔ اسی طرح اگر کسی اثر کو فورا اور تیزی کے ساتھ قبول کر لینے کی استعداد اور قابلیت کو مدنظر رکھیں تو اس کو لا قوت طبیعیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جیسے مریض ہونے کے مقدمات فراہم ہو جائیں تو تیزی سے مرض کی طرف انسانی جسم بڑھتا ہے، یا اسی طرح نرم شیء کٹنے اور چیرے جانے کو فورا قبول کرتی ہے۔ پس کیفِ استعدادی میں اگر دفع کرنے اور دور کرنے کی قابلیت و استعداد کو ملاحظہ کیا جائے تو اس کو قوت کہتے ہیں اور اگر اثر قبول کرنے اور تیزی سے اثر لینے کی صلاحیت و استعداد کو مدنظر رکھا جائے تو اس کو لا قوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
[۶] ابوالحسن سالاری، بہمنیار بن مرزبان، التحصیل، ص۳۱۔
[۷] ابن‌ سینا، حسین بن عبد الله، الشفا (منطق)، ج۱، ص۶۶۔
[۸] مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۶۴-۶۶۔
[۱۰] خوانساری، محمد، منطق صوری، ص۱۴۵۔
[۱۱] گرامی، محمد علی، منطق مقارن، ص۷۲۔


بعض متکلمین نے کیفِ استعدادی کی تعریف قابل کے رجحان سے کی ہے۔ ان کے نزدیک کیفیاتِ استعدادی سے مراد وہ شیء ہے جس کے ذریعے قبول کرنے والی چیز قبولیت کی دو جانبوں میں سے ایک جانب کی طرف رجحان پیدا کر لے۔ کیفیاتِ استعدادی دو نقیض یعنی وجود اور عدم کی دو طرفوں کے مابین متوسط ہوتی ہیں۔ کیونکہ وجود یا عدم کی دونوں جانبوں میں سے ایک جانب کی طرف رجحان بڑھتا رہتا ہے یہاں تک ان دونوں تک منتہی ہو جاتا ہے۔ چنانچہ شدت اور ضعف کو قبول کرنے والا رجحان وجود اور عدم کے دونوں جانب میں متوسط ہوتا ہے۔ اس رجحانِ قابل کو کیفِ استعدادی سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کی دو طرفیں وجود اور عدم ہیں ۔ اگر یہ رجحان فعل یعنی کسی اثر کو دور کرنے یا اس سے دفاع کرنے کی استعداد کی جانب ہو تو اس کو قوت کہتے ہیں اور اگر یہ رجحان انفعال یعنی کسی اثر کو قبول کرنے کی طرف سے ہو تو اس کو لا قوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. حکیم سبزواری، ملا ہادی، منظومہ، ج ۱، ص ۱۶۵۔    
۲. شہید مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، ج ۸، ص ۳۰۴۔    
۳. ابن‌سینا، حسین بن عبداللہ، النجاة، ص۱۵۵۔    
۴. علامہ حلی، حسن بن یوسف، الجوہر النضید، ص ۲۸۔    
۵. خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، اساس الاقتباس، ص۴۴۔    
۶. ابوالحسن سالاری، بہمنیار بن مرزبان، التحصیل، ص۳۱۔
۷. ابن‌ سینا، حسین بن عبد الله، الشفا (منطق)، ج۱، ص۶۶۔
۸. مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۶۴-۶۶۔
۹. غزالی، محمد بن محمد، معیار العلم فی فن المنطق، ص۲۹۹-۳۰۰۔    
۱۰. خوانساری، محمد، منطق صوری، ص۱۴۵۔
۱۱. گرامی، محمد علی، منطق مقارن، ص۷۲۔
۱۲. علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص ۲۲۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، برگرفتہ از مقالہ کیف استعدادی، تاریخ لنک:۱۳۹۶/۴/۷۔    
بعض سطور اور حوالہ جات ویکی فقہ اردو کی طرف سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار