امام سجادؑ اہل سنت کے کلام میں

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



شیعوں کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے رہبر، امام اور پیشوا کی شناخت حاصل کریں۔


شناخت امام کا طریقہ کار

[ترمیم]

بطور کلی امام کی شناخت کیلئے ہمیں اہل تشیع اور اہل سنت کی احادیث کا جائزہ لینا ہو گا۔
اس تحریر میں سعی کی گئی ہے کہ امام زین العابدین کی ممتاز شخصیت کے حوالے اہل سنت کا نقطہ نظر آپ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔

اہل سنت روایات کا اجمالی جائزہ

[ترمیم]

ذہبی حضرتؑ کے آبا و اجداد کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: علی بن حسین بن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
آپ کی کنیت ابو الحسن، ابو الحسین، ابو محمد اور ابو عبد اللہ ہے۔
[۳] موسوعة رجال الکتب التسعة، ج۳، ص۶۴۔
[۵] الکنی و الاسماء، دولابی، ج۱، ص۱۴۷۔
[۷] المقتنی فی سرد الکنی، شمس الدین ذهبی، ج۱، ص۱۹۹۔
آپ کے القاب؛ زین العابدین، سجاد، ہاشمی، علوی، مدنی، قرشی اور علی اکبر ہیں۔
[۱۵] موسوعة رجال الکتب التسعة، ج۳، ص۶۴۔
تاہم بعض نے علی اکبر کی بجائے آپؑ کو علی اصغر کے لقب سے یاد کیا ہے۔
آپؑ کو ابن الخیرتین بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ پیغمبر سے منقول ہے کہ: خدائے متعال نے اپنے بندوں میں سے دو گروہوں کا انتخاب کیا ہے؛ عرب میں سے قریش کا اور عجم میں سے فارس کا۔ (قال رسول الله: «لله تعالی من عباده خیرتان فخیرته من العرب قریش و من العجم فارس.»)
[۱۸] اکمال تهذیب الکمال مغلطای، ج۹، ص۳۰۴۔
امام سجادؑ کے والد بزرگوار قریش سے جبکہ آپؑ کی والدہ ایران سے ہیں۔ لہٰذا آپؑ کو ’’ابن الخیرتین‘‘ کہا جاتا ہے۔ ذوالثفنات ایک اور لقب ہے جس سے حضرتؑ کو ملقب کیا گیا ہے؛ چونکہ عبادت اور نماز کی کثرت کی وجہ سے آپ کے اعضائے سجدہ کی جلد اونٹ کے گھٹنے کی مانند سخت اور کھردری ہو چکی تھی۔
[۱۹] وفیات الاعیان، ج۳، ص۲۷۴۔
[۲۱] مروج الذهب، مسعودی، ج۳، ص۱۶۰۔

آپ کے والد بزرگوار حسین بن علیؑ ہیں اور والدہ یزدگرد سوم کی بیٹی ہیں۔ آپ کی والدہ کے نام میں اختلاف ہے۔ بعض نے ان کیلئے سلافہ، سلامہ، غزالہ اور شاہ زنان جیسے نام ذکر کیے ہیں۔

ولادت و شہادت

[ترمیم]

حضرت کی سنہ ۳۸ھ کو مدینہ میں ولادت ہوئی اور آپ کی شہادت ولید بن عبد الملک کے زمانہ حکومت میں ہوئی اور آپ کا پاکیزہ بدن بقیع کے قبرستان میں آپ کے عموئے گرامی امام حسن مجتبیٰ کے جوار میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کے سال شہادت کے بارے میں اختلاف ہے۔ جس سال امام کی رحلت ہوئی اس سال کو سنۃ الفقھاء کہا جاتا ہے؛ چونکہ اس سال بہت سے فقہائے مدینہ کی رحلت ہوئی تھی۔
[۳۳] تاریخ الامم و الملوک، ابن جریر طبری، ج۴، ص۲۵۔
[۳۵] الجامع فی العلل و معرفة الرجال، عبدالله بن احمد بن حنبل، ج۲، ص۲۷۲۔
[۳۷] اکمال تهذیب الکمال، ج۹، ص۲۹۶۔


رجال حدیث میں طبقہ

[ترمیم]

رجال حدیث کے اعتبار سے آپ طبقہ تابعین میں سے ہیں؛ تابعی انہیں کہا جاتا ہے جنہوں نے پیغمبرؐ کو نہیں دیکھا لیکن اصحاب پیغمبر کو دیکھا ہے اور آپ تابعین کے طبقہ دوم
[۳۹] الطبقات، خلیفة بن خیاط، ص۴۱۷۔
[۴۳] النجوم الزاهرة، ج۱، ص۲۹۳۔
[۴۴] طبقات الحفاظ، ص۳۷۔
[۴۵] الطبقات الکبری، ج۵، ص۲۱۱۔
جبکہ بعض کے نزدیک طبقہ سوم سے ہیں۔
[۴۶] موسوعة رجال الکتب التسعة، ج۳، ص۶۴۔


امام سجادؑ کا علمی و حدیثی مقام

[ترمیم]

آپؑ کا علمی و حدیثی مقام کچھ اس طرح ہے کہ اہل سنت کی صحاح ستہ (صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع الصحیح ترمذی، سنن ابو داود، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) اور مسانید نے آپ سے احادیث نقل کی ہیں۔ بخاری نے اپنی کتاب کے ابواب تہجد، نماز جمعہ، حج اور بعض تاریخی مسائل جبکہ مسلم نے اپنی کتاب کی مباحث صوم، حج و فرائض، فتن، ادب اور دیگر تاریخی مسائل کے ضمن میں امام سجادؑ سے احادیث نقل کی ہیں۔
ذہبی لکھتے ہیں: آپؑ نے بہت سے بزرگوں سے حدیث نقل کی ہے: پیغمبر اور امام علی بن ابی طالب سے مرسل صورت میں، حسن بن علی سے، حسین بن علی (اپنے والد گرامی) سے، عبد اللہ بن عباس سے، ام المؤمنین صفیہ سے، ام المومنین عائشہ سے اور ابو رافع سے۔ اسی طرح محمد بن علی ( امام باقرزید بن علی، ابو حمزہ ثمالی، یحیی بن سعید، ابن شہاب زہری، زید بن اسلم اور ابو الزناد نے آپ سے احادیث نقل کی ہیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. سیر اعلام النبلاء، شمس الدین ذهبی، ج۴، ص۳۸۶۔    
۲. سیر اعلام النبلاء، شمس الدین ذهبی، ج۴، ص۳۸۶۔    
۳. موسوعة رجال الکتب التسعة، ج۳، ص۶۴۔
۴. الجرح و التعدیل، ابو حاتم رازی، ج۶، ص۱۷۸۔    
۵. الکنی و الاسماء، دولابی، ج۱، ص۱۴۷۔
۶. طبقات الحفاظ، سیوطی، ص۳۷۔    
۷. المقتنی فی سرد الکنی، شمس الدین ذهبی، ج۱، ص۱۹۹۔
۸. تهذیب الکمال، مزی، ج۲۰، ص۳۸۳۔    
۹. سیر اعلام النبلاء، ج۴، ص۳۸۶۔    
۱۰. العبر، شمس الدین ذهبی، ج۱، ص۸۳۔    
۱۱. تهذیب الکمال، مزی، ج۲۰، ص۳۸۳۔    
۱۲. النجوم الزاهرة، ابن تغری، ج۱، ص۲۲۹۔    
۱۳. وفیات الاعیان، ابن خلکان، ج۳، ۲۶۶۔    
۱۴. تهذیب التهذیب، ابن حجر عسقلانی، ج۷، ص۳۰۴۔    
۱۵. موسوعة رجال الکتب التسعة، ج۳، ص۶۴۔
۱۶. الطبقات الکبری، ابن سعد، ج۵، ص۲۱۱۔    
۱۷. وفیات الاعیان، ج۳، ص۲۶۷۔    
۱۸. اکمال تهذیب الکمال مغلطای، ج۹، ص۳۰۴۔
۱۹. وفیات الاعیان، ج۳، ص۲۷۴۔
۲۰. صبح الاعشی، قلقشندی، ج۱، ص۵۱۶۔    
۲۱. مروج الذهب، مسعودی، ج۳، ص۱۶۰۔
۲۲. ثمارالقلوب، ابومنصور ثعالبی، ص۲۹۱۔    
۲۳. شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید، ج۱۰، ص۷۹۔    
۲۴. سیر اعلام النبلاء، ذهبی، ج۴، ص۳۸۶۔    
۲۵. وفیات الاعیان، ج۳، ص۲۶۶۔    
۲۶. النجوم الزاهرة، ج۱، ص۲۲۹۔    
۲۷. تهذیب الکمال، ج۲۰، ص۳۸۳۔    
۲۸. سیر اعلام النبلاء، ج۴، ص۴۰۰۔    
۲۹. سیر اعلام النبلاء، ج۴، ص۳۹۹۔    
۳۰. تهذیب الکمال، ج۲۰، ص۴۰۳۔    
۳۱. طبقات الحفاظ، سیوطی، ص۳۷۔    
۳۲. وفیات الاعیان، ج۳، ص۲۶۹۔    
۳۳. تاریخ الامم و الملوک، ابن جریر طبری، ج۴، ص۲۵۔
۳۴. البدایة و النهایة، ج۹، ص۳۵۲۔    
۳۵. الجامع فی العلل و معرفة الرجال، عبدالله بن احمد بن حنبل، ج۲، ص۲۷۲۔
۳۶. تهذیب الکمال، ج۲۰، ص۴۰۴۔    
۳۷. اکمال تهذیب الکمال، ج۹، ص۲۹۶۔
۳۸. ذکر اسماء التابعین، دارالقطنی، ج۱، ص۲۴۸۔    
۳۹. الطبقات، خلیفة بن خیاط، ص۴۱۷۔
۴۰. المعین فی طبقات المحدثین، شمس الدین ذهبی، ص۴۱۔    
۴۱. سیر اعلام النبلاء، ج۴، ص۳۹۰۔    
۴۲. تاریخ الاسلام، ج۶، ص۴۳۱۔    
۴۳. النجوم الزاهرة، ج۱، ص۲۹۳۔
۴۴. طبقات الحفاظ، ص۳۷۔
۴۵. الطبقات الکبری، ج۵، ص۲۱۱۔
۴۶. موسوعة رجال الکتب التسعة، ج۳، ص۶۴۔
۴۷. رجال صحیح بخاری، ابونصر بخاری کلاباذی، ج۲، ص۵۲۷۔    
۴۸. رجال صحیح مسلم، ابن منجویه اصفهانی، ج۲، ص۵۳۔    
۴۹. سیر اعلام النبلاء، ج۴، ص۳۸۶۔    
۵۰. تهذیب الکمال، ج۲۰، ۳۸۳۔    


ماخذ

[ترمیم]

دانشنامہ کلام و عقاید، ماخوذ از مقالہ امام سجّاد از دیدگاہ اہل سنّت۔    






جعبه ابزار