جابر بن حارث سلمانی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
جناده
کوفہ کے معروف
شیعہ اور
امیر المومنینؑ کے مخلص شیعہ تھے۔ آپ
شہدائے کربلا میں سے ہیں۔
[ترمیم]
مختلف مصادر میں ان کے نام جُناده،
جابر،
جبّار،
جیاد،
حباب،
حَیَّان،
حَسَّان،
حیاة
اور عبادة
ذکر کیے گئے ہیں۔
ان کے والد کا نام بھی بعض نے
حارث اور بعض نے حرث
لکھا ہے۔
اسی طرح ان کے قبیلے کی نسبت کو سلمانی
اور سلمانی ازدی
ذکر کیا ہے۔
جناده
کوفہ کے معروف
شیعہ اور
امام علیؑ کے مخلص شیعہ تھے۔
[ترمیم]
مسلم بن عقیل کے کوفہ میں
قیام کے وقت ان کے ہمراہ ہوئے؛ مگر قیام کی ناکامی کے بعد کوفہ سے خارج ہوئے
اور
عمرو بن خالد صیداوی ،
سعد -غلام عمرو بن خالد صیداوی- نیز
مجمع بن عبد الله عائذی اور ان کے بیٹے، غلام
نافع بجلی کے ہمراہ
طرماح بن عدی طایی کی رہنمائی میں خفیہ راستوں سے گزرتے ہوئے
منزل عذیب الهجانات پر امامؑ کی خدمت میں پہنچے۔ جب امامؑ کی خدمت میں پہنچے تو
حر نے ان کی طرف اشارہ کیا اور امام حسینؑ سے کہا: یہ چند افراد کوفہ کے ہیں؛ یا میں انہیں گرفتار کروں گا یا کوفہ واپس بھیج دوں گا۔
امامؑ نے حر کی طرف رخ کیا اور فرمایا: میں تمہیں ایسے کام کی اجازت نہیں دوں گا اور جس طرح خود کو تیری گزند سے بچاؤں گا، اسی طرح ان کی بھی حفاظت کروں گا؛ کیونکہ یہ ان اصحاب کی مانند ہیں جو
مدینہ سے میرے ساتھ آئے ہیں، یہ میرے ساتھی شمار ہوتے ہیں، پس اگر میرے ساتھ باندھے ہوئے
پیمان پر باقی ہو تو انہیں چھوڑو ورنہ تمہارے ساتھ جنگ کروں گا۔ حر نے بھی مجبور ہو کر ان کی گرفتاری سے چشم پوشی کر لی۔
بعض متاخر مصادر نے نقل کیا ہے کہ جابر
رسول خداؐ اور امام علیؑ کے اصحاب میں سے تھے اور
جنگ صفین میں بھی شریک تھے۔ اسی طرح انہیں ان افراد میں سے قرار دیا گیا ہے جنہوں نے مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر
کوفہ میں بیعت کی اور مسلم بن عقیل کی گرفتاری اور
شہادت کے بعد خفیہ طور پر کوفہ سے نکل گئے اور راستے میں امام حسینؑ کے کاروان کے ساتھ ملحق ہوئے ۔
[ترمیم]
بعض مصادر میں مروی ہے کہ
یوم عاشور جنادۃ (جابر) بن حارث سلمانی عمرو بن خالد صیداوی ، سعد -غلام عمرو- اور مجمع بن عبد الله عائذی کے ہمراہ میدان جنگ میں گئے اور سخت جنگ کی، دشمنوں نے ان کا
محاصرہ کر لیا، پس انہوں نے امامؑ کو مدد کیلئے پکارا۔ امامؑ نے
حضرت ابو الفضل کو ان کی مدد کیلئے بھیجا اور عباس دلاور کے میدان میں پہنچتے ہی محاصرہ ٹوٹ گیا اور وہ نجات پا گئے۔
تاہم یہ مجاہد زخمی ہونے کے باوجود امامؑ کی طرف واپس جانے کی طرف مائل نہیں تھے، اس لیے دوبارہ دشمن کے لشکر کے ساتھ
جہاد کرنے لگے اور یہ سب ایک مقام پر شہید ہوئے؛ کیونکہ دشمن نے دوبارہ ان پر حملہ کیا اور انہوں نے بھی جنگ کی اور سب نے جام شہادت نوش کیا۔
حضرت عباسؑ واپس امامؑ کی خدمت میں پہنچے اور امام کو ان کی شہادت سے مطلع کیا۔ جب امامؑ ان کی شہادت سے باخبر ہوئے تو بارہا
خدا سے ان کیلئے طلب
مغفرت فرمائی۔
تاہم بعض مصادر میں منقول ہے کہ انہوں نے امام حسینؑ سے میدان جانے کی اجازت لی اور میدان چلے گئے اور اٹھارہ افراد کو ہلاک کرنے کے بعد دشمن کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔
ناحیه مقدسہ اور اسی طرح
زیارت رجبیہ، میں اس
شہید پر
درود بھیجا گیا ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا، ص۱۱۴-۱۱۷۔ سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ «یاران امام حسین (علیهالسلام)»، تاریخ بازیابی ۱۳۹۵/۴/۵۔