بیع معاطات
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
علم فقہ میں
بیع کو بیعِ قولی اور بیع فعلی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ معاطات کا شمار بیعِ فعلی میں ہوتا ہے جس میں لین دین اور تبادلہ بغیر صیغہ کی ادائیگی کے کیا جاتا ہے۔
[ترمیم]
معاطات سے مراد عقدِ خاص کے بغیر تبادلہ اور لین دین کرنا ہے۔
شیخ انصاری نے اپنی
کتاب المکاسب میں اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
المعاطاة: ۔۔۔ أن یُعۡطِی کُلٌّ مِنَ اثۡنَیۡنِ عِوَضًا عَمَّا یَأۡخُذُهُ مِنَ الۡآخَر؛ معاطات سے مراد یہ ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو عطاء کریں اور اس کے بدلے میں ایک دوسرے سے عوض کو حاصل کرے۔
مثلاً دکاندار ایک کلو چینی مشتری کو دیتا ہے اور مشتری اس کے عوض میں ۱۰۰ روپے دیتا ہے اور دونوں اس لین دین میں کسی
صیغہ کو ادا نہیں کرتے، بلکہ ایک چینی عطاء کرنے والا ہے اور اس کے
عوض میں چینی دینے والا دوسرے سے ۱۰۰ روپے وصول کرتا ہے۔ پس ہر دو عطاء کر رہے ہیں اور ہر دو عوض میں کچھ دے رہے ہیں۔ اس کو معاطات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کلی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ صیغہِ مخصوص کے بغیر انجام پانے والا وہ معاملہ جو باہمی رضا مندی سے انجام پائے معاطات کہلاتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں اکثر و بیشتر یہی نوعِ بیع و خرید و فروخت رائج ہے۔
[ترمیم]
معاطات کی دو صورتیں بنتی ہیں:
پہلی صورت: لین دین کرنے والے دونوں افراد میں سے ہر ایک دوسرے کو اباحہِ
تصرّف کی اجازت دیتا ہے۔ یعنی
بائع جب مشتری کو اپنے مال میں تصرف کی اجازت دیتا ہے اور مشتری بائع کو اپنے مال میں تصرف کو مباح قرار دیتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ میں مال کو بطورِ ملکیت نہیں دیتے بلکہ بطورِ اباحہ تصرف دیتے ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے:
مُتَابَیِعَیۡن کے لین دین سے مقصود اباحہِ تصرف ہوتا ہے۔
دوسری صورت: ہر دو کا آپس میں لین دین سے مقصود تملیک ہے۔ بائع اپنے
مال کا مالک مشتری اور مشتری اس کے عوض میں اپنے قیمت کا مالک بائع کو قرار دیتا ہے اور اس طرح ایک دوسرے کو عطاء کرنے سے مقصود ایک دوسرے کی ملکیت میں اپنے مال کو قرار دینا ہے۔
[ترمیم]
معاطات کے بارے میں
فقہاء کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس بارے میں مختلف نظریات و اقوال پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض اقوال کی طرف درج ذیل نکات کی صورت میں اشارہ کیا جاتا ہے:
فقہاء امامیہ کے درمیان بیعِ معاطات میں اختلاف وارد ہوا ہے۔ اس موضوع میں درج ذیل چھ اقوال اہمیت کے حامل ہیں:
۱۔ معاطات مطلق طور پر
بیعِ لازم ہے، چاہے لفظ
ایجاب و قبول پر مشتمل ہو جیسے دکاندار کہتا ہے: یہ مال اٹھا لو، یا اصلا کوئی لفظ نہیں بولا جاتا بلکہ عملی طور پر معاملہ انجام پاتا ہے۔ یہ قول
شیخ مفید کی طرف منسوب ہے۔
۲۔ معاطات کی صورت میں کی جانے والی بیع اس وقت بیعِ لازم ہو گی جب وہ باہمی رضا مندی اور تراضی پر
دلالت کرے، یا معاملہِ بیع
لفظ کے ساتھ انجام پائے۔ اس قول کی نسبت
شہید ثانی کے بعض ہم عصر فقہاء اور بعض متأخر فقہاء کی طرف ہے۔
۳۔ معاطات کی صورت میں بیع ملکیت پر دلالت کرتی ہے لیکن یہ ملکیتِ غیر لازم ہے۔ یعنی بیعِ معاطاۃ
ملکیتِ متزلزل ہے۔ اس قول کی نسبت
محقق کرکی کی طرف ہے۔
۴۔ بیع معاطات ملکیت پر دلالت نہیں کرتی اور نہ ہی بیع معاطات میں تملیک ہوتی ہے بلکہ بیع معاطات مفیدِ اباحہ ہے اور تمام ان تصرفات کے
مباح ہونے پر دلالت کرتی ہے جو ملکیت پر موقوف ہیں، جیسے
عتق،
وقف اور
بیع وغیرہ۔
۵۔ بیع معاطات ملکیت کا فائدہ نہیں دیتی، لیکن ایسے تصرف کے مباح ہونے کا فائدہ دیتی ہے جو
ملکیت پر موقوف نہ ہو۔
۶۔ بیع معاطات نہ ملکیت کا فائدہ دیتی ہے اور نہ ہی اباحہِ تصرف کا فائدہ دیتی ہے۔ فرق نہیں پڑتا کہ اموال میں تصرّف کرنا ملکیت پر موقوف ہے یا نہیں۔
علماءِ امامیہ میں جس قول کو معروف قرار دیا گیا ہے وہ اباحہِ تصرف کا قول ہے کہ بیع معاطات اموال میں تصرف کے مباح ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
اہل سنت کے مکتبِ فقہی میں آئمہِ فقہاء کے مختلف نظریات رہے ہیں جن میں سے اہم اقوال درج ذیل ہیں:
۱۔
مالک،
احمد بن حنبل اور
ابو حنیفہ ایک حدیث کی وجہ سے معتقد ہیں کہ بیعِ معاطاۃ مطلقًا صحیح اور قابل انعقاد ہے۔
۲۔
شافعی معتقد ہیں کہ صحتِ بیع کی ایک شرط ایجاب و قبول ہے اور ایجاب و قبول کے بغیر بیع نہیں ہوتی اس لیے معاطات کی صورت میں بیع کافی نہیں ہے۔
۳۔ بعض فقہاء قائل ہیں کہ
حقیر اور پست
اشیاء میں معاطات کی صورت میں بیع صحیح ہے اور نافذ ہے۔ البتہ بڑے امور میں اور قیمتی و اہمیت کی حامل اشیاء میں معاطاۃ کی صورت میں بیع درست نہیں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
جابری عربلو، محسن، فرہنگ اصطلاحات فقہ فارسی، ص۱۶۵-۱۶۶۔