مولد النبیؐ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



مولد النبیؐ شعب ابی طالب میں واقع ایک گھر کا نام ہے۔


مولد النبیؐ کی وجہ تسمیہ

[ترمیم]

جس گھر میں رسول خداؐ کی ولادت ہوئی، وہ شعب ابی طالب میں واقع ہے، اس گھر کو مولد النبیؐ کہا جاتا ہے۔

مولد النبیؐ کے مقام پر مسجد کی تعمیر

[ترمیم]

دوسری صدی ہجری میں ہارون کی بیوی خیزران نے اس جگہ کو خرید کر اسے مسجد میں بدل دیا۔ اگلی صدیوں میں مسلمین اس مقام کو بہت عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بالخصوص رسول خداؐ کی شب ولادت میں وہاں پر محفلیں منعقد کرتے تھے۔

عثمانی سلاطین کی جانب سے مولد النبیؐ کی تعمیر نو

[ترمیم]

عثمانی سلاطین اس مقام کی طرف خاص توجہ رکھتے تھے چنانچہ سلیم بن سلطان سلیمان نے سنہ ۹۳۵ ہجری میں مولد النبیؐ کی تعمیر نو کا حکم دیا۔ اس سے پہلے یمن کے حاکم ملک مظفر غسانی اور اس سے پہلے فرج بن برقوق اور اس سے پہلے مصر کے حاکم اشرف شعبان اور اس سے قبل پہلی مرتبہ الناصر عباسی نے اس مقام پر عمارتیں تعمیر کیں۔
[۱] منائح الکرم ج۳، ص۲۶۴ و ۲۶۵۔

اسی طرح سلطان محمد بن مراد عثمانی متوفی ۱۰۱۲، نے غضنفر آغا نامی اپنے ایک غلام کو حکم دے کر اس مقام کی تعمیر نو کروائی۔ انہوں نے بھاری رقم خرچ کر کے یہاں پر ایک بڑی عمارت اور مینار تعمیر کیے اور عثمانی مملکت میں اس کے نام پر جائیدادیں وقف کیں اور اس مقام کیلئے باقاعدہ طور پر مؤذن اور امام جماعت مقرر کیے۔ ایک معلم کی خدمات بھی حاصل کی گئیں تاکہ وہ ہفتے میں دو دن اسی جگہ پر تدریس کرے۔
[۲] منائح الکرم ج۳، ص۵۰۶۔


ایک زائر کی زبانی مولد النبیؐ کی توصیف

[ترمیم]

ایک زائر کہ جس نے سنہ ۱۳۱۵ھ میں اس گھر کی زیارت کا شرف حاصل کیا؛ لکھتے ہیں:
روز جمعہ، چودہ کو حضرت رسولؐ کی زیارت کیلئے مولد النبیؐ پہنچے۔ یہ مقام سوق اللیل میں واقع ہے۔ دروازے سے داخل ہوئے اور تقریبا چودہ سیڑھیاں نیچے اتر گئے۔ ایک کمرے میں داخل ہوئے کہ جس کا نام مسجد ہے۔ اس کے بعد ایک اور کمرے میں گئے۔
اس کمرے میں ایک ضریح ہے۔ خادم نے ضریح کا دروازہ کھولا۔ اس ضریح کے اندر ایک نشیبی جگہ ہے۔ اس کے وسط میں سبز پتھر تھا جو حضرت ختمی مرتبتؐ کا مقامِ ولادت ہے۔ میں نے اس پاکیزہ مقام کو بوسہ دیا اور اپنے چہرے کو اس سے مس کیا اور اس اعلیٰ و ارفع مقام کے متبرک گرد و غبار کہ جو رشکِ لعل و جواہر ہے؛ سے آنکھوں کو منور کیا۔ اس کے بعد مسجد میں آ کر دو رکعت نماز ادا کی اور باہر نکل آیا۔
[۳] سفرنامہ ملابراهیم کازرونی، میراث اسلامی ایران، دفتر پنجم، ص۳۶۶۔ انہوں نے آگے چل کر زیارت خانہ خدیجہؑ سے متعلق بھی بات کی ہے۔


مولد النبیؐ کے مقام پر کتب خانہ کی تاسیس

[ترمیم]

آل سعود کی حکومت قائم ہونے کے بعد مکہ کے اس وقت (۱۳۴۷ھ تا ۱۳۶۴ھ) کے مئیر شیخ عباس قطان متوفی ۱۳۷۰ کی جانب سے ملک عبد العزیز کو ایک درخواست دی گئی کہ جس کی رو سے یہ طے پایا کہ اس مقام پر ایک کتاب خانہ تعمیر کیا جائے جسے مکتبہ مکہ مکرمہ کا نام دیا گیا اور یہ کتاب خانہ ابھی تک قائم ہے۔
[۴] فی رحاب بیت الله الحرام، ص۲۶۳۔
[۵] التاریخ القویم، ص۱۷۳ ـ ۱۷۱۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. منائح الکرم ج۳، ص۲۶۴ و ۲۶۵۔
۲. منائح الکرم ج۳، ص۵۰۶۔
۳. سفرنامہ ملابراهیم کازرونی، میراث اسلامی ایران، دفتر پنجم، ص۳۶۶۔ انہوں نے آگے چل کر زیارت خانہ خدیجہؑ سے متعلق بھی بات کی ہے۔
۴. فی رحاب بیت الله الحرام، ص۲۶۳۔
۵. التاریخ القویم، ص۱۷۳ ـ ۱۷۱۔


ماخذ

[ترمیم]

آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص۱۵۴و۱۵۵، رسول جعفریان۔    



جعبه ابزار