امام علی کا وصی نہ بنانے کا شبہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اہل سنت کتب میں امیر المؤمنین ؑ کی نسبت سے ایک روایت وارد ہوئی ہے جبکہ اہل سنت کا نظریہ ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے: ما اوصی رسول الله؛ اس تحریر میں ہم جائزہ لیں گے کہ امیر المؤمنین ؑ کا قول صحیح ہے یا نہیں ؟


اصل روایت

[ترمیم]

عن أمير المؤمنين عليه السلام- لما قيل له: ألا توصي؟ فقال: ما أوصى رسول الله صلى الله عليه و آله فأوصي، و لكن ان أراد الله بالناس خيرا استجمعهم على خيرهم كما جمعهم بعد نبيهم على خيرهم‌؛ امیر المؤمنین ؑ سے نقل کیا گیا ہے کہ ان سے کہا گیا: کیا آپؑ وصی مقرر نہیں کریں گے؟ آپؑ نے فرمایا: جو وصیت رسول اللہ ؐ نے کی تھی بھی وہی وصیت کرتا ہوں،انہوں نے فرمایا تھا: اللہ جب کسی خیر کا ارادہ کرتا ہے تو وہ انہیں اپنے نبی کے بعد ان کے لیے جو بہتر و خیر ہے پر جمع کر دیتا ہے۔
[۱] طوسی، محمد بن حسن، تلخیص الشافی، ج۲، ص۳۳۷۔


روایت پر اعتراضات

[ترمیم]

اس روایت پر بنیاد تین اعتراضات سامنے آتے ہیں:

← نقل کرنے والے نے اصل کتا ب نہیں دیکھی


اس روایت کو کتبِ شیعہ سے نقل کرنے والے عمومًا کتاب الشافی سے نقل کرتے ہیں جوکہ سید مرتضی علم الہدی کی کتاب ہے۔ لیکن یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس حدیث کو نقل کرنے والے نے کبھی اصل کتاب نہیں دیکھی۔ کیونکہ سید مرتضی علم الہدی نے اس کتاب میں کثرت سے قاضی عبد الجبار کا قول نقل کیا ہے اور اس کے بعد ایک ایک کر تمام شبہات و اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ یہ روایت بھی قاضی عبد الجبار کے کلام میں نقل کی گئی ہے اور قاضی کی دلیل کو ذکر کرتے ہوئے سید مرتضی نے اس کو الشافی میں تحریر کیا ہے۔ قاضی عبد الجبار کی تمام گفتگو کو نقل کرنے کے بعد سید مرتضی نے ان شبہات کے جوابات دیئے ہیں۔

← روایت کی سند نہیں ہے


یہ روایت ضعیف ہے اور اس کی معتبر سند کسی کتاب میں موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ قابل قبول نہیں ہے۔

← امام علی نے امام حسن کو اپنا جانشین بنایا


امام علی ؑ نے وصیت کی تھی کہ ان کا جانشین امام حسن ؑ ہوں گے اور خود امام علی ؑ نے یہ انتخاب فرمایا جوکہ تاریخ کے قطعی حقائق میں سے ہے اور تمام اہل سنت بھی اس کے معترف ہیں۔

←← ابن کثیر کی رائے


ابن‌کثیر دمشقی سلفی نے تحریر کیا ہے:
ثمّ بعدهم الحسن بن علی لانّ علیّاً اوصی الیه و بایعه اهل العراق؛ پھر ان کے بعد حسن بن علی آئے کیونکہ علیؑ نے اس کی وصیت کی تھی اور اہل عراق نے اس وجہ سے امام حسن کی بیعت کی۔

←← ابو الفرج اصفہانی


ابو الفرج اصفہانی نے ابو الاسود سے ایک روایت نقل کی ہے: و قد اوصی بالامامة بعده الی ابن رسول الله و ابنه و سلیله و شبیهه فی خلقه و هدیه؛ اور امام علی نے اپنے بعد امامت کی وصیت فرزندِ رسول ، اپنے بیٹے اور خلقت میں اپنے سے شبیہ یعنی امام حسن کے بارے میں کی۔
پس معلوم ہوا کہ امام علی ؑ نے اس فرزند کے لیے وصیت کی جو رسول اللہ ؐ کی ذریت سے ان کی کے فرزند اور اخلاق و رفتار میں آنحضرتؐ کی مانند تھے۔

←← عبد ربہ کی نظر ‌


ابن عبد ربہ اندلسی نے لکھا ہے: قال هیثم بن عدی ادرکت من المشایخ انّ علی ّ بن ابیطالب اصار الامر الی الحسن؛ ہیثم بن عدی کہتا ہے کہ میں بہت سی قد آور شخصیات و مشایخ سے سنا ہے کہ علی بن ابی طالب ؑ نے امرِ حکومت و ولایت امام حسن ؑ کے سپرد کر دیا ۔

←← اعثم کوفی کی نظر


ابن اعثم کوفی نے روایت نقل کی ہے کہ امام حسن نے معاویہ کو خط میں اس طرح تحریر کیا : فان ّ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب لمّا نزل الموت ولّانی هذا الامر من بعده؛ پس امیر المؤمنین علی بن ابی طالب جب شہید ہو گئے اور میرے تو اپنے بعد یہ امرِ حکومت میرے سپرد کر گئے۔ .

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. طوسی، محمد بن حسن، تلخیص الشافی، ج۲، ص۳۳۷۔
۲. علم‌الہدی المرتضی، علی بن حسین، الشافی، ج۳، ص۹۱۔    
۳. ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، ج۹، ص۲۸۶۔    
۴. ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، الأغانی، ج۱۲، ص۳۸۰۔    
۵. ابن‌اعثم، احمد بن محمد، الفتوح، ج۴، ص۲۸۵۔    


مأخذ

[ترمیم]

مؤسسہ ولی‌عصر، برگرفتہ از مقالہ آیا روایت:ما اوصی رسول الله (صلی‌الله‌علیہ‌و‌آلہ) از قول امیر المؤمنین (علیہ السّلام) صحت دارد؟۔    






جعبه ابزار