اسلم بن عمرو

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اسلم امام حسینؑ کا غلام تھا اور مدینے سے کربلا تک حضرتؑ کا ہم رکاب رہا اور کربلا میں درجہ شہادت پر فائز ہوا۔


اسلم کے نام پر تحقیق

[ترمیم]

بعض نے اس کا نام واضح
[۴] حمید بن احمد، الحدائق الوردیة، ص۱۰۴۔
[۶] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۲۰۰۔
[۸] محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء، ج۲، ص۱۳۴۔
اور بعض نے اسلم بن عمرو
[۱۲] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۴۲۸۔
ذکر کیا ہے۔

اسلم کا مالک

[ترمیم]

بعض نے اسے امام حسینؑ کا غلام قرار دیا ہے۔
[۱۸] بحرانی، عبد الله، عوالم العلوم، ج۱۷، ص۲۷۳۔
متاخرین کے بعض مصادر میں منقول ہے کہ امام حسنؑ کی شہادت کے بعد امام حسینؑ نے اس غلام کو خرید کیا اور اپنے فرزند امام سجادؑ کو بخش دیا۔ بعض نے ‌جنادة بن حارث سلمانی
[۲۳] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۲۰۰۔
[۲۵] محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء، ج۲، ص۱۳۴-۱۳۵۔
اور ابن شہر آشوب نے انہیں حُرّ
[۲۷] قمی، عباس، نفس المهموم، ص۲۶۶ (پاورقى)۔
کا غلام قرار دیا ہے۔

کربلا می موجودگی

[ترمیم]

منقول ہے کہ وہ قرآن کے قاری ، عربی زبان سے آگاہ اور بعض مواقع پر امام حسینؑ کے کاتب تھے۔ امام حسینؑ کی مدینہ سے مکہ اور وہاں سے کربلا کی طرف ہجرت کے وقت حضرتؑ کے ہمراہ تھے۔ عاشور کے دن امامؑ سے روانہ میدان ہونے کا اذن لیا اور اشعار کی صورت میں جہاد کا اعلان کر دیا۔
[۳۱] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۱۰۰_۲۰۰۔


← اسلم کا رجز


سماوی نے ذیل کے رجز کو اس غلام سے منسوب کیا ہے:
أَمیری حُسَیْن وَنِعْمَ الْامیر • سُرورُ فُؤادَ البَشیرِ النَّذیر
میرا امیر حسینؑ ہے اور کتنا اچھا امیر ہے! بے شک وہ پیغمبرؐ کے دل کی شادمانی کا باعث ہے۔
تاہم بعض منابع نے مذکورہ رجز اس جوان کا قرار دیا ہے کہ جس کے والد روز عاشور شہید ہو گئے تھے اور اپنی ماں کی تشویق کے باعث وہ میدان جنگ میں اترے۔
کچھ مصادر نے ذیل کا رجز اس بچے کیلئے ذکر کیا ہے:
الْبَحرُ مِنْ طَعنی وَضَربی یَصْطَلی • وَالْجوُّ مِنْ سَهمی وَنَبلی یَمْتلی‌
اذا حِسامی فِی یَمینی یَنْجَلی • یَنشَقُّ قَلْبُ الْحاسِدِ المُبَجَّلِ
دریا میرے نیزے اور شمشیر کی ضربت سے جوش کھا رہا ہے؛ آسمان میرے تیر سے پر ہو رہا ہے؛ جب شمشیر میرے ہاتھ میں ظاہر ہو گی تو حاسد اور متکبر کا دل چیرا جائے گا۔

← اسلم کی شہادت


یہ غلام بہادری کے ساتھ لڑنے اور قوم اشقیا کے بہت سے افراد کو قتل کرنے کے بعد بہت سارے زخموں کی وجہ سے آخر زمین پر گر پڑا اور اپنے بدن کی بچی کھچی رمق کے ساتھ اس نے امام حسینؑ کی طرف اشارہ کیا۔ حضرتؑ اس کے سرہانے پہنچے اور اس کی گردن میں بانہیں ڈال دیں اور اس کے چہرے پر چہرہ رکھ دیا۔ غلام نے آنکھ کھولی اور امام حسینؑ کو دیکھ کر تبسم کیا اور کہا:
کون ہے میری مثل سعادت مند کہ فرزند رسولؐ نے اپنا چہرہ میرے چہرے پر رکھ دیا ہے اور اتنے میں اس کی روح پرواز کر گئی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مامقانی، عبد الله، تنقیح المقال فی علم الرجال، تحقیق محیی الدین المامقانی و محمد رضا المامقانی، ج۹، ص۳۲۶، قم، آل البیت (علیه‌السّلام)، لاحیاء التراث، چاپ اول، ۱۴۳۰۔    
۲. سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین (علیه‌السّلام)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، ص۹۵، مرکز الدرسات الاسلامیه لممثلی الولی الفقیه فی حرس الثورة الاسلامیه، چاپ اول۔    
۳. حسینی جلالی، محمدرضا، تسَمیة مَنْ قتل مع الحسین علیه‌السلام، ج۱، ص۲۸۔    
۴. حمید بن احمد، الحدائق الوردیة، ص۱۰۴۔
۵. امین، محسن، اعیان الشیعة، ج۱، ص۶۱۲۔    
۶. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۲۰۰۔
۷. سماوی، محمد بن ابراهیم، إبصار العین فی أنصار الحسین علیه‌السلام، ص۱۴۴- ۱۴۵۔    
۸. محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء، ج۲، ص۱۳۴۔
۹. مامقانی، عبد الله، تنقیح المقال، ج۹، ص۳۲۶۔    
۱۰. سماوی، محمد بن طاهر، إبصار العین فی أنصار الحسین علیه‌السلام، ص۹۵-۹۶۔    
۱۱. جمعی از نویسندگان، ذخیرة الدارین، ج۱، ص۴۷۰۔    
۱۲. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۴۲۸۔
۱۳. شمس الدین، محمدمهدی، انصار الحسین علیه‌السلام، ص۷۳-۷۴۔    
۱۴. امین، محسن، اعیان الشیعة، ج۳، ص۳۰۳-۳۰۴۔    
۱۵. محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء، ج۱، ص۵۶۔    
۱۶. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیه‌السلام، ج۲، ص۲۸۔    
۱۷. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۵، ص۳۰۔    
۱۸. بحرانی، عبد الله، عوالم العلوم، ج۱۷، ص۲۷۳۔
۱۹. مامقانی، عبد الله، تنقیح المقال، ج۹، ص۳۲۶۔    
۲۰. جمعی ازنویسندگان، ذخیرة الدارین، ص۴۷۰۔    
۲۱. حسینی جلالی، محمدرضا، تسَمیة مَنْ قتل مع الحسین علیه‌السلام، ص۲۸۔    
۲۲. سماوی، محمد بن طاهر، إبصار العین فی أنصار الحسین علیه‌السلام، ص۱۴۴-۱۴۵۔    
۲۳. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۲۰۰۔
۲۴. امین، محسن، اعیان الشیعة، ج۱، ص۶۰۶۔    
۲۵. محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء، ج۲، ص۱۳۴-۱۳۵۔
۲۶. ابن شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی ‌طالب، ج۳، ص۲۵۳۔    
۲۷. قمی، عباس، نفس المهموم، ص۲۶۶ (پاورقى)۔
۲۸. مامقانی، عبد الله، تنقیح المقال، ج۹، ص۳۲۶۔    
۲۹. سماوی، محمد بن طاهر، إبصار العین فی أنصار الحسین علیه‌السلام، ص۹۵-۹۶۔    
۳۰. جمعی از نویسندگان، ذخیرةالدارین، ص۴۷۰۔    
۳۱. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۱۰۰_۲۰۰۔
۳۲. سماوی، محمد بن طاهر، إبصار العین فی أنصار الحسین علیه‌السلام، ص۹۵-۹۶۔    
۳۳. ابن شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌ طالب، ج۳، ص۲۵۳۔    
۳۴. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیه‌السلام، ج۲، ص۲۵۔    
۳۵. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیه‌السلام، ج۲، ص۲۸۔    
۳۶. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۵، ص۳۰۔    
۳۷. بحرانی، عبد الله، العوالم، ص۲۷۳۔    
۳۸. مامقانی، عبد الله، تنقیح المقال فی علم الرجال، تحقیق محیی الدین المامقانی و محمد رضا المامقانی، ج۹، ص۳۲۷، قم، آل البیت (علیه‌السّلام)، لاحیاء التراث، چاپ اول، ۱۴۳۰۔    
۳۹. سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین (علیه‌السّلام)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، ص۹۶، مرکز الدرسات الاسلامیه لممثلی الولی الفقیه فی حرس الثورة الاسلامیه، چاپ اول۔    


ماخذ

[ترمیم]

جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا، ص۹۵-۹۶۔    
سایت پژوهه، ماخوذ از مقالہ «یاران امام حسین (علیه‌السلام)»، تاریخ بازیابی ۱۳۹۵/۳/۳۱۔    






جعبه ابزار