اسلم بن عمرو
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
اسلم
امام حسینؑ کا غلام تھا اور مدینے سے کربلا تک حضرتؑ کا ہم رکاب رہا
اور
کربلا میں درجہ
شہادت پر فائز ہوا۔
[ترمیم]
بعض نے اس کا نام واضح
اور بعض نے اسلم بن عمرو
ذکر کیا ہے۔
[ترمیم]
بعض نے اسے
امام حسینؑ کا غلام قرار دیا ہے۔
متاخرین کے بعض مصادر میں منقول ہے کہ
امام حسنؑ کی
شہادت کے بعد امام حسینؑ نے اس
غلام کو خرید کیا اور اپنے فرزند
امام سجادؑ کو بخش دیا۔
بعض نے
جنادة بن حارث سلمانی اور
ابن شہر آشوب نے انہیں
حُرّ کا غلام قرار دیا ہے۔
[ترمیم]
منقول ہے کہ وہ
قرآن کے
قاری ،
عربی زبان سے آگاہ اور بعض مواقع پر امام حسینؑ کے کاتب تھے۔ امام حسینؑ کی
مدینہ سے
مکہ اور وہاں سے
کربلا کی طرف ہجرت کے وقت حضرتؑ کے ہمراہ تھے۔
عاشور کے دن امامؑ سے روانہ میدان ہونے کا
اذن لیا اور اشعار کی صورت میں جہاد کا اعلان کر دیا۔
سماوی نے ذیل کے
رجز کو اس غلام سے منسوب کیا ہے:
أَمیری حُسَیْن وَنِعْمَ الْامیر • سُرورُ فُؤادَ البَشیرِ النَّذیر
میرا امیر حسینؑ ہے اور کتنا اچھا امیر ہے! بے شک وہ
پیغمبرؐ کے دل کی شادمانی کا باعث ہے۔
تاہم بعض منابع نے مذکورہ رجز اس جوان کا قرار دیا ہے کہ جس کے والد روز عاشور
شہید ہو گئے تھے اور اپنی ماں کی تشویق کے باعث وہ میدان جنگ میں اترے۔
کچھ مصادر نے ذیل کا رجز اس بچے کیلئے ذکر کیا ہے:
الْبَحرُ مِنْ طَعنی وَضَربی یَصْطَلی • وَالْجوُّ مِنْ سَهمی وَنَبلی یَمْتلی
اذا حِسامی فِی یَمینی یَنْجَلی • یَنشَقُّ قَلْبُ الْحاسِدِ المُبَجَّلِ
دریا میرے نیزے اور شمشیر کی ضربت سے جوش کھا رہا ہے؛
آسمان میرے تیر سے پر ہو رہا ہے؛ جب شمشیر میرے ہاتھ میں ظاہر ہو گی تو حاسد اور متکبر کا دل چیرا جائے گا۔
یہ غلام بہادری کے ساتھ لڑنے اور قوم اشقیا کے بہت سے افراد کو قتل کرنے کے بعد بہت سارے زخموں کی وجہ سے آخر
زمین پر گر پڑا اور اپنے
بدن کی بچی کھچی رمق کے ساتھ اس نے
امام حسینؑ کی طرف اشارہ کیا۔ حضرتؑ اس کے سرہانے پہنچے اور اس کی گردن میں بانہیں ڈال دیں اور اس کے چہرے پر چہرہ رکھ دیا۔ غلام نے آنکھ کھولی اور
امام حسینؑ کو دیکھ کر تبسم کیا اور کہا:
کون ہے میری مثل سعادت مند کہ فرزند رسولؐ نے اپنا چہرہ میرے چہرے پر رکھ دیا ہے اور اتنے میں اس کی روح پرواز کر گئی۔
[ترمیم]
[ترمیم]
جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا، ص۹۵-۹۶۔ سایت پژوهه، ماخوذ از مقالہ «یاران امام حسین (علیهالسلام)»، تاریخ بازیابی ۱۳۹۵/۳/۳۱۔