حضرت امام حسینؑ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
امام حسینؑ اہل تشیع کے تیسرے
امام ہیں۔ آپ کو تمام
اہل سنت بھی اپنا امام، پیشوا اور مقتدا تسلیم کرتے ہیں۔ آپؑ کے بہت سے ایسے فضائل ہیں جو اولین و آخرین میں سے کسی کے نہیں ہیں۔ آپ کے نانا
رسولؐ خدا ہیں، آپ کے پدر بزرگوار مولائے کائنات
علی بن ابی طالبؑ ہیں، آپ کی والدہ خاتون جنت سیدہ نساء العالمین حضرت
فاطمہ زہراؑ ہیں۔ آپؑ کے بھائی
امام حسنؑ مجتبیٰ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں کہ اس فضیلت میں آپؑ بھی اپنے بھائی کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ حضرت امام حسینؑ وہ عظیم ہستی ہیں کہ جنہوں نے دین اسلام کی بقا کی خاطر
میدان کربلا میں عظیم
قربانی دے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے
کلمہ توحید کے
پرچم کو سربلند کر دیا۔
[ترمیم]
حضرتؑ سے مربوط فقہی
احکام باب
صلاۃ اور باب
اطعمہ و اشربہ میں وارد ہوئے ہیں۔
[ترمیم]
حسین بن علیؑ
شیعہ امامیہ کے بارہ آئمہؑ میں سے تیسرے امام اور
چہاردہ معصومینؑ میں سے ایک ہیں۔ تمام معتبر کتب کا اتفاق ہے کہ آپ کا نام اور نسب حسین بن
علی بن
ابی طالب بن
عبد المطلب بن
ہاشم ہے۔ آپؑ کے نانا
رسول اللہؐ ہیں، آپ کے والد امیر المومنین
علیؑ ہیں اور آپؑ کی والدہ ماجدہ
حضرت فاطمہؑ بنت رسولؐ اللہ ہیں۔
[ترمیم]
پیغمبر اکرمؐ نے آپؑ کا نام
ہارونؑ کے دوسرے فرزند کے نام پر
شَبیر یعنی حسین رکھا۔
بعض روایات کے مطابق امام علیؑ یہ چاہتے تھے کہ آپؑ کا نام حرب رکھیں، تاہم آپؑ نے اس میں
پیغمبر اکرمؐ پر سبقت نہیں کی۔
دیگر روایات کی بنا پر پہلے امامؑ اپنے چچا
جعفر طیار جو ان دنوں حبشہ میں تھے؛ کے نام پر اپنے فرزند کا نام رکھ چکے تھے۔ تاہم پیغمبرؐ نے ان کا نام تبدیل کر کے حسینؑ رکھ دیا۔
بہرحال شیعہ روایات کی بنا پر پیغمبرؐ نے سب سے پہلے خدا کے حکم پر آپؑ کیلئے حسینؑ نام تجویز فرمایا۔
(دوسری روایات کے مضمون پر تنقید کیلئے ’’باقر شریف قرشی‘‘ کی کتاب کی طرف رجوع کیجئے)
بعض روایات میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ حسنؑ اور حسینؑ بہشتی نام ہیں اور
اسلام سے قبل یہ نام رائج نہیں تھے۔
[ترمیم]
امام حسینؑ کی کنیت تمام منابع میں ابو عبد اللہ ذکر کی گئی ہے،
تاہم خصیبی
نے خواص کے نزدیک آپؑ کی کنیت ابو علی قرار دی ہے۔
[ترمیم]
امام حسینؑ کی جانب بہت سے القاب کی نسبت دی گئی ہے کہ جن میں سے بعض آپؑ کے بھائی
امام حسنؑ کے القاب کے ساتھ مشترک ہیں۔ امام کے خاص القاب میں سے زکی، طیب، وفیّ، سید، مبارک،
نافع، الدلیل علی ذات اللّه،
رشید اور التابع لمرضات اللّه
قابل ذکر ہیں۔
ابن طلحہ شافعی
نے حضرتؑ کے لقب ’’زکی‘‘ کو دیگر القاب سے مشہور تر قرار دیا ہے۔
آئمہ اہل بیتؑ کی کچھ احادیث میں آپؑ کو
سید الشہدا کے لقب سے دیا کیا گیا ہے۔
چوتھی صدی ہجری سے بعد کے بعض ادبی اور تاریخی متون میں بھی امام حسینؑ کیلئے امیر المومنینؑ کا لقب بھی ذکر کیا گیا ہے
جو اس امر کو دیکھتے ہوئے کہ حضرتؑ ہرگز ظاہری خلافت پر فائز نہیں ہوئے، قابل توجہ ہے۔
[ترمیم]
امام حسینؑ کی جائے ولادت
مدینہ ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
آپ کا سال ولادت تین،
چار،
پانچ
اور چھ ہجری
ذکر کیا گیا ہے۔ آپ کا روز ولادت مشہور قول کی بنا پر تین
شعبان ہے، ،
تاہم بعض نے امامؑ کی ولادت کو
ربیع الاول،
پانج شعبان
یا ماہ شعبان کی ابتدائی راتوں میں سے کوئی ایک
لکھا ہے۔ ایک روایت کے مطابق امامؑ جمعرات کے دن غروب کے وقت پیدا ہوئے۔
امامؑ کی ولادت کے دن، مہینے اور سال کے بارے میں منقول مختلف اقوال کا مطالعہ کرنے کیلئے اس کتاب کی طرف مراجعہ کریں
امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی ولادت کے مابین چھ ماہ دس دن،
دس ماہ بائیس دن،
اور ایک سال دس ماہ
کا فاصلہ ذکر کیا گیا ہے۔
ولادت کے بعد پیغمبرؐ نے آپؑ کیلئے وہی آداب انجام دئیے جو امام
حسن بن علیؑ کیلئے انجام دئیے تھے جیسے نوزاد کے کان میں
آذان و
اقامت کہنا،
عقیقہ کرنا وغیرہ۔ ابن سعد نے طبقات الکبریٰ
میں لکھا ہے کہ ام فضل بنت
عباس بن عبد المطلب نے پیغمبرؐ کے حکم پر امام کی پرورش کا ذمہ لیا اور یوں امام قثم بن عباس کے
رضاعی بھائی کہلائے جو خود بھی شیر خوار تھے۔
(مراجعہ کیجئے کتاب کشف الغمہ کی طرف کہ جس میں یہ بات امام حسینؑ سے منسوب کی گئی ہے)
تاہم
کلینیؒ نے ایسی روایات نقل کی ہیں کہ جن کی بنا پر امام حسینؑ نے کسی بھی خاتون حتی اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراؑ سے بھی رضاعت نہیں کی۔
[ترمیم]
امام حسینؑ، دس
محرم یوم عاشورا سنہ ۶۱ہجری کو
عراق کی سرزمین
نینوا (
کربلا ) میں شہید ہوئے۔
(مراجعہ کیجئے تاریخ طبری کی طرف کہ جس نے ایک روایت کی بنا پر امامؑ کی شہادت کو ماہ صفر میں قرار دیا ہے)
(اسی طرح رجوع کیجئے تاریخ الآئمہ کی طرف کہ جنہوں نے سنہ شہادت ۶۰ہجری ذکر کیا ہے)
امامؑ کا روز شہادت
جمعہ،
ہفتہ،
اتوار
اور سوموار
شمار کیا گیا ہے
کہ جس میں سے روز جمعہ کی شہادت کے قول کو صحیح اور مشہور شمار کیا گیا ہے۔
ابو الفرج اصفہانی
نے سوموار کے دن امامؑ کی شہادت کے قول کو لوگوں میں مشہور قرار دیا ہے لیکن اسے کیلنڈر کے اعداد و شمار کی رو سے مسترد کر دیا ہے۔
شہادت کے وقت امامؑ کا سن مبارک ۵۶ سال پانچ ماہ
اور ۵۸ سال
ذکر کیا گیا ہے۔ (شہادت کے وقت امامؑ کے سن مبارک کے حوالے سے اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے)
[ترمیم]
ابن سعد
امام حسینؑ کو رسولؐ خدا کے اصحاب کے پانچویں اور آخری طبقے میں شمار کرتے ہیں چونکہ آپؑ آنحضرتؐ کی رحلت کے وقت کم سن تھے اور اسی وجہ سے کسی جنگ میں آنحضورؐ کی ہمراہی نہیں کی تھی۔ امامؑ کی زندگی کے سات سال پیغمبرؐ کے زمانہ حیات میں بسر ہوئے۔
پیغمبرؐ آپؑ سے اور امام حسنؑ سے بہت محبت رکھتے تھے، چنانچہ ان دونوں کو اپنے سینے پر بٹھاتے تھے اور اسی حال میں لوگوں سے خطاب کرتے تھے
اور بعض اوقات انہیں اپنے کاندھوں پر بٹھاتے تھے،
ایک نقل کے مطابق ایک دن پیغمبرؐ
منبر پر تشریف فرما ہو کر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے لیکن جونہی ان دونوں کو دیکھا تو نیچے اتر آئے اور انہیں آغوش میں لے لیا۔
امامؑ کے بچپن کا اہم ترین واقعہ
مباہلے میں شرکت ہے کہ جس میں آپؑ اور آپ کے برادر امام حسنؑ ’’أبناءنا‘‘ کے عنوان سے تشریف لے گئے تھے
(اس آیت کے بارے میں امام رضاؑ کے بیان کا مطالعہ کرنے کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے)
ایک روایت کے مطابق امام حسینؑ نے بچپن میں
خلیفہ دوم پر اس وقت اعتراض کیا جب وہ
منبر پر بیٹھے ہوئے تھے اور خلیفہ بھی اپنا خطاب چھوڑ کر منبر سے اتر آئے۔
اسی طرح روایت ہے کہ خلیفہ دوم نے
بیت المال کی نسبت امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو
رسولؐ خدا کے ساتھ قرابت کی وجہ سے امام علیؑ اور دیگر بدری اصحاب جیسا مقام دے رکھا تھا۔
بعض تاریخی منابع میں سنہ ۲۹ ہجری کی
فتح طبرستان میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی شرکت کا ذکر ملتا ہے۔
خلافت
عثمان کے دوران، امام حسینؑ نے حضرت
ابوذرؓ کی
ربذہ جلاوطنی کے وقت اپنے پدر بزرگوار اور برادر عزیز کے ہمراہ انہیں رخصت کیا۔
(ابوذر کو مخاطب کر کے آپؑ نے جو ارشادات فرمائے، اس سے مطلع ہونے کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے)
ایک روایت کے مطابق عثمان کے خلاف بغاوت میں امام علیؑ کی خواہش پر اپنے بھائی کے ہمراہ یہ کوشش کرتے رہے کہ عثمان کو اس خطرے سے محفوظ رکھیں۔
اور ایک نقل کے مطابق اس دوران آپؑ زخمی بھی ہوئے۔
امام حسینؑ نے اپنے والد گرام حضرت علیؑ کی خلافت کا زمانہ بھی دیکھا
اور
جنگ صِفّین کے دوران
جہاد کی طرف رغبت دلانے کیلئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔
اسی طرح امام علیؑ نے امام حسنؑ کے بعد امام حسینؑ کو
صدقات و
(موقوفات ) کا متولی قرار دیا.
ایک نقل کے مطابق امام حسینؑ اپنے والد گرامی کی شہادت کے وقت کچھ فرائض منصبی کی ادائیگی کے سلسلہ میں
مدائن کے سفر پر تھے اور امام حسنؑ کے خط سے انہیں حالات سے آگاہی ہوئی۔
جبکہ دیگر منابع کے مطابق امام حسینؑ اپنے والد کے
نماز جنازہ اور
تدفین کے موقع پر موجود تھے۔
امام حسنؑ کی دس سالہ
امامت کے دوران
امام حسینؑ ہمیشہ اپنے برادر گرامی کے ہمراہ رہے۔ بعض تاریخی منابع کے مطابق امام حسینؑ خلافت کو معاویہ کے سپرد کرنے کے مخالف تھے
اور حتی انہوں نے امام حسنؑ کی صلح کے بعد بھی معاویہ کی ہرگز
بیعت نہیں کی۔
صلح ہو جانے کے بعد اس کی پابندی فرماتے رہے، حتی جب بعض
شیعوں نے آپؑ سے درخواست کی کہ صلح کو توڑ دیں اور معاویہ کے ساتھ جنگ کریں تو انہیں حکم دیا کہ معاویہ کی موت تک انتظار کریں۔
ابن سعد
نے
امام باقرؑ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ
نماز میں معاویہ کے مقرر کردہ گورنر
مروان کی
اقتدا کرتے تھے حالانکہ حسین بن علیؑ اس کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے؛ اس میں تقیہ بھی کارفرما نہیں تھا۔ مگر یہ روایت
شیعہ منابع کے اندر موجود بہت سی احادیث سے سازگار نہیں ہے کہ جن میں صحیح عقائد نہ رکھنے والے شخص اور اسی طرح فاسق شخص کی اقتدا کرنے کی نہی کی گئی ہے۔
نیز جب مروان نے حضرت فاطمہؑ کی شان میں گستاخی کی تو امامؑ نے اس کو دو ٹوک اور صریح جواب دیا۔
اسی طرح جب اموی امام علیؑ کو برابھلا کہتے تھے تو امامؑ کا ردعمل بہت سخت ہوتا تھا۔
( امام حسینؑ کے ردعمل سے آگاہی کیلئے ان کتابوں کی طرف رجوع کریں:
مجموعی طور پر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ امام حسینؑ، امام حسنؑ کی امامت کے دوران بنی امیہ کے خلاف اپنے برادر کی نسبت زیادہ واضح موقف پیش کرتے تھے اور ان کی کھلم کھلا مخالفت کرتے تھے۔
اس کے باوجود امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی سیرت میں نظر آنے والے اس ظاہری اختلاف کی
مختلف تفسیریں کی گئی ہیں؛ جن میں سے ایک یہ ہے کہ امامت منصوص من اللہ ہوتی ہے اور امامؑ وہی عمل انجام دیتا ہے جس پر خدا کی طرف سے مامور ہوتا ہے البتہ تاریخی تحلیل کے اعتبار سے بھی دونوں کے رویوں میں کلی وحدت اور ہم آہنگی کو ثابت کیا جا سکتا ہے (اس ہم آہنگی کا ایک نمونہ امام حسنؑ کی تدفین کے موقع پر بھی مروی ہے)
[ترمیم]
امام حسنؑ کی شہادت کے بعد امام حسینؑ اپنے سے بڑے افراد کی موجودگی کے باوجود بنو ہاشم کے سب سے معزز فرد شمار ہوتے تھے کہ جن کے احترام کا ابن عباس نے خصوصیت سے ذکر کیا ہے
اور وہ بھی اپنے امور میں آپؑ کے ساتھ
مشاورت کرتے تھے اور آپؑ کی رائے کو دوسروں کی آرا پر ترجیح دیتے تھے۔
امام حسنؑ کی شہادت کے بعد اہل
کوفہ نے معاویہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کیلئے امام حسینؑ کو خط لکھا، تو امامؑ نے معاویہ کی حکومت کی مشروعیت کو بھی رد کیا اور ظلم کے خلاف
جہاد پر بھی زور دیا مگر مسلح قیام سے اجتناب کیا اور اسے معاویہ کی موت تک مؤخر کر دیا۔
معاویہ کو بھی اس قیام کا خوف تھا اور امام حسنؑ کی شہادت کے بعد اس نے امامؑ سے قیام سے پرہیز اور صلح پر کاربند رہنے کا مطالبہ کیا۔
معاویہ نے بھی معاہدے کے مطابق سالانہ مالی ادائیگیوں کو جاری رکھا۔
معاویہ بخوبی امام حسینؑ کے
مدینہ میں اثر و رسوخ سے آگاہ تھا، چنانچہ اس نے
قریش کے ایک فرد کو کہا تھا کہ جب بھی تو نے
مسجد نبوی میں ایسا حلقہ درس دیکھا جس میں فضول گوئی نہ ہو تو وہ حسینؑ کا حلقہ ہو گا۔
جب معاویہ یزید کیلئے بیعت لے رہا تھا تو امامؑ ان معدود شخصیات میں سے تھے کہ جنہوں نے یزید کی بیعت کو قبول نہیں کیا اور ایک قاطعانہ خطاب کے ضمن میں معاویہ کی مذمت کی
اور
بنی ہاشم کے دیگر افراد کے برخلاف معاویہ کا ہدیہ بھی قبول نہیں کیا۔
معاویہ نے بھی امامؑ کے مقام و منزلت کو دیکھتے ہوئے یزید کو نصیحت کی تھی کہ امامؑ کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اور امامؑ سے بیعت لینے کی کوشش نہ کرے۔
[ترمیم]
اکثر قدیم حدیثی اور تاریخی و رجالی کتب میں حسین بن علیؑ کی
پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ مشابہت کا تذکرہ ملتا ہے۔
ایک روایت کے مطابق امام حسینؑ کو پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہہ توصیف کیا گیا ہے۔
امام علیؑ سے منقول ایک اور روایت کے مطابق حضرتؑ نے اخلاق، مزاج اور عمل میں اپنے فرزند حسینؑ کو سب سے زیادہ اپنا مشابہہ قرار دیا۔
امام حسینؑ کا چہرہ مبارک سفید تھا۔
آپ بعض اوقات سیاہ عمامہ پہنے تھے۔
اپنے سر کے بالوں اور ریش مبارک کو
خضاب کرتے تھے۔
آپ کی دو انگوٹھیوں میں سے ایک کا نقش «لاالهالّااللّه، عُدَّةٌ للِقاءاللّه» اور دوسری کا نقش «اناللّه بالغٌ اَمْرَه» تھا۔
[ترمیم]
امام حسینؑ نے اپنے پیاروں کے ہمراہ پچیس مرتبہ پیدل
حج کیے۔
آپ مسکینوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے، ان کی دعوت کو قبول فرماتے تھے اور ان کے ساتھ کھانا تناول کرتے اور انہیں اپنے گھر میں دعوت دیتے تھے؛ گھر میں جو کچھ ہوتا ان کے سامنے پیش فرما دیتے تھے۔
امامؑ کے دشمن بھی آپؑ کے فضائل کے معترف تھے چنانچہ معاویہ کہتا تھا کہ حسینؑ اپنے باپ علیؑ کی طرح اہل مکر و حیلہ (معاذ اللہ) نہیں ہے!
اور
عمرو بن عاص آپؑ کو اہل آسمان کے نزدیک اہل زمین میں سے محبوب ترین شخصیت قرار دیتا تھا۔
آپؑ ہمیشہ اپنے برادر گرامی امام حسنؑ کے احترام کا خیال رکھتے تھے اور ان کی موجودگی میں کلام نہیں فرماتے تھے
چنانچہ
محمد بن حنفیہ امام حسینؑ کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتے تھے۔
امامؑ
انتہائی سخی تھے اور مدینہ میں آپ کا
جود و
کرم معروف تھا۔
اگر کوئی سائل درخواست کرتا اور امامؑ نماز کی حالت میں ہوتے تو اپنی نماز کو مختصر کر دیتے اور جو کچھ پاس ہوتا اسے عطا فرما دیتے تھے۔
امامؑ اپنے غلاموں اور کنیزوں کو ان کی خوش اخلاقی کے بدلے آزاد فرما دیتے تھے۔ ایک نقل کے مطابق معاویہ نے مال اور بہت سی پوشاکوں کے ہمراہ ایک کنیز آپؑ کیلئے بطور ہدیہ بھیجی تھی؛ آپؑ نے
قرآن کی آیات کی تلاوت اور
موت اور
دنیا کے فنا ہونے کے بارے میں اشعار پڑھنے کے بدلے اسے آزاد کر دیا اور وہ سارا مال و اسباب بھی اسے ہی بخش دیا۔
اسی طرح ایک مرتبہ آپؑ کے ایک غلام سے خطا ہوئی جس پر وہ سزا کا مستحق تھا مگر جب غلام نے آیت «والعافین عنالناس» کی تلاوت کی تو امامؑ نے اسے معاف فرما دیا، پھر غلام نے کہا: «واللّه یحبالمحسنین» تو امامؑ نے اسے راہ خدا میں آزاد کر دیا۔
اسامہ بن زید کا قرض ادا کر دیا جو بستر علالت پر تھے اور اپنے قرض کی ادائیگی سے عاجز تھے۔
ایک روایت کے مطابق زمین اور جو اشیا آپ کو وراثت میں پہنچی تھیں، انہیں دریافت کرنے سے پہلے ہی صدقہ کر دیا۔
تین سوالات کے درست جواب دینے پر ایک مرد کی
دیت کو مکمل ادا کر دیا اور اپنی انگوٹھی بھی اسے عطا کر دی۔
(حسنینؑ کی بخشش و سخاوت کے بارے میں مزید معلومات کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے)
آپؑ کا کرم اس حد تک تھا کہ ایک
یہودی مرد و زن اس اخلاق حسنہ کی بدولت
مسلمان ہو گئے۔
آپ نے اپنے بچوں کے معلم کو بہت زیادہ مال اور لباس عطا کیے اور اس کا منہ
موتیوں سے بھر دیا؛ اس کے باوجود یہ فرما رہے تھے کہ اس سے تیری تعلیم اور
تدریس کا حق ادا نہیں ہوا۔
امامؑ کے
حلم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب ایک شامی مرد آپؑ کو اور آپ کے والد گرامی کو ناسزا کہہ رہا تھا تو اسے معاف کر دیا اور اس کے ساتھ مزید لطف و کرم سے پیش آئے۔
منقول ہے کہ کھانے پینے کی اشیا جو حضرتؑ کاندھے پر اٹھایا کرتے تھے، اس کے نشانات روز شہادت بڑے واضح تھے۔
[ترمیم]
شیعہ عقائد کے مطابق ہر امام کی
امامت کے اثبات کیلئے نص اور الہٰی تعیین ضروری ہے۔ یہ نص امام حسینؑ کے بارے میں بھی مختلف طریقوں سے وارد ہوئی ہے۔ منجملہ وہ مشہور
حدیث ہے جو حسنین کریمینؑ کی امامت پر دلالت کرتی ہے۔
اس کے علاوہ پیغمبرؐ سے کچھ احادیث منقول ہیں کہ جن میں
آئمہؑ کی تعداد اور
امام علیؑ ،
امام حسنؑ ، امام حسینؑ اور حسین بن علیؑ کے ۹ فرزندوں کی امامت کی تصریح کی گئی ہے۔
(امام علیؑ اور امام حسنؑ سے منقول اس مضمون کی روایات کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے)
دوسری دلیل امام حسنؑ کی
وصیت ہے جس میں امام حسینؑ کی جانشینی کا ذکر کیا گیا ہے اور محمد بن حنفیہ کو حضرتؑ کی پیروی کی نصیحت کی گئی ہے۔
شیخ مفیدؒ
کا نظریہ یہ ہے کہ مذکورہ ادلہ کے پیش نظر امام حسینؑ کی امامت قطعی اور مسلم ہے اگرچہ حضرتؑ نے تقیہ، صلح کی پابندی اور جنگ و جدال سے اجتناب کی خاطر اپنی امامت کی طرف اعلانیہ دعوت نہیں دی؛ تاہم معاویہ کی موت اور صلح نامہ کا وقت ختم ہونے کے بعد آپؑ نے اپنی امامت کا اعلان کر دیا۔
دین کے تمام علوم و معارف کا مکمل علم بھی امامت کے لوازم میں سے ہے؛ اس اعتبار سے امام علیؑ نے امام حسنؑ کی طرح آپؑ سے بھی یہ خواہش کی کہ لوگوں کے سامنے خطاب فرمائیں تاکہ قریشی بعد میں آپؑ پر علم نہ رکھنے کی تہمت نہ لگا سکیں۔
اس امر پر شاہد
صحابہ کے حضرتؑ کے علمی مقام کے بارے میں منقول اقوال اور آپؑ سے پوچھے گئے سوالات ہیں۔
امام حسینؑ کے اپنی امامت کے بارے میں بیانات
اور آپؑ کے ہاتھوں پر ظاہر ہونے والے بعض
معجزات اور
کرامات بھی آپؑ کی امامت کے منجملہ دلائل میں سے ہیں۔
پس بہت سی کرامات، فضائل عالیہ اور اعمال حسنہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ پر منتہی ہوتے ہیں۔
[ترمیم]
شیعہ و
سنی معتبر حدیثی کتب میں ولادت سے شہادت تک امام حسینؑ کے بارے میں خاص فضائل و مناقب نقل ہوئے ہیں۔ منجملہ مذکور ہے کہ آپؑ کے حمل کی مدت چھ ماہ تھی جس کی نظیر پہلے صرف حضرت
عیسی بن مریمؑ یا حضرت
یحییٰ بن زکریاؑ کے احوال میں ملتی ہے۔
آپؑ کی ولادت کے وقت حضرت
جبرئیل ہزار فرشتوں کے ہمراہ آسمان سے اترے تاکہ پیغمبرؐ کی خدمت میں آپؑ کی ولادت پر مبارکباد پیش کریں۔
پھر جبرئیل نے مسلمانوں کے ہاتھوں آپ کی شہادت اور آپؑ کی نسل میں سلسلہ امامت کے جاری رہنے کی خبر دی۔
جبرئیل پیغمبرؐ کیلئے مٹھی بھر
کربلا کی خاک بھی لائے اور یہ
خاک بعد میں ام المومنین حضرت
ام سلمہؒ کے پاس محفوظ رہی اور
عاشور کے دن اس کے سرخ ہو جانے پر انہیں نواسہ رسولؐ کی شہادت کی خبر ہوئی۔
بہت سی روایات میں پیغمبرؐ نے اپنے اصحاب کو اپنے بیٹے حسینؑ کی شہادت سے آگاہ کر دیا تھا۔
پیغمبرؐ کے علاوہ امام علیؑ اور امام حسنؑ نے بھی حضرتؑ کی شہادت کے واقعے سے آگاہ فرمایا تھا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے گزشتہ
انبیاؑ کو بھی امامؑ کی شہادت کے واقعات کی خبر دے رکھی تھی۔
روز عاشور کے واقعات اور حضرتؑ کی شہادت کے بعد رونما ہونے والے حالات نیز امامؑ کی شہادت کے ذمہ داروں کے عبرتناک انجام سے متعلق بھی حیران کن امور منقول ہیں۔ منجملہ مذکور ہے کہ خدا نے عاشور کے دن جنگ بدر کی تعداد کے برابر چار ہزار فرشتوں کو آپؑ کے پاس بھیجا تھا اور امامؑ کو اختیار دیا کہ فتح و نصرت اور پیغمبرؐ کے دیدار میں سے ایک کا انتخاب کر لیں، مگر امامؑ نے ترجیح دی کہ پیغمبرؐ کے ساتھ ملحق ہو جائیں۔ یہ فرشتے خدا کے حکم سے تا
قیامت آپؑ کے مزار پر گریہ و زاری میں مشغول ہیں اور آپؑ کے زائرین کیلئے طلبِ دعا و
مغفرت فرماتے ہیں۔
شیعہ احادیث و تفاسیر کی کتب میں بھی
قرآن کی بعض آیات کی امام حسینؑ پر تطبیق کی گئی ہے یا ان کی آپؑ کی شان میں تاویل
کی گئی ہے۔ منجملہ سوره احقاف کی آیت ۱۵
کہ جس میں ایک حاملہ ماں کا ذکر ہے جس نے اپنے بچے کیلئے حمل کی مشقت کو برداشت کیا اور وضع حمل کی تکلیف کا بھی سامنا کیا۔ اس آیت کو
حضرت فاطمہ زہراؑ کے متعلق قرار دیا گیا ہے کہ جنہیں جبرئیلؑ کے توسط سے پیغمبرؐ نے ان کے فرزند کی شہادت کی خبر دی جس پر حضرتؑ غمگین ہو گئیں۔
اسی طرح
سورہ مریم کے ابتدائی حروف مقطعات (کهیعص
) کی واقعہ کربلا کے حوالے سے تاویل کی گئی ہے کہ خداوند عالم نے پنجتن کے اسماء گرامی حضرت
زکریاؑ کو سکھانے کے بعد آپؑ کو ان حروف کی رمز اور تاویل کا علم عطا کیا۔
منقول ہے کہ جب حضرت زکریاؑ، امام حسینؑ کی شہادت کے واقعات سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے خدا سے دعا کہ انہیں ایک ایسا فرزند عطا کرے جس کی سرنوشت حسینؑ جیسی ہو؛ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں جناب
یحییؑ عطا کیے کہ جن کے حمل کی مدت چھ ماہ ہے اور وہ مثلِ حسینؑ شہید ہوئے۔
اسی طرح
سورہ احزاب کی چھ آیات
اور
سوره زخرف کی اٹھائیسویں آیت
کی تفسیر امام حسینؑ کی نسل میں سلسلہ امامت کے باقی رہنے سے کی گئی ہے۔ قرآن کریم کی بعض آیات کا اشارہ حضرتؑ کے قیام اور شہادت کی طرف قرار دیا گیا ہے، منجملہ
سورہ نساء کی ۷۷ویں آیت،
سوره اسراء کی ۳۳ویں آیت
سوره فجر کی آیات ۲۷ تا ۳۰ .
(تفسیر مجمع البیان میں سورہ فجر کو سورہ امام حسینؑ قرار دیا گیا ہے)؛ قارئین رجوع فرمائیں:
[ترمیم]
معتبر تاریخی اور رجالی منابع میں امام
حسین بن علیؑ کی پانچ ازواج کا ذکر موجود ہے:
آپ
رَباب بنت امرء القیس ہیں۔ ابن سعد
نے آپ کا مکمل نسب ذکر کیا ہے۔ آپ کا والد امرء القیس
نصرانی تھا؛ تاہم اس نے
عمر بن خطاب کے زمانے میں
اسلام قبول کر لیا تھا اور
حضرت علیؑ نے
امام حسینؑ کیلئے اس کی بیٹی کا
رشتہ تجویز فرمایا تھا۔
اس
ازدواج سے عبد اللہ نامی فرزند اور سکینہ نامی دختر کی ولادت ہوئی۔
رباب ایک ممتاز اور عظیم خاتون تھیں
اور امام حسینؑ کے نزدیک ان کی بہت قدر و منزلت تھی۔
یہاں تک کہ بعض کتب کے مطابق حضرتؑ نے ایک شعر میں جناب رباب اور سکینہ سے اپنے گہرے تعلق کا اظہار بھی فرمایا ہے۔
رباب
کربلا میں حاضر تھیں؛ آپ کے فرزند عبد اللہ کربلا میں
شہید ہوئے جو ایک شیرخوار بچے تھے۔ اس کے علاوہ ایک روایت کے مطابق امام حسینؑ نے میدان
جنگ میں جانے سے پہلے اپنے گھر کے ایک ایک فرد کا نام پکارا اور ’’یا رباب‘‘ کہہ کر آپ کا نام بھی لیا۔
ابو الفرج اصفہانی
نے اپنے ایک مرثیے میں ان کا نام ذکر کیا ہے۔ امامؑ کی
شہادت کے بعد کچھ اشراف اور معززین نے آپ سے عقد کی خواہش ظاہر کی مگر آپ نے قبول نہیں کیا۔
آپ کی وفات ۶۲ہجری میں ہوئی۔
کتب میں شہر بانو کا اسم گرامی سِنْدیہ، غزالہ، سُلافہ اور شاه زنان بھی مذکور ہے۔
آپ کا نام لیلیٰ بنت ابی مُرَّة بن عروۃ بن مسعود ثَقَفی ہے۔ بہت سی کتابوں میں آپ کا نام یہی ذکر ہوا ہے
مصعب بن عبد اللّہ نے
آپ کا اور آپ کی والدہ کا پورا سلسلہ نسب ذکر کیا ہے۔ لیلیٰ کے جد
عروۃ بن مسعود ثقفی، رسولؐ خدا کے
صحابی تھے۔
امام حسینؑ کے ان کے ساتھ عقد کی تاریخ کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ صرف ہمیں اس قدر علم ہے کہ علی بن حسینؑ ان کے بیٹے تھے۔
آپ کا نام
امّ اسحاق بنت
طلحہ ہے۔ آپ کے والد
طلحہ بن عبید اللہ رسولؐ خدا کے مشہور صحابی ہیں اور آپ کی والدہ جرباء بنت
قسامۃ بن حنظلہ ہیں۔
امّ اسحاق کا پہلے
امام حسن مجتبیٰ سے عقد ہوا۔
امام حسنؑ نے شہادت سے پہلے اپنے بھائی امام حسینؑ کو تلقین کی تھی کہ بعد میں اس خاتون کے ساتھ عقد کریں۔
اس ازدواج سے
فاطمہ پیدا ہوئیں۔
ام اسحاق نے امام حسینؑ کی شہادت کے بعد عبد اللّہ بن عبد الرحمان بن ابی بکر کے ساتھ عقد کر لیا۔
بعض منابع میں قبیلہ قضاعہ کی ایک خاتون کو بھی امامؑ کی ازواج میں سے شمار کیا گیا ہے کہ جن سے جعفر نامی امامؑ کے فرزند کی ولادت ہوئی۔
سِبط ابن جوزی
نے ان کا نام سُلافہ اور بیہقی
نے مَلومہ ذکر کیا ہے۔ آپ کے حالات زندگی کی مزید تفصیلات کے حوالے سے کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
[ترمیم]
معتبر تاریخی و رجالی کتابوں میں حسین بن علیؑ کے چھ بیٹوں کا نام ذکر ہوا ہے۔
قدیم کتابوں میں
امامؑ کی اولاد میں چار لڑکوں اور دو لڑکیوں جبکہ متاخرین کی کتب میں
چھ لڑکے اور تین لڑکیاں مرقوم ہیں:
۱)
علیاکبر: امام حسینؑ کے لیلیٰ سے بڑے بیٹے۔
۲)
علی اصغر: شیعوں کے چوتھے امام کہ جن کا لقب ہے زین العابدینؑ، والدہ شہر بانو۔
۳) عبد اللّه: امامؑ کے کم سن فرد جن کی والدہ رباب تھیں۔ آپ کی تاریخ ولادت مشخص نہیں ہے مگر زیادہ تر منابع نے انہیں شہادت کے وقت صغیر اور شیر خوار قرار دیا ہے۔
سنی اور
شیعہ قدیم کتب میں آپ کا نام عبد اللہ ذکر کیا گیا ہے مگر متاخر شیعہ کتب میں یہ علی اصغر کے نام سے مشہور ہیں۔ اخطب خوارمی کی کتاب مقتل الحسین
اور
ابن شهر آشوب کی
مناقب آل ابیطالب ،
قدیم ترین کتابیں ہیں جن میں امامؑ کے کم سن بچے کی شہادت ذکر کرتے وقت انہیں علیؑ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ بعد کی کتابوں نے ان کی پیروی کرتے ہوئے شہید بچے کا نام علی اصغر اور غالبا امام سجادؑ کا نام علی اوسط ذکر کیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان کتابوں میں امام حسینؑ کی اولاد کے ضمن میں عبد اللہ کا نام بھی شمار کیا گیا ہے مگر ان کی شہادت کا حال مذکور نہیں ہے۔
اس کا باعث قدیم اور متاخر کتب میں امام حسینؑ کی اولاد کا ذکر کرتے ہوئے علی نام کے بیٹوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔
کلینیؒ کی روایت کے مطابق
امام حسینؑ نے مروان کے اعتراض کہ حسین بن علیؑ نے اپنے دو بیٹوں کا نام علیؑ کیوں رکھا ہے؛ کے جواب میں فرمایا کہ اگر میرے سو بیٹے بھی ہوں تو مجھے پسند ہے کہ ان سب کا نام علی رکھوں۔
امام حسینؑ نے آخری لمحات میں میدان جنگ جانے سے قبل عبد اللہ کو آغوش میں لیا مگر
قبیلہ بنی اسد کے ایک شخص نے عبد اللہ کو تیر مار کر شہید کر دیا۔
تیر مارنے والے کا نام
حرملۃ بن کاھل ذکر کیا گیا ہے۔
امامؑ نے اپنی شمشیر کے ساتھ ایک گھڑا کھودا اور بچے کو سپرد خاک کر دیا۔
۴) جعفر: ان کی والدہ
قبیلہ قضاعہ کی خاتون تھیں۔ وہ
امامؑ کی زندگی میں ہی انتقال فرما گئی تھیں اور انہوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی تھی۔
۵) فاطمہ: امامؑ کی بڑی بیٹی؛
آپ کی والدہ ام اسحاق تھیں۔ فاطمہ کی ولادت کی درست تاریخ متعین نہیں ہے مگر چونکہ ان کی والدہ امام حسنؑ کی سنہ ۴۹ یا ۵۰ میں شہادت کے بعد امام حسینؑ کے عقد میں آئیں، لہٰذا آپ کی ولادت اس کے بعد ہی ہوئی۔
آپ ایک پرہیزگار خاتون اور خطابت میں ماہر تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپؑ کا چہرہ اپنی دادی حضرت
فاطمہؑ بنت رسولؐ اللہ پر تھا۔
امام باقرؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق امام حسینؑ نے شہادت سے قبل
امامت کے تبرکات اور اپنی مکتوب وصیت فاطمہ کے سپرد کی اور انہوں نے بعد میں اسے
امام سجادؑ کے حوالے کیا تھا۔
فاطمہ تابعی خاتون اور حدیث کی راویہ تھیں؛ انہوں نے اپنے والد
عبد اللہ بن عباس اور
اسماء بنت عمیس سے روایات نقل کی ہیں۔
فاطمہ کا عقد پہلے
حسن مُثّنی سے ہوا۔
آپ کربلا میں بھی حاضر تھیں اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ انہیں بھی
اسیر کر کے
شام لے جایا گیا۔
یزید اور آپ کے درمیان کچھ بات چیت بھی ہوئی۔
احمد بن علی طبرسی نے آپ کے اہل
کوفہ سے احتجاج(مدلل خطاب) کو نقل کیا ہے۔
شوہر کی وفات کے بعد
مدینہ کے والی
عبدالرحمان بن ضحاک نے آپ کو عقد کا پیغام بھیجا جو آپ نے قبول نہیں کیا۔
ابن حِبّان،
نے کسی خاص تاریخ کا ذکر کیے بغیر ان کی ۹۰ برس کے سن میں وفات کا ذکر کیا ہے۔ ابن عساکر
نے بھی
ہشام بن عبد الملک کے زمانے میں آپ کی وفات کو نقل کیا ہے۔
۶)
سُکَینہ: رباب سے امام حسینؑ کی چھوٹی بیٹی۔
ان چھ بچوں کے علاوہ تاریخی کتب میں مزید دو لڑکوں اور ایک لڑکی کا نام دیکھنے کو ملتا ہے جو یہ ہیں: علیاصغر، محمد اور زینب۔
ابن طلحہ شافعی
نے بھی امامؑ کی اولاد کی تعداد دس تک شمار کی ہے لیکن صرف نو کا نام ذکر کیا ہے۔ تاریخی کتب میں ان کے حالات زندگی کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ اسی طرح کچھ تذکروں اور مرثیوں میں امام حسینؑ کی چار سالہ بیٹی
رقیہ کا ذکر ملتا ہے۔
[ترمیم]
امام حسینؑ کی
زیارت کے بہت سے فضائل ذکر ہوئے ہیں اور پیغمبرؐ اور
شیعہ آئمہؑ سے منقول احادیث میں اس پر بہت تاکید کی گئی ہے؛
اسی طرح
امام حسینؑ کی تربت کے بہت سے فضائل مذکور ہیں۔
[ترمیم]
امام حسینؑ کی زیادہ تر احادیث ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں اور اس کی سب سے اہم وجہ اس وقت
عالم اسلام کے مخصوص حالات ہیں کہ جنہیں اموی حکومت نے
عترت طاہرہ کیلئے بھی اور ان کے پیروکاروں کیلئے بھی ایجاد کر رکھا تھا۔ قیامِ عاشورا کے دوران امامؑ کے خطبات اور اقوال کے علاوہ
حضرتؑ کے کچھ متفرق اقوال
اہل سنت اور شیعوں کی قدیم کتابوں میں ملتے ہیں؛ جن میں سے ’’اصنافِ خلق‘‘ کے حوالے سے امامؑ کے حکمت آمیز اقوال کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح حضرتؑ کا انسانی اقدار کا خیال رکھنے کے حوالے سے مشہور قول ہے کہ جب اموی لشکر امامؑ کے خیام پر حملہ آور ہونے کا قصد کرتا ہے تو امامؑ یہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دین نہیں رکھتے ہو تو کم از کم انسانی اقدار کی پابندی تو کرو۔
[ترمیم]
امام حسینؑ کی کچھ دعائیں قدیم کتب میں نقل ہوئی ہیں۔
ان میں سے مشہور ترین
دعائے عرفہ ہے کہ جس کا متن طولانی ہے اور یہ شیعہ کی مشہور دعاؤں میں سے شمار ہوتی ہے اور اس میں بلند عرفانی مضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
[ترمیم]
عقائد کے موضوعات میں بھی امامؑ سے شیعہ کتب میں روایات نقل ہوئی ہیں، منجملہ
توحید ،
امامت،
مناقبِ
اہل بیت،
غیبت،
شیعہ کی خصوصیات
اور
مؤمن کی صفات
کے بارے میں امامؑ کی احادیث منقول ہیں۔
حضرتؑ کے کچھ مناظرے اور احتجاجات بھی نقل ہوئے ہیں جو اہل بیتؑ کے فضائل کی حقانیت کے اثبات پر مشتمل ہیں۔
حضرتؑ سے کچھ احادیث، فضائل
قرآن اور اہل بیتؑ کی شان میں بعض آیات کی تفسیر
کے حوالے سے بھی منقول ہیں۔
امام حسینؑ سے بعض
فقہی ابواب میں بھی کچھ روایات منقول ہیں۔
اخلاقی موضوعات میں بھی امام حسینؑ سے کچھ احادیث منقول ہیں۔
[ترمیم]
امامؑ سے کچھ اشعار بھی منسوب ہیں جن میں سے معروف ترین اشعار وہ ہیں جو امامؑ نے اپنی دختر
سکینہ اور ان کی والدہ
رباب کیلئے کہے ہیں۔
اسی طرح ایک شعر ہے جو امامؑ نے آخری ایام میں زمانے کی بے وفائی سے متعلق ارشاد فرمایا۔
(امامؑ کے اشعار اور ان کے مضامین کی کلی تحلیل کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے)
[ترمیم]
امام حسینؑ
پیغمبرؑ اور اپنے پدر بزرگوار
امام علیؑ بن ابی طالب اور اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراؑ کی احادیث کے راوی ہیں کہ جن میں سے کچھ احادیث اہل سنت کی کتب میں وارد ہوئی ہیں۔
(ان راویوں کی فہرست سے آگاہی کیلئے کہ جن سے امامؑ نے روایت کیا ہے، اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے)
[ترمیم]
امامؑ سے
امام سجادؑ اور آپؑ کی بیٹی
فاطمہ، نے سب سے زیادہ روایات نقل کی ہیں۔
(ان دو شخصیات کی امام حسینؑ سے منقول روایات کی فہرست سے آگاہی کیلئے ان کتب کی طرف رجوع کیجئے)
عطاردی قوچانی کی تحقیق کے مطابق
امامؑ سے روایت نقل کرنے والے راویوں کی تعداد دو سو پچاس سے زیادہ ہے، (امامؑ سے روایت کرنے والے اشخاص کے بارے میں معلومات کیلئے حواشی میں مذکور قدیم کتب کی طرف رجوع کیجئے)
طوسی نے اپنے حدیثی و رجالی مبانی کے تحت کتاب
رجال،
میں سو شخصیات کو حضرتؑ کے اصحاب کے عنوان سے ذکر کیا ہے کہ جن میں سے بعض کا شمار رسولؐ خدا، امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ اور امام حسنؑ کے اصحاب میں ہوتا ہے اور ان میں سے زیادہ تر افراد نے کربلا میں حضرتؑ کا ساتھ دیا اور آپؑ کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔
[ترمیم]
امام حسینؑ کے اقوال اب تک مختلف دائرۃ المعارف کی شکل میں شائع ہو چکے ہیں، منجملہ موسوعة کلمات الامام الحسین (علیہ السلام) (قم ۱۳۷۴شمسی)، مسند الامام الشهید ابیعبدالله الحسین بن علی (علیہما السلام) (تہران ۱۳۷۶شمسی) اور حکمت نامہ امام حسین (علیہ السلام) (قم ۱۳۸۵شمسی)
[ترمیم]
امام حسینؑ کی
زیارت بالخصوص نزدیک سے
عرفہ،
عید فطر،
عید قربان،
ماه رجب کے اول اور وسط،
نیمہ شعبان،
عاشورا،
اربعین (بیس
صفر) اور
شب قدر میں
مستحب ہے۔
[ترمیم]
اسی طرح
اہل بیتؑ بالخصوص امام حسینؑ کیلئے
عاشور کے دن عزاداری اور
حزن و غم کا اظہار
اسی طرح حضرتؑ کیلئے
گریہ و زاری
مستحب ہے؛
مصیبت کے وقت جزع فزع کی
ممانعت میں سے حضرتؑ کیلئے جزع فزع کا استثنا کیا گیا ہے۔
[ترمیم]
امام حسینؑ کی
ضریح ان چار مقامات میں سے ایک ہے کہ جہاں پر
مسافر کو چار رکعتی نماز کو تمام کرنے یا قصر کرنے کا اختیار ہے؛ اگرچہ مشہور قول کے مطابق نماز کو پورا پڑھنا افضل ہے۔
[ترمیم]
پانی پیتے وقت امام حسینؑ پر درود و
سلام اور حضرتؑ کے دشمنوں پر
لعنت بھیجنا
مستحب ہے۔
[ترمیم]
امام حسینؑ کی
تربت خاص
احکام کی حامل ہے جیسے
شفا کیلئے اسے کھانا جائز ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
(۱) ابن ابیالثلج، تاریخ الائمة، در مجموعة نفیسة فی تاریخ الائمة، طبع محمود مرعشی، قم: کتابخانه آیتاللّه مرعشی نجفی، ۱۴۰۶۔
(۲) ابن ابیالحدید، شرح نهجالبلاغة، طبع محمد ابوالفضل ابراهیم، قاهره ۱۳۸۵ـ۱۳۸۷/ ۱۹۶۵ـ۱۹۶۷، آفسٹ پرنٹنگ بیروت۔
(۳) ابن ابیالدنیا، مکارمالاخلاق، طبع مجدی سیدابراهیم، بولاق۔
(۴) ابن ابیزینب، الغیبة، طبع فارس حسون کریم، قم ۱۴۲۲۔
(۵) ابن ابیشیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، طبع سعید محمد لحّام، بیروت ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔
(۶) ابن اعثم کوفی، کتابالفتوح، طبع علی شیری، بیروت ۱۴۱۱/۱۹۹۱۔
(۷) ابن اعثم کوفی، کتابالفتوح، ترجمه محمد بن احمد مستوفی هروی، طبع غلامرضا طباطبائیمجد، تهران ۱۳۷۲شمسی۔
(۸) ابن بابویه، الامالی، قم ۱۴۱۷۔
(۹) ابن بابویه، التوحید، طبع هاشم حسینی طهرانی، قم ۱۳۵۷شمسی۔
(۱۰) ابن بابویه، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم ۱۳۶۸شمسی۔
(۱۱) ابن بابویه، عللالشرایع، نجف ۱۳۸۵ـ۱۳۸۶، آفسٹ پرنٹنگ قم۔
(۱۲) ابن بابویه، عیون اخبار الرضا، طبع مهدی لاجوردی، قم ۱۳۶۳ش الف۔
(۱۳) ابن بابویه، کتابالخصال، طبع علیاکبر غفاری، قم ۱۳۶۲شمسی۔
(۱۴) ابن بابویه، کمالالدین و تمام النعمة، طبع علیاکبر غفاری، قم ۱۳۶۳ش ب۔
(۱۵) ابن بابویه، معانی الاخبار، طبع علیاکبر غفاری، قم ۱۳۶۱شمسی۔
(۱۶) ابنحزم، المُحَلّی، طبع احمد محمد شاکر، بیروت: دارالفکر۔
(۱۷) ابنحنبل، مسند الامام احمدبن حنبل، بیروت: دارصادر۔
(۱۸) ابن سعد، طبقات الکبری۔
(۱۹) ابن شبّه نمیری، کتاب تاریخ المدینة المنورة: اخبار المدینةالنبویة، طبع فهیم محمد شلتوت، (جده) ۱۳۹۹/۱۹۷۹، آفسٹ پرنٹنگ قم ۱۳۶۸شمسی۔
(۲۰) ابن شعبه، تحفالعقول عن آل الرسول صلیاللّه علیهم، طبع علیاکبر غفاری، قم ۱۳۶۳شمسی۔
(۲۱) ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب، طبع یوسف بقاعی، قم ۱۳۸۵شمسی۔
(۲۲) ابن طاووس، اقبال الاعمال، طبع جواد قیومی اصفهانی، قم ۱۴۱۴ـ۱۴۱۵۔
(۲۳) ابن طاووس، مقتلالحسین (علیهالسلام)، المسمی باللهوف فی قتلی الطفوف، قم (۱۴۱۷)۔
(۲۴) ابن طلحه شافعی، مطالب السؤول فی مناقب آلالرسول، طبع ماجدبن احمد عطیه۔
(۲۵) ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، طبع علیمحمد بجاوی، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
(۲۶) ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، طبع علی شیری، بیروت ۱۴۱۵ـ۱۴۲۱/ ۱۹۹۵ـ۲۰۰۱۔
(۲۷) ابن قتیبه، الامامة و السیاسة، المعروف بتاریخ الخلفاء، طبع علی شیری، بیروت ۱۴۱۰/۱۹۹۰۔
(۲۸) ابن قتیبه، المعارف، طبع ثروت عکاشه، قاهره ۱۹۶۰۔
(۲۹) ابن قولویه، کاملالزیارات، طبع جواد قیومی اصفهانی، قم ۱۴۱۷۔
(۳۰) ابن ماجه، سنن ابنماجة، طبع محمدفؤاد عبدالباقی، (قاهره ۱۳۷۳/ ۱۹۵۴)، آفسٹ پرنٹنگ (بیروت)۔
(۳۱) ابن حِبّان، کتاب الثقات، حیدرآباد، دکن ۱۳۹۳ـ۱۴۰۳/ ۱۹۷۳ـ۱۹۸۳، آفسٹ پرنٹنگ بیروت۔
(۳۲) ابن حبیب، کتاب لمُحَبَّر، طبع ایلزه لیشتن اشتتر، حیدرآباد، دکن ۱۳۶۱/۱۹۴۲، آفسٹ پرنٹنگ بیروت۔
(۳۳) ابن حزم، جمهرة انساب العرب، طبع عبدالسلام محمد هارون، قاهره (۱۹۸۲)۔
(۳۴) ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، طبع هاشم رسولی محلاتی، قم۔
(۳۵) ابن صباغ، الفصول المهمة فی معرفة احوال الائمة علیهمالسلام، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
(۳۶) ابن طاووس، مقتل الحسین (علیهالسلام)، المسمی باللهوف فی قتلی الطفوف، قم (۱۴۱۷)۔
(۳۷) ابن طقطقی، الاصیلی فی انساب الطّالبیین، طبع مهدی رجائی، قم ۱۳۷۶شمسی۔
(۳۸) ابن طلحه شافعی، مطالب السؤول فی مناقب ال الرسول، طبع ماجدبن احمد عطیه، بیروت ۱۴۰۲۔
(۳۹) ابن کثیر، البدایة و النهایة، طبع علی شیری، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
(۴۰) ابوالفرج اصفهانی، کتابالاغانی، قاهره ۱۳۸۳، آفسٹ پرنٹنگ بیروت۔
(۴۱) ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، طبع کاظم مظفر، نجف ۱۳۸۵/۱۹۶۵، آفسٹ پرنٹنگ قم ۱۴۰۵۔
(۴۲) عبدالحسین امینی، سیرتنا و سنتنا: سیرة نبینا صلیاللّه علیه وآله و سنته، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
(۴۳) عبداللّه بن نوراللّه بحرانی، عوامالعلوم و المعارف و الاحوال من الآیات و الاخبار و الاقوال، ج ۱۷، قم ۱۳۸۲شمسی۔
(۴۴) هاشم بن سلیمان بحرانی، مدینةالمعاجز، او، معاجز اهلالبیتؑ، طبع علاءالدین اعلمی، (قم) ۱۴۲۶/۲۰۰۵۔
(۴۵) محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح بخاری، (طبع محمد ذهنیافندی)، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱، آفسٹ پرنٹنگ بیروت۔
(۴۶) احمد بن محمد برقی، کتابالمحاسن، طبع جلالالدین محدث ارموی، تهران ۱۳۳۰شمسی۔
(۴۷) احمد بن یحیی بلاذری، انسابالاشراف، طبع محمود فردوسالعظم، دمشق ۱۹۹۶ـ ۲۰۰۰۔
(۴۸) احمد بن یحیی بلاذری، فتوحالبلدان، طبع عبداللّه انیس طبّاع و عمر انیس طبّاع، بیروت ۱۴۰۷/۱۹۸۷۔
(۴۹) علی بن عیسی بهاءالدین اربلی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیهمالسلام، طبع علی فاضلی، (قم) ۱۴۲۶۔
(۵۰) موفق بن احمد اخطب خوارزم، مقتل الحسین علیہ السلام للخوارزمی، طبع محمد سماوی، (قم) ۱۳۸۱شمسی۔
(۵۱) امین، اعیان الشیعه۔
(۵۲) ابونصر سهل بن عبداللّه بخاری، سرّالسلسلة العلویة، طبع محمدصادق بحرالعلوم، نجف ۱۳۸۱/۱۹۶۲۔
(۵۳) احمد بن یحیی بلاذری، انسابالاشراف، طبع محمود فردوسالعظم، دمشق ۱۹۹۶ـ۲۰۰۰۔
(۵۴) علی بن عیسی بهاءالدین اربلی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، طبع هاشم رسولی محلاتی، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱۔
(۵۵) علی بن زید بیهقی، لباب الأنساب و الألقاب و الأعقاب، طبع مهدی رجائی، قم ۱۴۱۰۔
(۵۶) دلائل الامامة، (منسوب به) محمد بن جریر طبری آملی، بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
(۵۷) محمد ذهنی، خیرات حسان، ترجمه محمدحسن اعتمادالسلطنه، طبع سنگی (تهران) ۱۳۰۴ـ۱۳۰۷۔
(۵۸) سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، بیروت ۱۴۰۱/۱۹۸۱۔
(۵۹) عبداللّه بن محمد شَبراوی شافعی، کتاب الاتحاف بحب الاشراف، مصر (۱۳۱۶)، آفسٹ پرنٹنگ قم ۱۳۶۳شمسی۔
(۶۰) احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، طبع محمدباقر موسوی خرسان، نجف ۱۳۸۶/۱۹۶۶، آفسٹ پرنٹنگ قم۔
(۶۱) طبری، تاریخ (بیروت)۔
(۶۲) نعمان بن محمد قاضی نعمان، شرح الاخبار فی فضائل الائمة الاطهار، طبع محمد حسینی جلالی، قم ۱۴۰۹ـ۱۴۱۲۔
(۶۳) حسین بن علی کاشفی، روضة الشهداء، طبع محمد رمضانی، (تهران) ۱۳۴۱شمسی۔
(۶۴) یوسف بن عبدالرحمان مزّی، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، طبع بشار عواد معروف، بیروت ۱۴۲۲/۲۰۰۲۔
(۶۵) مُصْعَب بن عبداللّه، کتاب نسب قریش، طبع لوی پرووانسال، قاهره ۱۹۵۳۔
(۶۶) محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفة حججاللّه علیالعباد، قم ۱۴۱۳۔
(۶۷) محمد بن عیسی ترمذی، سننالترمذی، ج ۳ و ۵، طبع عبدالرحمان محمد عثمان، بیروت ۱۴۰۳۔
(۶۸) جنید بن محمود جنید شیرازی، شدّ الازار فی حطّ الاوزار عن زوّار المزار، طبع محمد قزوینی و عباس اقبال آشتیانی، تهران ۱۳۶۶شمسی۔
(۶۹) محمد بن عبداللّه حاکم نیشابوری، المستدرک علیالصحیحین، طبع یوسف عبدالرحمان مرعشلی، بیروت ۱۴۰۶۔
(۷۰) حرّ عاملی، وسائل الشیعه۔
(۷۱) عبیداللّه بن عبداللّه حسکانی، شواهدالتنزیل لقواعد التفضیل، طبع محمدباقر محمودی، تهران ۱۴۱۱/۱۹۹۰۔
(۷۲) حکمتنامه امام حسین (علیهالسلام)، (گردآوری) محمد محمدیریشهری، (همراهبا) ترجمه عبدالهادی مسعودی، قم: دارالحدیث، ۱۳۸۵شمسی۔
(۷۳) عبداللّه بن جعفر حِمْیری، قریب الاسناد، قم ۱۴۱۳۔
(۷۴) علی بن محمد خزاز رازی، کفایة الاثر فیالنص علیالائمة الاثنیعشر، طبع عبداللطیف حسینی کوه کمری خوئی، قم ۱۴۰۱۔
(۷۵) حسین بن حمدان خصیبی، الهدایة الکبری، بیروت ۱۴۰۶/ ۱۹۸۶۔
(۷۶) دلائل الامامة، (منسوب به) محمد بن جریر طبری آملی، قم: مؤسسةالبعثة، ۱۴۱۳۔
(۷۷) محمد بن احمد دولابی، الذریة الطاهرة، طبع محمدجواد حسینی جلالی، قم ۱۴۰۷۔
(۷۸) احمد بن داوود دینوری، الاخبار الطِّوال، طبع عبدالمنعم عامر، قاهره ۱۹۶۰، آفسٹ پرنٹنگ قم ۱۳۶۸شمسی۔
(۷۹) روائع الحکمة: بلاغة الامامینالحسن و الحسینؑ، (اعداد) مصطفی محسن موسوی، محسن شراره عاملی، و مهدی عطبی بصری، بیروت: دارالصفوة، ۱۴۲۴/۲۰۰۴۔
(۸۰) مجدود بن آدم سنایی، حدیقة الحقیقة و شریعة الطریقة، طبع مدرس رضوی، تهران ۱۳۵۹شمسی۔
(۸۱) محمد بن حسن صفار قمی، بصائرالدرجات الکبری فی فضائل آل محمدؑ، طبع محسن کوچهباغیتبریزی، تهران ۱۳۶۲ شمسی۔
(۸۲) عبدالرزاق بن همام صنعانی، المصنَّف، طبع حبیبالرحمان اعظمی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
(۸۳) طباطبائی، تفسیر المیزان۔
(۸۴) سلیمان بن احمد طبرانی، المعجمالکبیر، طبع حمدی عبدالمجید سلفی، آفسٹ پرنٹنگ بیروت ۱۴۰۴ــ۱۴۰۔
(۸۵) احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، طبع محمدباقر موسوی خرسان، نجف ۱۳۸۶/ ۱۹۶۶، آفسٹ پرنٹنگ قم۔
(۸۶) فضل بن حسن طبرسی، اعلام الوری باعلام الهدی، قم ۱۴۱۷۔
(۸۷) فضل بن حسن طبرسی، مجمعالبیان فی تفسیرالقرآن، طبع هاشم رسولی محلاتی و فضلاللّه یزدی طباطبائی، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
(۸۸) محمد بن حسن طوسی، الامالی، قم ۱۴۱۴۔
(۸۹) محمد بن حسن طوسی، تهذیب الاحکام، طبع حسن موسوی خرسان، بیروت ۱۴۰۱/۱۹۸۱۔
(۹۰) محمد بن حسن طوسی، رجالالطوسی، طبع جواد قیومی اصفهانی، قم ۱۴۱۵۔
(۹۱) محمد بن حسن طوسی، کتابالغیبة، طبع عباداللّه طهرانی و علیاحمد ناصح، قم ۱۴۱۱۔
(۹۲) عزیزاللّه عطاردیقوچانی، مسندالامام الشهید ابیعبداللّهالحسینبن علی (علیهماالسلام)، (تهران) ۱۳۷۶شمسی۔
(۹۳) محمد بن علی علویشجری، فضل زیارة الحسین (علیهالسلام)، طبع احمد حسینی، قم ۱۴۰۳۔
(۹۴) علی بن ابیطالبؑ، امام اول، نهجالبلاغه، طبع صبحی صالح، بیروت ۱۳۸۷/۱۹۶۷، آفسٹ پرنٹنگ قم۔
(۹۵) محمد بن مسعود عیاشی، کتابالتفسیر، طبع هاشم رسولی محلاتی، قم ۱۳۸۰ـ۱۳۸۱، آفسٹ پرنٹنگ تهران۔
(۹۶) نعمان بن محمد قاضی نعمان، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام والقضایا و الاحکام، طبع آصفبن علیاصغر فیضی، قاهره (۱۹۶۳ـ ۱۹۶۵)، آفسٹ پرنٹنگ (قم)۔
(۹۷) باقر شریف قرشی، حیاةالامام الحسنبن علی، بیروت ۱۴۱۳/ ۱۹۹۳۔
(۹۸) سعید بن هبةاللّه قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، قم ۱۴۰۹۔
(۹۹) علی بن ابراهیم قمی، تفسیرالقمی، طبع طیب موسوی جزائری، نجف ۱۳۸۷، آفسٹ پرنٹنگ قم۔
(۱۰۰) کلینی، اصول کافی۔
(۱۰۱) فرات بن ابراهیم کوفی، تفسیر فراتالکوفی، طبع محمدکاظم محمودی، تهران ۱۴۱۰/۱۹۹۰۔
(۱۰۲) مجد خوافی، روضه خلد، طبع حسین خدیوجم، تهران ۱۳۴۵شمسی۔
(۱۰۳) مجلسی، بحار الانوار۔
(۱۰۴) یوسف بن عبدالرحمان مِزّی، تحفةّ الاشراف بمعرفة الاطراف، طبع عبدالصمد شرفالدین و زهیر شاویش، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
(۱۰۵) یوسف بن عبدالرحمان مِزّی، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، طبع بشار عواد معروف، بیروت ۱۴۲۲/۲۰۰۲۔
(۱۰۶) مسعودی، تنبیه۔
(۱۰۷) مسعودی، مروج (بیروت)۔
(۱۰۸) مسلم بن حجاج، الجامعالصحیح، بیروت: دارالفکر۔
(۱۰۹) محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفة حججاللّه علیالعباد، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
(۱۱۰) ناصرخسرو، سفرنامه ناصرخسرو قبادیانی مروزی، طبع محمد دبیرسیاقی، تهران ۱۳۷۳شمسی۔
(۱۱۱) یحیی بن حسین ناطق بالحق، الافاده فی تاریخ الائمة السادة، طبع محمدکاظم رحمتی، تهران ۱۳۸۷شمسی۔
(۱۱۲) محمدصادق نجمی، سخنان حسینبن علیؑ (از مدینه تا کربلا)، قم ۱۳۷۸شمسی۔
(۱۱۳) نصر بن مزاحم، وقعة صفّین، طبع عبدالسلام محمد هارون، قاهره ۱۳۸۲، آفسٹ پرنٹنگ قم ۱۴۰۴۔
(۱۱۴) نعیم بن حمّاد، کتابالفتن، طبع سهیل زکار، (بیروت) ۱۴۱۴/ ۱۹۹۳۔
(۱۱۵) یعقوبی، تاریخ۔
(۱۱۶) دانشنامه جهان اسلام۔
[ترمیم]
[ترمیم]
دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ماخوذ از مقالہ امام حسین ۱، شماره۶۲۱۲۔ دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ماخوذ از مقالہ امام حسین ۲، شماره۶۲۱۳۔ فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت، ج۱، ص۶۸۰-۶۸۱۔ فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت، ج۳، ص۳۰۴-۳۰۵۔