علم الحدیث
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
علم الحدیث، وہ علم ہے جس کے توسط سے
معصومؑ کے
قول ،
فعل اور
تقریر کی شناخت ہوتی ہے۔
[ترمیم]
حدیث،
اسلامی علوم کے دو منابع میں سے ایک ہے کہ جسے
سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ علم الحدیث وہ علم ہے جس کے توسط سے
معصومؑ کے
قول ،
فعل اور
تقریر کی شناخت ہوتی ہے۔ یہ
علم دو شاخوں؛
روایۃ الحدیث اور
درایۃ الحدیث میں تقسیم ہوتا ہے۔
’’روایۃ الحدیث‘‘
رواۃ کے احوال اور
سند کی کیفیت کے اعتبار سے حدیث کے معصوم کیساتھ اتصال کے بارے میں بحث کرتا ہے اور اسے
اصطلاح میں علم اصول الحدیث کا نام دیا جاتا ہے اور یہ
علم رجال اور
مصطلح الحدیث کے نام سے دو شاخوں میں تقسیم ہوتا ہے۔
رجال سند میں
عدالت اور
وثاقت کے وجود یا عدم کی بحث کا ذمہ دار ’’علم رجال‘‘ ہے اور اگر راویوں کی جانب سے نقل حدیث کی کیفیت سے متعلق بحث کی جائے تو اسے ’’مصطلح الحدیث‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
راویوں کی جانب سے نقل حدیث کی کیفیت بہ اعتبار
تواتر و وحدت نقل، اتصال و انقطاع، صحت و ضعف کے لحاظ سے مراتب نقل اور ان خصوصیات سے مربوط اصطلاحات کا اس علم میں جائزہ لیا جاتا ہے جبکہ ’’علم درایۃ الحدیث‘‘ احادیث میں وارد ہونے والے الفاظ کے معانی و مفاہیم کے بارے میں بحث کرتا ہے۔
[ترمیم]
اوائل میں
تاریخ اور
سیرت کو بھی حدیث کا ایک شعبہ سمجھا جاتا تھا اور تاریخی مطالب سلسلہ اسناد کیساتھ نقل کیے جاتے تھے۔ مگر
صحیح بخاری جیسی بعض کتب میں ہمیں ملتا ہے کہ تاریخ کو احادیث سے جدا کر دیا گیا ہے۔ ذیل کی کتب شیعہ علما کی تحریر کردہ تاریخی کتب ہیں۔
ابن واضح یعقوبی کی
تاریخ الیعقوبی،
مسعودی کی
مروج الذهب، مسعودی کی
التنبیہ و الاشراف اور ابن مسکویہ رازی کی
تجارب الامم۔
مکتب علوی کے شاگرد «
عبید الله بن ابی رافع» وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے علم تاریخ میں ایک کتاب لکھی۔ انہوں نے
جمل،
صفین اور
نہروان کے دوران
امیرالمؤمنین علیؑ کی رکاب میں شہید ہونے والے
صحابہ کے حالات کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے۔
[ترمیم]
رسول اکرمؐ بذات خود مسلمانوں کی تشویق فرماتے تھے کہ وہ
روایات اور
احادیث کو نقل کریں اور انہیں حدیث کی جوامع میں
ضبط کریں۔ دوسری جانب مسلمان بھی (بالخصوص عصر رسالت کے بعد) اس امر سے آگاہ تھے کہ احادیث ایسے مستند بیانات سے سرشار ہیں جو
الہٰی احکام پر مشتمل ہیں۔
پیغمبر اکرمؐ اپنی بیس سالہ رسالت کے دوران لوگوں کی
ہدایت و
ارشاد میں مشغول رہے اور اس مدت کے دوران خاص طور پر
ہجرت کے بعد انفرادی اور اجتماعی مسائل میں اسلامی احکام و قوانین کا دائرہ وسیع ہو گیا۔ آپؐ نے قرآن کریم کی تشریحات و تفصیلات بیان فرمائیں۔
اخلاق،
عقائد،
عبادات، مدنی و تعزیراتی قوانین، آداب معاشرت، گھریلو زندگی کی تشکیل، حسن عمل و کردار اور
فضائل کی انجام دہی کی ترغیب پیغمبرؐ کے منجملہ فرامین تھے۔
اصحاب احادیث کے سماع و حفظ میں نہایت دقت اور ہمت کے حامل تھے۔ ایک جماعت منبع فیض سے دوسروں کی نسبت زیادہ بہرہ مند تھی چنانچہ وہ پیغمبرؐ سے کثرت نقل کے باعث مشہور ہو گئے اور دوسرے لوگ ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔
پیغمبرؐ کے زمانہ حیات میں
حدیث کی اہمیت کا زیادہ ادراک نہیں تھا لیکن آپؐ کی رحلت کے بعد اس ضرورت کو زیادہ محسوس کیا گیا۔ اس طرح
قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث بھی لوگوں کے عمل اور اسلامی امت کی رہنمائی کا معیار ٹھہری۔ البتہ
اہل تشیع امام عصرؑ کی
غیبت کبریٰ تک اس منبع فیض سے استفادہ کرتے رہے۔
[ترمیم]
تدوین حدیث کے باب میں شیعہ اور
اہل سنت کے مابین ایک واضح فرق ہے۔ شیعوں نے
اہل بیتؑ عصمت کی پیروی میں
کتابتِ حدیث کا ابتدا سے ہی آغاز کر دیا تھا۔ مگر
اہل سنت نے
خلیفہ دوم اور دیگر چند صحابہ کی رائے کی پیروی کرتے ہوئے اس عذر سے کہ حدیث اور قرآن میں خلط ملط ہو جائے گا؛ تدوین حدیث میں حصہ نہیں لیا۔ پس انہوں نے حدیث کو اہمیت دینے کی بجائے قرآن کو اہمیت دی، تدوین حدیث کو
مکروہ قرار دیا، پھر انہیں اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا کہ جب
رسول اکرمؐ کی ہجرت کو ایک صدی کا عرصہ گزر چکا تھا۔ تدوین حدیث کی ممنوعیت دوسری صدی ہجری میں بنو امیہ کے زاہد خلیفہ
عمر بن عبد العزیز کے ہاتھوں ختم کی گئی۔
اہل بیتؑ اور ان کے پیروکاروں کی جانب سے تدوین حدیث کا اہل سنت کی نسبت ایک صدی قبل آغاز ہو چکا تھا اور
امام باقرؑ کے زمانہ
امامت تک یہ سلسلہ جاری تھا کہ
عمر بن عبد العزیز کے سرکاری حکم پر اہل سنت بھی مکتب اہل بیتؑ کے ہمراہ حدیث کی تالیف و تدوین میں مشغول ہو گئے۔
[ترمیم]
حدیث کی پہلی کتاب
حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ نے تحریر فرمائی کہ جو
آئمہؑ کے پاس محفوظ تھی اور بعض اوقات حضرات معصومینؑ اس سے حدیث نقل کرتے تھے۔
مصحف فاطمہؑ دوسری حدیثی کتاب ہے کہ جسے ایک معصومؑ نے لکھا۔
اسی طرح
ابو رافع کی
کتاب سنن، احکام اور قضایا سے متعلق ہے۔
سلمان فارسی کی
کتاب آثار کے بارے میں ہے۔ آثار ’’اثر‘‘ کی جمع ہے اور اثر لغت میں حدیث، روایت اور خبر کا ہم معنی ہے جبکہ شہید ثانی نے درایہ میں اثر کو حدیث و خبر سے عام قرار دیا ہے۔
سلمان فارسی کا ’’اثر‘‘ جاثلیق رومی کی حدیث کی تشریح و توضیح کے بارے میں ہے جو
رسول اعظمؐ کی وفات کے بعد
آنحضرتؐ کی
وصیت کی تحقیق کرنے کی غرض سے
مدینہ آیا تھا۔ یہ ان ابتدائی کتب میں سے ہے جو مکتب اہل بیتؑ کے شاگردوں نے تحریر کیں۔
ابوذر غفاری،
اصبغ بن نباتہ، عبید الله بن ابی رافع،
حرث بن عبدالله،
ربیعۃ ابن سمیع،
سلیم بن قیس،
میثم تمار،
عبیدالله بن حر،
محمد بن قیس بجلی اور
یعلیٰ بن مرہ علم حدیث کی رو سے طبقہ اول کے شیعہ مصنفین ہیں۔
طبقہ دوم کی شیعہ کتاب کہ جسے ہر طبقے کے راویوں نے روایت کیا ہے؛
امام علی بن الحسین بن علیؑ کی کتاب
صحیفہ سجادیہ ہے جو زبور آل محمدؐ کے نام سے معروف ہے۔
اس طبقے کے دیگر راویوں میں
زید بن علی بن
حسین بن علی الشهید،
جابر بن یزید جعفی،
حسین بن ثور اور
زیاد بن منذر کا شمار ہوتا ہے۔
دوسری صدی کے نیمہ اول میں یعنی امام باقرؑ اور
امام صادقؑ کے زمانے میں شیعوں کو کچھ آزادی حاصل ہوئی اور نقل حدیث، روایت حدیث، ضبط حدیث اور کتابتِ حدیث کو عروج حاصل ہوا۔ چہار ہزار ثقہ افراد نے اس دور میں امام صادقؑ سے روایات نقل کی ہیں اور اصول میں چار سو حدیثی کتب اسی دوران تالیف کی گئیں جو ’’اصول اربعمأۃ‘‘ (چار سو کتابیں جو روائی کتب کی مآخذ ہیں) کے نام سے معروف ہیں۔
امام رضاؑ کی ولی عہدی کے معاملات اور حضرتؑ کی
ایران کی جانب ہجرت کے بعد آپؑ کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد آپؑ کے ساتھ ملحق ہو گئی؛ یوں کہ ۳۶۰ افراد نے بلا واسطہ آپؑ سے احادیث نقل کی ہیں۔
[ترمیم]
شیعہ حدیث کی جامع کتب جو سالہا سال کی مدت اور مؤلفین کے طولانی سفروں کی مشقت کے بعد تالیف و تدوین ہوئیں؛ میں سے درج ذیل کتب کے نام قابل ذکر ہیں:
-
الکافی مؤلف
ثقۃ الاسلام کلینی (متوفی ۳۲۹ ھ)؛
من لا یحضرہ الفقیہ مؤلف
شیخ صدوق (متوفی ۳۸۱ھ)؛
تہذیب الاحکام اور
استبصار مؤلف
شیخ طوسی (۳۸۵- ۴۶۰ھ)
بحارالانوار مؤلف
علامہ مجلسی (متوفی ۱۱۱۱ ھ)
وافی مؤلف
فیض کاشانی (متوفی ۱۰۹۱ھ)؛
وسائل الشیعہ مؤلف
شیخ حر عاملی (متوفی ۱۱۰۴ھ)؛
مستدرک الوسائل مؤلف
علامہ نوری (متوفی ۱۳۲۰ھ)؛
[ترمیم]
-
عبید الله بن ابی رافع، علم تاریخ کے پہلے مورخ اور مصنف؛ محمد بن اسحاق مطلبی، علم سیر و مغازی کے پہلے مصنف؛ ابو عبدالله بن جبلۃ بن حیان، علم رجال کے پہلے مصنف؛
حسن بن موسیٰ نوبختی، علم فرق کے پہلے مصنف؛
عالم اسلام کی ان شخصیات میں سے ہر ایک نے اسلامی علوم کے کسی نہ کسی شعبے کو اختیار کیا اور اسے زبردست ترقی دی۔ نوبختی کی کتاب ’’الفرق‘‘ آج بھی اسلامی علوم کے محققین و اسکالرز کی دسترس میں ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
پایگاه اطلاع رسانی حوزہ، گنجینہ معارف، ماخوذ از مقالہ علم حدیث، شماره ۶۳۳۳۔