حدیث (روایت)پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریںقول، فعل یا تقریرِ معصومؑ کو حدیث کہتے ہیں۔ اس کو خبر، سنت اور روایت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ فہرست مندرجات۱.۱ - عبد اللہ مامقانی کی نگاہ میں ۲ - حدیث کے اصطلاحی معنی ۲.۱ - شہید ثانی کی نگاہ میں ۲.۲ - شیخ بہائی کی نگاہ میں ۲.۳ - میرزا قمی کی نگاہ میں ۲.۴ - جلال الدین سیوطی کی نگاہ میں ۳ - حدیث کو حدیث کہنے کی وجہ تسمیہ ۳.۱ - حدیث کو حدیث کہنے کی دیگر وجوہ ۳.۲ - حدیث کا خبر کے معنی میں آنا ۳.۳ - قابل توجہ نکتہ ۴ - سنت کا حدیث کے ساتھ تعلق ۴.۱ - لفظ سنت کا علم فقہ میں استعمال ۵ - روایت کا حدیث کے ساتھ تعلق ۶ - حدیث کا اثر کے ساتھ تعلق ۷ - تحمل حدیث کے صیغے ۸ - تحدیث کے صیغوں کو مختصر کرنے کا طریقہ ۹ - تحویل سند کی علامت ۱۰ - سند کے فقط آخری راوی کو ذکر کرنے کا طریقہ ۱۱ - کتب اربعہ میں اسانید ذکر کرنے کی روش ۱۲ - حوالہ جات ۱۳ - مأخذ حدیث کے لغوی معنی[ترمیم]عربی لغت کے قدیم ترین مصدر کتاب العین میں حدیث کا لغوی معنی ہر نئی اور جدید چیز کے وارد ہوئے ہیں، جیسے مجمع البحرین میں فخر الدین طریحی نے بھی حدیث کو کلام کا مترادف قرار دیا ہے۔ فیومی کلمہ حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ بولی جانی والی اور نقل کی جانے والی چیزوں کو حدیث کہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ رسولؐ کو حدیث کہتے ہیں۔ معروف لغوی و نحوی فرّاء نے تحریر کیا ہے کہ حقیقت میں لفظِ احادیث کا مفرد کلمہِ ← عبد اللہ مامقانی کی نگاہ میںمعروف رجالی عبد اللہ مامقانی لفظِ حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حدیث کے اصطلاحی معنی[ترمیم]علماء اور محدثین نے حدیث کی متعدد تعریفیں بیان کی ہیں۔ ذیل میں ہم حدیث کی چند اصطلاحی تعریفیں ملاحظہ کرتے ہیں: ← شہید ثانی کی نگاہ میںشہید ثانی خبر اور حدیث کو مترادف قرار دینے کے بعدفرماتے ہیں کہ خبر سے مراد وہی حدیث ہے جس کا اطلاق قول رسولؐ، قولِ امامؑ ،قول صحابی اور قول تابعی پر ہوتا ہے، اسی طرح ان کے فعل اور تقریر کو بھی حدیث کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ حدیث کا مذکورہ معنی زیادہ مشہور اور اس کے لغوی معنی کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ شہید ثانی کی یہ تعریف حدیث کے لغوی معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے اور اکثر علماء اہل سنت نے بھی حدیث کی یہی تعریف بیان کی ہے جس کے مطابق خبر اور حدیث آپس میں مترادف ہیں۔ ← شیخ بہائی کی نگاہ میںشیخ بہائی اپنے رسالہ الوجیزۃ میں حدیث کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ← میرزا قمی کی نگاہ میںمیرزا قمی اصولی اعتبار سے حدیث کا جائزہ لیتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ قول ،فعل اور تقریر معصومؑ سے حکایت کو حدیث قرار دیا ہے۔ آیت اللہ مامقانی نے بھی اپنی کتاب مقباس الہدایۃ میں حدیث کے بارے میں مختلف اقوال اور نظریات ذکر کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں: ← جلال الدین سیوطی کی نگاہ میںسیوطی نے علماء اور محدثین کی نظر میں حدیث کی تعریف اس طرح سے بیان کی ہے کہ رسول اللہؐ، صحابہ اور تابعین کے قول ،فعل اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔ نیز ان علماء نے خبر کو حدیث کا مترادف قرار دیا ہے۔ چنانچہ حدیث اور خبر ہر دو کا اطلاق حدیث کی تینوں اقسام یعنی حدیث مرفوع (جو رسول اللہؐ کی طرف منسوب ہو)، حدیث موقوف (جو صحابی کی طرف منسوب ہو) اور حدیث مقطوع (جو تابعی کی طرف منسوب ہو) پر یکساں طور ہوتا ہے۔البتہ اہل سنت کے ہاں مذکورہ تعریف کے علاوہ دیگر تعریفیں بھی بیان کی گئی ہیں جن میں خبر اور حدیث میں فرق بھی بیان کیا گیا ہے۔ تدریب الراوی میں سیوطی نے ان تمام اقوال کو رقم کیا ہے جس کے بعد یہ تبصرہ کیا ہے کہ رسول اللہؐ کی طرف منسوب چیز کو حدیث کہتے ہیں، جبکہ ان کے علاوہ صحابی اور تابعین وغیرہ کی طرف منسوب چیزوں کو خبر کہا جاتا ہے۔ چنانچہ جو شخص سنت کے درس و تدریس اور نقل وکتابت میں مشغول ہو اس کو محدث کہا جاتا ہے اور تاریخ، واقعات اور حوادث کے نقل کرنے والے کو اخباری کہا جاتا ہے۔ بعض اہل سنت محققین قائل ہیں کہ ابتداء میں حدیث کی اصطلاح کا اطلاق فقط رسول اللہؐ کے قول پر ہوتا تھا لیکن آپؐ کی رحلت کے بعد اس کے معنی میں وسعت آ گئی اور آنحضرتؐ سے منقول ہر چیز کو حدیث کہا جانے لگا۔ لہذا رسول اللہؐ کے قول، ان کے فعل اور تقریر کو حدیث سے تعبیر کیا جانے لگا۔ ابن حجر عسقلانی نے بیان کیا ہے کہ شریعت کی اصطلاح میں ہر وہ شیء جو رسول اللہؐ کی طرف منسوب ہو حدیث کہلاتی ہے اور آنحضرتؐ کے قول و فعل و تقریر وغیرہ کو حدیث کہنا درحقیقت قرآن اور حدیث میں فرق کرنے کی خاطر ہے۔ کیونکہ حدیث کی ضد قدیم ہے اور قرآن کریم قدیم ہے۔ حدیث کو حدیث کہنے کی وجہ تسمیہ[ترمیم]کلامی و حدیثی کتب میں وارد ہونے والے اقوال و آراء سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کے اکثر علماء قرآن کریم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں۔ اس بناء پر انہوں نے قرآن کے مقابلے میں رسول اللہؐ کے توسط سے آنے والے احکام کو حدیث کہاہے۔ ان کی نظر میں چونکہ کلامِ الہی قدیم ہے اس لیے اس سے فرق کرنے کے لیے کلامِ رسولؐ کو حدیث کہہ دیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ رسول اللہؐ اور امام کے قول کو بھی اسی وجہ سے حدیث کہہ دیا گیا ہو۔ کیونکہ معصومؑ کا قول الہی قوانین اور تشریعِ اسلامی کے اعتبار سے تازگی اور جدت کو لیے ہوئے ہے۔ نیز اسی معنی جدت، تازگی اور طروات کو ملاحظہ کرتے ہوئے خود قرآن کریم کو بعض آیاتِ مبارکہ میں حدیث کہا گیا ہے۔ درج ذیل آیات میں قرآن کریم کو حدیث سے تعبیر کیا گیا ہے: ۱۔ ۲۔ ۳۔ ۴۔ ← حدیث کو حدیث کہنے کی دیگر وجوہبعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ حدیث میں چونکہ حروف قہری طور پر پے در پے اور یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور بعد والا حرف پہلے والے حرف کے بعد وجود میں آتا ہے اس لیے اس کو حدیث کہہ دیا جاتا ہے۔ بعض نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ حدیث کو اس لیے حدیث کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے سامع کے دل میں نئے علوم اور معانی ایجاد ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات محققین کی نظر میں درست نہیں ہے کیونکہ یہ بعض اہل سنت کا نظریہ ہے کہ حدیث میں چونکہ تازگی، طراوت اور جدت ہوتی ہے اس لیے اس کو حدیث کہا جاتا ہے یا کلامِ الہی قدیم ہے جس سے فرق کرنے کے لیے مقابل کلام کو حدیث کہا گیا ہے۔ ← حدیث کا خبر کے معنی میں آنابعض اوقات حدیث خبر کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظِ خبر سے مراد ← قابل توجہ نکتہاس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ علماءِ لغت عموما ایک لفظ کے مواردِ استعمال کو اپنی لغت کی کتابوں میں ذکر کرتے ہیں۔ لفظ کے استعمال میں ان کی توجہ اس طرف نہیں ہوتی کہ ایک لفظ کے لغوی معنی اور اس کے مصادیق میں کیا فرق ہے، چنانچہ وہ بعض اوقات مصادیق کو لغوی معنی قرار دے دیتے ہیں، مثلا خبر کا ظاہری طور پر معنی دوسر ے کو مطلع اور باخبر کرنا ہے، جیساکہ المصباح المنیر و المنجد وغیرہ مذکور ہے۔ اسی طرح سنت کا حدیث کے ساتھ تعلق[ترمیم]قول ،فعل اور تقریر معصوم کو سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظِ سنت کے اصلی حروف س- ن - ن ہیں جس کے لغوی معنی پسندیدہ راستے کے ہیں۔ یہ کلمہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ذکر ہوا ہے، جیسے: ← لفظ سنت کا علم فقہ میں استعمالمحدثین کی اصطلاح میں سنت سے مراد معصومؑ کا راستہ اور ان کے اقوال وافعال وتقریرات ہیں، جیساکہ حدیث مبارک میں وارد ہوا ہے: روایت کا حدیث کے ساتھ تعلق[ترمیم]فخر الدین طریحی نے مجمع البحرین میں ذکر کیا ہے کہ اصطلاح میں روایت اس خبر کو کہتے ہیں جس کی نسبت معصومؑ پر ختم ہو۔ روایت لغت کے لحاظ سے حدیث کا اثر کے ساتھ تعلق[ترمیم]اثر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی جوہری نے ان الفاظ میں ذکر کیے ہیں: صاحب قاموس تحریر کرتے ہیں کہ تحمل حدیث کے صیغے[ترمیم]لفظِ حدیث کو باب تفعیل میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلا تحدیث کے صیغوں کو مختصر کرنے کا طریقہ[ترمیم]متقدمین کی روش یہ تھی کہ وہ تحویل سند کی علامت[ترمیم]کوئی محدث جب کسی حدیث کو دو یا دو سے زیادہ اسانید کے ساتھ نقل کرتا ہے تو وہ ایک سند سے دوسری سند کی طرف منتقل ہونے کی صورت میں (ح) لکھے گا جو حیلولہ ،تحویل یا انتقال پر دلالت کرے گا۔ اسی طرح سند میں (قال )جو تکرار ہوتا ہے اسکو حذف کردیا جاتا ہے اورفقط ایک (قال)کو باقی رہنے دیا جاتا ہے جیسے: سند کے فقط آخری راوی کو ذکر کرنے کا طریقہ[ترمیم]محدثین حدیث کو مختصر کرنے کیلئے ایک اور طریقے کو بروئے کار لاتے ہیں وہ یہ کہ حدیث کو نقل کرنے والے راویوں میں سے فقط آخری راوی کا نام ذکر کرلیتے ہیں اسکے بعد متن ذکر کرتے ہیں باقی ماندہ سند کو ذکر نہیں کرتے ،جیسے : صحیحہ زرارہ ، صحیحہ محمد بن مسلم ، یا موثقہ سکونی وغیرہ۔ واضح رہے اس طریقہ کے مطابق نقل ہونے والی احادیث ایک جیسے نہیں ہوتی بلکہ ممکن ہے اسطرح منقول حدیث متصل اور مسند ہو اور ممکن ہے مرسل اور ضعیف کے حکم میں ہو ، یعنی اگر حدیث مشہور کتب جیسے کتب اربعہ سے منقول ہو تو مسند اور متصل شمار ہوگی اور انکے علاوہ دیگر کتب سے منقول ہو تو مرسل شمار ہوگی ۔ اختصار سند کی خاطر محدثین کے ہاں ایک اور طریقہ بھی رائج ہے وہ یہ کہ اگر متعدد احادیث ایک ہی راوی سے منقول ہوں تو پہلی حدیث میں پوری سند کو ذکر کردی جاتی ہے اسکے بعدوالی احادیث میں فقط کتب اربعہ میں اسانید ذکر کرنے کی روش[ترمیم]صاحب معالم فرماتے ہیں کہ یہ بات جاننا ضروری ہے کہ کتب اربعہ کے مصنفین کی سند ذکر کرنے کی روش ایک جیسی نہیں ہے بلکہ ہر ایک نے اسانید ذکر کرنے کے لئے ایک خاص طریقہ اختیار کیا ہے، مثلا ثقۃ الاسلام کلینی پوری سند کو ذکر کرتے ہیں۔ البتہ اگر حدیث معنی کے اعتبار سے یکساں ہوں جوکہ متعدد اسانید کے ساتھ ایک ہی مقام پر وارد ہوئی ہے تو شیخ کلینی ما قبل حدیث کی سند پر اکتفا کرتے ہیں۔ شیخ صدوق اکثر و بیشتر احادیث کو بغیر سند اور مرسل ذکر کرتے ہیں لیکن اپنی کتاب کے آخر میں مشیخہ کے نام سے انہوں نے تمام راویوں کو ذکر کر دیا ہے جس کتاب میں موجود ہر حدیث کی کامل سند میسر آ جاتی ہے۔ شیخ طوسیؒ کی روش شیخ کلینیؒ اور شیخ طوسیؒ دونوں سے مختلف ہے یعنی وہ کبھی پوری سند کو ذکر کرتے ہیں اور کھبی کھبار سند کے کچھ حصے کو ذکر کرتے ہیں اور اسکے ابتداء کو حذف کرتے ہیں جسکو حدیث کی اصطلاح میں( تعلیق) کہتے ہیں ، لیکن شیخ طوسی ؒنے تہذیب الاحکام اور الاستبصار میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ جس حدیث کی سند کے پہلے حصہ کو ذکر نہیں کیا ہے وہ اسی صاحب کتاب کی جانب سے ہے کہ جسکی کتاب سے مذکورہ حدیث اخذ کی گئی ہے ،اور اپنی کتاب فہرست میں اصحاب کتب حدیث تک اپنی سند اور طریق کو بیان کیا ہے۔ صاحب معالم نے بھی اپنی کتاب منتقی الجمان میں شیخ طوسیؒ کی اصحاب کتب اور اصول حدیث تک طریق اور سند کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ حوالہ جات[ترمیم]مأخذ[ترمیم]سایت اندیشہ قم۔ سایت پژوہہ، مقالہ تدوین حدیث (قسمت اول) سے یہ تحریر لی گئی ہے، تاریخ مشاہدہ:۱۳۹۵/۱۲/۱۶۔ |