شیخ بہائی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بہاء الدین محمد بن حسین بن عبد الصمد حارثی تخلص بہائی، المعروف شیخ بہائی یا بہاء الدین عاملی؛ شیعہ فقیہ، محدث، حکیم اور ریاضی دان ہیں۔ آپ کا تعلق علمائے جبل عامل سے ہے۔ شیخ کا نسب امیر المؤمنینؑ کے جلیل ‌القدر صحابی حضرت حارث ہمدانی تک پہنچتا ہے۔


خاندان

[ترمیم]

شیخ بہائی کے والد بزرگوار عز الدین حسین بن عبد الصمد بن محمد بن علی بن حسین (۹۱۸-۹۸۴ ھ) دسویں صدی ہجری کے عظیم فقیہ اور عالم ہیں۔ آپ فقہ، اصول، حدیث، رجال، حکمت، کلام، ریاضی، تفسیر، شعر، تاریخ، لغت اور اس زمانے کے بہت سے رائج علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ شہید ثانی کے ممتاز شاگرد ہیں اور بعض اوقات سفر میں اپنے استاد کے ہمراہ ہوتے تھے۔ اپنے استاد کی شہادت کے بعد آپ ایران آ گئے اور اصفہان میں اسلامی علوم کی تدریس میں مشغول ہو گئے۔ شاہ طہماسب صفوی نے آپ سے درخواست کی کہ صفویوں کے دار الحکومت قزوین تشریف لے آئیں اور آپ نے بھی اسے قبول کر لیا۔ آپ صفوی حکومت کے شیخ الاسلام کے عنوان سے منتخب ہوئے۔ آپ سالہا سال ہرات اور مشہد میں لوگوں کو وعظ و ارشاد اور راہ حق کی ہدایت کرتے رہے۔
عز الدین نماز جمعہ کے وجوب عینی کے قائل تھے اور مشہد و اصفہان میں نماز جمعہ پڑھاتے رہے۔ آپ حج کرنے کے بعد بحرین تشریف لے گئے اور زندگی کے آخری لمحات تک وہاں تبلیغ اور اسلامی تہذیب کے فروغ میں مشغول رہے۔ آخر کار آٹھ ربیع الاول ۹۸۴ھ کو انتقال کر گئے اور بحرین کے مضافاتی علاقے ہجر کے گاؤں ’’مصلی‘‘ میں مدفون ہوئے۔
شیخ بہائی کے دادا شیخ عبدالصمد (متوفی ۹۳۵ ھ) بھی دسویں صدی ہجری کے عظیم علما میں سے ہیں۔ آپ شہید ثانی کے استاد ہیں۔ شیخ بہائی کے دادا شمس الدین محمد (متوفی ۸۷۶ یا ۸۸۶ھ) بھی نویں صدی ہجری کے عطیم عالم تھے۔ آپ کی علم رجال اور علما کے شرح حال سے متعلق گرانقدر تالیفات ہیں کہ جن میں سے متعدد کو علامہ مجلسیؒ نے بحار الانوار کی آخری جلدوں میں جمع کیا ہے۔
[۳] زین‌الدین بن علی بن احمد عاملی، مشعل شریعت۔
[۴] علی صادقی، از مجموعه دیدار با ابرار، ص۴۵۔

شیخ بہائی کے خاندان کی نسبت حضرت علیؑ کے باوفا ساتھی حارث ہمدانی تک پہنچتی ہے۔ شیخ بہائی کا آبائی وطن جبل عامل عظیم شیعہ مجتہدین، مفکرین، علما اور مصنفین کی جائے پیدائش ہے کہ جن میں سے محقق ثانی (متوفی ۹۴۰ ھ)، شہید اول (۷۳۴ - ۷۸۶ ھ)، شہید ثانی (۹۱۱-۹۶۶ ھ) کے نام قابل ذکر ہیں۔ ابوذر غفاری شام اور لبنان کے پہلے شیعہ مبلغ تھے۔ انہیں خلیفہ سوم کے دور میں شام جلا وطن کیا گیا تھا پس انہوں نے ان علاقوں میں تشیع کا بیج بویا اور اس زمانے سے آج تک جبل عامل نیک اور متقی علما کی تربیت گاہ ہے۔

زندگی ‌نامہ

[ترمیم]

آپ نے کچھ تعلیم وطن میں حاصل کی۔ بچپن میں اپنے والد شیخ حسین بن عبدالصمد جو شہید ثانی کے شاگرد اور تازہ تشکیل پانے والی صفوی حکومت کے حامی بھی تھے؛ کے ہمراہ ایران تشریف لے آئے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ کے والد کو شہید ثانی کی شہادت کے بعد عثمانی حکومت کی جانب سے خطرات کا سامنا تھا۔ آپ شاہ طہماسب اول کے زمانے میں اصفہان پہنچے اور وہاں مختصر مدت میں مختلف علوم کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عوامی سطح پر مقبول ہو گئے حتی شاہ عباس صفوی بھی آپ کا بڑا احترام کرتے تھے۔

ولادت

[ترمیم]

بـہاء الدین محمد بن عز الدین حسین بن عبدالصمد بن شمس الدین محمد بن علی بن حسین بن مـحمد بن صالح حارثی ہمدانی عاملی جبعی، المعروف شیخ ‌بہائی، ۱۷ ذی الحج سنہ ۹۵۳ ھ (جبکہ اعیان الشیعه میں آپ کی تاریخ ولادت یہ ہے: جمعرات، سنہ ۹۵۳ ھ کے محرم سے تیرہ دن قبل) کو جبل عامل کے مضافاتی علاقے بعلبک کے ایک گاؤں ’’جبع‘‘ (شہید ثانی کی جائے پیدائش) میں پیدا ہوئے۔ محمد کی تربیت ایک پاک و پاکیزہ گھرانے میں ہوئی۔ موجودہ لبنان اس زمانے میں شیعہ تہذیب کا گہوارا تھا۔ محمد نے بچپن اور نوجوانی کا زمانہ اس پاک سرزمین پر گزارا۔ قرآن ، شرعی احکام اور نماز کی تعلیم اپنے والدین اور جبع بعلبک کے پرہیزگار اساتذہ سے حاصل کی اور علیؑ و اولاد علیؑ کی محبت کے ہمراہ آپ بڑے ہوئے۔

ہجرت

[ترمیم]

محمد نے ابھی زندگی کی تیرہ بہاریں بھی نہ دیکھی تھیں کہ ایک طولانی سفر پر چل نکلے۔ جوانی کے ایام میں آپ کو ایک نیک زوجہ کا انتخاب کرنا تھا، اس لیے ضروری غور و خوض اور اپنے والد کی تجویز پر علم و ایمان سے منور ایک شریف گھرانے کے ساتھ وصلت کی۔ مورخین لکھتے ہیں: شیخ بہاء الدین کی زوجہ نیک صورت، نیک سیرت، عالمہ، حدیث شناس، فقیہہ، محققہ اور مدرسہ تھیں۔ اس زمانے میں بہت سی خواتین بلکہ زیادہ تر مرد بھی لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے محروم تھے اور یا خواتین کیلئے حصول علم کو ضروری نہیں سمجھتے تھے، مگر شیخ بہاء الدین کی زوجہ ایک بلند پایہ استاد تھیں۔ آپ کے والد نے شہید ثانی (متوفی ۹۶۶ھ) کی شہادت کے بعد اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر شیعت کے نئے گہوارے ایران کی طرف رخت سفر باندھنے کا ارادہ کیا۔
[۸] سیدمحسن امین عاملی، اعیان الشیعه، ج۶، ص۵۹۔
آپ کے والد کا شہید ثانی کے ساتھ ایک خاص تعلق تھا۔ شہید ثانی کی جائے پیدائش بھی ’’جبع‘‘ تھی۔ آپ سالہا سال ان کے استاد رہے اور مصر و استنبول کے سفر میں انہیں اپنے ساتھ رکھا۔
سنی علما کے اکسانے پر عثمانی حکومت کے کارندوں کے ہاتھوں استاد کی شہادت کے بعد جبل عامل شیعوں اور شیعہ علما کیلئے ناامن ہو گیا۔ دوسری جانب نوخیز صفوی حکومت نے ملک میں شیعہ مذہب کو سرکاری سطح پر قبول کر کے شیعہ علما کی دنیا بھر سے ہجرت کی راہ ہموار کی۔ بہت سے بزرگ شیعہ علما جو عثمانی بادشاہت کی ایذا رسانیوں سے تنگ تھے؛ ایران چلے آئے اور حوزات علمیہ نئے سرے سے آباد ہو گئے۔ محقق کرکی (متوفی ۹۴۰ھ) (محقق کرکی جو محقق ثانی کے نام سے بھی مشہور ہیں، وہ بلند پایہ فقیہ ہیں جو شاہ سلیمان صفوی کی درخواست پر ۹۱۶ سے ۹۲۹ھ تک حوزہ علمیہ نجف سے قزوین تشریف لائے اور سنہ ۹۳۶ھ میں شاہ طہماسب کی جانب سے علمائے شیعہ ایران کے سرپرست اور شیخ الاسلام مقرر ہوئے۔ شیخ الاسلام اس زمانے میں ولی فقیہ جیسا عہدہ تھا۔ آپ کی وفات کے بعد شیخ الاسلام کا منصب آپ کے شاگرد شیخ علی منشار کو ملا اور ان کی رحلت کے بعد جبل عامل کے تیسرے مجتہد اور شیخ بہائی کے داماد شیخ الاسلام کے عنوان سے منتخب ہوئے) شیخ لطف اللہ میسی (متوفی ۱۰۳۲ یا ۱۰۳۵ ھ) اور شیخ علی منشار عاملی جبل عامل کے وہ مفکرین ہیں جنہوں نے ایران کی طرف ہجرت کی۔
شاه طہماسب نے سنہ ۹۶۲ ھ میں قزوین کو ایران کا دار الحکومت قرار دیا اور ان کی حکومت کے ایام قزوین کی تاریخ کا سنہری دور ہیں۔ اسی زمانے میں شیعہ علما دنیا بھر سے قزوین آئے اور حوزہ علمیہ قزوین کی بنیاد رکھی گئی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حوزہ علمیہ قزوین کے بانی محقق ثانی ہیں، علاوہ ازیں شاہ عباس کی جانب سے سنہ ۱۰۰۶ھ میں اصفہان کو دار الحکومت بنانے کے بعد حوزہ علمیہ اصفہان بھی پررونق ہو گیا۔
شیخ بہائی نے اسلامی علوم کی تعلیم حوزہ علمیہ قزوین و اصفہان میں حاصل کی۔ انہوں نے سالہا سال تک اسلامی ممالک کے بہت سے علما سے کسب فیض کیا۔

← سفر


شیخ بہائی کافی مدت تک ہرات کے شیخ الاسلام رہے اور اس علاقے میں لوگوں کیلئے شرعی احکام بیان کرنے کی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ آپ کچھ مدت کے بعد اس عہدے سے علیٰحدہ ہو گئے اور دور دراز کے علمی اور تحقیقاتی دوروں میں مصروف ہو گئے۔
شیخ بہائی نے اپنی زندگی کے تیس سال سفر میں گزارے اور مختلف شہروں اور ممالک کا سفر کیا۔
۱۔ جوانی کے ایام میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اصفہان سے عراق اور حجاز تشریف لے گئے، عتبات عالیات کی زیارت کے بعد حج کیا۔
۲۔ مشہد مقدس کے ایک سفر میں شاہ عباس کبیر کے ہمراہ اصفہان سے مشہد رضوی کا سفر پیدل طے کیا۔
۳۔ آپ نے مصر کا ایک سفر کیا اور وہاں پر اپنی معروف کتاب کشکول تالیف کی۔
۴۔ مصر سے واپسی کے بعد روم، شام اور بیت المقدس کے سفر کا ارادہ رکھتے تھے۔
۵۔ شام سے حلب روانہ ہو گئے اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں اصفہان واپس آ گئے اور چند سال تک وہاں مقیم رہے۔
افسوس کہ شیخ کے چند ساتھیوں اور عقیدت مندوں کے توسط سے چند مختصر یاد داشتوں کے سوا اس تیس سالہ سیاحت کے بارے میں کوئی سفر نامہ ہم تک نہیں پہنچا ہے۔
آپ تشیع کے ایک بے مثال مبلغ تھے اور سفر کی مشقت برداشت کر کے شیعہ تہذیب کے احیا کیلئے کوشاں رہے۔ اس زمانے میں سفر کی مشکلات بہت زیادہ تھیں۔ چوروں کے حملے کا خطرہ، بھیڑیے، راستہ بھولنا، پیاس کا غلبہ، صحرا میں گم ہو جانا اور دسیوں دیگر خطرات ان کے فولادی ارادے کے سامنے کچھ نہ تھے۔ انہوں نے مدرسے کے حجرے، دربار، شیخ الاسلام کے منصب، شیعہ علما کی سربراہی اور عوام کی مرجعیت سے دل نہیں لگایا اور اسلام دشمنوں کے تشیع پر حملوں کے جواب میں گوشہ نشینی اختیار نہیں کی بلکہ لوگوں کے درمیان رہے اور ان کے درد و غم سے آشنا ہوئے پھر اسلام کے مریض معاشرے کی دوا کرنے میں مشغول رہے۔ انہوں نے لمحہ بھر کیلئے تعلیم، تدریس، تبلیغ، عبادت اور تالیف سے غفلت نہیں کی اور بعض کتب کو سفر میں تصنیف کیا۔ قم، کرمانشاہ، گنجہ، تبریز، ہرات اور مشہد وہ شہر ہیں جو ان کے قلم کے میزبان رہے۔
یہ عظیم عالم اپنے سفر کے دوران اہل سنت علما کے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور اہل سنت کے عظیم القدر فقہا کا احترام کرتے تھے، ان کے سامنے ادب سے تشریف فرما ہوتے تھے اور ان کے علم سے استفادہ کرتے تھے۔ آپ نے القدس میں «ابن ابی‌اللطیف مقدسی»، دمشق میں «حافظ حسین کربلائی» اور «حسن بورینی» اور حَلَب میں «شیخ عمر عرضی» سے ملاقات کی۔
[۱۰] آقا بزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعه، ج۵، ص۸۷۔


← سفر کے اسباب


آپ نے کچھ مدت کے بعد سفر کا ارادہ کیا اور ایک لمبے سفر کا آغاز کیا۔
[۱۱] شیخ بهایی، کتاب الاثنا عشریه‌، ج۱، ص ۱۱، مقدمه و تحقیق محمد حسون، اشراف سیدمحمود المرعشی، چاپ اول، جمادی الآخره، منشورات مکتبة آیة‌الله العظمی المرعشی النجفی، ۱۴۰۹۔
سفر کا ایک سبب شیخ کا سیر و سیاحت، ملاقاتوں اور تجربات سے سیکھنے کا شوق تھا۔ دوسرا سبب جو اس سفر کا باعث بنا، وہ آس پاس کے لوگوں کی شیخ سے حسادت تھی کیونکہ وہ شیخ کے صفوی دربار میں مقام اور احترام کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ شیخ بہائی مختلف ممالک کا سفر کرتے تھے کہ جس کے دوران انہیں مختلف علوم کے بہت سے اساتذہ سے کسب فیض کا موقع میسر آیا۔ قدرتی صلاحیت اور سرشار ذوق کے علاوہ آپ ایک جامع شخصیت کے مالک تھے اور آپ نے متنوع کتابیں تالیف کیں۔ ادیب اور شاعر بھی تھے اور فلسفہ دان اور ریاضی دان بھی ، فقیہ اور مفسر ہونے کے ساتھ ساتھ طب کو بھی جانتے تھے۔ پہلے عالم ہیں کہ جنہوں نے جامع عباسی کے نام سے فقہ استدلالی کا مکمل دورہ فارسی زبان میں تحریر کیا۔ علم فقہ شیخ بہائی کا تخصصی مضمون نہیں تھا اس لیے صف اول کے فقہا میں سے شمار نہیں ہوتے تھے، اس کے باوجود انہوں نے بہت زیادہ شاگردوں کی تربیت کی کہ جن میں سے ملا صدرا شیرازی، ملا محمد تقی مجلسی اول ( بحار الانوار کے مؤلف مجلسی دوم کے والد) اور کتاب آیات الاحکام کے مصنف فاضل جواد قابل ذکر ہیں۔

شیخ ‌الاسلام کا منصب

[ترمیم]

شیخ الاسلام کا منصب محقق کرکی کے بعد شیخ بہائی کے سسر شیخ علی منشار کو ملا۔ یہ اعلیٰ ترین اسلامی منصب تھا اور آج کی مرجعیت کی طرح انہوں نے حکومتی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے شیعت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سنہ ۱۰۰۶ھ کے بعد شیخ بہائی اصفہان کے شیخ الاسلام مقرر ہوئے۔ سنہ ۱۰۰۶ھ میں اصفہان، شاہ عباس کبیر کی جانب سے ایران کا دار الحکومت بنا۔ اصفہان کو دار الخلافہ بنانے کے بعد اسلامی دنیا سے شیعہ علما نے اس شہر کا رخ کیا۔ کچھ عرصے کے بعد شیخ نے شیخ الاسلام کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور سنہ ۱۰۱۲ھ سے سنہ ۱۰۱۹ھ تک سفر میں رہے۔ پھر اصفہان واپس آ گئے اور زندگی کے آخری ایام تک یہیں رہے اور ایک مرتبہ پھر شیخ الاسلام کے عنوان سے شیعہ علما کی سربراہی کے منصب پر فائز رہے۔

نایاب مواقع

[ترمیم]

شیعہ علما طول تاریخ میں ظالم بادشاہوں کے خلاف برسر پیکار رہے۔ تاہم کبھی مجبور ہو جاتے تھے کہ اسلام اور مسلمانوں کی نجات کیلئے شاہی دربار کے ساتھ تعاون کریں۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ حکومتوں کی ثقافت ، معاشیات ، سیاسیات، مدیریت اور نظام حکومت کی اصلاح کی جائے۔ انہیں بادشاہ سے کسی قسم کی توقع نہیں ہوتی تھی بلکہ فقط ملک اور تشیع کی ترقی کیلئے اس کی مدد حاصل کرتے تھے۔
شیخ بہائی منجملہ ان علما میں سے ہیں کہ جنہوں نے تشیع کی ثقافت کی حفاظت اور ترویج کیلئے دربار کا رخ کیا۔ وہ بادشاہوں سے سخت متنفر تھے اور اپنے ایک شعری مجموعے میں یہ کہتے ہیں:
نان و حلوا چیست، دانی‌ای پسر ••• قرب شاهان است، زین قرب الحذر
می‌برد هوش از سر و از دل قرار ••• الفرار از قرب شاهان، الفرار
فرّخ آن که رخش همّت را بتاخت ••• کام از این حلوا و نان، شیرین نساخت
حیف باشد از تو‌ای صاحب سلوک ••• کاین همه نازی به تعظیم ملوک
قرب شاهان آفت جان تو شد ••• پایبند راه ایمان تو شد
جرعه‌ای از نهر قرآن نوش کن ••• آیه لاتَرْکَنُوا را گوش کن وَلا تَرْکَنُواالی الذّینَ ظَلَمُوا فَتَمَسّکُمُ النّارُ اور جو لوگ ظالم ہیں، ان کی طرف مائل نہ ہونا، نہیں تو تمہیں (دوزخ کی) آگ آلپٹے گی۔
صفوی حکومت نے شیعہ مذہب کو سرکاری مذہب کے طور پر تسلیم کیا۔ عظیم شیعہ فقہا اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھا کر صفوی دربار میں حاضر ہوئے تاکہ صفوی بادشاہوں سے تشیع کی خدمت کا کام لیں۔ صفوی دور میں ملنے والی فرصت کو دور اندیش شیعہ مفکرین نے غنیمت سمجھا اور خونریز صفوی بادشاہوں سے سخت نفرت کے باوجود انہوں نے اسلامی تہذیب کی ترویج کیلئے دربار میں مقام حاصل کیا تاکہ شایان شان ثقافتی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی خدمات انجام دے سکیں۔ صفوی بادشاہوں کو شیعہ علما نے مساجد، حوزات علمیہ، زیارت گاہیں اور کاروان سرا تعمیر کرنے کی طرف راغب کیا۔ ان مفکرین کی سرتوڑ کوششوں کی بدولت عاشورائی مراسم کے پر خروش دریا میں تلاطم برپا ہوا اور شیعہ حوزات علمیہ میں ان کی کوششوں سے جان پیدا ہو گئی اور ایران دنیا بھر کے عظیم فقہا کا میزبان بن گیا۔ شیعہ فقہا کی کوششوں کے بے پناہ ثمرات حاصل ہوئے۔ شیعہ مجتہدین کا صفویوں سے تعاون صرف اور صرف دین کی ترویج کیلئے تھا۔
امام خمینیؒ اس بارے میں فرماتے ہیں:
علما کے ایک گروہ نے کچھ مقامات کی قربانی دی ہے اور سلاطین کے ساتھ متصل ہو گئے؛ حالانکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ عوام بادشاہوں کے خلاف ہیں لیکن دین اور تشیع کی ترویج، مذہب حق کی ترویج، اسلام کی ترویج کی غرض سے یہ سلاطین کے ساتھ متصل ہوئے اور انہوں نے سلاطین کو خواہ یا ناخواہ مذہب تشیع کی ترویج کے راستے پر لگا دیا۔
یہ درباری ملاں نہ تھے۔ یہ اشتباہ ہے جو ہمارے کچھ اہل قلم کرتے ہیں ۔۔۔ کہ ان کے سیاسی مقاصد تھے۔ بھئی! ان کی دینی اغراض تھیں۔ اگر کوئی یہ سنے کہ مثلا علامہ مجلسی (رضوان‌الله‌علیه) محقق ثانی (رضوان‌الله‌علیه)... شیخ بہائی (رضوان‌الله‌علیه) کے ان کے ساتھ روابط تھے اور وہ ان کے پاس رفت و آمد رکھتے تھے، تعاون کرتے تھے، تو وہ یہ خیال نہ کرے کہ یہ علما منصب کیلئے وہاں باقی رہے ۔۔۔ ۔
انہوں نے قربانی دی۔ ایک نفسانی مجاہدت کی تاکہ مذہب کو ان کے ذریعے ان کے وسائل سے رائج کریں۔
شیخ بہائی دربار میں ہونے کے باوجود زاہدانہ زندگی گزارتے رہے۔ ان کا گھر فقیروں اور محتاجوں کی پناہ گاہ تھا۔ انہوں نے اپنی طاقت سے لوگوں کے مسائل حل کرنے کا کام لیا۔ ان کی تدبیر یہ تھی کہ صفوی حکومت کے کارندوں کی ہدایت کریں اور اس میں کچھ حد تک کامیاب بھی ہوئے۔

جامعیت

[ترمیم]

علوم و فنون میں جامعیت شیخ بہائی کا خاصہ تھی۔ شیخ محمد حسون کی کتاب اثنا عشریہ کے مقدمے میں مذکور ہے کہ آپ نے تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، رجال، فلسفہ، دعا، لغت، ریاضی، نجوم، شعر، فارسی ادب اور بہت سے دیگر علوم میں ۸۰ سے زیادہ کتابیں تالیف کیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کی مانند کسی کو کثرت علوم، وفورِ فضل اور علو مرتبہ کا حامل نہیں پایا۔
[۱۵] سیدحسن صدر، شرح فقیه، به نقل از تکمله امل الآمل۔


علمی اور قلمی مقام

[ترمیم]

فقیہ ربانی و عارف صمدانی، شیخ بہاء الدین محمد عاملی، دسویں صدی کے اواخر اور گیارہویں صدی کے اوائل سے تعلق رکھنے والے ایک نابغہ روزگار عالم تھے۔ علوم و فنون کی جامعیت و تنوع میں آپ انتہائی کم نظیر تھے۔ آپ کی معلومات انتہائی وسیع اور کثیر جہتی تھیں، اس اعتبار سے آپ کو فقہا کے مابین نمایاں امتیاز حاصل تھا۔ اگر ہم انہیں نابغہ زمان کا عنوان دیں تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔ آپ خود انتہائی تواضع اور عاجزی سے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں؛ چنانچہ کہتے ہیں: میں نے جدل اور مباحثے میں ہر ذو الفنون پر غلبہ حاصل کیا مگر ہرگز اس کا حریف نہ بن سکا جو کسی ایک فن میں استاد تھا۔
آپ اس قدر عظیم تھے کہ اہل سنت انہیں سنی قرار دیتے اور صوفیہ آپ کو تصوف کا بزرگ سمجھتے تھے۔
[۱۶] عباس قمی، مشاهیر دانشمندان اسلام، ۱۳۵۱، ترجمه محمدجواد نجفی و محمدباقر کمره‌ای، تهران، اسلامیه۔

شیخ بہائی مختلف علوم سے آگاہ تھے اور اسی آگاہی اور معلومات میں وسعت کے باعث آپ کی تصنیفات میں جاذبیت ہے۔ آپ کی کتابوں کو گزشتہ علما کی کتب، تالیفات اور آثار پر ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔ مثال کے طور پر کتاب اربعین جو ایک حدیثی و فقہی کتاب ہے؛ میں ریاضی و ھیئت کے مسائل سے بھی استفادہ کیا ہے اور اس کے مسائل کو روشن و ملموس صورت میں قارئین کیلئے بھی پیش کیا ہے۔
آپ عرفانی مشرب کے حامل تھے اور اپنے وقت کے نمایاں ترین عرفا میں شمار ہوتے تھے۔ لہٰذا میر داماد اور میر فندرسکی کے ساتھ خاص تعلق تھا۔ آپ کی مثنوی کا دیوان مولانا کے اسلوب پر ہے اور آپ کی غزلیات حافظ کی غزلیات سے مشابہت رکھتی ہیں۔
[۱۷] عبدالکریم گزی، تذکرة القبور، ص۶۰، م ۱۳۴۱، چاپ اول ثقفی اصفهان، ۱۴۰۵۔


فن تعمیر سے متعلق آثار

[ترمیم]

آپ کی بعض کتابیں جیسے مفتاح الفلاح ایک لمبے عرصے تک حوالے کی کتاب شمار ہوتی تھی اور بہت سے علما نے اس پر شرح و حاشیہ لکھا۔ آپ مختلف فنون جیسے فن تعمیر، رمل اور اسطرلاب میں بھی خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ آپ کے تعمیراتی کاموں میں سے امیر المومنینؑ کے روضہ مبارک، مسجد امام اصفہان، منار جنبان ، حمام گرم اصفہان اور بہت سی یادگار عمارتوں کا نام لیا جا سکتا ہے کہ جن میں سے ہر ایک اس زمانے کے عجائبات میں سے ہیں۔

اساتذہ

[ترمیم]

آپ نے بہت عالی مرتبہ اساتذہ کے پاس منطق، فلسفہ، ریاضیات، طب، نجوم و... کی تعلیم حاصل کی۔
آپ کے اساتذہ درج ذیل ہیں:
۱ - عزّالدین حسین جبل عاملی، شیخ کے پدر بزرگوار۔
۲ - ملاعبد الله بن شهاب‌الدین مدرّس یزدی: شیخ بہائی نے اس عظیم استاد کے پاس منطق اور فلسفہ و کلام کی تعلیم حاصل کی۔ ملا عبد اللہ مدرس یزدی اپنے زمانے کے بزرگ عالم تھے۔ سید علیخان کبیر نے کتاب «سلافة العصر» میں ان کے بارے میں لکھا ہے: عبد الله بن حسین یزدی، شیخ بہاء الدین، کے استاد اور اپنے وقت کے علامہ دہر تھے۔ علم، تقویٰ اور فضیلت میں کوئی آپ کے ہم پلہ نہ تھا۔ انہوں نے مفید کتب جیسے علم فقہ میں شرح قواعد اور علم منطق میں «شرح عجالہ» اور «شرح تهذیب» تالیف کی ہیں۔
۳ - ملا علی مذهّب: شیخ بہایی نے حساب، ہندسہ، جبر، مقابلہ اور ہیئت کی تعلیم ان سے حاصل کی۔
۴ - مولانا افضل قاضی: شیخ بہائی نے ان سے ریاضیات کی تعلیم حاصل کی۔
۵ - حکیم الدین (اعتمادالدین) محمود: شیخ بہائی نے بو علی سینا کی کتاب «قانون» ان سے پڑھی۔
۶ - محمد باقر یزدی۔
۷ - احمد کچائی۔
[۱۹] عباس قمی، فوائدالرضویه، ص۲۴۹۔
[۲۰] عباس قمی، فوائدالرضویه، ص۵۰۶۔

۸ - محمد بن عبد اللطیف مقدسی، سے صحیح بخاری کا درس لیا۔

شاگرد

[ترمیم]

شیخ کے علمی مقام اور دانش کو سمجھنے کیلئے یہی کافی ہے کہ گیارہویں صدی کے چالیس سے زائد علما و بزرگان نے ان سے کسب فیض کیا اور ان میں سے کچھ اشخاص یہ ہیں:
۱۔ ملاصدرا شیرازی، معروف بہ ملا صدرا، معروف فلسفی۔
۲۔ ملا محمد محسن بن مرتضی بن محمود، المعروف فیض کاشانی، صاحب تفسیر صافی۔
۳۔ فیّاض لاہیجی۔
۴۔ نظام‌الدین بن حسین ساوجی۔
۵۔ سیدحسین (اعیان الشیعہ میں ’’سید حسن‘‘ مذکور ہے) بن حیدر کرکی۔
۶۔ سیدماجد بحرانی۔
۷۔ شیخ جواد بغدادی، شہرت فاضل جواد، صاحب شرح خلاصہ الحساب و زبدة فی الاصول۔
۸۔ ملاخلیل غازی قزوینی۔
۹۔ میرزا رفیع‌الدین طباطبائی نائینی۔
۱۰۔ شیخ زین‌الدین عاملی، شہید ثانی کے پوتے (اعیان الشیعہ میں مذکور ہے کہ وہ صاحب معالم کے پوتے تھے)
۱۱۔ شرف‌الدین محمد رویدشتی (اعیان الشیعہ میں شریف‌الدین منقول ہے)
۱۲۔ شیخ محمد بن علی عاملی تبنینی۔
۱۳۔ مظفرالدین علی، کہ جنہوں نے شیخ بہائی کی زندگی کے بارے میں کتاب تحریر کی ہے۔
۱۴۔ محمدتقی مجلسی، علامہ محمد باقر مجلسی کے والد۔
۱۵۔ شیخ محمود بن حسام ‌الدین جزائری۔
۱۶۔ محقق سبزواری۔
۱۷۔ ملا عز الدین فرہانی، شہرت علینقی کمرہ ای، گیارہویں صدی کے معروف شاعر۔
۱۸۔ عنایت ‌اللہ علی کوہپایہ ‌ای المعروف قہپائی، مجمع‌الرجال کے مصنف۔
۱۹۔‌ ہاشم بن احمد بن عصام‌الدین اتکانی۔
۲۰۔ شیخ نجیب ‌الدین علی بن محمد بن مکّی عاملی جیبلی جبعی۔
۲۱۔ محمد صالح بن احمد مازندرانی۔
۲۲۔ حسن علی بن عبد اللہ شوشتری۔
۲۳۔ شیخ زین ‌الدین علی بن سلیمان بن درویش بن حاتم قدمی بحرانی۔
۲۴۔ ملا محمد باقر بن محمد مؤمن خراسانی، المعروف محقق شیخ الاسلام۔
۲۵۔ ملامحمد تقی بن مقصود علی مجلسی، صاحب روضة المتقین (متوفی ۱۰۷۰ھ)۔
۲۶۔ سید عز الدین حسینی کرکی عاملی، شہرت مجتہد مفتی اصفہانی۔
۲۷۔ سلطان ‌العلما سید حسین حسینی مرعشی، روضہ اور معالم کے حاشیہ نویس۔
[۲۳] عبدالرحیم عقیقی بخشایشی، فقهای نامدار شیعه، ص۲۲۳۔
[۲۵] سیدمحسن امین عاملی، اعیان الشیعه، ج۹، ص۲۲۴۔


تالیفات

[ترمیم]

تالیف اور اس میں تنوع کے اعتبار سے آپ عالم اسلام کے عظیم ترین عالم ہیں۔ بعض لوگوں نے ان کی تالیفات کی تعداد رسائل، حواشی اور تعلیقوں کے حساب سے ۲۰۰ شمار کی ہیں۔ مگر اس حوالے سے تازہ ترین تحقیق ڈاکٹر محمد باقر حجتی کی ہے جو تہران یونیورسٹی کے استاد ہیں، انہوں نے دمشق کانفرنس میں شیخ بہائی کے حوالے سے مقالہ پیش کیا ہے کہ جسے نشریہ الثقافۃ الاسلامیہ کے پانچویں شمارے میں شائع کیا گیا ہے۔ انہوں نے مکمل تحقیق اور جائزہ لینے کے بعد ان کی تعداد ۱۲۳ لکھی ہے۔

← فقہ


- اثنی عشریات؛ خمس، نماز، زکات، روزہ، حج۔
ـ پاسخ سؤال شاہ عباس۔
ـ پاسخ سؤالات شیخ صالح جابری۔
ـ اجوبہ مسائل جزائریہ۔
ـ احكام سجود و تلاوت۔
ـ جامع عباسی۔
ـ جواب مسائل شیخ جار۔
ـ حاشیہ بر ارشاد الاذہان علامہ حلی۔
ـ حاشیہ بر قواعد علامہ۔
ـ حاشیہ بر قواعد شہید اول۔
ـ حاشیہ بر احكام الشریعہ علامہ حلی۔
ـ الحبل المتین۔
ـ الحریریہ۔
ـ الذبیحیہ۔
ـ شرح فرائض نصیریہ خواجہ نصیرالدین طوسی۔
ـ فرائض بہائیہ (بخش ارث)۔
ـ قصر نماز در چہار مكان۔
ـ مسح بر قدمین۔
ـ مشرق الشمسین و اکسیر السعادتین۔
ـ رسالہ فی مباحث الكر۔
ـ رسالہ فی القصر و التخییر فی السفر۔
ـ شرح رسالہ فی الصوم۔
ـ شرح من لایحضرہ الفقیہ۔
ـ رسالہ فی فقہ الصلوہ۔
ـ رسالہ فی معرفۃ القبلہ۔
ـ رسالہ فی فقہ السجود۔

← قرآنیات


ـ حاشیہ انوار التنزیل، قاضی بیضاوی۔
ـ حل الحروف القرآنیہ۔
ـ حاشیہ كشاف زمخشری۔
ـ رسالہ خواجہ۔
ـ تفسیر عین الحیوہ۔
ـ العروہ الوثقی۔
ـ آیت شریفہ فَٱغۡسِلُواْ وُجُوهَكُمۡ وَأَيۡدِيَكُمۡ إِلَى ٱلۡمَرَافِقِ كہ در اربعین کی مفصل تفسیر۔
ـ تاویل الآیات۔
ـ اکسیر السعادتین (آیات الاحكام)۔

← حدیث


ـ حاشیہ كتاب من لایحضرہ الفقیہ۔
ـ اربعین۔

← ادعیہ و مناجات


ـ حاشیہ بر صحیفہ سجادیہ۔
ـ الحدیقۃ الہلالیۃ۔
ـ الحدیقۃ الاخلاقیۃ۔
ـ شرح دعای صباح۔
ـ مصباح العابدین۔
ـ مفتاح الفلاح فی عمل الیوم و اللیلۃ۔

← اصول اعتقادات


ـ اثبات وجود القائم۔
ـ اجوبہ سید زین ‌الدین۔
ـ الاعتقادیہ۔
ـ مقارنۃ بین امامیۃ و زیدیۃ۔
ـ وجوب شکر المنعم۔

← اصول فقہ


ـ زبدة الاصول۔
ـ شرح عضدی۔
ـ حاشیہ زبدة الاصول۔
ـ شرح حاشیہ خطائی۔
ـ الوجیزہ۔

← رجال و اجازات


ـ میر داماد کے نام آپ کا اجازہ؛
ـ مجد الدین کے نام آپ کا اجازہ۔
ـ حاشیہ خلاصۃ الأقوال علامہ حلیؒ۔
ـ حاشیہ رجال نجاشی۔
ـ حاشیہ معالم العلما، ابن شہرآشوب مازندرانی۔
ـ طبقات الرجال۔
ـ الفوائد الرجالیۃ۔
ـ الاجازات۔

← ادبیات و علوم عربیہ


ـ اسرار البلاغہ۔
ـ تخمیس غزل خیالی بخارایی۔
ـ تہذیب البیان۔
ـ تعزیت نامہ۔
ـ حاشیہ بر مطول تفتازانی۔
ـ دیوان اشعار فارسی و عربی۔
ـ ریاض الارواح۔
ـ شیر و شکر۔
ـ طوطی نامہ (شامل ۲۵۰۰ بیت)۔
ـ فوائد صمدیہ۔
ـ قصیدہ در مدح پیغمبر خدا۔
ـ كافیہ۔
ـ كشكول (۵ جلد)۔
ـ لغز الفوائد الصمدیہ۔
ـ لغز القانون۔
ـ لغز کافیہ۔
ـ لغز كشاف۔
ـ محاسن شعر سیف ‌الدولہ۔
ـ المخلاہ۔
ـ سید میرزا ابراہیم ہمدانی کے نام خط۔
ـ سوانح سفر الحجاز، معروف بہ مثنوی نان و حلوا۔
ـ نان و پنیر۔
ـ وسیلۃ الفوز و الامان فی مدح صاحب الزمان (عجل‌اللہ‌فرجہ‌الشریف)۔
ـ پند اہل دانش بہ زبان گربہ و موش۔

← وقائع الایام


ـ توضیح المقاصد فی ما اتفق فی ایام السنۃ۔

← ریاضیات


ـ اسطرلاب۔
ـ انوار الکواکب۔
ـ بحر الحساب۔
ـ التحفہ (اوزان شرعی)۔
ـ تحفہ حاتمی۔
ـ تحقیق جہت قبلہ۔
ـ تشریح الافلاک۔
ـ حاشیہ تشریح الافلاک۔
ـ حاشیہ شرح التذکرہ خواجہ نصیرالدین طوسی در ہیئت۔
ـ حاشیہ شرح قاضی ‌زادہ روحی۔
ـ الحساب۔
ـ حل اشكال عطارد و قمر۔
ـ خلاصۃ الحساب و الہندسہ۔
ـ شرح صحیفہ۔
ـ صحیفہ در اسطرلاب۔
ـ استعلام۔
ـ تقویم شمس با اسطرلاب۔
ـ القبلہ، ماہیت و علامات آن۔
ـ معرفۃ التقویم۔
ـ جبر و مقابلہ۔

← حكمت و فلسفہ


ـ انكار جوهر الفرد؛ شیخ بہائی نے ریاضی اور علم ہندسہ کے ذریعے نو دلائل قائم کر کے جزء لایتجزّی
[۲۷] محمد معین، فرهنگ فارسی، ج۱، ص۱۳۷ - ۱۳۸۔
(ایٹم: ایک عنصر کا سب سے چھوٹا ذرہ کہ جسے آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا اور ماضی میں اسے جزء لا یتجزی سمجھا جاتا تھا) کو باطل کیا ہے۔
[۳۲] سیدجعفر غضبان، فلاسفه شیعه، ص۴۲۹۔

ـ الوجود الذهنی۔
ـ وحدت وجود۔

← علوم غریبہ


ـ احکام النّظر الی کتف الشاۃ۔
ـ رسالہ جفر۔
ـ جفر۔
ـ فالنامہ۔
ان کے علاوہ دیگر چند کتب کہ جن کے موضوعات مشخص نہیں ہوئے ہیں، جیسے شرح حق المبین، الصراط المستقیم، القدسیہ ۔۔۔ ۔

شاعری

[ترمیم]

شیخ بہائی صفوی دور کے نامی گرامی شاعر ہیں۔ آپ کے اشعار بالخصوص وہ اشعار جو عراقی اسلوب میں کہے گئے، بہت خوبصورت ہیں۔ آپ اشعار میں بہائی کے تخلص سے استفادہ کرتے تھے۔ آپ نے فارسی اور عربی زبانوں میں بہت سے اشعار کو یادگار چھوڑا ہے۔ آپ کے چند عربی اشعار یہ ہیں:
عُشّاق جَمالِک اِحْتَرَقُوا ••• فی بَحْرِ صِفاتِکَ قَدْ غَرِقُوا
فی بابِ نَوالِکَ قَدْ وَ قَفُوا ••• وَ بِغَیْرِ جَمالِکَ ما عَرَفُوا
نیرانُ الفُرْقَةِ تُحْرِقُهُمْ••• اَمْواجُ الاْدْمُعِ تُغْرِقُهُمْ
تیرے جمال کے شیفتہ تیری صفات کے دریا میں غرق ہو گئے۔
تیری عطا کے آسمان تلے بیٹھے رہے اور تیرے جمال کے سوا کچھ نہ پہچان سکے۔
جدائی کے شعلے انہیں جلا رہے ہیں اور اشک کی لہریں انہیں غرق کر رہی ہیں۔
یہ بھی آپ کے اشعار ہیں:
ایهاالقوم الذی فی المدرسه ••• کلّما حصلتموه وسوسه
ذکرکم ان کان فی غیرالحبیب ••• مالکم فی النشاة الآخره نصیب
اے مدرسوں میں رہنے والی قوم! تمہاری سب تحصیلات وسوسہ ہیں۔
اگر تم حبیب (خدا) کے علاوہ کسی اور کی یاد میں ہو تو تمہارا عالم آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو گا۔
حیف باشد از تو‌ای صاحب هنر ••• کاندرین ویرانه ریزی بال و پر
تا به کی‌ای هدهد شهر سبا ••• در غریبی مانده باشی بسته پا
جهد کن این بند از پا باز کن • •• بر فراز لامکان پرواز کن
تا به کی در چاه طبعی سرنگون ••• یوسفی، یوسف بیا از چه برون
تا عزیز مصر ربّانی شوی ••• وارهی از جسم و روحانی شوی
لقمه نانی که باشد شبهه ناک ••• گربه خاک کعبه ابراهیم پاک
گر به دست خود فشاند تخم آن ••• ور به گاو چرخ کردی شخم آن
ور مه نو در حصادش داس کرد ••• ور به سنگ کعبه‌اش دستاس کرد
ور به آب زمزمش کردی عجین ••• مریم آیین پیکری از حور عین
ور بخواندی بر خمیرش بی عدد ••• فاتحه با قل هوالله احد
ور بود از شاخ طوبی آتشش ••• ور شدی روح الامین هیزم کشش
ور تو برخوانی هزاران بسمله ••• بر سر آن لقمه پر ولوله
عاقبت خاصیتش ظاهر شود ••• نفس از آن لقمه تو را قاصر شود
در ره طاعت تو را بی جان کند ••• خانه دینِ تو را ویران کند
شیخ بہائی کو حافظ و مولوی کے اشعار سے خاص دلچسپی تھی۔ حافظ اور مولوی کے اشعار آیات و روایات سے ماخوذ تھے اور ان میں اعلیٰ عرفانی مضامین شامل ہیں۔ شہخ بہائی نے مولوی کے بارے میں یہ شعر کہا ہے:
من نمی‌گویم آن عالی‌جناب ••• هست پیغمبر، ولی دارد کتاب
مثنوی معنوی مولوی ••• هست قرآنی، به لفظ پهلوی

وطن کی محبت

[ترمیم]

پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا ہے: «حبّ الوطن من الایمان؛ وطن کی محبت ایمان کا جزء ہے۔
شیخ بہائی نے اس حدیث کی جدید تفسیر پیش کی ہے جو انتہائی قابل تامل ہے۔ تمام علما نے اس حدیث کو جغرافیائی وطن اور جائے ولادت کی محبت پر حمل کیا ہے۔ کچھ روشن خیال لوگوں نے اس حدیث کو نیشنلزم، وطن پرستی اور قوم پرستی کی تائید قرار دیا ہے۔ مگر شیخ بہائی نے اس حدیث کی تازہ تفسیر پیش کی:
این وطن مصر و عراق و شام نیست ••• این وطن شهری است کو را نام نیست
زانکه از دنیاست این اوطان تمام ••• مدح دنیا کی کند خیرالانام
‌ای خوش آن کو یابد از توفیق بهر ••• کآورد رو سوی آن بی نام شهر
تو در این اوطان غریبی‌ای پسر ••• خو به غربت کرده‌ای، خاکت به سر
آنقدر در شهر تن، مانده‌ای اسیر ••• کان وطن یکباره رفتت از ضمیر
رو بتاب از جسم و جان را شاد کن ••• موطن اصلی خود را یاد کن
زین جهان تا آن جهان بسیار نیست ••• در میان جز یک نفس در کار نیست
تا به چندان شاهباز پر فتوح ••• بازمانی دور از اقلیم روح

وفات

[ترمیم]

منقول ہے کہ: ایک مرتبہ شیخ بہائی اپنے کچھ شاگردوں کے ہمراہ فاتحہ خوانی کیلئے قبرستان گئے۔ قبور کے سرہانے بیٹھ کر فاتحہ پڑھتے جا رہے تھے اور ان کی ارواح کو ایصال کر رہے تھے یہاں تک کہ بابا رکن الدین (ایک عارف) کی قبر پر پہنچے۔ ایک ندا سنی جس نے آپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ اپنے شاگردوں سے پوچھا: تم نے سنا کہ کیا کہا گیا؟! انہوں نے کہا: نہیں۔
شیخ بہائی اس کے بعد منقلب ہو گئے۔ ہمیشہ دعا اور گریہ و زاری میں مشغول رہتے۔ اگرچہ آپ کبھی عبادت سے غافل نہیں تھے مگر اب دعا و مناجات کو بہت زیادہ اہمیت دینے لگے تھے۔ کچھ مدت کے بعد آپ کے شاگردوں نے پوچھا کہ اس دن آپ نے کیا سنا تھا؟! آپ نے کہا: مجھے کہا گیا کہ موت کیلئے تیار ہو جاؤ۔
شیخ بہائی کی تاریخ وفات کے بارے میں بھی مختلف اقوال ہیں۔ ان اقوال سے مجموعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کی وفات ۱۲ شوال سنہ ۱۰۳۰ھ یا ۱۰۳۱ھ کو ہوئی۔ ’’تاریخ عالم آرای عباسی‘‘ کی رائے دوسروں سے زیادہ معتبر ہے اسی طرح کتاب ’’تنبیھات الدولۃ‘‘ کہ جس نے اپنی تالیف کی تاریخ اس واقعے کے چند ماہ بعد لکھی ہے؛ نے سنہ ۱۰۳۰ھ کو ذکر کیا ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اسی سال میں شیخ کی وفات کا قول زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔
اس بنا پر شیخ کی وفات ۱۲ شوال سنہ ۱۰۳۰ھ کو اصفہان میں ہوئی اور آپ کا پاکیزہ بدن اصفہان سے مشہد مقدس منتقل کیا گیا۔ وصیت کے مطابق آپ کو امام رضاؑ کے حرم کے نزدیک واقع ان کے ذاتی گھر میں سپرد خاک کیا گیا۔ نماز جنازہ آپ کے عظیم شاگرد مجلسی اول نے پڑھائی کہ جس میں پچاس ہزار کے لگ بھگ افراد نے شرکت کی۔
[۳۴] تفرشی، نقد الرجال، ج۴، ص۱۸۶، پاورقی، موسسه آل البیت لاحیاء التراث، چاپ اول ۱۴۱۸۔
آج کل شیخ بہائی کی قبر امام رضاؑ کے حرم کے صحن میں شامل ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. سیدعلی بروجردی، طرائف المقال، ج۲، ص۳۹۲، تحقیق سیدمهدی رجائی اول، ۱۴۱۰۔    
۲. محمدعلی مدرس تبریزی، ریحانة الادب، ج۴، ص۱۲۶ - ۱۲۹۔    
۳. زین‌الدین بن علی بن احمد عاملی، مشعل شریعت۔
۴. علی صادقی، از مجموعه دیدار با ابرار، ص۴۵۔
۵. سیدمحسن امین عاملی، اعیان الشیعه، ج۸، ص۱۷۔    
۶. سیدمحسن امین عاملی، اعیان الشیعه، ج۹، ص۲۳۴، دارالتعارف للمطبوعات، بیروت ۱۴۰۶۔    
۷. رک:سیدمحسن امین عاملی، اعیان الشیعه، ج۹، ص۲۳۴۔    
۸. سیدمحسن امین عاملی، اعیان الشیعه، ج۶، ص۵۹۔
۹. سیدحسن صدر، تکمله امل الآمل، ص۳۴۳، م ۱۳۵۴، تحقیق سیداحمد حسینی، چاپ خیام قم، ۱۴۰۶۔    
۱۰. آقا بزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعه، ج۵، ص۸۷۔
۱۱. شیخ بهایی، کتاب الاثنا عشریه‌، ج۱، ص ۱۱، مقدمه و تحقیق محمد حسون، اشراف سیدمحمود المرعشی، چاپ اول، جمادی الآخره، منشورات مکتبة آیة‌الله العظمی المرعشی النجفی، ۱۴۰۹۔
۱۲. سیدمحسن امین عاملی، اعیان الشیعه، ج۹، ص۲۳۹، دار التعارف للمطبوعات، بیروت ۱۴۰۶۔    
۱۳. هود/سوره۱۱، آیه۱۱۳۔    
۱۴. روح‌الله خمینی، صحیفه نور، ج۱، ص۲۵۸۔    
۱۵. سیدحسن صدر، شرح فقیه، به نقل از تکمله امل الآمل۔
۱۶. عباس قمی، مشاهیر دانشمندان اسلام، ۱۳۵۱، ترجمه محمدجواد نجفی و محمدباقر کمره‌ای، تهران، اسلامیه۔
۱۷. عبدالکریم گزی، تذکرة القبور، ص۶۰، م ۱۳۴۱، چاپ اول ثقفی اصفهان، ۱۴۰۵۔
۱۸. محمدمحسن طهرانی، الذریعه الی تصانیف الشیعه، ج۴، ص۱۵۳، دار الاضواء، بیروت لبنان، ۱۳۸۹ھ ۔    
۱۹. عباس قمی، فوائدالرضویه، ص۲۴۹۔
۲۰. عباس قمی، فوائدالرضویه، ص۵۰۶۔
۲۱. آقا بزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعه، ج۵، ص۸۶ - ۸۷۔    
۲۲. شیخ بهایی، کشکول شیخ بهایی، ترجمه ساعدی، ص۷۔    
۲۳. عبدالرحیم عقیقی بخشایشی، فقهای نامدار شیعه، ص۲۲۳۔
۲۴. آقا بزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعه، ج۵، ص۸۵ - ۸۶۔    
۲۵. سیدمحسن امین عاملی، اعیان الشیعه، ج۹، ص۲۲۴۔
۲۶. سورہ مائدہ(۵)، آیہ۶۔    
۲۷. محمد معین، فرهنگ فارسی، ج۱، ص۱۳۷ - ۱۳۸۔
۲۸. محمدعلی مدرس تبریزی، ریحانة الادب، ج۳، ص۳۰۸۔    
۲۹. محمدعلی مدرس تبریزی، ریحانة الادب، ج۳، ص۳۱۲۔    
۳۰. محمد بن حسن حر عاملی، امل الامل، تحقیق سیداحمد حسینی، ج۱، ص۱۵۵ - ۱۵۶۔    
۳۱. سیدمحسن امین عاملی، اعیان الشیعه، ج۹، ص۲۴۴ - ۲۴۵۔    
۳۲. سیدجعفر غضبان، فلاسفه شیعه، ص۴۲۹۔
۳۳. عباس قمی، سفینة البحار، ج۲، در ذیل کلمه وطن۔    
۳۴. تفرشی، نقد الرجال، ج۴، ص۱۸۶، پاورقی، موسسه آل البیت لاحیاء التراث، چاپ اول ۱۴۱۸۔
۳۵. سیدمحسن امین عاملی، اعیان الشیعه، ج۹، ص۲۴۵۔    
۳۶. عباس قمی، الکنی و الالقاب، ج۲، ص۱۰۱۔    


ماخذ

[ترمیم]
سایت اندیشه قم، ماخوذ از مقالہ «بهاءالدین محمد عاملی»، تاریخ نظرثانی ۱۳۹۶/۱۰/۱۷۔    
سایت پژوھہ، ماخوذ از مقالہ «بہاء الدین محمد عاملی»، تاریخ نظر ثانی ۱۳۹۶/۱۰/۱۷۔    
سایت پژوھہ، ماخوذ از مقالہ «بهاءالدین محمد بن حسین عاملی»، تاریخ بازیابی ۱۳۹۶/۱۰/۱۷۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : مقالات اندیشہ قم | مقالات پژوھہ




جعبه ابزار