سیرت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



سیرت سے مراد ایک معاشرے میں عقلاء یا عرفِ عام کی عملی روش اور عملی اقدام ہے۔


سیرت کا اصطلاحی معنی

[ترمیم]

سیرت کا مطلب وہ دائمی مسلسل انجام دی جانی والی عملی روش ہے جسے معاشرے میں رہنے والے عام افراد یا کوئی خاص گروہ انجام دیتا ہے۔ یہ عامل افراد عقلاء یا عرفِ عام میں سے ہوتے ہیں جو ممکن ہیں مسلمان ہوں اور ممکن ہے غیر مسلم ہوں۔ یہ عملی روش یا تو کسی عمل کے انجام دینے کی صورت میں ہوتی ہے یا کسی عمل و فعل کو ترک کرنے کی صورت میں۔ اصول فقہ میں سیرت کو حکم شرعی اخذ کرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ شمار کیا جاتا ہے۔ علم فقہ میں متعدد احکامِ شرعیہ ہیں جن کو سیرت سے استدلال کرتے ہوئے اخذ کیا گیا ہے۔

سیرت کی اقسام

[ترمیم]

سیرت کو اگر تمام لوگوں یا بعض لوگوں کی جانب سے عملی روش ہونے کے اعتبار سے ملاحظہ کریں تو اس کی دو نوع ہمارے سامنے آتی ہے:

← سیرتِ عقلائیہ


۱. سیرت عقلائیہ سے مراد عقلاء کا عملی اقدام اور ہے۔ ہر ملت اور ہر مذہب کے معتقد عقلاء اپنی زندگی کے معاملات اور امور انجام دینے کے لیے جو مسلسل اور مستمر عمل انجام دیتے ہیں یا اس کو ترک کرتے ہیں، اس کو سیرتِ عقلائیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سیرتِ عقلائیہ تنہا حکم شرعی کے لیے دلیل یا حجت نہیں بن سکتی بلکہ ضروری ہے کہ عقلاء کی اس سیرت کی تائید اور موافقت شارعِ مقدس کی جانب سے ہو۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیسے معلوم ہو گا کہ عقلاء کی کس سیرت سے شارع نے موافقت اور رضا مندی کی ہے اور کس پر راضی نہیں ہے؟ علماءِ اصول نے اس حوالے سے سیرت کے باب کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ شارع کی جانب سے عقلاء کی سیرت کی موافقت کی تائید کا ثبوت اس طرح سے ہمیں حاصل ہو جاتا ہے کہ شارع خود اس زمانے میں موجود ہیں جس زمانے میں عقلاء نے ایک سیرت اور عملی روش کو اختیار کیا ہوا ہے۔ اگر شارع کی جانب سے عقلاء کے رائج طریقے اور عملی سیرت قابل اعتراض ہوتی تو شارع کی طرف سے یقینا اس عمل کی ممانعت یا مذمت آ جاتی۔ شارع کا معاشرے میں موجود عقلاء کی عملی روش کو دیکھنا اور اس پر خاموش رہنا جبکہ وہ منع کرنا چاہتے تو منع کر سکتے تھے حقیقت میں شارع کی رضایت یا موافقت کو بیان کرتا ہے۔ پس اگر ثابت ہو جائے کہ شارع نے عقلاء کے کسی عملی اقدام یا عملی روش کی مخالفت کی ہے تو واضح بات ہے کہ عقلاء کی وہ سیرت کسی قسم کی حجیت نہیں رکھے گی۔ لیکن اگر شارع کی جانب سے کسی قسم کی مخالفت یا ممانعت وارد نہیں ہوئی تو یہ شارع کی جانب سے تائید اور رضایت شمار ہو گی۔ کیونکہ شارع تمام عقلاء کا رئیس اور رہبر ہے اور اگر وہ عقلاء کی اس سیرت سے موافق ہو تو اس نوع کی سیرتِ عقلائیہ ہمارے لیے حجت قرار پائے جائے گی، مثلا ثقہ کی خبر پر عمل کرنا عقلاء کی سیرت ہے، اسی طرح کلام کے ظاہری معنی کو اختیار کرنا اور اس کے مطابق عمل کرنا سیرتِ عقلائیہ ہے۔

← سیرت متشرعہ


۲. سیرت متشرعہ سے مراد لوگوں کے ایک گروہ کی عملی روش ہے، یہ گروہ ممکن ہے تمام مسلمانوں کی صورت میں ہو یا اثنا عشری شیعہ کی صورت میں۔ یہ نوعِ سیرت حقیقت میں ایک نوع کا اجماع ہے۔ بلکہ معتبر ترین اجماع ہے۔ کیونکہ خاص گروہ کی سیرت اور عملی روش ایک عملی اجماع ہےجس میں تمام مسلمان چاہے وہ علماء ہوں یا غیر علماء سب متفق اور عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ اس کے مقابلے قولی اجماع ہوتا ہے۔ فقہاء کرام کے کلام میں اس نوعِ سیرت کو اجماعِ فعلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

سیرت متشرعہ کی حجیت

[ترمیم]

سیرتِ متشرعہ اگر معصومؑ کے زمانے میں جاری و متحقق ہو اور معصومؑ نے اس عملی سیرت کو دیکھا ہو یا اس کی تقریر و تائید کی ہو تو یہ سیرتِ متشرعہ حجت ہو گی۔ لیکن اگر معلوم نہ ہو کہ کسی خاص گروہ کی عملی سیرت یعنی سیرتِ متشرعہ معصومؑ کے زمانے میں جاری تھی یا نہیں، یا یہ معلوم نہ ہو کہ جب یہ سیرت موجود تھی اس وقت معصومؑ ان لوگوں کے درمیان موجود تھے یا نہیں تو ایسی صورت میں یہ سیرت حجت نہیں ہو گی۔

سیرت کی دلالت کی وسعت و جامعیت

[ترمیم]

سیرت چاہے اس کا مفاد اور نتیجہ کسی فعل کو انجام دینا ہو یا ترک کرنا ہو ہر دو صورت میں وہ کسی عمل کے جائز اور مشروع ہونے یا اس کے ترک کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ پس سیرت نہ وجوب پر دلالت کرتی ہے اور نہ استحباب، حرمت اور کراہت پر دلالت کرتی ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ بعض امور کے مشروع اور جائز ہونے کا لازمہ اس عمل کے وجوب کا تقاضا کرے، مثلا خبر واحد اور ظواہر کلام کی مانند بعض امارات، کیونکہ امارہ پر عمل کرنا مشروع اور جائز نہیں مگر شارع نے خود دلیلِ قطعی کے ساتھ امارہ کو حجت قرار دیا اور اس کے ذریعے مکلف تک احکامِ شرعیہ کو پہنچایا اور مکلف کو ان احکام پر عمل کرنے کو ضروری قرار دیا۔ پس دلیلِ قطعی کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ شارع نے امارات کو حجتِ شرعی قرار دیا ہے اور اس سے تمسک کرنے اور اس پر عمل کرنے کو واجب اور ضروری قرار دے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شہید اول، محمد بن محمد مکی، ذکری الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، ج۴، ص۱۴۰۔    
۲. حکیم طباطبائی، سید محمد تقی، الأصول العامۃ، ص۱۹۷- ۲۰۰۔    
۳. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۳۱، ص۱۷۹۔    
۴. مظفر، محمد رضا، أصول الفقہ ج۲، ص۱۵۱-۱۵۸۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج‌۴، ص:۵۷۳۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : ادلہ | سیرت | مباحث حجت




جعبه ابزار