حجیت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
حجیت سے مراد استناد کا صحیح ہونا اور ایک
دلیل کے ذریعے احتجاج و
استدلال قائم کرنا ہے۔
اصول فقہ میں فقہی ادلہ کی حجیت سے تفصیلی بحث کی جاتی ہے۔
[ترمیم]
حجیت سے مراد معتبر شرعی دلائل جیسے قطع،
امارہ اور
اصل عملی کے ذریعے سے استناد کا صحیح ہونا اور اس کے مطابق عمل کا درست قرار پانا ہے۔
عرف کی نظر میں ہر وہ چیز جو یہ قابلیت رکھتی ہے کہ اس کے ذریعے سے دوسروں پر احتجاج کیا جا سکے حجیت کہلاتا ہے۔ فرق نہیں پڑتا مولی بندہ پر دلیل سے
احتجاج کرے یا اس کے برعکس بندہ مولی کی خدمت میں دلیل کے ذریعے احتجاج کرے۔
[ترمیم]
ایک دلیل کی حجیت کا لازمہ
منجزیت اور
معذریت ہے۔ بالفاظ دیگر ہر وہ مورد جہاں ایک دلیل کی وجہ سے واقعیت تک رسائی حاصل ہو جائے تو
مکلف کے اوپر
تکلیف شرعی منجز ہو جائے گی اور اس واقعیت کی مخالفت کی صورت میں مکلف مستحق
عقاب قرار پائے گا۔ البتہ وہ جگہ جہاں واقع کشف نہیں ہوتا وہاں حجیت سے تمسک کرنا مکلف کے لیے
عذر کا ہونا حساب ہو گا اور اسے عقاب سے رہائی مل جائے گی۔
مشہور اصولیوں کے نزدیک
قطع کی حجیت ذاتی ہے جبکہ بقیہ تمام
معتبر امارات کی حجیت تعبدی ہے۔ یعنی
شارع تعبد کی جہت سے امارہ معتبر کے حجت ہونے کا حکم دیتا ہے ورنہ شارع کے حکم سے ہٹ کر بذات خود امارہ کا جائزہ لیا جائے تو امارہ تمام واقع کے لیے کاشف نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف قطع کی واقع سے کاشفیت تام ہے۔
[ترمیم]
قطع۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۳۹۱، یہ تحریر مقالہ حجیت سے مأخوذ ہے۔