خبر واحد
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ہمارے پاس محدود پيمانے پر ايسے
فقہی فروعات اور احكامِ شرعيہ ہيں جو يقينى احاديث و
اخبار سے حاصل ہوئے ہيں اور علم و قطع كا فائدہ ديتے ہيں۔ لہذا
خبر واحد کی حجیت سے اس صورت ميں بحث كرنا لازم ہو جاتا ہے تاكہ فقہى احكام حاصل كيے جا سكيں۔
[ترمیم]
لغت ميں
خبر كا مطلب اطلاع حاصل كرنے اور تحقيق، احاطہ اور دقّت كے ساتھ جاننے كے ہيں۔
لفظِ واحد كا لغوى معنى منفرد اور يگانہ كے ہيں۔
اصطلاحى معنى كے اعتبار سے خبر واحد سے وہ حديث ہے جو
یقین و اطمينان كا فائدہ نہ دے۔ خبرِ واحد كے مقابلے ميں
خبر متواتر اور وہ خبر خبر واحد آتى ہے جس كے اطراف ميں ايسے قرائن موجود ہوتے ہيں جو يقين كا فائدہ ديتے ہيں۔ پس خبر واحد كے مقابلے ميں خبر متواتر اور خبر واحد محفوف بالقرينہ شمار كى جاتى ہيں۔
اگر ايك خبر چند راويوں كے توسط سے ہم تك پہنچے ليكن وہ يقين كا فائدہ نہ دے تو وہ خبرِ واحد ہى كہلائے گى اگرچے متعدد راويوں كے ذريعے نقل ہوئى ہے۔
معالم كے مؤلف لكھتے ہيں:
خبر الواحد هو ما لم یبلغ حد التواتر سواء کثرت رواته ام قلت و لیس شانه افادة العلم بنفسه. نعم قد یفیده بانضمام القرائن الیه و زعم قوم انه لا یفید العلم و ان انضمت الیه القرائن خبرِ واحد وہ خبر ہے جو
تواتر كى حد تك نہ پہنچے، فرق نہيں پڑتا اس كے راوى كم ہيں يا زيادہ۔ خبر واحد بذاتِ خود علم (يقين) كا فائدہ نہيں ديتى۔ ہاں اگر اس كے ساتھ قرائن ملا دئيے جائيں تو وہ علم كا فائدہ دے سكتى ہے۔ ايك جماعت نے يہ گمان كيا ہے كہ اگر خبر واحد كے ساتھ قرائن ملائے جائيں تو بھى وہ علم و يقين كا فائدہ نہيں ديتى۔
شیخ بہائی اور شارح
الوجیزة علامہ صدر شرح الوجیزة كے متن ميں لكھتے ہيں:
وإلا، اذا لم ینته الحدیث الی التواتر او التظافر و التسامع فخبر آحاد، سواء کان الراوی واحدا او اکثر ورنہ اگر حديث تواتر، تظافر اور تسامع تك نہ پہنچے تو وہ خبرِ آحاد كہلائے گى، چاہے اس كا راوى ايك ہو يا كثير۔
اكثر و بيشتر علماء كى تعريفيں اس معنى كى طرف لوٹتى ہيں كہ خبرِ واحد وہ خبر ہے جو تواتر كى حد تك نہ پہنچى ہو، بے شك اس كے راوى كم ہوں يا زيادہ۔
شہید ثانی نے
الرعایة ميں تصريح كى ہے كہ
خبر مستفیض بھى خبرِ واحد كى اقسام ميں سے ہے۔
علامہ حسن صدر
نہایۃ الدرایۃ ميں صراحتًا بيان كرتے ہيں كہ
حدیث كى تمام اقسام ميں خبرِ واحد ميں داخل ہيں، بعض علماء نے اس كى ۴۵ اور بعض نے ۳۰ (تيس) انواع شمار كى ہيں۔ ان تمام اقسام ميں اصل چار (
صحیح،
حسن،
موثق اور
ضعیف) ہيں جبكہ ان ميں فرعى اقسام ۲۶ ہيں۔
[ترمیم]
احکام شرعیہ ميں سے جن كا قطعى و يقينى علم ہے وہ كلى
احکام ہيں، جيسے
وجوب نماز اور
روزه ... وغيرہ ہيں۔
آئمہ معصومین (سلام الله علیہم) كى جانب سے ہم تك پہنچنے والى ايسى احاديث و روايات بہت كم ہيں جو يقين و اطمينان كا فائدہ ديں۔ اكثر و بيشتر احكامِ شرعى
اخبارِ آحاد كے ذريعے پايہ ثبوت تك پہنچتے ہيں۔ لہذا خبرِ واحد كى
حجیت سے بحث علم اصول فقہ كى اہم مباحث ميں سے شمار كى جاتى ہے۔
اگر خبرِ واحد قرائن كے ہمراہ ہو تو وہ
حجت ہے۔ يہ قرائن مختلف قسم كے ہيں اور كبھى
حدیث کے صادر ہونے كے قطع و يقين كا فائدہ ديتے ہيں۔ يہ قرائن درج ذيل ہيں:
۱.
کتاب يعنى قرآن كريم كے موافق ہونا؛
۲.
سنت قطعیہ كے موافق ہونا؛
۳. ايك جماعت كے
اجماع كے موافق ہونا؛
۴.
عقلی اصولوں كے موافق ہونا۔ يہ قرائن كتاب
عُدة الاصول ميں مذكور ہيں اور
خبر كے صحيح ہونے پر قرينہ شمار ہوتے ہيں۔
محدثين و
فقہاءِ امامیہ علامہ حلى (متوفی ۷۲۶ ھ .ق) كے زمانے تك حديثِ صحیح كا اطلاق اس حديث پر ہوتا ہے جو قبوليت كى شرائط كى حامل ہو تاكہ اس پر عمل كيا جا سكے۔ ان فقہاء كا نظريہ تھا كہ اگر كوئى حديث قابل
وثوق راويوں كے ذريعے سے نقل ہو يا حديث ايسے قرائن كى حامل ہو جو اطمينان و اعتماد كا باعث بنيں تو اس خبر و حديث پر عمل كيا جا سكتا ہے اور اس صورت ميں اس كو حديثِ صحيح يا خبرِ صحيح كہا جائے گا۔ صحيح كے مقابلے ميں
خبرِ ضعیف ہے جو اس خبر كو كہتے ہيں جس ميں ايسى شرائط موجود نہ ہو جن كى بناء پر اس پر عمل كيا جا سكے۔
شیخ طوسی كى كتابوں ميں صحيح، ضعيف اور
مرسل كى اصطلاحات وارد ہوئى ہيں۔ ليكن يہ اصطلاحات ان خاص معنى كى حامل نہيں ہيں جو
علامہ حلی اور
سید بن طاووس كے زمانے كے بعد مراد ليے گئے ہيں۔؛ چنانچہ صاحبِ معالم
منتقی ميں،
علامہ تہرانی اور
محدث بحرانی نے تصريح كى ہے كہ حديث كى يہ اقسام اورر خاص اصطلاحات علامہ حلى كے استاد سید بن طاووس (متوفی ۶۷۳ ھ) كے زمانے سے شروع ہوئى ہيں۔
ليكن شخ بہائى كے نزديك يہ خاص اصطلاحات علامہ حلى كے دور ميں شروع ہوئيں.
اگرچہ
علامہ حلی كى كتاب مفقود ہے اور ہمارى دسترس ميں نہيں۔ پہلى شخصيت جس نے حديث كى اصطلاحات جو موجودہ زمانے ميں استعمال كى جاتى ہيں كے متعلق بحث كى اور تفصيلى كتاب لكھى وہ شہيد ثانى ہيں۔ آپ نے الرعایہ اور
غینہ القاصدین جيسے كتابيں تالیف كيں۔
[ترمیم]
خبر واحد كى حجيت پر كتاب، سنت اور سيرت سے چند تحقيقى نكات پيش خدمت ہيں:
ارشادِ بارى تعالى ہوتا ہے:
يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِنْ جاءَكُمْ فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُو اے ايمان والو! اگر تمہارے پاس فاسق خبر لے كر آئے تو تم لوگ اس كى جانچ پڑتا و تحقيق كر لو۔
اس آيت كريمہ كا مفہوم يہ ہے كہ اگر تمہارے پاس كوئى عادل
خبر لے كر آئے تو اس كے بارے ميں تحقيق كرنا ضرورى نہيں ہے اور عادل كى خبر پر تم عمل كر سكتے ہو ۔ اگر يہ مفہوم قبول نہ كيا جائے تو اس سے لازم يہ آئے گا كہ
عادل كى خبر
فاسق كى خبر سے كمتر ہے۔
خبر واحد كى حجيت كے ليے
احادیث سے اس وقت استدلال قائم كيا جا سكتا ہے جب وہ احاديث ہمارے ليے قطعى اور قابل اطمينان ہوں، بعيد نہيں ہے كہ ان احاديث و
اخبار كے
تواتر كا دعوى كيا جا سكے۔ يہ احاديث چند مجموعوں ميں تقسيم كى جا سكتى ہے:
الف: مجموعہِ روايات جن ميں بيان كيا گيا ہے كہ ہمارى احاديث كو لينے كى ليے بعض اصحاب كى طرف رجوع كرو، مثلا
حدیث امام صادق (علیہ السلام):
اذا اردت حدیثنا فعلیک بهذا الجالساگر تم ہمارى حديثيں لينا چاہتے ہو تو تمہيں چاہيے كہ اس بيٹھے ہوئے شخص (زرارہ) كے ساتھ تعلق جوڑ لو۔
ب: وہ روايت جو دلالت كرتى ہے كہ راويوں كى طرف رجوع كرنا
واجب ہے، مثلا يہ
روایت جو
امام مہدی (عجل اللہ تعالیفرجہ الشریف) سے ہے:
واما الحوادث الواقعه فارجعوا فیها الی رواة حدیثنا، فانهم حجتی علیکم و انا حجت الله علیهمرونما ہونے والے حوادث و واقعات ميں ہمارى حديثيں بيان كرنے والے
راویوں كى طرف رجوع كرو، وہ ميرى طرف سے تم پر
حجت ہيں اور ميں ان پر
اللہ كى حجت ہو۔
ج: وہ روايات جو تشويق دلاتا ہے كہ دوسروں تك پہنچانے كے ليے لكھو اور قلمبند كرو، مثلا فرمانِ امام صادق عليہ السلام سے ايك راوى كے بارے ميں منقول ہے:
واکتب وبث علمک فی بنی عمّک، فانه یأتی زمان هرج لا یأنسون الّا بکتبهم تم لكھو اور اپنے علم كو اپنے چچا زاد رشتہ داروں ميں پھيلاؤ، بے شك ايك زمانہ آنے والا ہے جس ميں لوگ لكھى ہوئے كتابوں سے مانوس ہوں گے۔
د: روايات جن ميں ان ہستيوں پر
جھوٹ باندھنے كى مذمت وارد ہوئى ہے۔ يہ روايات خبر واحد كى حجيت پر دلالت كرتى ہيں ورنہ جھوٹ باندھنے كے خدشے كا اظہار نہ ہوتا۔
هـ: وہ روايات جو
تعارضِ ادلہ كے مورد ميں وارد ہوئى ہيں اور مرجحات كے ذيل ميں ذكر كى گئى ہيں۔
پس اگر خبرِ واحد حجت نہ ہوتى تو تعارض اور
مرجحات كے ذكر كے ذيل ميں ان معانى پر مشتمل روايات نہ ہوتيں۔
اس مقام پر
سیرت سے دو جانب سے استدلال قائم كيا جا سكتا ہے:
الف:
اجماع، تمام مسلمان
صحابہ رسول كے
زمانے سے عصرِ حاضر تك
ثقہ کی خبر پر عمل كر رہے ہيں جس سے
معصومین (علیہم السلام) كا اس طريقہ كار سے راضى ہونا ثابت ہوتا ہے۔
ب: تمام
عقلاء ثقه كى خبر كو موردِ اطمينان قرار ديتے ہيں ، جس كى وجہ سے
احکام شرعی كے مورد ميں ثقہ كى خبر پر اعتماد كيا جاتا ہے۔ اگر
شارع مقدس كى نظر ميں عقلاء كى يہ سيرت درست نہ ہوتى تو وہ اس پر كسى صورت راضى نہ ہوتے اور اس كو اختيار كرنے سے منع فرما ديتے جبكہ اس مورد ميں شارع كى جانب سے ممانعت وارد نہيں ہوئى۔
[ترمیم]
اگر خبر واحد كى حجيت كى دليل فقط (مذكورہ بالا پہلى
آیه كريمہ) قرار دى جائے تو ان كى حجيت عادل كى خبر كے ساتھ مختص قرار پائے گى۔ ليكن اگر حجيت كى
دلیل سیرت اور
روایات قرار پائيں تو حجيت ہر ثقہ كى خبر كو شامل ہو جائے گى، اگرچے وہ ثقہ شخص عادل نہ ہو۔
[ترمیم]
خبر واحد راويوں كے احوال كے اعتبار سے مثلا
عدالت،
ایمان اور
ضبط كے لحاظ سے متعدد اقسام ميں تقسيم ہوتى ہے جن ميں سے بعض اقسام درج ذيل ہيں:
حدیث صحیح : صاحب
معالم لكھتے ہيں:
الصحیح و هو ما اتصل سنده الی المعصوم (علیهالسّلام) بنقل العدل الضابط عن مثله فی جمیع الطبقات وہ حديث صحيح كہلاتى ہے جس كى
سند تمام طبقات ميں معصوم (عليہ السلام) تك ايسے راويوں كے نقل كرنے كے ساتھ متصل ہو جو عادل ضابط ہوں۔
شہید اول فرماتے ہيں:
ما اتصلت رواته الی المعصوم (علیهالسّلام) بعدل امامی جس حديث كے راوى عادل
امامی ہوں اور معصوم (عليہ السلام) تك متصل ہوں صحيح كہلاتى ہے
حديث صحيح كى انہى تعريفوں سے مشابہ تعريف شہید ثانی اور
شیخ بہائی کے والد نے ذكر كى ہيں۔
مذكورہ بالا تمام تعريفيں اس مطلب كى طرف لوٹتى ہيں كہ اگر كسى حديث كى سند ميں موجود راوى
عادل امامی ہوں، ان كى وثاقت و عدالت ثابت ہو اور معصوم (علیہ السلام) تك سند متصل ہو تو اس خبر كو صحيح كہا جائے گا۔
شہید ثانی فرماتے ہيں: (صاحب معالم كى ذكر كردہ تعريف ميں ) بنقل العدل كى قيد كے ذريعے
حدیث حسن خارج ہو جاتى ہے كيونكہ حديثِ حسن ميں راوى كى
عدالت ثابت نہيں ہوتى۔ اسى طرح الامامی كى قيد سے
حدیث موثق كو خارج كيا گيا ہے كيونكہ وہ امامى اور عادل راويوں سے نقل كى گئى ہوتى۔
بطور مثال ذيل ميں ايك حديث ذكر جاتى ہے جو اس پر دلالت كرتى ہے كہ كسى بھى حديث كو معنى كے اعتبار سے نقل كرنا
جائز ہے۔ نيز يہ
صحیح السند ہے كيونكہ سندِ حديث ميں موجود تمام راوى
بارہ امامی ثقہ ہيں:
محمد بن یحیی عن محمد بن الحسین عن ابن ابی عمیر عن ابن عن محمد بن مسلم قال: قلت لابی عبدالله (علیهالسّلام) اسمع الحدیث منک فازید و انقض قال ان کنت ترید معانیه فلا باس.
محمد بن مسلم كہتے ہيں: ميں نے
امام صادق (علیہ السّلام) سے عرض كى: آپ كى جانب سے ميں حديث كو سنتا ہوں اور اس كو نقل كرتے ہوئے (الفاظ ميں) اضافہ اور كمى بيشى كر ليتا ہوں، امام عليہ السلام نے فرمايا: اگر تمہارى مراد معانى كى رعايت كرنا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں ہے۔
حدیث حسن:
صاحب معالم حديثِ حسن كى تعريف ان الفاظ ميں تحرير كرتے ہيں:
الحسن و هو متصل السند الی المعصوم بالامامی الممدوح من غیر معارضة ذم مقبول و لا ثبوت عدالة فی جمیع المراتب او بعضها مع کون الباقی بصفة رجال الصحیح و قد یستعمل علی قیاس ما ذکر فی الصحیح حديث حسن وہ حديث كہلاتى ہے جس كى
سند معصوم (علیہ السّلام) تك ان امامى راويوں كے ذريعے متصل ہو جن كى
مدح كى گئى ہے بشرطيكہ يہ مدح ان كو قبول كرنے كى مذمت سے ٹكراتى نہ ہو اور تمام مراتب يا بعض مراتب ميں ان كا عادل ہونا ثابت نہ ہو جبكہ بقيہ راويوں ميں حديث صحيح كے رجال كے اوصاف موجود ہونے چاہيے۔ كبھى كبھى اس كو حديث صحيح ميں مذكور معيار پر قياس كرتے ہوئے استعمال كيا جاتا ہے۔
شيخ بہائى اور شارح الوجیزة حديث حسن كى تعريف كرتے ہوئے لكھتے ہيں:
الحسن ما رواه الامامی الممدوح بدون التعدیل، بان کانت السلسلة کلا کذالک او بعضا و لو واحدا منها، مع تعدیل البقیه، فحسن فی الاصطلاح وہ حديث جس كو روايت كرنے والے وہ امامى راوى ہوں جن كى عدالت كى بجائے مدح وارد ہوئى ہے، اس طرح كہ يا تو تمام سلسلہِ رُوات اسى طرح ممدوح راويوں پر مشتمل ہے يا بعض سلسلہ اگرچے ان ميں سے ايك بھى ايسا ہو جبكہ بقيہ راوى عادل ہوں تو ايسى حديث كو اصطلاح ميں حسن كہا جائے گا۔
علماء كى تعريف كا خلاصہ يہ ہے: حديثِ حسن وہ حديث كہلائے گى جس كا سلسلہِ سند
معصوم (علیہ السّلام) تك پہنچے اور حديث كو نقل كرنے والے تمام راوى امامى ہوں ليكن ان راويوں كى عدالت كى تصريح نہيں كى گئى، يعنى ثقہ،
ثبت،
حجت،
عین وغيرہ جيسے الفاظ ان كے حق ميں وارد نہيں ہوئے ليكن ان كے بارے ميں اس طرح سے الفاظ وارد ہوئے ہيں: فلاں شيخِ
قمیین يا بزرگانِ اہل قم تھے۔
وہ روايات جو
حسن درجہ كى كہلاتى ہيں ان ميں سے ايك سلسلہِ روايت
ابراہیم بن ہاشم سے منقول ہے، اگرچے بہت سے علماء ابراہيم بن ہاشم كى روايات كو صحيح سے تعبير كرتے ہيں۔
ابراہيم بن ہاشم كى روايات كو حسن كہنے كى وجہ يہ ہے كہ ان كى اس درج كى مدح وارد نہيں ہوئى كہ وہ ان كى عادل ہونے پر دلالت كرے۔
اردبیلی اپنى كتاب
زبدة البیان ميں بيان كرتے ہيں:
... مندرجہ بالا فقہى مطلب پر حسنہِ
معاویہ بن عمار، دلالت كرتى ہے۔ بعيد نہيں ہے كہ اس كو
صحیحہِ معاویة بن عمار كہا جائے؛ كيونكہ حسن ہونے كى وجہ وہى ابراہىم بن ہاشم والى ہے۔
مقدس ارديلى اسى كتاب ميں جناب
کلینی كى
محمد بن مسلم سے نقل كردہ ايك روايت كے بارے ميں لكھتے ہيں:
ظاہر يہ ہے كہ مذكورہ بالا روايت حسن درجہ كى ہے؛ كيونكہ اس كے سلسلہِ سند ميں علی بن ابرہيم كا اپنے والد (ابراہيم بن ہاشم) سے روايت كرنا وارد ہوا ہے۔ اسى طرح
مختلف اور
منتہی ميں ابراہيم بن ہاشم كى روايت كو روايتِ حسنہ سے تعبير كيا گيا ہے۔
مقدس اردبیلی
مجمع الفائدة ميں متعدد جگہوں ميں يہ كہتے نظر آتے ہيں: يہ روايت حسن ہے كيونكہ اس كى سند ميں ابراہيم بن ہاشم واقع ہوئے ہيں۔
بحرانی اپنى كتاب
حدائق ميں اس مطلب كى شدت كے ساتھ مخالفت كرتے ہوئے تحرير كرتے ہيں:
اگرچے ابراہيم بن ہاشم كى عدالت كى تصريح موجود نہيں ہے ليكن متعدد دلائل كى بناء پر ان كو
عادل اور ان كى
روایت كو صحيح قرار ديا جائے گا۔
آیت الله خوئی (رحمہ الله) ابراہيم بن ہاشم كى
روایات كو صحيح شمار كرتے ہيں اور اس پر دليل يہ ديتے ہيں كہ ابراہيم بن ہاشم
کامل الزیارات اور
تفسیر علی بن ابراہیم قمی كے سلسلہ سند ميں واقع ہوئے ہيں۔ ان دو كتابوں كى اسانيد ميں واقع ہونا آيت اللہ خوئى كى نظر ميں اس راوى كى
توثیق پر دلالت كرتا ہے۔
حدیث قوی كے بارے ميں شارح الوجیزة اور
شیخ بہائی بيان كرتے ہيں:
القوی ما لو کانت سلسلة السند امامیین مسکوتا عن مدحهم و ذمهم ـ کذالک ـ کلا او بعضا و لو واحدا مع تعدیل البقیة قوی سے مراد وہ حديث ہے جس كا
سلسلہِ سند امامى ہو اور سند كے تمام راويوں يا بعض بلكہ فقط ايك كى
مدح اور
ذم وارد نہ ہوئى ہو جبكہ بقيہ راويوں كى عدالت ثابت ہو۔
شیخ بہائی کے والد بيان كرتے ہيں:
قد یراد بالقوی مروی الامامی غیر الممدوح و المذموم او مروی المشهور فی التقدم غیر الموثق و الاول هو المتعارف بین الفقهاء كبھى قوى سے مراد وہ روايت ہوتى ہے جس كو ان امامى راويوں نے روايت كيا ہو جن كى نہ مدح كى گئى ہے اور نہ مذمت، يا وہ جو
مشہور كے روايت كرنے كى وجہ سے تقدم ركھتى ہے اور حديث مؤثق نہيں ہے، پہلى قسم فقہاء ميں متعارف اور رائج ہے۔
يہى عبارت
شہید ثانی سے بھى نقل كى گئى ہے۔
استاد
مدیر شانہ چی جو كتاب
درایہ الحدیث كے مؤلف ہيں اس بارے ميں لكھتے ہيں:
قوی اس خبر كو كہتے ہيں جس كى سند كى راويوں كى كڑى
امامی مذہب ہو، اگرچے ان ميں سے بعض
نوح بن درّاج كى مانند ہوں جن كى مدح و ذم ہر دو ہم تك نہيں پہنچى۔
شہید كے كلام سے معلوم ہوتا ہے كہ بعض اوقات روايتِ حسن پر بھى
قوی كا اطلاق ہوتا ہے ؛
ليكن شہيد ثانى كے بعد يہ اسى طرح استعمال كى گئى جيساكہ گذشتہ سطور ميں بيان كيا جا چكا ہے ، يعنى سندِ حديث ميں راويوں كى نہ مدح كى گئى ہو نہ مذمت؛ بے شك راوى
امامی ہوں جيسے نوح بن دراج، ناجیہ بن ابی عمارة الصیداوی اور احمد بن عبدالله بن جعفر حمیری كى روايات ہيں۔
اس نكتہ كى طرف توجہ رہے كہ فقہاء كے نزديك كثير موارد ميں روايتِ قوى سے مراد روايتِ معتبر ہے، اس ليے وہ حديثِ ضعيف كے مقابلے ميں حديث قوى كى اصطلاح استعمال كرتے ہيں۔ چنانچہ كتاب مختلف الشیعہ ميں كثير مواقع پر مصطلح حديث قوى اسى معنى ميں استعمال ہوتى دكھائى ديتى ہے۔
صاحب
معالم، حديثِ
موثق كى تعريف ان الفاظ ميں كرتے ہيں:
الموثق و هو ما دخل فی طریقه من لیس بإمامی ولکنه منصوص علی توثیقه بین الاصحاب و لم یشتمل باقی الطریق علی ضعف من جهة اخری و یسمی القوی ایضا موثق وہ روايت ہے جس كى سند ميں
راوی امامى نہ ہو ليكن اصحاب كے درميان اس كى
وثاقت ثابت ہو اور كسى دوسرى جہت سے طريقِ حديث ميں كوئى ضعف و كمزورى نہ ہو، اس كو قوى بھى كہا جاتا ہے۔
شارح الوجیزة بيان كرتے ہيں:
... و اما غیر امامیین من احد الفرق المخالفة لنا و ان کان من الشیعة کلا او بعضا مع تعدیل الکل من اصحابنا فموثق... اگر سند ميں غير امامى راوى ہمارے مخالف فرقوں ميں سے ہو، اگرچے ان ميں سے تمام يا بعض شيعہ ہو، نيز ہمارے ان اصحاب ميں سے ہر ايك كى عدالت ثابت ہو تو وہ موثق كہلائے گى۔
[ترمیم]
[ترمیم]
خبر-واحد a-۴۶۳۴۶-۲۹۰۱۵-۲۸۱۷۴.aspx سایت پژوہہ، ماخوذ از مقالہ خبر واحد، تاریخِ لنک ۱۳۹۵/۰۲/۰۶۔