راوی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
علم درایۃ الحدیث میں راوی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو
اسناد کے ساتھ
معصومینؑ سے
احادیث نقل کرتا ہو۔
[ترمیم]
لغت میں
روایت کرنے والے کو راوی کہا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر اس شخص کو راوی کہتے ہیں جو کسی سے کوئی
خبر یا حدیث کو حکایت یا نقل کرے۔
محدّثین کی اصطلاح میں راوی کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو سلسلہِ اسناد کے ساتھ حدیث کو معصومینؑ کے ذریعے نقل کرتا ہو۔ کتاب
کشاف اصطلاحات الفنون میں راوی کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
والراوی عند المحدثین ناقل الحدیث بالاسناد؛ محدثین کی نگاہ میں اَسناد کے ساتھ حدیث نقل کرنے والے کو راوی کہتے ہیں۔
[ترمیم]
کسی بھی راوی کی
خبر واحد کی
قبولیت کے لیے
علماء علم درایۃ نے راوی کا درج ذیل
صفات سے متصف ہونا ضروری قرار دیا ہے:
اس شرط کی بنیاد پر
کافر کی
خبر قابل قبول نہیں ہے۔
دیوانے اور مجنون کی خبر قبول نہیں ہے۔
راوی کی بلوغت کو اکثر
فقہاء نے ضروری قرار دیا ہے۔ پس
نابالغ شخص کی خبر قبول نہ ہوگی۔ نا بالغ کا اطلاق ممیز بچے پر بھی ہوتا ہے اور غیر ممیز پر بھی۔
ممیز سے مراد وہ نا بالغ بچہ ہے جو اچھائی اور برائی کی تمیز کر سکتا ہے جبکہ غیر ممیز اس طرح کی تمیز نہیں کر سکتا۔
مشہور قول کے مطابق اگر خبر یا روایت کو نابالغ ممیز بچہ بھی بیان کرے تو بھی اس کی خبر قابل قبول نہیں ہے۔
بعض فقہاء نے
ایمان سے راوی کا
شیعہ اثنا عشری ہونا مراد لیا ہے۔ اس صورت میں مخالفین چاہے وہ
زیدیہ یا
اسماعیلیہ یا
واقفیہ وغیرہ یا
عامہ ہی کیوں نہ ہوں کی خبر قبول نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر عامہ کے علاوہ دیگر
شیعہ فرقوں کی خبر پر عمل کرنا بھی
جائز نہیں ہے۔ البتہ بعض فقہاء نے
مخالفین کی وہ خبر جو آئمہ معصومینؑ سے نقل کی ہے پر عمل کرنے کو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز قراردیا ہے:
۱۔ ان کی خبر
شیعہ راویوں کی نقل کردہ روایات کے خلاف نہ ہو۔
۲۔ شیعہ فقہاء کا اس کے
برخلاف کوئی فتوی موجود نہ ہو۔
۳۔ راوی میں باقی تمام
شرائط موجود ہوں۔
مشہور علماء نے راوی میں
عدالت کو شرط قرار دیا ہے۔ مشہور کے مدمقابل علماء کی ایک جماعت نے راوی میں عدالت کا ہونا لازمی قرار نہیں دیا۔ ان کی نظر میں راوی کی عدالت نہیں بلکہ
وثاقت ضروری ہے۔ وثاقتِ راوی سے مراد یہ ہے کہ راوی
نقلِ حدیث میں قابل اعتماد اور قابل اطمینان ہونا ہونا چاہیے۔ اکثر
متأخرین نے اسی دوسرے قول کو قبول کیا ہے۔
ضابط سے مراد وہ شخص ہے جس کا حفظ و یاد کرنے کی صلاحیت اس کی خطاؤں پر
غالب ہو۔ یعنی راوی کا حافظہ قوی ہونا چاہیے تاکہ وہ حدیث کو بھول نہ جائے۔ حافظہ کے قوی ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ زندگی میں کبھی سہو و نسیان سے دوچار نہیں ہو سکتا بلکہ مراد یہ ہے کہ اکثر و بیشتر اوقات میں اس کا قوی حافظہ نظر آئے اور بھولنے کی وجہ سے خطائیں بہت کم ہوں۔ پس اگر کوئی راوی اکثر
سہو اور بھول چوک کا شکار ہو تو ایسے راوی کی خبر قبول نہ ہوگی۔
مذکورہ شرط کی بناء پر حدیث کے راوی کا
ہوشیار اور بیدار ہونا بہت ضروری ہے تاکہ راوی حدیث یا خبر کو نقل کرنے میں کسی قسم کی غلطی، فراموشی اور
کمی بیشی کا شکار نہ ہو۔ ضروری ہے کہ راوی حدیث کو بالمعنی نقل کرنے کی صورت میں یہ آگاہی رکھتا ہو کہ ایک حدیث کو بالمعنی نقل کرنے کی صورت میں اس کے معنی یا
مفاد میں کب
خلل ایجاد ہوتا ہے۔
۔
[ترمیم]
راوی کی صفات جیسے ایمان و عدم ایمان، وثاقت و عدم وثاقت وغیرہ کے اعتبار سے
خبر واحد کی چار بنیادی اقسام ہیں:
حدیثِ صحیح اس حدیث کو کہتے ہیں جس کا سلسلہِ سند
ثقہ، امامی اور
عادل راویوں کے ذریعے سے معصومؑ تک پہنچتا ہو۔
وہ حدیث ہے جس کی
سند کے سب راوی امامی ہوں لیکن علماء رجال کی جانب سے ان کی تعدیل اور توثیق ذکر نہ کی گئی ہو۔ بلکہ ان راویوں کے حق میں فقط مدح وارد ہوئی ہو۔
حدیث موثق وہ حدیث ہے جس کی سند بعض غیر امامی راویوں پر مشتمل ہو، لیکن علماء رجال نے ان کی توثیق کی ہو۔
ضعیف حدیث اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں مذکورہ بالا تین قسموں کی شرائط موجود نہ ہوں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۵۰۹، یہ تحریر مقالہِ راوی سے یہ ماخوذ ہے۔ فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج۴، ص۳۵-۳۶۔