روایت صحیح

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



روایت صحیح علم حدیث کی اصطلاح ہے جس سے مراد وہ حدیث ہے جو شیعہ امامی عادل راویوں سے متصل طور پر معصومؑ تک پہنچے اور ہر طبقے میں امامی عادل ہونے کا معیار موجود ہو۔ اگر کسی طبقے میں یہ معیار موجود نہ ہو تو وہ حدیث قواعدِ حدیث کے مطابق صحیح نہیں کہلائے گی۔ بعض نے اس میں حدیث کے شاذ نہ ہونے اور حدیث کے معلل نہ ہونے کی قید کا بھی اضافہ کیا ہے اور ضابط یعنی حافظہ صحیح ہونے کو بھی معتبر قرار دیا ہے۔ اس اصطلاح سے علم حدیث، علم فقہ اور علم اصول میں خصوصی طور پر استفادہ کیا جاتا ہے۔


مکتب امامیہ کی نظر میں

[ترمیم]

علم الدرایۃ کی ایک اصطلاح روایتِ صحیح یا حدیثِ صحیح ہے۔ مکتبِ امامیہ کی نظر میں روایتِ صحیح سے مراد وہ حدیث ہے جو عادل امامی راویوں سے متصل طور پر امام معصومؑ تک پہنچتی ہو۔ شہید ثانی نے حدیثِ صحیح کے لیے جو شرائط ذکر کی ہیں وہ راوی کا عادل، مکتب تشیع میں سے ہونا اور اس خصوصیت پر مشتمل رایوں کا تمام طبقات میں پایا جانا ہے۔ اگر سند میں راوی امامی نہ ہو تو روایت مؤثق کہلائے۔ اسی طرح اگر روایت میں راوی امامی ہو لیکن عادل کی بجائے قابل مدح ہو تو روایت حسن کہلائے گا۔ اسلامی علوم بالخصوص فقہی استنباط پر علماء و فقہاء کا اعتماد حدیثِ صحیح پر ہوتا ہے۔ حدیث صحیح کے معیارات میں سے ایک اہم معیار سندِ روایت میں موجود راویوں کا تمام طبقات میں عادل اور امامی ہونا ہے۔ فقہاء و محدثینِ شیعہ نے حدیثِ صحیح کے ضوابط اور حکم بیان کیا ہے اور تفصیلی طور پر اس سے بحث کی ہے۔ ذیل میں بعض معروف محدثین و فقہاء کے اقوال پیشِ خدمت ہیں:

← شہید اول کی نظر


معروف فقیہ نامدار شہید اول روایتِ صحیح کا معیار ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں: والصحيح وهو ما اتصلت روايته إلى المعصوم بعدل امامي؛ جس حديث کے راوی عادل امامی ہوں اور معصوم (عليہ السلام) تک متصل ہوں وہ صحيح کہلاتی ہےref>شہید ثانی، زین الدین، الرعایۃ فی علم الدرایۃ، ص۷۷۔     شہید اول کی نظر میں حدیثِ صحیح کو حدیث متصل اور حدیث معنعن بھی کہتے ہیں اگرچے حدیث متصل و معنعن کا دائرہ حدیث صحیح کی نسبت سے اعم ہے۔ نیز شہید اول کی نظر میں وہ حدیث بھی حدیث صحیح شمار ہوتی ہے جو ہر قسم کے طعن اور عیب سے عاری ہو اور قابل قبول ہو اگرچے سند کے اعتبار سے مرسل اور مقطوع ہی کیوں نہ ہو۔

← حسین بن عبد الصمد کی نظر میں


شیخ بہائی کے والد حسین بن عبد الصمد حدیثِ صحیح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وهو ما اتصل سنده بالعدل الامامي الضابط عن مثله حتى يصل الى المعصوم من غير شذوذ ولاعلة؛ وہ حدیث جس کی سند عادل امامی ضابط راویوں کے ساتھ متصل ہو یہاں تک معصومؑ تک پہنچ جائے اور وہ حدیث نہ شاذ ہو اور نہ معلل۔ نیز شاذ کی قید اکثر اہل سنت نے لگائی ہے جبکہ علماءِ امامیہ کے نزدیک شاذ ہونا صحیح کے لیے کسی قسم کی ممانعت کا باعث نہیں ہے۔ اس حدیث میں چند قیود کا اضافہ کیا گیا ہے جس کا تذکرہ سابقہ تعریفوں میں نہیں ملتا۔ ان میں سے پہلی قید حدیث شاذ ہے کہ اگر ایک روایت عادل امامی راویوں سے ہم تک پہنچی ہو لیکن شاذ ہو تو وہ صحیح نہیں کہلائے گی۔ دوسری قید حدیث کا معلل ہونا ہے جس سے مراد حدیث میں سند یا متن میں کوئی ایسا مخفی نقص پایا جائے جو حدیث کو قبول کرنے سے مانع بن رہا ہو تو بھی حدیث صحیح نہیں کہلائے گی۔

← صاحب معالم کی نظر


صاحب معالم حدیث صحیح کے بارے میں رقمطراز ہيں: الصحیح و هو ما اتصل سنده الی المعصوم بنقل العدل الضابط عن مثله فی جمیع الطبقات؛ روایت یا حدیثِ صحيح وہ حدیث کہلاتی ہے جس کی سند معصوم (عليہ السلام) کے ساتھ عادل ضابط راویوں کے ذریعے متصل ہو اور یہ خصوصیت تمام طبقات میں پائی جاتی ہو۔

← شہید ثانی کا تعریفوں پر تبصرہ


شہید ثانی روایتِ صحیح کی تعریف پر تبصرہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صاحب معالم کی ذکر کردہ تعريف میں بِنَقۡلِ الۡعَدۡل کی قيد لگانے سے حدیث صحیح کے دائرہ سے [[حديثِ حسن] نکل جاتی ہے کيونکہ حدیثِ حسن ميں راوی کی عدالت ثابت نہيں ہوتی۔ اسی طرح إِمَامِیّ کی قيد لگانے سے حدیث مؤثق روایتِ صحیح کے دائرہ سے نکل جاتی ہے کيونکہ وہ حدیث مؤثق ان راویوں سے لی گئی حدیث کو کہتے ہیں جو ثقہ تو ہیں لیکن امامی نہیں ہیں۔

← تطبیقی مثال


علماء و محدثین نے حدیثِ صحیح کی جو تعریف بیان کی ہے اس کو واضح کرنے کیے ایک حدیث سے مثال پیش کی جاتی ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ کسی بھی حديث کو معنی کے اعتبار سے نقل کرنا میں کوئی عیب نہیں اور اگر صحیح حدیث ذکر کرنا مقصود ہو تو ضروری ہے کہ اس حدیث کی سند میں حدیثِ صحیح کا ضابطہ اور معیار موجود ہونا چاہیے جیساکہ مندرجہ بالا سطور میں حدیثِ صحیح کی تعاریف میں بیان ہوا ہے۔ ذیل میں ایک حدیث سند اور متن کے ساتھ ذکر جا رہی ہے جس میں ہم حدیثِ صحیح کے ضابطہ ملاحظہ کر سکتے ہیں: مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع: أَسْمَعُ‌ الْحَدِيثَ‌ مِنْكَ فَأَزِيدُ وَأَنْقُصُ، قَالَ: إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ مَعَانِيَهُ فَلَا بَأْسَ؛محمد بن مسلم کہتے ہيں: ميں نے امام صادقؑ سے عرض کی: آپ کی جانب سے ميں حدیث کو سنتا ہوں اور اس کو نقل کرتے ہوئے (الفاظ ميں) اضافہ اور کمی بيشی کر ليتا ہوں، امامؑ نے فرمايا: اگر تمہاری مراد معانی کی رعايت کرنا ہے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ہے۔ اس روایت کے تمام راوی امامی یعنی آئمہ اطہارؑ کی امامت کے معتقد ہیں اور کتبِ رجال کے مطابق عادل بھی ہیں۔ نیز ہر طبقہ میں راوی متصل طور پر موجود ہے اور کسی طبقے میں عادل امامی راوی کا معیار ٹوٹ نہیں رہا اس لیے یہ حدیث حدیثِ صحیح کہلائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس حدیث پر محدثین اور علماء نے صحیح ہونے کا حکم لگایا ہے، جیساکہ علامہ مجلسی نے مرآۃ العقول میں اس حدیث صحیح قرار دیا ہے اور شیخ آصف محسنی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے۔

اہل سنت کی نظر میں

[ترمیم]

اہل سنت محدثین کی نظر میں خبرِ واحد اگر سند کے اعتبار سے متصل ہو اور اس روایت کے تمام راوی عادل و ضابط ہوں اور حدیث میں کسی قسم کا شذوذ اور مخفی عیب نہ ہو تو وہ حدیث صحیح کہلائے گی، جیساکہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں: وَهُوَ مَا اتَّصَلَ سَنَدُهُ بِالْعُدُولِ الضَّابِطِينَ مِنْ غَيْرِ شُذُوذٍ وَلَا عِلَّةٍ؛ وہ حدیث صحیح ہے جو ۔ اہل سنت میں حدیثِ صحیح دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے: صحیح لذاتہ اور صحیح لغیرہ۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شہید ثانی، زین الدین، الرعایۃ فی علم الدرایۃ، ص۷۷۔    
۲. مکی عاملی، محمد، ذکری الشیعۃ، ص۴۔    
۳. عاملی، حسن بن زین الدین، منتقی الجمان، ج۱، ص۴۔    
۴. مکی عاملی، محمد، ذکری الشیعۃ، ص ۴۔    
۵. عاملی، حسین بن عبد الصمد، وصول الاخیار الی اصول الأخبار، ص۹۳.    
۶. عاملی، حسن بن زین الدین، معالم الدین و ملاذ المجتہدین، ص۲۱۶۔    
۷. شہید ثانی، زین الدین، الرعایۃ فی علم الدرایۃ، ص۷۷۔    
۸. موسوی عاملی، محمد، مدارک الاحکام، ج۸، ص۴۷۹۔    
۹. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۵۱۔    
۱۰. مجلسی، محمد باقر، مرآة العقول، ج۱، ص۱۷۴۔    
۱۱. محسنی، آصف، مشرعۃ البحار، ج ۱، ص۷۷۔    
۱۲. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، تدریب الراوی، ج ۱، ص ۶۰۔    


مأخذ

[ترمیم]

آیۃ الله مکارم شیرازی، دائرة المعارف فقہ مقارن، ج۱۔    
اکثر مطالب اور حوالہ جات محققینِ ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار