سیرت عقلائیہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



سرتِ عقلائیہ سے مراد عقلاء كي کسی کام کو انجام دینے یا ترک کرنے کی عقلی طور پر عادت اور مستمر عمل ہے۔


سیرتِ عقلاء کا معنی

[ترمیم]

سیرتِ عقلائیہ کا مطلب دنیا بھر کے عقلاء کا کسی کام کو انجام دینے یا ترک کرنے کی عملی روش یا مستمر و مسلسل عمل ہے۔

وضاحت

[ترمیم]

دنیا بھر میں عقلاء مختلف اوقات، زمانوں اور مختلف جگہوں اور مقامات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ دین، مذہب اور ثقافت کے اعتبار سے مختلف اور متفاوت ہیں۔ یہ سب عقلاء ایک دوسرے سے موافقت کے بغیر یکساں اور مستمر عمل انجام دیتے ہیں، مثلا دنیا بھر میں تمام عقلاء ظواہرِ کلام کو حجت سمجھتے ہیں اور اس سے تمسک کرتے ہوئے عمل انجام دیتے ہیں۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں عقلاء جس چیز کے بارے میں علم نہیں رکھتے اس مورد میں اہل خبرہ اور اہل علم کی طرف رجوع کرتے ہیں، جیسے مریض ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتا ہے، جاہل عالم کی طرف رجوع کرتا ہے وغیرہ۔

بعض محققین کے مطابق سیرتِ عقلائیہ کا دائرہ خارج میں ایک عمل اور ایک فعل سے جامع اور عمومی تر ہے اور عقلاء کے اذہان میں عقلی طور پر جو ارتکاز قائم ہوتا ہے اس کو بھی شامل ہے، اگرچے عقلاء کے ذہن میں عقلی ارتکاز عملی طور پر خارج میں موجود نہیں ہوتا لیکن سیرتِ عقلائیہ اس مورد کو بھی شامل کر لیتی ہے۔

سرتِ عقلاء کی اقسام

[ترمیم]

سیرتِ عقلائیہ کی متعدد اقسام ہیں:
۱. بعض اوقات سیرتِ عقلائیہ حکمِ شرعی کے موضوع کو آشکار اور واضح کرتی ہے۔
۲. بعض اوقات سیرتِ عقلائیہ الفاظ کے ظہور کو آشکار کرتا ہے اور متکلم کی مراد کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ فرق نہیں پڑتا کہ متکلم شارع ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور۔ سیرتِ عقلائیہ دخالت دیتے ہوئے مرادِ متکلم کی تعیین اور اس کے کلام کے ظاہری معنی کو لینے کی راہ ہموار کرتی ہے۔
۳. بعض اوقات سیرتِ عقلائیہ حکمِ شرعی کے استنباط کا سبب بنتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کسی مسئلہ میں شارع کی جانب سے ہم تک کوئی نص نہ پہنچی ہو۔
[۳] کتابشناسی اصول فقہ شیعہ، مہریزی، مہدی، ص۳۰۔
[۶] مبادی فقہ و اصول، فیض، علی رضا، ص (۲۰۷-۲۰۳)۔
[۷] شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج۳، ص۳۲۷۔
[۸] منابع اجتہاد (از دیدگاه مذاہب اسلامی)، جناتی، محمد ابراہیم، ص۴۱۳۔


مربوط عناوین

[ترمیم]

عرف۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. الاصول العامۃ للفقہ المقارن، طباطبائی حکیم، محمد تقی، ص (۱۹۸-۱۹۷)۔    
۲. بحوث فی علم الاصول، صدر، محمد باقر، ج۴، ص۲۳۴۔    
۳. کتابشناسی اصول فقہ شیعہ، مہریزی، مہدی، ص۳۰۔
۴. دروس فی علم الاصول، صدر، محمد باقر، ج۲، ص۱۲۷۔    
۵. المعالم الجدیدة للاصول، صدر، محمد باقر، ص۱۶۸ ۔    
۶. مبادی فقہ و اصول، فیض، علی رضا، ص (۲۰۷-۲۰۳)۔
۷. شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج۳، ص۳۲۷۔
۸. منابع اجتہاد (از دیدگاه مذاہب اسلامی)، جناتی، محمد ابراہیم، ص۴۱۳۔
۹. الرسائل، خمینی، روح الله، ج۲، ص۱۳۰۔    
۱۰. اصول الفقہ، مظفر، محمد رضا، ج۲، ص۱۶۲۔    
۱۱. منتہی الدرایۃ فی توضیح الکفایۃ، جزائری، محمد جعفر، ج۵، ص۲۹۲۔    
۱۲. تحریر المعالم، مشکینی، علی، ص۳۳۔    
۱۳. مفاتیح الاصول، مجاہد، محمد بن علی، ص۱۹۴۔    
۱۴. المعجم الاصولی، حیدر، محمد صنقور علی، ج ۲، ص ۱۸۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۲۷۵، مقالہِ سیرت عقلاء سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : سیرت | سیرت عقلائیہ | مباحث حجت




جعبه ابزار