امام حسنؑ مجتبیٰ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امام حسن بن علی بن ابی طالبؑ اہل تشیع کے دوسرے امام اور امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے سب سے بڑے بیٹے اور حضرت محمدؐ کے بڑے نواسے ہیں۔


مختصر تعارف

[ترمیم]

امام حسنؑ، شیعوں کے دوسرے امام اور امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے سب سے بڑے بیٹے نے ہجرت کے تیسرے سال ۱۵ رمضان کو مدینہ شہر میں آنکھیں کھولیں۔
آپ ۳۷ سال کے سن مبارک میں امامت اور خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور دس برس تک امت کی امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ نے سنہ ۴۱ہجری میں معاویہ کیساتھ صلح کر لی۔ آپ کی حکومت چھ ماہ اور تین دن تک قائم رہی۔ امام حسنؑ صلح کے بعد مدینہ چلے گئے اور دس سال تک مدینہ میں رہے یہاں تک کہ سنہ ۵۰ ھ میں معاویہ کی سازش سے مسموم ہو کر سنہ ۴۸ھ میں شہید ہو گئے اور مدینہ میں بقیع کے قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔

حضرتؑ کی ولادت

[ترمیم]

امام حسن بن علی بن ابی طالبؑ، شیعہ کے دوسرے امام اور امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے سب سے بڑے فرزند کی ولادت مشہور قول کی بنا پر ماہ رمضان کے وسط میں سنہ ۳ ھ کو مدینہ شہر میں ہوئی۔ البتہ اس بارے میں شیعہ اور سنی کتب میں کچھ دوسرے اقوال بھی نقل ہوئے ہیں جو مشہور کے خلاف ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ منابع نے آپ کی ولادت ۲ھ میں قرار دی ہے۔
نوزاد کے حوالے سے کچھ اسلامی آداب ہیں۔ اس کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جاتی ہے۔ رسول خداؐ نے اپنے عزیز نواسے کیلئے اس سنت کو بذات خود انجام دیا۔ آنحضرتؐ نے اپنے نواسے کو دست مبارک پر بلند کر کے اس کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ آپؑ کی ولادت کے ساتویں دن ایک گوسفند کا عقیقہ بھی دیا گیا اور اس کی ایک ران دایہ کو بھجوا دی گئی۔
اہل سنت کی کچھ روایات میں وارد ہوا ہے کہ ساتویں دن ختنہ کی رسم بھی انجام دی گئی۔ مگر شیعہ روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئمہ اطہارؑ کا ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ یہ ہستیاں ختنہ شدہ دنیا میں تشریف لاتی تھیں البتہ استحباب اور سنت کے عنوان سے روایات کی تعبیر کے مطابق ’’امرار موسی‘‘ کیا جاتا تھا۔ اسی طرح رسول خداؐ نے حکم دیا کہ نوزاد کے بالوں کو ساتویں دن تراشا جائے اور اس کے ہم وزن چاندی کا صدقہ دیا جائے۔ پھر نوزاد کے سر پر ’’خلوق‘‘ کو ملا جائے کہ جو عطر کی ایک قسم ہے۔ اس کے بعد اس زمانے کی رائج رسم کہ نوزاد کے سر پر خون ملا جاتا تھا؛ کی مذمت میں حدیث کی راویہ اسماء سے فرماتے ہیں: الدم فعل الجاهلیه اے اسماء! نوزاد کے سر پر خون ملنا، زمانہ جاہلیت کا فعل ہے۔»
اسلام میں نوزاد کے حوالے سے ایک اور سنت اس کا تعویذ اور دعا ہے۔ یعنی اسے نظر بد اور شیاطین جن و انس کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے خدا کی پناہ میں قرار دیا جاتا ہے اور اس کے سپرد کیا جاتا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کتب میں منقول بہت سی روایات کے مطابق رسول خداؐ نے اپنے دونوں بیٹوں حسن و حسینؑ کو اس دعا کا تعویذ دیا: اعیذکما بکلمات الله التامه من کل شیطان وهامه و من کل عین لامه میں ہر بدخواہ شیطان اور ہر نظر بد کے مقابلے میں تم دونوں کو اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں۔

امامؑ کیلئے نام کی تجویز

[ترمیم]

پیغمبرؐ اور اہل بیتؑ کی سیرت میں بچوں کیلئے اچھے اور نیک ناموں کے انتخاب کو ان کے ابتدائی حقوق میں سے شمار کیا گیا ہے اور رسول خداؐ نے اس کی تلقین فرمائی ہے۔ اس اعتبار سے پیغمبرؐ کے بڑے نواسے کی ولادت کے موقع پر سب لوگ ان کیلئے بہترین نام کے انتخاب کی فکر میں تھے۔ شیعہ و سنی میں مشہور ہے کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے ناموں کا انتخاب اللہ کے حکم سے کیا گیا اور رسول خداؐ کی ہدایت پر امام حسنؑ اور امام حسینؑ کیلئے نام ’’حسنین‘‘ چنا گیا۔
بعض تاریخی اور روائی منابع کے مطابق جزیرۃ العرب کے لوگ اس سے پہلے حسن اور حسین جیسے ناموں سے واقف نہیں تھے کہ وہ اپنے بچوں کیلئے یہ نام رکھتے؛ یہ دونوں نام خدا کی طرف سے پیغمبرؐ پر وحی کیے گئے تاکہ آنحضرتؐ علیؑ و فاطمہؑ کی اولاد کو یہ نام دیں۔
اہل سنت کے طریق سے وارد ہونے والی بہت سی روایات میں ہے کہ حسن اور حسین جیسے شریف ناموں کا زمانہ جاہلیت میں کوئی سابقہ نہیں تھا اور یہ بہشتی نام ہیں۔ محمد بن جریر طبری کی کتاب ذخائر العقبیٰ میں منقول ایک روایت یہ ہے کہ عمران بن سلیمان نے کہا: الحسن و الحسین اسمان من اسماء اهل الجنه، ما سمیت بهما فی الجاهلیه حسن اور حسین اہل بہشت کے ناموں میں سے دو نام ہیں کہ جن کی زمانہ جاہلیت میں مثال نہیں تھی۔
دسویں صدی کے معروف اہل سنت عالم جلال الدین سیوطی نے نقل کیا ہے کہ حسنؑ و حسینؑ اہل بہشت کے ناموں میں سے دو نام ہیں اور عرب اس سے پہلے اپنے بچوں کیلئے یہ نام تجویز نہیں کرتے تھے۔ ابن اثیر نے کتاب اسد الغابہ میں لکھا ہے: امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی ولادت سے پہلے لوگ اس نام سے آشنا نہیں تھے کہ اپنے بچوں کیلئے یہ نام تجویز کرتے کیونکہ یہ دو نام حسنینؑ کی ولادت کے وقت خدا کی جانب سے پیغمبرؐ کو بذریعہ وحی تعلیم کیے گئے تاکہ حضورؐ علیؑ اور فاطمہؑ کے بچوں کیلئے یہ نام تجویز کر سکیں۔ کتاب عبقات الانوار میں وارد ہوا ہے: جب امام حسنؑ کی ولادت ہوئی تو حضرت جبرئیل زمین پر اترے اور کہا: اے محمد! پروردگار عالم آپ کو سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ علیؑ کی آپ سے وہی منزلت ہے جو ہارون کی موسیٰ سے تھی لیکن آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ پس اپنے اس فرزند کا نام ہارون کے بیٹے کے نام پر رکھو، ہارون کے بیٹوں کا نام شبر اور شبیر یعنی حسنؑ اور حسینؑ تھا۔
[۵۶] کنتوری‌، میر حامد حسین، عبقات الانوار فی امامه الائمه الاطهار، ج‌۱۱، ص۵۰۔
ابن شہر آشوب کی المناقب میں عمران بن سلیمان اور عمرو بن ثابت سے منقول ہے: ان الحسن و الحسین اسمان من اسامی‌ اهل الجنه و لم یکونا فی الدنیا حسنؑ اور حسینؑ اہل بہشت کے دو نام ہیں جو دنیا میں موجود نہیں تھے۔
محب الدین طبری نے اپنی سند سے اسماء بنت عمیس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: جب فاطمہؑ کے فرزند حسنؑ کی ولادت ہوئی تو پیغمبرؐ تشریف لائے اور فرمایا: اے اسماء! میرے بیٹے کو میرے پاس لاؤ۔ میں نے انہیں ایک زرد کپڑے میں لپیٹ کر حضرتؑ کے سپرد کیا۔ حضرت نے انہیں زرد کپڑے سے جدا کیا اور فرمایا: کیا میں نے تمہیں تلقین نہیں کی کہ کسی بھی نومولود کو زرد کپڑے میں نہ لپیٹو؟!
اسماء کہتی ہیں: میں نے بچے کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر حضرتؑ کے ہاتھوں میں دیا۔ حضرتؑ نے انہیں اٹھا کر ان کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ پھر علیؑ کو فرمایا: اس کا کیا نام رکھا ہے؟ حضرتؑ نے عرض کیا: میں نام رکھنے میں ہرگز آپؐ پر سبقت نہیں کر سکتا۔ پیغمبرؐ نے فرمایا: میں بھی اپنے پروردگار پر اس امر میں سبقت نہیں کروں گا۔ اس موقع پر جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا: اے محمدؐ! پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے: علیؑ کی تیرے نزدیک منزلت وہی ہے جو ہارونؑ کی موسیٰ کے نزدیک تھی لیکن تیرے بعد کوئی پیغمبرؐ نہیں ہے۔ اپنے فرزند کو ہارون کے فرزند کا نام دو۔ پیغمبرؐ نے فرمایا: اے جبرئیل! ہارون کے بیٹے کا کیا نام تھا؟ جبرئیل نے عرض کیا: شبّر۔ حضرتؐ نے فرمایا: میری زبان عربی ہے۔ جبرئیل نے عرض کیا: ان کا نام ’’حسن‘‘ رکھیے۔ پس آنحضورؐ نے ان کا نام حسن رکھ دیا۔
اس روایت کہ جو شیعہ اور اہل سنت کے درمیان مشہور ہے؛ کے مقابلے میں دیگر روایات بھی موجود ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ جب حسنؑ دنیا میں تشریف لائے تو علیؑ نے اس نوزاد کا نام ’’حرب‘‘ یا ’’حمزہ‘‘ رکھا۔ جب رسول خداؐ کو اطلاع ملی تو علیؑ کو حکم دیا کہ ان کا نام بدل کر حسنؑ رکھیں۔ لیکن جیسا کہ صاحب کشف الغمہ نے کہا ہے کہ یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے اور خلاف مشہور اور ضعیف ہے۔ مشہور وہی ہے جو مذکورہ بالا روایت میں بیان ہوا ہے اور باقر شریف نے کتاب حیاۃ الحسن میں اس طرح کی روایات کو موضوع اور جعلی قرار دیا ہے اور اس مطلب پر دلائل بھی ذکر کیے ہیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن شهر آشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالبؑ، ج۳، ص۱۹۱۔    
۲. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۵۔    
۳. ابن اثیر، ابو الحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۲، ص۱۰۔    
۴. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابه فی تمییز الصحابه، ج۲، ص۶۰۔    
۵. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۱۹۔    
۶. ابوالحسن اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه عن معرفه الائمه، ج۲، ص۱۳۶۔    
۷. طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری، ص۴۰۲۔    
۸. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۱۔    
۹. مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، ج۵، ص۲۰۔    
۱۰. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۵۔    
۱۱. شیخ طوسی، محمد بن حسن، تهذیب الاحکام، ج۶، ص۳۹۔    
۱۲. ابن شهر آشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالبؑ، ج۴، ص۲۸۔    
۱۳. ابن اثیر، ابو الحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۲، ص۱۰۔    
۱۴. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابه فی تمییز الصحابه، ج۲، ص۶۰۔    
۱۵. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۸۵۔    
۱۶. قرشی، باقر شریف، حیاة الامام الحسنؑ، ج۱، ص۴۹۔    
۱۷. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۱۔    
۱۸. شیخ طوسی، محمد بن حسن، تهذیب الاحکام، ج۶، ص۳۹۔    
۱۹. ابن اثیر، ابو الحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۲، ص۱۰۔    
۲۰. قرشی، باقر شریف، حیاة الامام الحسنؑ، ج۱، ص۵۱۔    
۲۱. علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۴۱۔    
۲۲. ابوالحسن اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه عن معرفه الائمه، ج۲، ص۱۳۷۔    
۲۳. ترمذی، محمد بن عیسی، صحیح ترمذی، ج۴، ص۹۷۔    
۲۴. ابو داود سجستانی، سلیمان بن الاشعث، صحیح ابی داود، ج۷، ص۴۳۱۔    
۲۵. شوشتری، قاضی نور الله، احقاق الحق، ج۱۱، ص۶۔    
۲۶. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۶، ص۳۲۔    
۲۷. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۴، ص۲۶۵۔    
۲۸. نسائی، احمد بن علی، سنن النسائی، ج۷، ص۱۶۴۔    
۲۹. علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۳۹۔    
۳۰. علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۵۰۔    
۳۱. علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۵۷۔    
۳۲. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۵۔    
۳۳. ترمذی، محمد بن عیسی، صحیح ترمذی، ج۴، ص۹۷۔    
۳۴. قرشی، باقر شریف، حیاة الامام الحسنؑ، ج۱، ص۵۳۔    
۳۵. ابن اثیر، ابو الحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۲، ص۹۔    
۳۶. شوشتری، قاضی نور الله، احقاق الحق، ج۱۰، ص۵۱۹۔    
۳۷. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، ج۱۰، ص۳۴۳۔    
۳۸. أبو الحسن ماوردی، علی بن محمد بن محمد، الحاوی الکبیر، ج۱۳، ص۴۳۳۔    
۳۹. قمی، شیخ عباس، سفینه البحار، ج۲، ص۵۶۳۔    
۴۰. قرشی، باقر شریف، حیاة الامام الحسنؑ، ج۱، ص۵۳۔    
۴۱. علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۴۰۔    
۴۲. قمی، شیخ عباس، سفینه البحار، ج۶، ص۵۴۲۔    
۴۳. شوشتری، قاضی نور الله، احقاق الحق، ج۱۰، ص۵۲۰۔    
۴۴. شیخ صدوق، محمد بن علی‌، علل الشرائع، ج۱، ص۱۳۷۔    
۴۵. شیخ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، ص۳۶۷۔    
۴۶. طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری، ص۴۱۱۔    
۴۷. ابن اثیر، ابو الحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۲، ص۹۔    
۴۸. بخاری، محمد بن اسماعیل، الادب المفرد، ص۲۸۶۔    
۴۹. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۶، ص۳۳۔    
۵۰. ابن اثیر، ابو الحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۲، ص۹۔    
۵۱. محب الدین طبری، احمد ابن عبدالله، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، ص۱۱۹۔    
۵۲. قرشی، باقر شریف، حیاة الامام الحسینؑ، ج۱، ص۳۰۔    
۵۳. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، تاریخ الخلفاء، ص۱۴۴۔    
۵۴. مکارم شیرازی، ناصر، عاشورا ریشه‌ها، انگیزه‌ها، رویدادها، پیامدها، ص۴۱۔    
۵۵. ابن اثیر، ابو الحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۲، ص۹۔    
۵۶. کنتوری‌، میر حامد حسین، عبقات الانوار فی امامه الائمه الاطهار، ج‌۱۱، ص۵۰۔
۵۷. ابن عبد البر، یوسف‌ بن‌ عبدالله، الاستیعاب فی معرفه الاصحاب، ج‌۱، ص۳۸۴۔    
۵۸. ابن شهر آشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالبؑ، ج۳، ص۱۶۶۔    
۵۹. علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۳۸۔    
۶۰. شوشتری، قاضی نور الله، احقاق الحق، ج۱۰، ص۴۹۲۔    
۶۱. محب الدین طبری، احمد ابن عبدالله، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، ص۱۲۰۔    
۶۲. ابن اثیر، ابو الحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۲، ص۱۰۔    
۶۳. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۸۹۔    
۶۴. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۸۳۔    
۶۵. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۸۰۔    
۶۶. ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینه الدمشق، ج۱۳، ص۱۷۰۔    
۶۷. علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۵۱۔    
۶۸. قرشی، باقر شریف، حیاة الامام الحسینؑ، ج۱، ص۳۱۔    
۶۹. شوشتری، قاضی نور الله، احقاق الحق، ج۱۰، ص۴۹۲۔    
۷۰. علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۵۵۔    
۷۱. شوشتری، قاضی نور الله، احقاق الحق، ج۱۰، ص۴۹۸۔    
۷۲. شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، ج۱، ص۲۸۔    
۷۳. حنبلی، احمد بن محمد، مسند احمد، ج۱، ص۴۹۸۔    
۷۴. حنبلی، احمد بن محمد، مسند احمد، ج۲، ص۱۹۔    
۷۵. قرشی، باقر شریف، حیاة الامام الحسینؑ، ج۱، ص۳۱۔    
۷۶. ابوالحسن اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه عن معرفه الائمه، ج۲، ص۱۴۱۔    







جعبه ابزار