آیت اللہ شہید ڈاکٹر بہشتیؒ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



شہید آیت اللہ ڈاکٹر حسینی بہشتی دو آبان سنہ ۱۳۰۷شمسی کو اصفہان کے ایک مذہبی اور دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے نانا مرحوم آیت اللہ حاج میر محمد صادق مدرس خاتون آبادی اپنے زمانے میں صف اول کے مجتہد اور مرجع تقلید تھے۔ آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز مکتب خانہ میں چار برس کے سن میں کیا۔ بہت جلد سبق یاد کر لینے کی وجہ سے پورے خاندان میں آپ کو ایک نہایت ذہن و فطین نوجوان کے عنوان سے پہچانا جاتا تھا۔
[۱] راست قامتان جاودانه تاریخ اسلام دفتر اول (او به تنهائی یک امت بود)، ص۶۹، واحد فرهنگی بنیاد شهید، ۱۳۶۱۔
شهید بهشتی


والدین

[ترمیم]

آپ کے والد اصفہان کے عالم اور مسجد لومبان کے امام جماعت تھے۔ آپ مذہبی امور کی انجام دہی میں مشغول رہتے۔ شرعی مسائل کی تبلیغ کیلئے آس پاس کے دیہاتوں کا سفر اختیار کرتے تھے اور دینی سرگرمیوں، خطابت اور فقہی احکام کی تبلیغ کو اہمیت دیتے تھے؛ آپ نماز جماعت منعقد کرنے کے علاوہ لوگوں کے مسائل اور مشکلات کو بھی حل کرنے میں کردار ادا کرتے تھے۔
آپ کی والدہ ایک پاکدامن اور پرہیزگار خاتون تھیں اور شرعی احکام و اسلامی آداب کی ادائیگی میں مکمل احتیاط سے کام لیتی تھیں۔ یہ محترمہ آیت اللہ حاج میر محمد صادق خاتون آبادی کی دختر نیک اختر تھیں۔ آپ ایک بزرگ مرجع تقلید اور نامی گرامی محقق تھے۔

تعلیم کا آغاز

[ترمیم]

یہ چار سالہ بچہ اپنے ہم سن بچوں سے مختلف تھا۔ اس کا اچھا اخلاق اس کے درخشان مستقبل کی نوید دے رہا تھا۔ آپ نے اپنی تعلیم چار سال تک مکتب خانے میں حاصل کی۔ بہت جلد لکھنا پڑھنا سیکھ لیا اور ناظرہ قرآن مکمل کر لیا۔ پھر سرکاری سکول میں تشریف لے گئے۔ جب آپ سے داخلہ ٹیسٹ لیا گیا تو اساتذہ نے کہا کہ ہمارے نزدیک انہیں چھٹی جماعت میں بھیجا جانا چاہئیے مگر شاید ان کیلئے مشکل ہو جائے گا اس لیے آپ کو چوتھی جماعت میں داخلہ دے دیا گیا۔ پرائمری تعلیم مکمل کرنے کے بعد چھٹی کلاس میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد سعدی ہائی سکول میں داخل ہو گئے۔
[۲] یادنامه شهید مظلومه، سید فرید قاسمی، ص ۱۷۔


حوزہ علمیہ میں داخلہ

[ترمیم]

۱۳۲۱شمسی میں چودہ برس کے سن میں انہوں نے ہائی اسکول کی تعلیم کو ادھورا چھوڑا اور ایک مرتبہ ان کی زندگی کا رخ تبدیل ہو گیا۔ انہیں حوزہ علمیہ میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہوا تاکہ اہل حوزہ کے درمیان شب و روز بسر کریں اور مناجات اور شبانہ روز عبادت و تحصیل علم کے ذریعے معرفت کی دنیا میں پرواز کر سکیں۔
آغا سید محمد نے چار سال تک حوزہ علمیہ اصفہان میں دینی تعلیم حاصل کی۔ اس مختصر مدت میں مسلسل محنت اور خداداد صلاحیت کی بدولت آٹھ سالہ نصاب کو چار سال میں مکمل کر لیا۔ ۱۸ برس کے سن میں اعلیٰ حوزوی تعلیم کی تکمیل کیلئے قم روانہ ہو گئے تاکہ حضرت فاطمہ معصومہؑ کے جوار میں عظیم اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کریں۔
مدرسہ حجتیہ میں ایک سادہ حجرے میں سکونت اختیار کی اور درس و بحث میں مشغول ہو گئے۔ اسی دوران آپ کی شہید مطہریؒ اور امام موسیٰ صدر جیسے دوستوں سے آشنائی ہوئی۔ پھر چھ ماہ کی مدت میں مکاسب اور کفایہ کے بقیہ دروس کو مکمل کر لیا۔ اس کے بعد سنہ ۱۳۲۶شمسی میں فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کی۔ اسی سال شہید مطہری جیسے دوستوں کے مشورے پر مذہبی تبلیغ کی غرض سے دور افتادہ دیہاتوں کیلئے ایک پروگرام مرتب کیا۔

علم و دانش کی مزید پیاس

[ترمیم]

جس قدر تعلیمی مدارج طے کر رہے تھے اسی قدر آپ کی علمی پیاس زیادہ ہو رہی تھی۔ اگرچہ آپ نے ہائی اسکول کو دوسرے ہی سال خیر باد کہہ دیا تھا اور حوزہ علمیہ میں داخل ہو گئے تھے؛ مگر ایک مرتبہ پھر ارادہ کیا کہ حوزوی دروس کے ساتھ اکیڈمک تعلیم کو بھی مکمل کریں گے۔ سخت کوشش اور صلاحیت کی بنیاد پر آپ نے دینی و دنیوی تعلیم کو ایک ساتھ جاری رکھا۔ اس طرح سنہ ۱۳۲۷شمسی کو ادبیات میں گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اسی سال آپ دانشکدہ معقول و منقول(موجودہ نام: دانشکدہ الہیات و معارف اسلامی) میں داخل ہوئے اور فلسفے کی تعلیم میں مشغول ہو گئے۔ سنہ ۱۳۳۰شمسی کو آپ نے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
گریجویٹ کے بعد تہران سے قم واپس آ گئے اور فقہ و اصول کے درس خارج میں شریک ہوئے اور عقلی و فلسفی مباحث میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے کے باعث علامہ طباطبائی کے اسفار و شفا کے دروس میں حاضر ہوئے۔ آپ اس درس کے نمایاں اور منظم شاگرد شمار ہوتے تھے۔ جمعرات اور جمعہ کی رات کو شہید مطہری اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ایک علمی نشست منعقد کرتے تھے کہ جس کانتیجہ گرانقدر کتاب اصول فلسفه و روش رئالیسم(REALISM) شہید مطہری کے حواشی کے ساتھ سامنے آیا۔
قم المقدس میں پانچ سال تعلیم و تدریس کے بعد سنہ ۱۳۳۵شمسی کو دانشکدہ الھیات میں داخلہ لیا اور سنہ ۳۸ تک وہاں ڈاکٹریٹ کے کورس میں شرکت کی مگر تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی اندرون و بیرون ملک میں چشم گیر تربیتی، تبلیغی اور سیاسی سرگرمیوں کے باعث اپنا تحقیقی مقالہ پیش نہ کر سکے۔ یہ امر موخر ہو گیا یہاں تک کہ سنہ ۱/۱۱/۱۳۵۳ میں ’’مسائل ما بعد الطبیعه در قرآن‘‘ کے عنوان سے استاد شہید مرتضیٰ مطہری کی زیر نگرانی اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا اور اس کا دفاع کر کے فلسفے میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

درسی کتب کی تدوین

[ترمیم]

جب مغرب پرست حکام ایران کے اسلامی معاشرے کو ایک مادہ پرست مغربی معاشرے میں تبدیل کر کے مرور زمان کے ساتھ دین کو فراموش کر دینا چاہتے تھے، تو ایسے نازک وقت میں ڈاکٹر بہشتی نے ڈاکٹر باہنر کے ساتھ مل کر وزارت تعلیم میں دینی کتب کی تدوین و تالیف کا اقدام کیا اور اس طرح جوان نسل کو اسلامی اقدار سے آشنا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
[۳] یادنامه شهید مظلومه، سید فرید قاسمی، ص ۴۵۔


صبح کی نوید

[ترمیم]

آپ کے افکار کی وسعت حال و مستقبل دونوں کو شامل تھی۔ عمیق نگاہ کے حامل یہ مفکر مستقبل کیلئے پالیسی تشکیل دے رہے تھے اور اس مشکل کے حل کی تدبیر حوزہ علمیہ کے اندر تبدیلی میں مضمر دیکھ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ ۱۳۳۹شمسی میں حوزہ کی درست اور دقیق تنظیم نو کا پروگرام مرتب کیا اور اپنے دوستوں کے مشوروں سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک اصولی پروگرام کے تحت بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں ضروری ہیں تاکہ طلبہ کو ایک منظم و مدوّن سلیبس کے تحت زیور علم سے آراستہ کیا جا سکے اور وہ مستقبل میں معاشرے کیلئے مفید واقع ہو سکیں۔
اس غرض سے شہید قدوسیؒ اور بزرگ اساتذہ جیسے آیات مشکینی، مصباح یزدی اور جنتی کے تعاون سے مدرسہ حقانی کی تشکیل کا اقدام کیا اور اسے ذمہ دار اور انقلابی طلبہ کی تربیت کیلئے ایک اہم قلعہ قرار دیا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی یہ مقدس ادارہ کہ جسے ڈاکٹر بہشتی اور شہید قدوسی نے تاسیس کیا تھا؛ راہ انقلاب میں بڑے عظیم و مفید اثرات مرتب کرنے کا باعث بنا۔

فکری و تربیتی سرگرمیاں

[ترمیم]

شہید کی زندگی میں مختصر اور طولانی مدت کی مختلف فکری و تربیتی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں۔ شہید کی منجملہ اہم اور بنیادی فعالیتوں میں سے ایک طرز تدریس اور تعلیمی سلیبس کے حوالے سے حوزہ علمیہ قم کی اصلاح اور تنطیم نو ہے کہ جس کا نتیجہ جوان طلبہ کیلئے ۱۷ سالہ درسی سلیبس تھا؛ جو بعد میں مدرسہ حقانی کی فعالیت کا منشور قرار پایا۔
[۴] یاران امام به روایت اسناد ساواک، س ش، ص ص۔

دیگر اہم تربیتی کاموں میں سے ایک دین و دانش کے نام سے قم میں ایک سکول کی تاسیس تھی جو شہید کی براہ راست نگرانی اور کچھ دیگر افراد کے تعاون سے چلایا جاتا تھا۔ یہ ایک مذہبی ماحول میں پہلا علمی اور تعلیمی و تربیتی تجربہ تھا۔ اس ماحول میں داخل ہو کر فعالیت اور اہل ہنر سے ارتباط، استاد و شاگرد کے مابین تعلق، طلبہ کیلئے انگریزی زبان کی کلاسز کا انعقاد،
[۵] نگاهی به زندگی و گزیده افکار شهید مظلوم آیه الله بهشتی، ص۴۱۔
دینیات کی کتب کی تدوین، جرمنی روانگی اور اسلامی مرکز ہیمبرگ کا قیام، فارسی زبان طلبہ کی انجمنوں کے مرکزی بورڈ کا قیام وغیرہ آپ کی تربیتی سرگرمیوں میں شمار ہوتے ہیں؛ البتہ اس مقالے میں ان پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی گنجائش نہیں ہے۔
[۶] یاران امام به روایت اسناد ساواک، ص ش۔
[۷] روزنامه جمهوری اسلامی، شماره ۴۳۶۲، ص ۱۲۔


جرمنی روانگی

[ترمیم]

سنہ ۱۳۴۴شمسی میں تبلیغی فرائض کی ادائیگی کیلئے جرمنی کا سفر کیا؛ اس دوران آپ مسجد میں امامت، مسجد کی عمارت کی تکمیل، فارسی زبان مسلمانوں کے امور کے انتظام اور وہاں پر مقیم مسلمان طلبہ کی دیکھ بھال جیسے امور میں مشغول رہے۔
آپ نے آیت اللہ بروجردی کی جانب سے تعمیر کردہ مسجد میں مذہبی و تربیتی سرگرمیاں شروع کی تھیں۔ فارسی زبان طلبہ کی انجمنوں کے مرکزی بورڈ کی تشکیل اور اسلامی مرکز ہیمبرگ کا قیام کر کے وہاں پر زیر تعلیم طلبہ کی رہنمائی اور فکری تربیت کیلئے ایک اہم مرکز کی بنیاد رکھ دی۔
[۸] او به تنها یک ملت بود، واحد فرهنگی بنیاد شهید، دفتر اول، ص ۴۳۔

البتہ پانچ سالہ قیام کے دوران آپ کی سرگرمیاں صرف مذکورہ موارد میں منحصر نہیں تھیں بلکہ آپ دیگر گروہوں سے بھی رابطے میں تھے اور آپ کی سرگرمیوں کا دائرہ کار یورپ تک پھیل چکا تھا۔

انقلاب کی معماری

[ترمیم]

اسلامی انقلاب اہم نشیب و فراز اور ہزاروں شہدا و زخمیوں کی فداکاری کے باعث کامیابی سے بالکل نزدیک تھا؛ امام خمینیؒ ان دنوں پیرس میں اسلامی حکومت کی بنیادوں کی تشریح میں مصروف تھے۔ آپ نے اس ہدف کے تحت شورائے انقلاب کی تشکیل کی تاکہ ملکی قوانین کو اسلام و قرآن کے معیارات کے مطابق مرتب کیا جائے۔ اس شوریٰ کے پہلے رکن کہ جن کا امام خمینیؒ کی طرف سے انتخاب کیا گیا؛ ڈاکٹر بہشتی تھے۔
آیت اللہ بہشتی کچھ مدت کے بعد اس شوریٰ کے مدیر بھی مقرر ہوئے۔ اس شوریٰ نے اس حساس اور سرنوشت ساز وقت میں نہایت سنگین ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور اسلام و انقلاب کیلئے بہت سی خدمات کا سرچشمہ قرار پائی؛ بالخصوص اس دور میں حالات کی ابتری اور قانون ساز ادارے کے فقدان کی وجہ سے اس شوریٰ کی دو اہم ذمہ داریاں تھیں:
اولا: ملکی ضروریات کے پیش نظر قوانین کی منظوری؛
ثانیا: ان قوانین کا اجرا؛
کچھ عرصے تک ڈاکٹر بہشتی شورائے انقلاب کی طرف سے عدالت میں جا کر قضاوت کے امور کو مرتب کرنے میں مشغول رہے۔ آپ نے انقلابی اور ذمہ دار قاضیوں کو بھرتی کیا؛ چنانچہ اس ادارے میں آپ کی موجودگی نہایت مؤثر ثابت ہوئی۔

حزب جمہوری کی تاسیس

[ترمیم]

انقلاب کے ان حساس اور سرنوشت ساز دنوں میں ان تمام سیاسی اور منحرف پارٹیوں کے مقابلے میں ایک ایسی اسلامی پارٹی کی تاسیس ضروری تھی کہ جو امام خمینیؒ کی پیروی میں اسلامی اقدار کا تحفظ کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر بہشتی جو ہمیشہ نظم و ضبط، پالیسی سازی اور ادارہ سازی پر یقین رکھتے تھے؛ نے امام خمینی کی منظوری سے فروردین سنہ ۱۳۵۸شمسی کو آیت اللہ سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ اور دیگر رفقا کے مشوروں اور تعاون سے اس پارٹی کی بنیاد رکھی تاکہ مسلمان، پابند دین و شریعت اور ولایت فقیہ پر یقین رکھنے والے لوگوں کو منطم کیا جا سکے۔ آیت للہ بہشتی اپنی شہادت تک حزب جمہوری اسلامی کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے فرائض کی انجام دہی میں مشغول رہے۔
[۹] روزنامه جمهوری اسلامی، ۱۸ تیر ۱۳۶۳۔


آئین سازی

[ترمیم]

مجلس خبرگان کے ارکان کی عوامی منتخب نمائندوں کی جانب سے نامزدگی کے بعد ڈاکٹر بہشتی کا مجلس خبرگان کے نائب صدر کی حیثیت سے انتخاب عمل میں آیا۔ اسلامی نظام حکومت کے اس خیر خواہ نے کثیر مصروفیات و مشاغل کے باوجود غیر معمولی جدوجہد اور امام و انقلاب کے وفاداروں کے تعاون اور مشاورت سے اسلامی جمہوریہ کے آئین کو مرتب کیا؛ جس کی امامؒ نے تائید کی اور امت نے اسے منظور کر لیا۔ یہ آئین در اصل اسلامی انقلاب کا خون بہا تھا۔
آپ کے دیگر اقدامات میں سے ایک اہم کام اس مقدس نظام میں ولایت فقیہ کے مقام کو واضح کرنا تھا۔ اگرچہ بنی صدر جیسے بعض لبرل اور قوم پرست خائن اس کی مخالفت کر رہے تھے مگر آیت اللہ بہشتی دلائل و براہین کے ساتھ مخالفین کو جواب دیتے تھے۔ آخرکار پارلیمنٹ میں ولایت فقیہ کے بنیادی اصول کو منظور کر لیا گیا۔

عدلیہ کا محاذ

[ترمیم]

اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد امام خمینیؒ نے اسفند سنہ ۱۳۵۸شمسی کو سب سے اعلیٰ عدالتی عہدے پر آیت اللہ بہشتی کی تقرری کی تاکہ اس بنیادی نوعیت کے ادارے میں ان کے اعلیٰ ادراک و درایت کے ذریعے اسلامی قوانین کے نفاذ کی راہ ہموار ہو۔ آپ کافی عرصے تک اس اہم اور قابل قدر منصب پر فائز رہے اور ملکی عدالتی نظام کو از سر نو منطم کیا۔ آپ نے عالم اور عادل قاضی مقرر کر کے اس نظام کو یکسر تبدیل کر دیا۔ اس نظام میں آپ کی انتھک جدوجہد ناقابل فراموش ہے اور یقینا آپ عدالتِ علوی کے مظہر تھے۔

مظلومیت کی انتہا

[ترمیم]

طول تاریخ میں ہمیشہ عظیم مفکرین اپنے دور میں غیر معروف رہے ہیں چونکہ یہ اپنے عصر کے شانہ بشانہ نہیں ہوتے اور اپنے زمانے سے بعد کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں۔عصر حاضر میں شہید آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی کی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ یہ بلند نگاہ شخصیت بھی اپنی زندگی میں اسی طرح غیر معروف رہی اور بے قدری کا شکار رہے۔
مگر زمانے کے نمرود و فرعون امریکہ و منافقین نے انہیں بخوبی پہچان لیا تھا اور انہیں بخوبی علم تھا کہ وہ اسلامی مقدس نظام کے ایک اہم ستون ہیں اور ان کا کردار انتہائی اہم اور ناقابل تردید ہے۔ لہٰذا انہی سے شروع کیا جائے۔ وہ اپنے مذموم مقاصد تک پہنچنے کیلئے ان کے وجود کو بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے؛ اس لیے اپنے اہداف تک پہنچنے کیلئے انہوں نے آپ کی شخصیت کشی شروع کر دی اور اس طریقے سے چاہتے تھے کہ اپنے راستے سے اس سیسہ پلائی ہوئی دیوار کو ہٹا دیں۔
یقینا اس کا اصل منصوبہ ساز استعمار تھا اور منافقین اس منصوبے پر عملدرآمد کرنے والے تھے۔ ان کا ہدف بھی یہ تھا کہ ایک مرتبہ پھر مشروطہ کی تاریخ دہرائیں۔ منافقین نے اس استعماری ہدف کے حصول کیلئے ڈاکٹر بہشتی کی شخصیت کو نشانہ بنایا اور انحصار طلب، سرمایہ دار وغیرہ جیسی تہمتوں کے ساتھ ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنی ان حرکتوں کے ساتھ انہیں انقلاب کے میدان سے خارج کرنا چاہتے تھے؛ اگرچہ ہدف ڈاکٹر بہشتی کی شخصیت کشی نہیں تھا بلکہ وہ دینی قیادت کو ہٹانے کیلئے ماحول سازگار کر رہے تھے۔
[۱۱] روزنامه جمهوری اسلامی، ۵ تیر ۱۳۶۳؛ ۷ تیر ۱۳۶۹؛ ۱ تیر ۱۳۷۲۔

اس پاک دل اور بلند روح نے اپنی ذات کے دفاع کیلئے ہرگز شمیشیرِ بیان کو نیام سے نہیں نکالا۔ اگرچہ مرور زمان کے ساتھ اصل حقائق روز روشن کی طرح واضح بھی ہو گئے۔

اخلاقی خصوصیات

[ترمیم]

اس حصے میں شہید بہشتی کی بعض اخلاقی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا جائے گا:

← اول وقت کی نماز


آیت اللہ بہشتی کی ایک نمایاں خصوصیت نماز پر بے حد توجہ تھی۔ کبھی کوئی چیز آپ کو اول وقت کی نماز سے نہیں روک سکتی تھی۔ نماز کے وقت کام چھوڑ دیتے تھے اور خدا سے ہمکلامی کیلئے کمربستہ ہو جاتے تھے۔ اگر کوئی میٹنگ ہوتی اور نماز کا وقت داخل ہو جاتا تو یاد دلاتے کہ نماز کا وقت ہے، عبادت کیلئے آمادہ ہو جائیں۔

← تواضع


شہید باہنر نے آپ کی تواضع اور عاجزی کے حوالے سے یہ کہا ہے:
آپ کی صفات نمایاں تھیں۔ آپ اپنے منصب و شخصیت کے اعتبار سے متانت و ہیبت کے حامل ہونے کے باوجود تواضع سے برخوردار تھے اور نہایت ادب سے پیش آتے تھے۔ آپ کی نشستیں عام طور پر صداقت و اخلاص کے ہمراہ ہوتی تھیں، آپ کے خیالات اور فیصلے عادلانہ ہوتے تھے، اعتماد بخش تھے اور اطمینان آور تھے۔
[۱۲] مجله مرزداران، سال دوم، ش ۲۲۔


← قبولِ حق


اس گہری فکر کے حامل عالم کی صفات میں سے ایک حق کو قبول کرنا تھا؛ خواہ وہ اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ ہوتا۔ یہاں سے اس معلم اخلاق کے صفائے باطن کا اندازہ ہوتا ہے۔
[۱۳] مجله مرزداران، سال دوم، ش ۲۲، ص ۱۴۔


← نظم و ضبط


آپ کی دیگر اخلاقی صفات میں سے ایک آپ کی تواضع اور نظم و ضبط ہے؛ بعنوان نمونہ حتی کبھی اپنی بڑی بہن کے آگے بھی نہیں چلتے تھے
[۱۴] تولائی، مجید، صد دقیقه تا بهشت، ص۶۶، تهران، بنیاد نشر آثار و اندیشه‌های شهید آیه الله دکتر بهشتی، ۱۳۸۶، انتشارات مستند۔
اور نظم و ضبط کے اس قدر پابند تھے کہ چھٹی کے ایام میں جب اہل خانہ کے امور سے وقت مخصوص ہوتا یا اگر آپ نے کسی معاملے میں غور و فکر اور دقت کیلئے کوئی وقت مختص کیا ہوتا تو اس دوران ملکی حکام اور غیر ملکی مہمانوں سے بھی ملاقات نہیں کرتے تھے۔
[۱۵] تولائی، مجید، صد دقیقه تا بهشت، ص۱۰۰۔
آپ کی زندگی سراپا نظم و ضبط تھی؛ آپ کی حیران کن کامیابیوں کے پیچھے یہی نظم و ضبط کارفرما تھا اور اسی کے ذریعے آپ نے کامیابی کے زینے طے کیے تھے۔ آپ کی بیوہ اس حوالے سے کہتی ہیں: ڈاکٹر بہت زیادہ منظم تھے، اگرچہ آپ ایک سیاستدان تھے اور بہت سی نشستوں میں شرکت کرتے تھے، میری یاد داشت کے مطابق انہوں نے کبھی مقررہ وقت سے تاخیر نہیں کی؛ یہ ان کیلئے ناممکن تھا؛ ہر ممکنہ وسائل کو بروئے کار لا کر مقررہ وقت پر پہنچتے تھے۔ آپ کہا کرتے تھے: ’’ہم جب تک اپنے کاموں میں منطم نہ ہوں، اس وقت تک اپنے ملک کو ترقی نہیں دے سکتے۔
[۱۶] مجله مرزداران، سال دوم، ش ۲۲، ص ۱۳۔


← بردباری


اس گوہر گران بہا کی ایک اور صفت دشوار حالات میں صبر کرنا تھی۔ جب بھی کسی مشکل کا سامنا ہوتا تو غصہ نہیں کرتے تھے بلکہ صبر و متانت کے ساتھ اسے حل کرتے تھے۔ آپ کی زوجہ کہتی ہیں:
میں نے ۲۹ برس میں آپ کی جس نمایاں خصوصیت کو دیکھا؛ وہ صبر ہے۔ آپ اس قدر بردباری ، صبر اور نرمی سے پیش آتے تھے کہ انسان شرمندہ ہو جاتا تھا۔ اس مجاہد اور متقی مرد کی پوری زندگی میں حتی ایک مرتبہ بھی بے جا غصہ کرنا، مجھے یاد نہیں ہے۔
[۱۷] مجله مرزداران، سال دوم، ش ۲۲، ص ۱۳۔


← گھریلو زندگی


گھریلو کاموں میں زوجہ کا ہاتھ بٹاتے تھے؛ بچوں کی پڑھائی میں سنجیدگی سے دلچسپی لیتے تھے۔ ان کی درسی کیفیت اور مشکلات کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور ان کی مدد کرتے تھے۔ آپ کی نگرانی کے باعث گھر میں اسراف اور غیر ضروری اخراجات نہیں ہوتھے تھے۔ بچوں کی تربیت کیلئے انہیں قرض الحسنہ کے عنوان سے پیسے دیتے تھے پھر ان کے ماہانہ جیب خرچ جو ان کے سن سے دس گنا زیادہ ہوتا تھا؛ سے کم کر دیتے تھے۔ بچوں کو نہ کھلی آزادی دیتے تھے اور نہ ہی انہیں سخت دباؤ میں رکھتے تھے۔ بچوں میں نماز ، روزہ اور دیگر واجبات کا اختیاری شوق پیدا کرتے تھے۔
[۱۸] مجله مرزداران، سال دوم، ش ۲۲، ص ۱۵۔


← بیت ‌المال کا عدم استعمال


شہید کی قابل توجہ خصوصیت یہ تھی کہ آپ اپنی زندگی کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے بیت المال سے تنخواہ نہیں لیتے تھے بلکہ ان کا ذریعہ معاش تدریس تھا۔ اس امر میں آپ اس حد تک محتاط تھے کہ سکول و کالج میں اپنی ملازمت کے دوران دینی معلم کا عہدہ قبول نہیں کرتے تھے؛ کیونکہ آپ کا خیال تھا کہ دینی تعلیم و تربیت کا منصب ایک عالم دین کی ذمہ داری ہے؛ چنانچہ اس کی بجائے انگلش زبان پڑھاتے اور اسی سے اپنا گزر بسر کرتے تھے۔
[۱۹] یاران امام به روایت اسناد ساواک صذ، صر۔


شہید بہشتی کی نمایاں خصوصیت

[ترمیم]

شہید کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ذمہ داریوں پر عمل درآمد اور خدمت کی راہ میں صبر و استقامت کو اختیار کرنا تھا۔ آپ کا معروف جملہ کہ ہم خدمت کے مشتاق ہیں نہ اقتدار کے طالب‘‘ بعینہ اسی بات کی حکایت کرتا ہے۔ آپ نے اس راہ میں تمام تر الزام تراشیوں اور تہمتوں کے جواب میں سکوت اختیار کیے رکھا اور صرف اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف رہے۔ ’’شہید بہشتی‘‘ کی مظلومیت کا راز یہی تھا۔ بنی صدر اور اس کے حمایتی ان کے خلاف افواہیں اڑانے اور ان کی شخصیت کشی کرنے کے باوجود انہیں متزلزل نہیں کر سکے؛ آپ آیت: كَأَنَّهُم بُنيَانٌ مَّرْصُوصٌ کے مصداق تھے۔
انہوں نے اپنے دفاع کو آیت کریمہ: إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا سے استناد کرتے ہوئے خدا کے سپرد کر دیا تھا؛ حتی ان لوگوں کے جواب میں جنہوں نے ان سے تقاضا کیا کہ اپنے حق میں امامِ امت سے تائید حاصل کریں، کہا: ایسا نہیں کرنا چاہئیے کہ مشکلات میں امام سے کچھ لیں، ہم مصیبتوں کے مقابلے میں ان کی ڈھال ہیں نہ یہ کہ وہ ہماری ڈھال ہوں۔
[۲۲] تولائی، مجید، صد دقیقه تا بهشت، ص۹۲۔
خداوند متعال نے بھی اس مظلوم شہید(یہ اشارہ ہے اس لقب کی طرف جو امام خمینی کی طرف سے آپ کو دیا گیا) کو ایسی آبرو دی کہ سب لوگ سات تیر سنہ ۱۳۶۰ شمسی کے ہولناک واقعے کے باعث ڈاکٹر بہشتی اور ان کے ۷۲ مخلص ترین انقلابی ساتھیوں کی شہادت کے بعد اس عبائے عزت (یہ امامِ امت کے اس خواب کی طرف اشارہ ہے کہ دیکھا ان کی عبا جل چکی ہے؛ پھر شہید بہشتی کو نصیحت فرمائی کہ اپنی جان کی حفاظت کرو چونکہ تم میری عبا ہو)
[۲۳] تولائی، مجید، صد دقیقه تا بهشت، ص۹۔
اور اقتدارِ امام کے وجود کی نعمت سے محروم ہونے پر غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے تھے۔
[۲۴] امام خمینی، صحیفه نور، ج۱۵، ص۱، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی رحمة‌الله‌علیه ، ۱۳۷۸، چاپ اول۔


تالیفات

[ترمیم]

آپ تحریر و تصنیف میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے؛ وسیع پیمانے پر ذمہ داریوں کا حامل ہونے کے باوجود تالیف کے میدان میں بھی آپ کو خاطر خواہ کامیابیاں ملیں۔ آپ کی تصنیفات دو جہت سے حائز اہمیت ہیں:
۱۔ موضوع کی اہمیت کے اعتبار سے انہیں تصنیف کیا گیا؛ جیسے ’’نماز کیا ہے؟‘‘ چونکہ نماز دین کا ستون ہے، ایمان کی بنیادیں اس پر استوار ہیں اور اعمال کی قبولیت اس اہم رکن کے مرہون منت ہے اور بندگی کے بلند مقام تک پہنچنے کا زینہ ہے۔
۲۔ موضوع کی ضرورت کے باعث انہیں تحریر کیا گیا؛ آپ نے زمان و مکان اور معاشرے کی ضرورت کے پیش نظر انہیں تالیف کیا؛ مثلا اسلامی بینکاری کا مسئلہ جو ایک اہم اور ضروری موضوع ہے اور اس پر کم توجہ دی گئی ہے؛ آپ نے اس حوالے سے ایک کتاب تالیف کی اور اسلامی نقطہ نظر سے مسئلے کا جائزہ لیا۔
آپ کی مطبوعہ کتب درج ذیل ہیں:
۱. خدا از دیدگاه قرآن (خدا قرآن کے نقطہ نظر سے)
۲. نماز چیست؟ (نماز کیا ہے؟)
۳. شناخت
۴. شناخت دین
۵. نقش دین در زندگی انسان(انسان کی زندگی میں دین کا کردار)
۶. کدام مسلک؟(کون سا مسلک؟)
۷. روحانیت در اسلام و در میان مسلمین (اسلام و مسلمین میں علما کا مقام)
۸. مبارزه پیروز (کامیاب جدوجہد)
۹. بانکداری و قوانین مالی در اسلام (اسلام میں بینکاری اور مالی قوانین)
۱۰. مالکیت
آپ کے دیگر آثار ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئے؛ شورائے احیائے آثار دکتر بھشتی اس کوشش میں ہے کہ آپ کی تالیفات جو کیسٹوں کی شکل میں موجود ہیں؛ کو شائع کرے۔

شہادت

[ترمیم]

وہ ہمیشہ کی طرح مسکراہٹ کے ساتھ غروب سے قبل حزب جمہوری اسلامی کے دفتر میں آئے؛ حزب جمہوری اسلامی کے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس کا آغاز تلاوتِ قرآن سے ہوا؛ تلاوت کے بعد سات تیر کے شہدا کے قافلہ سالار کا خطاب شروع ہوا؛ اچانک سازمان مجاہدین خلق (منافقین خلق) کا دست نفاق رات کی تاریکی میں ظاہر ہوا اور سات تیر کی شب انہوں نے اسلامی انقلاب پر ایسا وار کیا کہ جس کی وجہ سے آیت اللہ بہشتی (۵۳برس) کے سن میں اور ان کے بہتر باوفا ساتھی شہید ہو گئے، انہوں نے اپنی خون آلود سرخ پرواز کے ذریعے عرشیوں کی محفل میں جگہ بنا لی جبکہ ہم خاکی سوگ و ماتم میں بیٹھ گئے۔
ان مقدس شہدا کو ایک عظیم تشییع جنازہ اور زبردست احترام کے ساتھ بہشت زہرا میں سپرد خاک کیا گیا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. راست قامتان جاودانه تاریخ اسلام دفتر اول (او به تنهائی یک امت بود)، ص۶۹، واحد فرهنگی بنیاد شهید، ۱۳۶۱۔
۲. یادنامه شهید مظلومه، سید فرید قاسمی، ص ۱۷۔
۳. یادنامه شهید مظلومه، سید فرید قاسمی، ص ۴۵۔
۴. یاران امام به روایت اسناد ساواک، س ش، ص ص۔
۵. نگاهی به زندگی و گزیده افکار شهید مظلوم آیه الله بهشتی، ص۴۱۔
۶. یاران امام به روایت اسناد ساواک، ص ش۔
۷. روزنامه جمهوری اسلامی، شماره ۴۳۶۲، ص ۱۲۔
۸. او به تنها یک ملت بود، واحد فرهنگی بنیاد شهید، دفتر اول، ص ۴۳۔
۹. روزنامه جمهوری اسلامی، ۱۸ تیر ۱۳۶۳۔
۱۰. امام خمینی، صحیفه نور، ج ۱۱، ص ۲۷۹۔    
۱۱. روزنامه جمهوری اسلامی، ۵ تیر ۱۳۶۳؛ ۷ تیر ۱۳۶۹؛ ۱ تیر ۱۳۷۲۔
۱۲. مجله مرزداران، سال دوم، ش ۲۲۔
۱۳. مجله مرزداران، سال دوم، ش ۲۲، ص ۱۴۔
۱۴. تولائی، مجید، صد دقیقه تا بهشت، ص۶۶، تهران، بنیاد نشر آثار و اندیشه‌های شهید آیه الله دکتر بهشتی، ۱۳۸۶، انتشارات مستند۔
۱۵. تولائی، مجید، صد دقیقه تا بهشت، ص۱۰۰۔
۱۶. مجله مرزداران، سال دوم، ش ۲۲، ص ۱۳۔
۱۷. مجله مرزداران، سال دوم، ش ۲۲، ص ۱۳۔
۱۸. مجله مرزداران، سال دوم، ش ۲۲، ص ۱۵۔
۱۹. یاران امام به روایت اسناد ساواک صذ، صر۔
۲۰. صف/سوره۶۱، آیه۴۔    
۲۱. حج/سوره۲۲، آیه۳۸۔    
۲۲. تولائی، مجید، صد دقیقه تا بهشت، ص۹۲۔
۲۳. تولائی، مجید، صد دقیقه تا بهشت، ص۹۔
۲۴. امام خمینی، صحیفه نور، ج۱۵، ص۱، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی رحمة‌الله‌علیه ، ۱۳۷۸، چاپ اول۔


مآخذ

[ترمیم]
سایت اندیشه قم، ماخوز از مقالہ «شہید آیت الله سید محمد حسینی بهشتی»۔    
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقاله «شهید بهشتی»۔    






جعبه ابزار