امام خمینی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



سید روح اللہ مصطفی، المعروف سید روح اللہ موسوی خمینی ، آیت اللہ خمینی و امام خمینیؒ اسلامی جمہوریہ ایران کے ولی فقیہ اور پہلے رہبر ہیں۔ آپ شیعہ مرجع تقلید ہیں کہ جنہوں نے سنہ ۱۳۵۷شمسی کے انقلاب کی قیادت کی اور اس کی کامیابی کے بعد ریفرنڈم کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیاد رکھی جبکہ اپنی زندگی کے آخری دن تک ایران کے سپریم لیڈر رہے۔ آپ نے اخلاق، فقہ، عرفان، فلسفہ، حدیث، شعر اور تفسیر کے موضوعات پر متعدد کتابیں لکھیں کہ جن میں سے زیادہ تر کی تصنیف کا کام ایرانی انقلاب سے پہلے انجام پایا تھا۔
تصویر امام خمینی


اجمالی تعارف

[ترمیم]

عالم اسلام کی اس بے مثال شخصیت کی ولادت خمین میں ہوئی۔ آپ انیس برس کے سن تک اپنی جائے پیدائش خمین میں ابتدائی دروس اور مقدمات کی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول رہے اور سنہ ۱۳۳۹ھ میں مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے اراک شہر روانہ ہو گئے۔ حوزہ علمیہ کے قم منتقل ہونے کے بعد امام بھی قم تشریف لے آئے۔
فقہ میں امام نے آیت اللہ عبد الکریم حائری سے سنہ ۱۳۵۵ھ تک استفادہ کیا اور ہیئت ، نجوم اور فلسفہ مشاء کی تعلیم کیلئے آیت الله رفیعی قزوینی کے دروس میں شرکت کی۔ آپ نے عرفان بالخصوص صدر المتالہین کے فلسفہ سے ممزوج عرفان کی تعلیم مرحوم شاه آبادی سے حاصل کی۔ ایک طولانی مدت کے بعد امام حوزہ علمیہ قم میں خارجِ فقہ، اصول، فلسفہ، عرفان اور اخلاق کی تدریس میں مشغول ہو گئے ۔ آپ کو ۱۳۴۲شمسی میں ملکی معاملات کے اندر امریکہ و اسرائیل کی مداخلت کی مخالفت کرنے کی پاداش میں شاہ کے حکم پر گرفتار کر کے ترکی جلا وطن کر دیا گیا پھر بعد ازاں عراق بھیج دیا گیا۔ امام نے جلا وطنی کے دوران اسلامی انقلاب کی قیادت کو جاری رکھا اور آپ کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں سنہ ۱۳۵۷شمسی کو عظیم اسلامی انقلاب کامیاب سے ہمکنار ہوا۔ انقلاب کی کامیابی کے گیارہ سال بعد امام کی رحلت سنہ ۱۳۶۸شمسی کو ہوئی۔

زندگی ‌نامہ

[ترمیم]

آپ کی ولادت بیس جمادی الثانی سنہ ۱۳۲۰ہجری بمطابق ۳۰ شہریور ۱۲۸۱شمسی (۲۴ستمبر ۱۹۰۲ء) کو صوبہ مرکزی کے نواحی علاقے خمین شہر کے ایک عالم، مہاجر اور مجاہد سید گھرانے میں ہوئی۔ یہ نو مولود دنیا بھر کے انسانوں کیلئے ایک ہدیہ تھا؛ وہ شخصیت کہ جس نے بشریت کے قافلے کو نور کی طرف لے جانا ہے۔ آپ کے والد نے آپ کا نام روح اللہ رکھا۔ آپ کی والدہ محترمہ کا نام ہاجر احمدی تھا۔
آپ ان آبا و اجداد کے وارث ہیں جو نسل در نسل عوام کی ہدایت اور الہٰی تعلیمات کے کسب و اکتساب میں کوشاں رہے ہیں۔ امام خمینیؒ کے والد بزرگوار مرحوم آیت اللہ سید مصطفی موسوی، مرحوم آیت اللہ العظمیٰ میرزائے شیرازی کے معاصرین میں سے تھے اور سالہا سال تک نجف میں اسلامی علوم میں درجہ اجتہاد پر فائز ہونے کے بعد ایران واپس آئے تھے۔ آپ دینی امور میں خمین کی عوام کیلئے ایک پناہ گاہ تھے۔ روح اللہ کی ولادت کو ابھی پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ بھی نہیں ہوا تھا کہ حکومتی گماشتوں کی نگرانی میں خیانت کاروں نے آپ کے والد بزرگوار کی حق طلب فریاد کا جواب گولی سے دے کر انہیں خمین سے اراک سفر کے دوران شہید کر دیا۔ شہید کے لواحقین قصاص کا الہٰی حکم اجرا کروانے کیلئے تہران آئے اور حکومت وقت سے انصاف کے اجرا اور قاتل کے قصاص کا مطالبہ کیا۔
اس طرح امام خمینیؒ بچپن میں ہی یتیمی کے رنج سے آشنا ہو گئے تھے اور شہادت کے مفہوم سے بخوبی واقف تھے۔ آپ نے اپنا بچپن اور جوانی اپنی مومنہ والدہ (بانو ھاجر) کی کفالت میں بسر کی کہ جو خود بھی اہل علم و تقویٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور (صاحب زبدۃ التصانیف) مرحوم آیت اللہ خوانساری کی پوتی تھیں نیز آپ کی شجاع اور حق جو پھوپھی (صاحبہ خانم) نے بھی آپ کی دیکھ بھال میں اپنا کردار ادا کیا۔ تاہم پندرہ برس کے سن تک آپ ان دونوں عزیزوں کے وجود کی نعمت سے بھی محروم ہو گئے تھے۔

امام خمینیؒ کے والد بزرگوار

[ترمیم]


← والد کے خصائص


آپ کے والد خمین اور آس پاس کے علاقوں میں ایک شجاع اور مشہور عالم کے عنوان سے معروف تھے۔ آپ عوام کی نگاہ میں ایک محترم، مقبول اور مؤثر شخصیت تھے۔ آپ کے زمانے میں مقامی ’’خان‘‘ حکومت کرتے تھے؛ یعنی ہر علاقے میں ایک یا چند خان ہوا کرتے تھے جو اس علاقے کے مالک شمار ہوتے تھے اور تمام امور ان کے حکم سے انجام پاتے تھے۔ روح اللہ کے والد ہمیشہ ظلم و ستم کے خلاف سینہ سپر رہتے تھے۔
’’روح اللہ‘‘ کے والد بزرگوار ہمیشہ خان سرداروں کے ظلم و ستم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ یہ مافیا ہمیشہ اپنے کاموں میں احتیاط سے کام لیتا تھا تاکہ کہیں سید مصطفیٰ ان کے روبرو نہ ہو جائیں۔ سید مصطفیٰ نہ صرف اپنے حق بلکہ تمام ضعیف انسانوں کے حقوق کا دفاع کرتے تھے۔
آپ زبان و قلم کے ساتھ گولی کی پرواہ کیے بغیر اوباشوں اور بدکاروں کے خلاف قیام کرتے تھے اور ان سے بالکل خوفزدہ نہیں ہوتے تھے۔ شاید اس اعتبار سے ’’سید روح اللہ‘‘ دیگر بھائی بہنوں کی نسبت اپنے والد کی خصوصیات کے سب سے زیادہ وارث بنے۔
[۱] فردی، امیرحسین، امام خمینی، ص۱۱ ۱۳، چهارم، تهران، وزارت آموزشی و پرورشی، ۱۳۸۰ شمسی۔


← والد کی شہادت


سید مصطفیٰ کی خمین کے بڑے اور چھوٹے خان سرداروں کے خلاف مزاحمت نے ان کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ ’’روح اللہ‘‘ کی ولادت کو ابھی کچھ مہینے ہی گزرے تھے کہ خمین و اراک کے دشوار گزار پہاڑی راستے میں گولی کی آواز گونجی اور اس کے ساتھ ہی یہ سربلند انسان خاک و خون میں غلطان ہو گئے۔ خان سرداروں کے گماشتوں نے انتہائی بزدلی سے انہیں اچانک شہید کر دیا تھا۔
جب لوگوں نے اس مجاہد سید کی شہادت کی خبر سنی، اس وقت روح اللہ کا سن پانچ ماہ بھی نہیں تھا۔
[۲] فردی، امیرحسین، امام خمینی، ص۷، چهارم، تهران، وزارت آموزشی و پرورشی، ۱۳۸۰ شمسی۔
امام کے والد کی شہادت کی خبر آس پاس کے شہروں میں پھیل گئی اور سب مظلوم و بے سہارا لوگ غم میں ڈوب گئے۔ اراک کے حاکم نے بھی قاتل یا قاتلین کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اور فوری طور پر ان کی گرفتاری کیلئے علاقے میں پولیس کو روانہ کر دیا۔ حاکم کی پولیس نے کچھ عرصہ تعاقب کرنے کے بعد قاتل کا ایک قدیمی قلعے میں محاصرہ کر لیا۔ وہ گرفتاری نہیں دے رہا تھا مگر کچھ گھنٹے تک فائرنگ کے تبادلے کے بعد پولیس نے اسے گرفتار کر کے تہران بھیج دیا۔
[۳] فردی، امیرحسین، امام خمینی، ص۱۳، چهارم، تهران، وزارت آموزشی و پرورشی، ۱۳۸۰ شمسی۔


← قاتل


علما اور بعض دیگر افراد جو ’’سید مصطفیٰ‘‘ کو پہچانتے تھے؛ نے قاتل کی سزا کا مطالبہ کیا اور اس حوالے سے اپنی پوری سعی و کوشش کو بروئے کار لائے؛ خانوادہ شہید کے چند افراد بھی تہران آئے تاکہ قاضی کے سامنے قاتل کی سزا کی درخواست دیں اور اس حوالے سے انہوں نے پوری کوشش کی۔ دوسری جانب قاتل کے حامی اور سرپرست اس کوشش میں تھے کہ اسے پھانسی کی سزا نہ ہو۔ آخر کار شہید کے اہل خانہ اور چاہنے والوں کی سرتوڑ جدوجہد کی بدولت قاتل کیلئے سزائے موت کا اعلان کر دیا گیا۔ اسے میدان بھارستان (بہارستان چوک) میں پارلیمنٹ کے سامنے تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
[۴] فردی، امیرحسین، امام خمینی، ص۱۴، چهارم، تهران، وزارت آموزشی و پرورشی، ۱۳۸۰ شمسی۔

’’سید روح اللہ‘‘ والد کی یادوں سے محرومی کے ساتھ پروان چڑھ رہے تھے۔ تنہا چیز جو ان کے وجود کو گرما رہی تھی، آس پاس کے لوگوں سے والد کی بزرگی اور شجاعت کا تذکرہ تھا۔ آپ دوسروں کی زبانی اپنے والد کی خوبیوں کو سن کر اپنے ذہن میں ان کے مہربان اور شفیق چہرے اور پرجوش صدا کا تصور کیا کرتے تھے۔

تعلیمی سفر

[ترمیم]

آپ رفتہ رفتہ بڑے ہو کر حصول علم کے قابل ہو گئے۔ اس زمانے کی رسم کے مطابق آپ کو مکتب خانہ میں بھیجا جاتا تھا۔ عرب ادبیات کے ساتھ ساتھ آپ کو خوش خطی سکھائی جاتی تھی۔ آپ نے سات سال کے سن میں ناظرہ قرآن مکمل کر لیا تھا۔ پھر عربی ادبیات کی تعلیم میں مشغول ہو گئے۔ عربی ادبیات کے ساتھ خوش نویسی کو بھی سیکھا۔ آپ کے بڑے بھائی یعنی آیت اللہ مرتضیٰ پسندیدہ آپ کیلئے خوش خطی کے استاد تھے۔ آپ نے ۱۹ برس تک خمین میں تعلیم حاصل کی؛ پھر مزید اعلیٰ تعلیم کیلئے اراک تشریف لے گئے۔ آپ انتہائی پڑھے لکھے، محنتی اور منظم طالب علم تھے اور شوق و رغبت سے تعلیمی مدارج کو طے کر رہے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ آپ کے اچھے اخلاق نے سب کو آپ کا گرویدہ بنا لیا تھا۔
سید روح اللہ ایک عظیم استاد آیت اللہ شیخ عبد الکریم حائری سے آشنا ہوئے۔ یہ عظیم استاد کچھ عرصے کے بعد علمائے قم کی دعوت پر قم تشریف لے گئے اور وہاں پر عالم اسلام کے ایک بہت بڑے حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔
[۵] گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقه و فقها، ص۲۸۹، دوم، تهران، سمت، ۱۳۷۷ شمسی۔
[۶] فردی، امیرحسین، امام خمینی، ص۱۶، چهارم، تهران، وزارت آموزشی و پرورشی، ۱۳۸۰ شمسی۔
در نتیجہ، حضرت امامؐ نے بھی کچھ طلبہ و علما کے ہمراہ قم ہجرت کی تاکہ حضرت معصومہؑ کی بارگاہ کے جوار میں سکونت کی سعادت بھی حاصل ہو اور اپنے استاد سے بھی استفادہ کریں۔
[۷] حائری، علی و همکاران، روزشمار شمسی، ص۲۱۶، مرکز پژوهش‌های اسلامی صدا و سیما، اول، ۱۳۸۲ شمسی۔

بہرحال آقائے روح اللہ نے اپنے عظیم استاد کے زیر سایہ تیزی سے علمی ترقی کی اور ان کے علم و دانش سے بھرپور استفادہ کیا۔ ذہانت و فطانت، جہدِ مسلسل، نطم و ضبط اور دیگر اخلاقی خصائل اس امر کا باعث بنے کہ آپ سب کیلئے محبوب بن گئے اور دوسرے آپ کا احترام کرنے لگے؛ مگر کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آپ کی محبوبیت کا دائرہ کس قدر وسیع ہو جائے گا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ آپ کچھ مدت کے بعد ایک عظیم عوامی انقلاب کی قیادت کریں گے، منحوس پہلوی حکومت کو سرنگوں کر دیں گے اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر حکومت تشکیل دیں گے۔

قم کی طرف نقل مکانی

[ترمیم]

آیت اللہ العظمیٰ حاج شیخ عبد الکریم حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ سنہ ۱۳۰۰شمسی بمطابق ۱۳۴۰ہجری قمری کو حوزہ علمیہ قم منتقل ہوئے تھے۔ امام خمینیؒ نے یہاں بہت سرعت کے ساتھ حوزوی علوم کے تکمیلی مراحل کو اساتذہ کے پاس پایہ تکمیل تک پہنچایا کہ جن میں سے علم معانی و بیان کی کتاب مطول کی مرحوم آقائے مرزا محمد علی ادیب تہرانی کے پاس تکمیل اور سطح کے دروس کی مرحوم آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری اور زیادہ تر دروس کی مرحوم آیت اللہ سید علی یثربی کاشانی کے پاس تکمیل اور فقہ و اصول کے دروس کی زعیم حوزہ قم آیت اللہ العظمیٰ حاج شیخ عبد الکریم حائری یزدی رضوان اللہ علیهم کی خدمت میں تکمیل کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ حائری یزدی کی رحلت کے بعد امام خمینیؒ اور حوزہ علمیہ کے دیگر مجتہدین کی محنت نتیجہ خیز ثابت ہوئی اور آیت اللہ العظمیٰ بروجردی نے حوزہ علمیہ قم کی زعامت قبول کر لی۔ اس زمانے میں امام خمینیؒ علم فقہ، اصول، فلسفہ، عرفان اور اخلاق میں ایک صاحب نظر مجتہد کے عنوان سے جانے جاتے تھے۔ حضرت امامؒ نے سالہا سال تک حوزہ علمیہ قم میں فقہ، اصول، فلسفے، عرفان اور اسلامی اخلاق کے کئی دورے مدرسہ فیضیہ، مسجد اعظم، مسجد محمدیہ، مدرسہ حاج ملا صادق اور مسجد سلماسی میں منعقد کرنے کا اہتمام کیا۔ اسی طرح حوزہ علمیہ نجف میں بھی لگ بھگ چودہ برس تک مسجد شیخ انصاریؒ میں اہل بیتؑ کی تعلیمات اور فقہ کو اعلیٰ ترین سطوح پر تدریس کرتے رہے۔ نجف میں ہی آپ نے پہلی مرتبہ اسلامی حکومت کے نظریاتی مبانی کو ولایت فقیہ کے سلسلہ وار دروس میں علمی و فقہی و تحقیقاتی استدلالات کے پیرائے میں پیش کیا تھا۔

قیام اور عملی جدوجہد

[ترمیم]

راہ خدا میں جدوجہد اور جہاد کی بنیاد گھریلو ماحول اور سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات پر ہوتی ہے۔ آپ کی جدوجہد کا آغاز نوجوانی سے ہوا اور اس کا ارتقائی سفر ایک طرف سے آپ کے روحانی و علمی ابعاد کے تکامل کے ہمراہ اور دوسری طرف سے ایران اور اسلامی دنیا کے سیاسی و معاشرتی حالات کی مناسبت سے مختلف صورتوں میں جاری رہا اور سنہ ۱۳۴۰ھ و ۴۱ھ میں ایالتی و ولایتی انجمنوں کے مسئلے میں ایک موقع فراہم ہوا کہ آپ تحریک کی قیادت کریں اور دینی رہنما کے عنوان سے اپنا موثر کردار ادا کریں۔ یوں دینی قیادت کی ہمراہی میں عوام کی یہ ملک گیر تحریک ۱۵ خرداد سنہ ۱۳۴۲شمسی کو دو نمایاں خصوصیات یعنی امام خمینیؒ کی واحد قیادت اور تحریک کے اسلامی عوامل و اہداف کی بنیاد پر سامنے آئی۔ اس دوران ایرانی قوم کی عملی جدوجہد کو دنیا میں اسلامی انقلاب کے عنوان سے شناخت ملی۔
امام خمینیؒ پہلی جنگ عظیم کے دوران بارہ سال کے تھے، آپ ان حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: مجھے دونوں عالمی جنگیں یاد ہیں ۔۔۔ میں چھوٹا تھا لیکن سکول جاتا تھا اور روسی فوجی ہمارے مرکز میں رہائش پذیر ہوتے تھے، میں انہیں دیکھتا تھا کہ وہ ہمارے اموال کی لوٹ مار کرتے تھے۔ حضرت امامؒ ایک اور مقام پر بعض خیانت کاروں اور ستم کاروں کے نام بھی ذکر کرتے ہیں جو مرکزی حکومت کی سرکردگی میں لوگوں کے اموال اور عزت کو تاراج کرتے تھے؛ فرماتے ہیں: میں بچپن سے حالت جنگ میں ہی رہا ۔۔۔ ہمیں زلقیوں کا سامنا تھا، رجب علی جیسوں کا سامنا تھا اور ہمارے پاس بھی بندوق ہوتی تھی اور میں ان حالات میں کہ شاید ابھی ابتدائے بلوغ میں تھا، بچہ تھا، ان مورچوں میں آمد و رفت رکھتا تھا کہ جنہیں ہماری زمینوں کے ارد گرد بنایا گیا تھا کیونکہ دشمن اس طرف سے حملہ آور ہو کر لوٹ مار کرنا چاہتے تھے۔ تین اسفند ۱۲۹۹شمسی کو رضا خان کے شب خون نے اگرچہ قاجاری سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور کچھ حد تک خیانت کاروں اور بدکاروں کی طوائف الملوکی کو محدود کر دیا مگر اس کے بعد ایسی آمریت وجود میں آئی کہ جس کے زیر سایہ صرف ایک ہزار خاندان ایران کی مظلوم قوم کی تقدیر کے مالک بن گئے اور پہلوی خاندان نے تن و تنہا تمام سابق خیانت کاروں اور اوباشوں کی جگہ لے لی۔
آئین بحالی کی تحریک کے بعد علمائے دین؛ حکومت وقت، انگریز کے کارندوں اور مغرب پرست لبرل روشن خیالوں کے زیر عتاب تھے۔ آیت اللہ العظمیٰ حاج شیخ عبد الکریم حائری قم کے معاصر علما کی دعوت پر اراک سے قم منتقل ہوئے تو کچھ عرصے کے بعد امام خمینیؒ نے بھی قم کی طرف ہجرت کی چونکہ آپ نے آیت اللہ عبد الکریم حائری کی غیر معمولی استعداد سے استفادہ کرتے ہوئے مقدماتی دروس اور حوزہ علمیہ کی سطوح کے دروس کو خمین و اراک میں بہت تیزی سے مکمل کیا تھا۔ یوں آپ نے قم کے تازہ تاسیس شدہ حوزہ علمیہ کو مستحکم کرنے کے حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
کچھ ہی عرصے میں عرفان، فلسفے اور فقہ و اصول کے علوم میں آپ کا شمار حوزہ علمیہ قم کی نمایاں شخصیات میں ہونے لگا۔
آیت اللہ العظمیٰ حائری کی ۱۰ بہمن ۱۳۱۵شمسی کو رحلت کے بعد حوزہ علمیہ قم کے انحلال کا خطرہ تھا۔ ذمہ دار علما نے اس مسئلے کو حل کرنے کی تدبیر کی۔ حوزہ علمیہ قم کی سرپرستی کی ذمہ داری آٹھ سال تک آیات عظام سید محمد حجت، سید صدر الدین صدر اور سید محمد تقی خوانساری رضوان الله علیھم ادا کرتے رہے۔ اس دوران رضا خان کی حکومت گرنے کے بعد ایک عظیم مرجعیت کو متعارف کرنے کیلئے حالات سازگار ہو گئے تھے۔ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی ایک ایسی نمایاں شخصیت تھے جو مرحوم حائری کی جگہ حوزہ علمیہ کی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے مناسب ترین مجتہد تھے۔ اس تجویز پر عمل درآمد کیلئے آیت اللہ حائری کے شاگردوں منجملہ امام خمینیؒ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ امامؒ نے آیت اللہ بروجردی کو قم ہجرت کر کے حوزہ علمیہ کی زعامت کی سنگین ذمہ داری کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کیلئے بڑی سنجیدگی سے کام کیا۔
امام خمینیؒ کی سیاسی حالات اور حوزات علمیہ کی صورتحال پر گہری نظر تھی اور آپ معاصر تاریخ کی کتب، مجلات اور اخبارات کے مسلسل مطالعے اور تہران میں آیت اللہ مدرس جیسے بزرگوں کے پاس آمد و رفت کے باعث حالات کا گہرا ادراک رکھتے تھے اور آپ کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ تحریک بحالی آئین کی شکست اور رضا خان کے برسراقتدار آنے کے بعد درپیش صورتحال سے نجات کا تنہا راستہ حوزات علمیہ کی بیداری اور اس سے پہلے حوزات علمیہ کی حیات اور عوام کے ان کے ساتھ روحانی تعلق کی ضمانت پر موقوف ہے۔
امام خمینیؒ نے اپنے اعلیٰ ترین اہداف کے حصول کیلئے سنہ ۱۳۲۸شمسی کو آیت اللہ مرتضیٰ حائری کے تعاون سے حوزہ علمیہ کے بنیادی ڈھانچے کی اصلاح کا آئین مرتب کیا اور اسے آیت اللہ بروجردیؒ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس تجویز کا امام کے شاگردوں اور حوزہ علمیہ کے زندہ دل طلبہ نے خیر مقدم کیا اور اس کی بھرپور حمایت کی۔
تاہم حکومت اپنے اندازوں میں غلطی کا شکار تھی۔ ایالتی و ولایتی بل کہ جس کے بموجب مسلمان ہونے کی شرط ، قرآن کریم پر حلف کی شرط اور ووٹروں اور امیدواروں کے مرد ہونے کی شرط کو تبدیل کیا جا رہا تھا؛ یہ بل ۱۶ مہر ۱۳۴۱شمسی کو امیر اسد اللہ علم نے منظور کر دیا۔ خواتین کو انتخابات میں شرکت کی اجازت کی آڑ میں اپنے دیگر اہداف کو حاصل کیا گیا تھا۔
پہلی دو شرائط میں ترمیم و تبدیلی ملکی اداروں میں بہائی عناصر کی موجودگی کو یقینی بنانے کیلئے کی گئی تھی۔ جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شاہ کی حمایت کی شرط یہ تھی کہ شاہ صیہونی حکومت کے ساتھ ایران و اسرائیل تعلقات کی توسیع پر کام کرے گا۔ ایران کی قوائے سہ گانہ میں استعماری فرقے بہائیت کے پیروکاروں کے اثر و رسوخ سے یہ شرط پوری کی جا رہی تھی۔ امام خمینیؒ نے مذکورہ بل کی منظوری کی خبر شائع ہوتے ہی قم کے برزرگ علما کے ہمراہ وسیع پیمانے پر احتجاج کا اہتمام کیا۔
حضرت امامؒ کا کردار شاہ کے حقیقی اہدف کو بے نقاب کرنے اور علما و حوزات علمیہ کی عظیم ذمہ داری کو متعین کرنے کے حوالے سے انتہائی مؤثر تھا۔ علما کے شاہ اور اسد اللہ علم کے نام ٹیلی گرافوں اور کھلے خطوط سے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں تشویش کی لہر پھیل گئی۔ امام خمینیؒ کے شاہ اور وزیراعظم کے نام ٹیلی گراف میں سخت لہجہ اور انتباہ تھا۔ ان میں سے ایک ٹیلی گراف میں یہ مرقوم تھا:
میں آپ کو یہ نصیحت کر رہا ہوں کہ خدائے متعال اور آئین کے سامنے سرتسلیم خم کر دو اور قرآن اور علمائے ملت کے احکام اور آئین کی خلاف ورزی سے ڈرو اور جان بوجھ کر بلا سبب ملک کو خطرے سے دوچار مت کرو ورنہ علمائے اسلام تمہارے خلاف فتویٰ صادر کرنے سے اجتناب نہیں کریں گے۔
اس طرح ایالتی و ولایتی انجمنوں کے بل کا مسئلہ ایرانی عوام کیلئے خصوصیت کے ساتھ ایک گرانقدر تجربہ تھا کہ جس کے دوران آپ کی ذاتی خصوصیات کھل کر سامنے آئیں اور اسلامی امت کی رہبری کیلئے آپ کی شائستگی مشخص ہو گئی۔ شاہ کی شکست کے باوجود امریکی دباؤ کے باعث ایالتی و ولایتی بل کا مسئلہ آگے بڑھتا رہا۔ شاہ نے دی سنہ ۱۳۴۱شمسی میں چھ نکاتی اصلاحات پیش کیں اور ان پر ریفرنڈم کروانے کا اعلان کر دیا۔ امام خمینیؒ نے ایک مرتبہ پھر مراجع اور علمائے قم سے اس سازش کا سد باب کرنے کی اپیل کی۔
امام خمینیؒ کی تجویز پر سنہ ۱۳۴۲شمسی کی عیدِ نوروز کی تقریبات کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ حضرت امامؒ کے اعلامیے میں شاہ کے سفید انقلاب کو سیاہ انقلاب سے تعبیر کیا گیا تھا اور شاہ کے امریکی و اسرائیلی مفادات سے گٹھ جوڑ کو آشکار کیا گیا تھا۔ دوسری جانب سے شاہ نے امریکہ کو یقین دہانی کروا رکھی تھی کہ ایرانی معاشرہ امریکی اصلاحات پر عملدرآمد کرنے کیلئے آمادہ ہے اور اس نے ان اصلاحات کو ’’سفید انقلاب‘‘ کا نام دے رکھا تھا۔ اس کیلئے علما کی مخالفت بہت گراں تھی۔ امام خمینیؒ عوامی اجتماعات میں حکومت کا خوف کیے بغیر شاہ کو تمام جرائم کا اصل ذمہ دار اور اسرائیل کا ہم پیمان قرار دیتے تھے اور لوگوں کو اس کی حکومت کے خلاف قیام کی دعوت دیتے تھے۔ آپ نے فروردین ۱۳۴۲شمسی کو اپنے خطاب میں قم، نجف اور دیگر اسلامی ممالک کے علما کی جانب سے حکومت کے تازہ جرائم پر تنقید کی اور فرمایا: آج خاموشی کا مطلب ظالم حکومت کی ہمراہی ہے ۔۔۔ حضرت امام نے اگلے دن ۱۳فروردین سنہ ۴۲شمسی کو ’’شاہ دوستی یعنی غارت گری‘‘ کے عنوان سے اعلامیہ جاری کیا۔
پیام امام اور کلام امام کی مخاطبین کے دل و جان پر حیرت انگیز تاثیر کا راز اسی دو ٹوک طرز تفکر، ٹھوس رائے اور لوگوں کے ساتھ صداقت میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
۱۳۴۲شمسی کے دو اہم واقعات نوروز کی تقریبات کا بائیکاٹ اور مدرسہ فیضیہ کا مظلوم طلبہ کے خون سے رنگین ہونا تھا۔ شاہ امریکی اصلاحات کے نفاذ پر زور دے رہا تھا جبکہ امام خمینیؒ عوامی شعور و بیداری پیدا کر کے امریکی مداخلت اور شاہ کی خیانت کے خلاف ڈٹ جانے کی اپیل کر رہے تھے۔ ۱۴ فروردین سنہ ۱۳۴۲شمسی کو آیت اللہ العظمیٰ حکیم نے نجف سے بذریعہ ٹیلی گراف ایران کے علما و مراجع کو یہ تجویز پیش کی کہ سب علما و افاضل نجف اشرف تشریف لے آئیں۔ یہ تجویز علما کی جان اور حوزات علمیہ کی حفاظت کے تناظر میں پیش کی گئی تھی۔
حضرت امامؒ نے حکومتی دھمکیوں کی پرواہ کیے بغیر آیت اللہ العظمیٰ حکیمؒ کے ٹیلی گراف کا جواب ارسال کیا اور اس میں تاکید کی کہ علما کی اجتماعی ہجرت اور حوزہ علمیہ قم کی تعطیل خلاف مصلحت ہے۔
امام خمینیؒ نے (۱۲/ ۲/ ۱۳۴۲شمسی) کو ایک پیغام جاری کر کے عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہوں کو غاصب اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی تلقین کی اور شاہ اور اسرائیل کے درمیان معاہدوں کی مذمت کی۔

۱۵ خرداد کا قیام

[ترمیم]

محرم ۱۳۴۲ھ کا چاند خرداد کے مہینے میں طلوع ہوا۔ امام خمینیؒ نے اس فرصت سے بخوبی استفادہ کرتے ہوئے لوگوں کو شاہ کی آمرانہ حکومت کے خلاف قیام کی ترغیب دلائی۔ امام خمینیؒ نے ۱۳ خرداد سنہ ۱۳۴۲شمسی کو مدرسہ فیضیہ میں اپنا تاریخی خطاب پیش کیا کہ جو ۱۵ خرداد کے قیام کا مقدمہ ثابت ہوا۔
اسی خطاب میں امام خمینیؒ نے بلند آواز سے شاہ کو فرمایا تھا: جناب! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں، جناب شاہ! اے جناب شاہ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان کاموں سے ہاتھ اٹھا لو، تمہیں دھوکہ دیا جا رہا ہے، میں نہیں چاہتا کہ ایک دن اگر انہوں نے تمہاری چھٹی کرنا چاہی تو سب شکر ادا کریں۔۔۔ اگر تجھے ڈکٹیشن دی جا رہی ہے اور تم سے کہتے ہیں کہ یہ پڑھ کر سنا دو تو اپنے آس پاس کی بھی فکر کرو ۔۔۔ میری نصیحت کو سنو۔۔۔ شاہ اور اسرائیل کے درمیان کون سا رابطہ ہے کہ اقوام متحدہ کہہ رہی ہے کہ اسرائیل کی بات نہ کریں۔۔۔ کیا شاہ اسرائیلی ہے؟! شاہ نے قیام کو کچلنے کا حکم صادر کر دیا۔ پہلے امام خمینیؒ کے بہت سے ساتھیوں کو ۱۴ خرداد کی شام کو گرفتار کیا گیا اور ۱۵ خرداد سنہ ۴۲شمسی کو آدھی رات کے وقت سینکڑوں کمانڈوز نے حضرت امامؒ کے گھر کا بھی محاصرہ کر لیا اور امامؒ کو نماز شب کی ادائیگی کے دوران گرفتار کر کے تہران کے زندان میں منتقل کر دیا گیا پھر اسی دن غروب کے وقت محل کی جیل میں بند کر دیا گیا۔ ۱۵خرداد کی صبح کو رہبرِ انقلاب کی گرفتاری کی خبر تہران، مشہد، شیراز اور دیگر شہروں تک پہنچ گئی اور وہاں بھی قم جیسی صورتحال پیدا ہو گئی۔
شاہ کے قریبی ترین ساتھی تیمسار حسین فردوست نے اپنی یادداشت میں عوامی تحریک کو کچلنے کیلئے شاہ کے ساتھ امریکہ کے بہترین سیاسی اور سیکیورٹی ماہرین کے تعاون کا ذکر کیا ہے اور شاہ اور دربار کے امرا و فوجی افسروں کی اس دوران بدحواسی سے پردہ اٹھایا ہے کہ شاہ اور اس کے جرنیل کس طرح دیوانہ وار عوامی تحریک کو کچلنے کے احکامات صادر کر رہے تھے۔
۱۹ دن تک قصر کے زندان میں نظر بند رکھنے کے بعد امام خمینیؒ کو عشرت آباد کی فوجی چھاؤنی میں منتقل کر دیا گیا۔ ۱۵ خرداد سنہ ۴۲ھ کو انقلاب کے رہبر کی گرفتاری اور عوام کے ظالمانہ قتل عام کے بعد بظاہر انقلاب خاموش سا ہو گیا تھا۔ امام خمینیؒ نے دوران قید تفتیشی افسروں کے سامنے پوری شجاعت کے ساتھ یہ واضح کیا کہ وہ ایران کی حکمران باڈی اور اس کی عدلیہ کو غیر قانونی اور نا اہل سمجھتے ہیں اور ان کے تفتیشی سوالات کا جواب نہیں دیں گے۔ ۱۸ فروردین سنہ ۱۳۴۳ھ کی شام کو امام خمینیؒ کی قید ختم کر کے انہیں خاموشی سے قم منتقل کر دیا گیا۔ خبر پھیلنے پر پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مدرسہ فیضیہ اور شہر میں چند دنوں تک جشن کا سماں رہا۔ ۱۵ خرداد کو تحریک کی پہلی سالگرہ امام خمینیؒ اور دیگر مراجع تقلید کے مشترکہ اعلامیے اور دیگر حوزات علمیہ کے جداگانہ اعلامیوں کے ساتھ منائی گئی اور اس دن کو ’’یوم سوگ‘‘ کے عنوان سے منانے کا اعلان کیا گیا۔
امام خمینیؒ نے ۴ آبان ۱۳۴۳شمسی کو ایک انقلابی بیان جاری کر کے کہا: دنیا کو معلوم ہونا چاہئیے کہ ایرانی ملت اور مسلمان اقوام کی ہر مصیبت غیر ملکی طاقتوں کی طرف سے ہے، امریکہ کی طرف سے ہے، اسلامی ملتیں اجنبیوں سے بالعموم اور امریکہ سے بالخصوص متنفر ہیں۔
یہ امریکہ ہی ہے کہ اسرائیل اور اس کے حواریوں کی حمایت کرتا ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کو طاقتور بنا رہا ہے تاکہ وہ عربوں کو ان کے آبائی وطن سے باہر نکال دیں۔ امامؒ نے کیپٹلزم بل کی منظوری کا انکشاف کر کے ایران کو آبان سنہ ۴۳شمسی میں ایک مرتبہ پھر انقلاب کی دہلیز پر کھڑا کر دیا۔
۱۳ آبان ۱۳۴۳شمسی کو ایک مرتبہ پھر مسلح کمانڈوز نے سحر کے وقت قم کے اندر امام کے گھر کا محاصرہ کیا۔ تعجب کی بات ہے کہ گرفتاری کا وقت گزشتہ سال کی طرح امام خمینیؒ کی نماز شب کا وقت ہی تھا۔ حضرت امامؑ کو گرفتار کر کے سیکیورٹی فورسز کے ہمراہ براہ راست تہران ائرپورٹ بھجوا دیا گیا اور پہلے سے تیار ایک فوجی ہوائی جہاز سیکیورٹی اور فوجی حکام کی زیر نگرانی انقرہ کی طرف پرواز کر گیا۔ اس دن عصر کے وقت ساواک نے ملکی امن و امان کو خراب کرنے کی پاداش میں امامؒ کو جلاوطن کیے جانے کی خبر جاری کر دی۔
گھٹن کے ماحول کے باوجود احتجاج کی تازہ لہر مظاہروں کی صورت میں تہران کے بازاروں میں نمودار ہوئی، اس دوران حوزات علمیہ کے دروس کی لمبے عرصے تک تعطیل اور بین الاقوامی اداروں اور مراجع تقلید کے نام خطوط اور احتجاجی اعلامیے ارسال کیے گئے۔
امام کا ترکی میں قیام گیارہ ماہ کے عرصے پر محیط تھا اور اس مدت میں شاہ کی حکومت نے انتہائی سختی کے ساتھ انقلابی تحریک کو دبا دیا تھا اور امام خمینیؒ کی غیر موجودگی میں تیزی کے ساتھ امریکی اصلاحات کو نافذ کرنے کا عمل بھی جاری تھا۔ ترکی میں جبری جلاوطنی سے امامؒ کو یہ فرصت میسر آئی کہ عظیم فقہی کتاب تحریر الوسیلہ کی تدوین کا آغاز کر دیں۔

امام خمینیؒ کی ترکی سے عراق جلاوطنی

[ترمیم]

۱۳ مہر سنہ ۱۳۴۳ھ کو حضرت امامؒ اپنے فرزند آیت اللہ حاج آقائے مصطفی کے ہمراہ ترکی سے اپنی اگلی منزل عراق کیلئے روانہ ہوئے۔ بغداد میں اترنے کے بعد آئمہ اطہارؑ کے مراقد کی زیارت کیلئے کاظمین، سامرا اور کربلا میں حاضر ہوئے اور ایک ہفتے کے بعد اپنی اصلی اقامت گاہ یعنی نجف پہنچ گئے۔
امام خمینیؒ کی نجف میں ۱۳ سالہ اقامت کا آغاز ان حالات میں ہوا کہ اگرچہ بظاہر ایران اور ترکی کی طرح کا براہ راست دباؤ نہیں تھا تاہم کچھ عالم نما اور دنیا پرست افراد کی جانب سے مخالفت، عہد شکنی اور طعنہ زنی بہت زیادہ تھی کہ جس کا ذکر امامؒ نے اپنی پوری جدوجہد کی تاریخ میں بڑی تلخی سے کیا ہے۔ مگر ان مصائب میں سے کوئی بھی امامؒ کو اپنی منزل سے باز نہیں کر سکا۔ امام خمینیؒ نے ابان سنہ ۱۳۴۴ھ کو تمام مخالفتوں اور عہد شکنیوں کے باجود مسجد شیخ انصاریؒ میں اپنے فقہی درس خارج کا آغاز کیا کہ جس کا سلسلہ پیرس ہجرت تک جاری رہا۔ آپ کا حلقہ درس نجف کے دروس میں سے کیفیت و کمیت کے اعتبار سے ایک نمایاں ترین درس کے عنوان سے معروف ہوا۔
امام خمینیؒ نے نجف میں سکونت اختیار کرنے کے بعد خطوط و قاصد روانہ کر کے اپنا رابطہ انقلابیوں کے ساتھ برقرار رکھا اور ہر مناسبت پر انہیں ۱۵ خرداد کے اہداف پر ثابت قدم رہنے کی تلقین فرماتے رہے۔
امام خمینیؒ نے جلا وطنی کے بعد سختیوں کے باوجود کسی بھی وقت جدوجہد سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور اپنے خطابات اور پیغامات کے ساتھ دلوں میں کامیابی کی امید کو زندہ رکھا۔
امام خمینیؒ نے ۱۹ مہر ۱۳۴۷شمسی کو فلسطین کی تنظیم الفتح کے نمائندے سے گفتگو کے دوران عالم اسلام اور فلسطینی قوم کے جہاد سے متعلق اپنے نقطہ نظر کی تشریح کی اور اسی انٹرویو میں زکات کی رقوم کو فلسطینی مجاہدین سے مختص کرنے پر مبنی فتویٰ جاری کیا۔
سنہ ۱۳۴۸شمسی کو شاہ کی حکومت اور عراق کی حزب بعث کے مابین آبی حدود کا تنازعہ زور پکڑ گیا۔ عراقی حکومت نے عراق میں مقیم متعدد ایرانیوں کو انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ملک بدر کر دیا۔ حزب بعث نے بہت کوشش کی کہ ان حالات میں امام خمینیؒ کی ایرانی حکومت کے ساتھ دشمنی کا فائدہ اٹھائے مگر انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔
امام خمینیؒ کی نجف اشرف میں چار سالہ تدریس سے حوزہ نجف کا ماحول کچھ حد تک تبدیل ہو چکا تھا۔ اب سنہ ۱۳۴۸شمسی میں اندرون ملک کے بے شمار مجاہدین کے علاوہ عراق، لبنان اور دیگر اسلامی ممالک کے بہت سے سرگرم انقلابی کارکن امام خمینیؒ کی تحریک کو اپنے لیے نمونہ عمل سمجھنا شروع ہو گئے تھے۔

امام خمینیؒ اور جدوجہد کا تسلسل

[ترمیم]

سنہ ۱۳۵۰ھ کی دوسری ششماہی میں عراق اور شاہ کے اختلافات میں تیزی آ گئی تھی اور اس کے نتیجے میں عراق میں مقیم بہت سے ایرانیوں کو ملک بدر کر دیا گیا۔ امام خمینیؒ نے ایک ٹیلی گراف کے ذریعے عراقی صدر سے ان حکومتی اقدامات پر احتجاج کیا۔ اس صورتحال کے پیش نظر امامؒ نے عراق سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کر لیا مگر بغداد کے حکام نے امامؒ کی ہجرت کے عواقب کو بھانپتے ہوئے ان حالات میں آپ کو سفر کی اجازت نہیں دی۔ سنہ ۱۳۵۴شمسی کو ۱۵ خرداد کے موقع پر مدرسہ فیضیہ میں ایک مرتبہ پھر ’’درود بر خمینی‘‘ اور ’’مرگ بر سلسلہ پہلوی‘‘ کے نعرے بلند کیے گئے۔ مدرسہ فیضیہ ایک مرتبہ پھر انقلابی طلاب کے قیام کا شاہد تھا۔ ’’درود بر خمینی‘‘ اور ’’مرگ برسلسلہ پہلوی‘‘ کے نعرے دو دن تک جاری رہے۔ اس سے پہلے بہت سی انقلابی؛ مذہبی اور سیاسی شخصیات کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔
شاہ نے اپنے مذہب مخالف اقدامات کے تسلسل میں اسفند ۱۳۵۴شمسی کو ملکی کیلنڈر کو ہجرت کے نقطہ آغاز سے ہٹا کر ھخامنشی بادشاہوں کی سلطنت کے مبدا سے تبدیل کر دیا۔ امام خمینیؒ نے اپنے سخت رد عمل میں شہنشاہی کیلنڈر کی تاریخ سے استفادہ کرنے کی حرمت پر مبنی فتویٰ دیا۔ عوام نے امامؒ کے فتویٰ کے پیش نظر شاہ کے خیالی کیلنڈر کا بائیکاٹ کر دیا کہ جس سے شاہی حکومت کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں شہنشاہی تاریخ کو بھی منسوخ کرنا پڑا۔

سنہ۱۳۵۶شمسی میں اسلامی انقلاب کا عروج

[ترمیم]

امام خمینیؒ ہمیشہ بدقت ایران اور جہان کی صورتحال پر نظر رکھتے تھے۔ آپ نے مرداد ۱۳۵۶شمسی کو ایک پیغام میں واضح کیا کہ: اب ملک کی اندرونی و بیرونی صورتحال اور حکومتی جرائم کے غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور عالمی سطح پر منعکس ہونے کے بعد ایک فرصت میسر ہوئی ہے کہ وطن دوست افراد اور علمی و فرہنگی انجمنوں، اسلامی انجمنوں اور ملکی و غیر ملکی طلبہ سے ہر مقام پر بہرہ مند ہوا جائے اور کسی بات پر بھی پردہ نہ پڑنے دیا جائے۔
یکم آبان ۱۳۵۶شمسی کو آیت اللہ حاج آقائے مصطفیٰ خمینی کی شہادت کے موقع پر ایران میں قل خوانی کی عظیم مجالس منعقد ہوئیں اور یہاں سے حوزات علمیہ اور مذہبی محفلوں میں ایک مرتبہ پھر انقلاب کی چنگاری شعلہ ور ہو گئی۔ امام خمینیؒ نے غیر متوقع طور پر اس واقعے کو اللہ تعالیٰ کے خفی الطاف میں سے قرار دیا۔ شاہ کی حکومت نے روزنامہ اطلاعات میں امام کے خلاف ایک توہین آمیز مقالہ لکھ کر انتقام لینے کی کوشش کی۔ اس مقالے کے خلاف احتجاج ۱۹ دی سنہ ۵۶شمسی کے قیام پر منتہی ہوا کہ جس کے دوران انقلابی طلبہ کے ایک گروہ کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا گیا۔ شاہ کو اجتماعی قتل عام کا ارتکاب کرنے کے باوجود انقلاب کے شعلے خاموش کرنے میں کامیابی نہیں ملی۔
امریکہ کی جانب سے فوجی بغاوت کی صورت میں شاہ کے نزدیک واحد راہ حل مسلح فوجی کاروائی ہی تھا۔

امام خمینیؒ کی عراق سے پیرس ہجرت

[ترمیم]

نیویارک میں ایران و عراق کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں امام خمینیؒ کو عراق سے دربدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ۲ مہر سنہ ۱۳۵۷شمسی کو نجف میں امام کے بیت کو بعثی فورسز نے گھیرے میں لے لیا۔ اس خبر سے ایران، عراق اور دیگر اسلامی ممالک کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
۱۲ مہر کو امام خمینیؒ نجف سے کویت کیلئے روانہ ہو گئے۔ کویت کی حکومت نے ایرانی حکومت کے ایما پر امامؒ کے ملک میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ پہلے امامؒ کی لبنان یا شام ہجرت کی باتیں ہو رہی تھی مگر آپ نے اپنے فرزند (حجۃ الاسلام حاج سید احمد خمینیؒ) کے ساتھ مشورے کے بعد پیرس ہجرت کا ارادہ کر لیا چنانچہ ۱۴ مہر کو آپ پیرس پہنچ گئے۔
دو دنوں کے بعد پیرس کے مضافاتی علاقے نوفل لوشاتو میں ایک ایرانی کے گھر میں مقیم ہو گئے۔ فرانس کے ایوان صدر کی جانب سے امام کو ہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں سے باز رہنے کا حکم نامہ موصول ہوا۔ آپ نے اپنے سخت رد عمل میں کہا کہ اس طرح کی پابندیاں ڈیموکریسی کے دعوے کے خلاف ہیں۔ اگر وہ مجبور ہو جائیں کہ ایک ائیر پورٹ سے دوسرے ائیر پورٹ تک جاتے رہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک منتقل ہوتے رہیں تو پھر بھی اپنے اہداف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
امام خمینیؒ نے دی ۱۳۵۷شمسی کو شورائے انقلاب تشکیل دے دی۔ شاہ بھی شورائے سلطنت کی تشکیل اور بختیار کی کابینہ کیلئے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد ۲۶ دی کو ملک سے فرار ہو گیا۔ یہ خبر تہران شہر اور پھر پورے ایران میں پھیل گئی۔ بس پھر کیا تھا عوام سڑکوں پر نکل آئی اور ہر طرف جشن کا سماں تھا۔

امام خمینیؒ کی ایران واپسی

[ترمیم]

بہمن ۵۷شمسی کے اوائل میں امام کی وطن واپسی کی خبر شائع ہوئی۔ جو بھی سنتا تھا اس کے آنسو جاری ہو جاتے تھے۔ لوگوں نے ۱۴ برس تک انتظار کیا تھا۔ مگر اس کے ساتھ عوام اور امام کے ساتھی آپ کی جان کی حفاظت کے حوالے سے بھی پریشانی کا شکار تھے کیونکہ ابھی تک شاہ کی کٹھ پتلی فوجی حکومت قائم تھی۔ تاہم امام خمینیؒ نے اپنا فیصلہ کر لیا تھا اور اپنے پیغامات کے دوران ایرانی عوام سے کہہ چکے تھے کہ ان سرنوشت ساز اور اہم دنوں میں وہ اپنے عوام کے شانہ بشانہ رہیں گے۔ بختیار کی حکومت نے جرنیلوں کے ساتھ مل کر ائیرپورٹ کو بیرون ملک کی پروازوں کیلئے بند کر دیا۔ بختیار کی حکومت چند دنوں کے بعد مزید مزاحمت نہ کر سکی اور اسے ملت کی خواہش کو قبول کرنا پڑا۔ آخر کار امام خمینیؒ ۱۲ بہمن ۱۳۵۷شمسی کو ۱۴ سالہ جلاوطنی کے بعد اپنی سرزمین پر پہنچ گئے۔
ایرانی عوام کی جانب سے آپ کا بڑے پیمانے پر بے نظیر استقبال کیا گیا جو اتنا عظیم اور ناقابل تردید تھا کہ مغربی خبر رساں ایجنسیوں کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا۔

امام خمینیؒ کی رحلت

[ترمیم]

امام خمینیؒ نے اپنے اہداف، امنگوں اور پیغامات کا ابلاغ کر دیا تھا اور عملی طور پر اپنی تمام ہستی ان اہداف پر عملدرآمد کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ اس مرتبہ سنہ ۱۳۶۸شمسی کے نیمہ خرداد میں خود کو اس ذات کے ساتھ ملاقات کیلئے آمادہ کر رہے تھے کہ جس کی خوشنودی کے حصول کیلئے ساری زندگی کوشاں رہے۔ آپ اس ذات کے سوا کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکے تھے اور آپ کی آنکھیں اس ذات کے سوا کسی کے سامنے گریاں نہیں ہوئی تھیں۔ آپ کا عارفانہ کلام درد فراق کے ذکر اور وصال محبوب کی گھڑی کی عطش کے بیان میں ہے۔ آپ نے اپنے وصیت نامہ میں تحریر کیا ہے: میں پرسکون دل، مطمئن قلب اور شاد روح اور فضل خدا کے امیدوار دل کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں سے رخصت ہوتا ہوں اور ہمیشگی منزل کی طرف سفر کر رہا ہوں اور آپ کی دعائے خیر کا بہت زیادہ محتاج ہوں اور خدائے رحمن و رحیم سے دعا گو ہوں کہ خدمت کی کوتاہی اور قصور و تقصیر کو معاف فرمائے اور ملت سے امید رکھتا ہوں کہ کوتاہیوں اور قصور و تقصیر پر میری معذرت کو قبول کر لیں اور قوت اور عزم و ارادے کے ساتھ اپنے سفر کو جاری رکھیں۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ رحلت سے چند سال قبل کہی ہوئی اپنی ایک غزل میں امام خمینیؒ نے یہ شعر کہا تھا:
انتظار فرج از نیمه خرداد کشم سالها می‌گذرد حادثه‌ها می‌آید
میں فرج (راحتی و کشادگی) کا انتظار ماہ خرداد کے وسط سے کر رہا ہوں ۔۔۔ سالہا سال گزرتے جا رہے ہیں اور حوادث پیش آ رہے ہیں۔۔۔؛
تیرہ خرداد سنہ ۱۳۶۸شمسی کو رات ۱۰:۳۰ بجے وصال کا لمحہ تھا۔ اس دل کی دھڑکن بند ہو گئی کہ جس نے کئی ملین دلوں میں نور خدا اور روحانی اقدار کا احیا کیا تھا۔ خفیہ کیمرہ جو امامؒ کے دوستوں کی جانب سے ہسپتال میں نصب کیا گیا تھا اور جس میں بیماری کے ایام، آپریشن کے لمحات اور لقائے حق کی گھڑی محفوظ کر لی گئی تھی۔ جب ٹیلی وژن سے امام کے روحانی حالات اور اطمینان قلب کے مناظر نشر کیے گئے تو اس سے عوام کے دل متلاطم ہو گئے کہ جس کی توصیف اس ماحول میں موجودگی کے سوا ممکن نہیں ہے۔ آپ کے لبوں پر مسلسل ذکر خدا جاری رہا۔
زندگی کی آخری رات میں چند مشکل اور طولانی آپریشنز کی تکلیف ۸۷ سال کے سن میں برداشت کی اور کئی گلوکوز کی بوتلیں آپ کے ہاتھوں میں پیوست تھیں؛ مگر اس کے باوجود نماز شب ادا کر رہے تھے اور قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ آخری لمحوں میں ملکوتی اطمینان اور سکون کی حالت میں تھے اور مسلسل کلمہ شہادتین کا ورد کر رہے تھے اور اسی دوران آپ کی روح ملکوت اعلیٰ کی طرف پرواز کر گئی۔ جب امامؒ کی رحلت کی خبر نشر ہوئی تو گویا ایک عظیم زلزلہ برپا ہوا؛ لوگوں میں غم و اندوہ پھیل گیا اور پورے ایران و جہان میں امام خمینیؒ سے مانوس افراد زار و قطار رونے لگے اور بے ساختہ ماتم کرنے لگے۔ کوئی قلم و بیان اس امر پر قادر نہیں ہے کہ اس سانحے کے تمام پہلوؤں اور ان دنوں لوگوں کے ناقابل کنٹرول جذبات کی توصیف کر سکے۔
ایرانی عوام اور انقلابی مسلمانوں کا حق بنتا تھا کہ اس طرح غم منائیں اور ایسے مناظر ایجاد کریں کہ جن کی مثل کو تاریخ نے کبھی نہ دیکھا ہو۔ یہ لوگ اس شخصیت سے محروم ہوئے تھے کہ جس نے ان کی پامال شدہ عزت کو بحال کیا تھا؛ ظالم شہنشاہ اور امریکی غارت گروں کو اسلامی جمہوریہ ایران سے نکال باہر کیا؛ اسلام کا احیا کیا؛ مسلمانوں کو عزت دی؛ اسلامی جمہوریہ کی بنیاد رکھی اور دنیا کی تمام شیطانی اور جہنمی طاقتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا اور دس سال تک سینکڑوں سازشوں، بغاوتوں اور ملکی و غیر ملکی فتنوں کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہے اور ۸ سال تک اس دفاع کے سپہ سالار رہے کہ جس کے مقابلے میں وہ دشمن تھا جو شرق و غرب کا اعلانیہ حمایت یافتہ تھا۔ عوام الناس اپنے محبوب رہبر، دینی مرجع اور حقیقی اسلام کے منادی کے وجود سے محروم ہو چکے تھے۔
اگر کچھ لوگ ان مفاہیم کے ادراک اور ہضم پر قادر نہیں ہیں، تو انہیں چاہئیے کہ ان فلمائے ہوئے مناظر کو دیکھیں جن میں امام خمینیؒ کے پیکر مطہر پر نماز اور ان کی تدفین کے وقت کی صورتحال کو محفوظ کیا گیا ہے اور دسیوں لوگوں کی وفات کی خبر کو دیکھیں کہ جن پر یہ خبر انتہائی گراں گزری اور وہ ہارٹ اٹیک کے باعث اسی وقت چل بسے اور وہ افراد جو شدت غم سے بے ہوش ہو کر گر رہے تھے اور انہیں ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا تھا ۔۔۔ یقینا یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد وہ لوگ ان حقائق کی تشریح سے عاجز ہو جائیں گے۔
بہرحال جن افراد کو عشق کی شناخت اور تجربہ ہے، انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ایرانی عوام واقعا امام خمینیؒ کے عاشق تھے اور انہوں نے آپ کی رحلت کی برسی کے موقع پر کیسا زیبا اور بلیغ شعار تخلیق کیا:
عشق به خمینی عشق به همه خوبیهاست.
یعنی خمینی سے عشق تمام اچھائیوں اور خوبیوں سے عشق کے مترادف ہے۔
چار خرداد سنہ ۱۳۶۸شمسی کو مجلس خبرگان رہبری کا اجلاس منعقد ہوا اور آیت اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ کی جانب سے امام خمینیؒ کا وصیت نامہ پڑھ کر سنایا گیا کہ جس میں ڈھائی گھنٹے لگے؛ اس کے بعد امام خمینیؒ کی جانشینی اور انقلاب کے رہبر سے متعلق بحث کا آغاز ہوا اور چند گھنٹوں کے بعد آخر کار حضرت آیت اللہ خامنہ ای (اس وقت کے صدر مملکت) کہ جو امام خمینیؒ کے شاگرد اور انقلاب اسلامی کے درخشاں چہرے کے عنوان سے معروف تھے، ۱۵ خرداد کے قیام کے منتظمین میں سے تھے، امام کی تحریک کے ہر نشیب و فراز میں اپنا مؤثر کردار ادا کر چکے تھے، اسی طرح انقلاب کے مجاہدین کے ساتھ محاذ جنگ پر بھی شرکت کر چکے تھے؛ کو اتفاق آرا سے اس ذمہ داری کیلئے منتخب کر لیا گیا۔ سالہا سال سے یورپی رہنما جو امام کو شکست دینے سے مایوس ہو چکے تھے؛ امامؒ کی موت کے انتظار میں تھے؛ مگر ایرانی ملت کی ہوشیاری اور خبرگان کی جانب سے فوری اور شائستہ انتخاب اور امام کے فرزند اور پیروکاروں کی حمایت نے مخالفین انقلاب کی تمام امیدوں کو خاک میں ملا دیا اور نہ صرف یہ کہ امامؒ کی رحلت سے آپ کا راستہ منقطع نہیں ہوا بلکہ درحقیقت ماضی سے زیادہ آب و تاب کےساتھ عصر امام خمینیؒ کا آغاز ہو چکا تھا۔ کیا فکر، نیکی، روحانیت اور حقیقت بھی مر سکتی ہے؟ پندرہ خرداد سنہ ۶۸شمسی کے شب و روز میں کئی ملین لوگ تہران اور دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے امام خمینیؒ کو وداع کرنے کیلئے آئے ہوئے تھے؛ ان کا اجتماع تہران کے عظیم مصلی میں منعقد ہوا تاکہ آخری مرتبہ اس مرد کے پاکیزہ بدن سے الوداع کریں کہ جس نے اپنی خمیدہ قامت سے ایک تاریک دور میں اقدار کو زندہ کر دیا تھا اور دنیا میں خدا جوئی اور فطرت انسانی کی طرف بازگشت کی تحریک کا آغاز کیا تھا۔
جنازے کی تقریب میں ظاہری رسومات کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ہر چیز رضاکارانہ، عوامی اور عاشقانہ انداز سے جلوہ نما تھی۔ امام کا پاکیزہ اور سبز پوش پیکر ایک بلند مقام پر لاکھوں لوگوں کے مابین مانندِ نگین ضو فشاں تھا۔ ہر شخص اپنی زبان کے ساتھ اپنے امام سے محو گفتگو تھا اور آنسو بہا رہا تھا۔ ساری سڑکیں اور مصلی کی طرف آنے والے راستے سیاہ پوش عوام کے ساتھ کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔
سیاہ پرچم شہر کے در و دیوار پر نصب تھے اور تمام مساجد، مراکز، دفاتر اور گھروں سے قرآن کی تلاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ رات کے وقت ہزاروں شمعیں اس مشعل کی یاد میں جلائی گئیں کہ جسے امامؒ نے روشن کیا تھا؛ مصلی کا بیابان اور اطراف کے ٹیلے روشن ہو گئے۔ غمزدہ خاندان شمعوں کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں نورانی بلندی کی طرف خیرہ تھیں۔
رضاکاروں کی یا حسین کی فریاد سے یتیمی کا احساس ہو رہا تھا اور وہ سر و سینے پر ماتم کر رہے تھے۔ یہ یقین نہیں آ رہا تھا کہ اب امام خمینیؒ کی دل نشین آواز کو حسینیہ جماران میں نہیں سن پائیں گے؛ لوگوں کی ہمت جواب دیتی جا رہی تھی۔
لوگوں نے رات امامؒ کے پیکر کے نزدیک بسر کی۔ ۱۶ خرداد کی صبح کو کئی ملین افراد نے آیت اللہ العظمیٰ گلپائیگانی کی اقتدا میں اشکبار آنکھوں سے امامؒ کے پیکر پر نماز ادا کی۔
لوگوں کا جم غفیر جو امام خمینیؒ کی تیرہ سالہ جلاوطنی کے بعد ملک میں ۱۲ بہمن ۱۳۵۷شمسی کو آمد کے موقع پر آپ کے استقبال کیلئے اور پھر تشییع جنازہ کیلئے موجود تھا؛ یہ یقینا تاریخ کے عجائب میں سے ہے۔ دنیا بھر کی سرکاری خبر رساں ایجنسیوں نے سنہ ۱۳۵۷شمسی کو استقبال کرنے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ افراد اور تشییع جنازہ میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد کو ۹۰ لاکھ قرار دیا تھا۔ یہ اس حال میں تھا کہ ایرانی عوام نے امام خمینیؒ کی گیارہ سالہ حکومت کے دوران مغربی و مشرقی ممالک کی ایران کے خلاف متحد ہو کر دشمنی اور آٹھ سالہ مسلط شدہ جنگ کی وجہ سے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کیا تھا اور بہت سے عزیزوں کی قربانی پیش کی تھی؛ اس کے نتیجے میں انہیں رفتہ رفتہ تھکن اور سرد مہری کا شکار ہونا چاہئیے تھا؛ مگر ہرگز ایسا نہیں ہوا۔ امام خمینیؒ کے الہٰی مکتب میں پرورش پانے والی جوان نسل کو امام کے اس فرمان پر کامل یقین تھا کہ: دنیا میں زحمت و مشقت، رنج و الم اور فداکاری و جانثاری و محرومیتوں کا حجم منزل مقصود کی عظمت، اہمیت اور اعلیٰ مراتب سے ہم آہنگ ہوتا ہے؛ جب تدفین کی رسومات کو سوگواروں کے جذبات کی وجہ سے جاری رکھنا ممکن نہ رہا تو ریڈیو سے بار بار اعلان کیا گیا کہ لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں ۔۔۔ تدفین کی رسومات کو موخر کر دیا گیا ہے اور اس کے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ مسئولین کو اس امر میں کوئی تردید نہیں تھی کہ جس قدر وقت گزرتا جا رہا ہے، اسی قدر دور دراز کے شہروں سے تہران کیلئے روانہ ہونے والے لاکھوں لوگ بھی ہجوم میں شامل ہوتے جا رہے ہیں؛ اس لیے مجبور ہو کر اسی دن بعد از ظہر تدفین کی رسومات انہی جذبات اور احساسات کے ساتھ انجام دی گئیں کہ جن کے بعض پہلوؤں سے خبر رساں ایجنسیوں نے دنیا بھر کو آگاہ کیا اور اس طرح امام خمینیؒ کی رحلت بھی ان کی زندگی کی مانند بیداری اور تحریک کی بنیاد قرار پائی، آپ کی منزل اور تذکرہ جاویدانی ہو گیا کیونکہ وہ ایک حقیقت تھے اور حقیقت ہمیشہ زندہ و ناقابل فنا ہوتی ہے۔

اساتذہ

[ترمیم]

آقا میرزا محمود افتخار العلماء
میرزا رضا نجفی خمینی
آقا شیخ علی محمد بروجردی
آقا شیخ محمد گلپائگانی
آقا عباس اراکی
سید محمد تقی خوانساری
سید علی یثربی کاشانی
شیخ عبدالکریم حائری
سید ابوالحسن رفیعی قزوینی
میرزا علی اکبری حکمی یزدی
محمد رضا مسجد شاہی اصفہانی
میرزا جواد ملکی تبریزی
آقا میرزا علی شاه آبادی
و....

شاگرد

[ترمیم]

حضرت آیت ‌اللہ ‌العظمیٰ سیدعلی خامنه‌ای
آیت الله شہید مطہری
آیت اللہ بہشتی
آیت اللہ فاضل لنکرانی
آیت الله سبحانی
آیت اللہ مکارم شیرازی
آیت اللہ جوادی آملی
اور دیگر افراد۔

تألیفات

[ترمیم]

تحریر الوسیلہ
چہل حدیث
طلب و اراده
رسائل
تعلیقات علی شرح فصوص الحکم و مصباح الانس
مصباح الهدایہ الی الخلافہ و الولایہ
سر الصلاۃ
کشف الاسرار
انوار الهدایۃ فی التعلیقۃ علی الکفایۃ
مناھج الوصول الی علم الاصول
رسالۃ فی الطلب و الاراده
کتاب الطهارۃ
مکاسب محرمۃ
کتاب البیع
ولایت فقیہ یا حکومت اسلامی
و ...

امامؒ کی کچھ یادیں

[ترمیم]

امام خمینیؒ کی زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں ایک مختصر مقالے کے اندر بات کرنا آسان نہیں ہے۔ یہاں ہم آپ کی زندگی کے چند واقعات کا ذکر کرتے ہیں:

← اہل خانہ کے ساتھ ہنسی مذاق


حضرت امامؒ کے ایک خادم کہتے ہیں: بعد از ظہر امام کے اہل خانہ، پوتے، نواسے اور بہو بیٹیاں آپ کے گرد حلقہ وار جمع ہو جاتے تھے؛ امامؒ ان کے ساتھ اس قدر گھل مل جاتے تھے اور ہنسی مذاق کرتے تھے کہ جس کا تصور اتنی زیادہ مشکلات میں گھرے ہوئے سیاسی قائد کیلئے شاید ناممکن تھا۔
[۸] لقمانی، احمد، خنده، شوخی، شادمانی، ص۶۴، اول، سابقون، ۱۳۸۰ شمسی۔


← شام کا سفر


امامؒ کا ایک پوتا جس کا نام مسیح تھا وہ محاذ جنگ سے واپس آیا اور اپنے دادا کی خدمت میں پہنچا؛ امامؒ نے مزاحا کہا: کیا تم شہید نہیں ہوئے کہ شہید فاؤنڈیشن ہمیں بھی شام کے ایک سفر پر بھیج دے؟!
[۹] رجایی، غلام‌علی، برداشت‌هایی از سیرۀ امام خمینی (رحمة‌الله‌علیه)، ج۱، ص۳۵، پنجم، ۱۳۸۴ شمسی۔


← ہمیشگی مسکراہٹ


حضرت امامؒ کا ایک پوتا کہتا تھا: میں عام طور پر آرام کے اوقات میں امام کے پاس جاتا تھا اور کبھی مغرب و عشا سے قبل اور کبھی خبریں نشر ہونے کے بعد اور کبھی صبح سکول جانے سے پہلے۔ جب ان کے کمرے میں داخل ہوتا تھا تو مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ امامؒ بہت زیادہ خوش ہوئے ہیں اور مسکراہٹ کے ساتھ میرے سلام کا جواب دے رہے ہیں۔ اس شیرین مسکراہٹ کو میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا؛ البتہ امام اپنے نزدیکیوں سے ملاقات کے وقت اسی طرح کا طرز عمل اختیار کرتے تھے اور اظہار محبت کے حوالے سے کسی میں تفریق نہیں کرتے تھے۔
[۱۰] لقمانی، احمد، خنده، شوخی، شادمانی، ص۶۹، اول، سابقون، ۱۳۸۰ شمسی۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. فردی، امیرحسین، امام خمینی، ص۱۱ ۱۳، چهارم، تهران، وزارت آموزشی و پرورشی، ۱۳۸۰ شمسی۔
۲. فردی، امیرحسین، امام خمینی، ص۷، چهارم، تهران، وزارت آموزشی و پرورشی، ۱۳۸۰ شمسی۔
۳. فردی، امیرحسین، امام خمینی، ص۱۳، چهارم، تهران، وزارت آموزشی و پرورشی، ۱۳۸۰ شمسی۔
۴. فردی، امیرحسین، امام خمینی، ص۱۴، چهارم، تهران، وزارت آموزشی و پرورشی، ۱۳۸۰ شمسی۔
۵. گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقه و فقها، ص۲۸۹، دوم، تهران، سمت، ۱۳۷۷ شمسی۔
۶. فردی، امیرحسین، امام خمینی، ص۱۶، چهارم، تهران، وزارت آموزشی و پرورشی، ۱۳۸۰ شمسی۔
۷. حائری، علی و همکاران، روزشمار شمسی، ص۲۱۶، مرکز پژوهش‌های اسلامی صدا و سیما، اول، ۱۳۸۲ شمسی۔
۸. لقمانی، احمد، خنده، شوخی، شادمانی، ص۶۴، اول، سابقون، ۱۳۸۰ شمسی۔
۹. رجایی، غلام‌علی، برداشت‌هایی از سیرۀ امام خمینی (رحمة‌الله‌علیه)، ج۱، ص۳۵، پنجم، ۱۳۸۴ شمسی۔
۱۰. لقمانی، احمد، خنده، شوخی، شادمانی، ص۶۹، اول، سابقون، ۱۳۸۰ شمسی۔


ماخذ

[ترمیم]

سائٹ اندیشہ قم۔    
سایت مقام معظم رهبری۔    
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقاله امام خمینی۔    






جعبه ابزار