تشخص فلسفی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
تشخص فلسفہ کی ایک اصطلاح ہے جس کا تعلق
موجود بما ھو موجود کے عوارضِ ذاتی سے ہے۔ اس کا شمار
معقولات فلسفی میں ہوتا ہے۔
[ترمیم]
ہر وہ شیء جو بعنوان ایک شخص اپنے غیر سے متمایز و جدا ہو اور اس کا اپنے غیر پر
صدق اورا نطباق ہونا محال ہو تشخص کہلاتا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ اس شیء کا دیگر اشیاء کے ساتھ مشترک ہونا ممکن ہے۔
[ترمیم]
یونانی فلاسفہ میں سے بعض نے اجمالی طور پر اور بعض نے تفصیلی طور پر تشخص اور اس کے سبب و منشأ سے بحث کی ہے۔
ارسطو پہلا فلسفی ہے جس نے تشخص کے عامل اور اس کی اصل کے بارے میں گفتگو کی اور تشخص و تفرّد پر روشنی ڈالتے ہوئے اظہارِ نظر کیا۔
اس باب میں ارسطو کی مختلف آراء دورِ حاضر کے غربی محققین میں گرما گرم بحث کا باعث بنی۔ اس بارے میں دو آراء ہمارے سامنے آتی ہے:
۱۔ ایک گروہِ محققین کہتا ہے کہ ارسطو نے
مادہ کو تشخص کا منشأ اور سببِ اصل قرار دیا ہے۔
۲۔ دوسرا گروہِ محققین قائل ہے کہ ارسطو نے
صورت کو اصلِ تشخص قرار دیا ہے۔
محققین کے ہر دو گروہوں نے اس باب میں ارسطو کی نظر کو بیان کرنے کے لیے جو سعی و کوشش کی ہے اس کا استناد و اعتماد ان متون اور مطالب پر ہے جو ارسطو نے تحریر کیے ہیں اور ہم تک پہنچے ہیں۔
فرفوریوس نے اگرچے تشخص سے جدا طور پر بحث نہیں کی لیکن متعدد مباحث کے ضمن میں اس کے بارے میں اپنی رائے ذکر کی ہے۔ فرفوریوس کے مطابق اصلِ تشخص کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ متعدد موضوعات پر حمل نہیں ہوتا۔ فرد اور تشخص وہ ہوتا ہے جو فقط ایک چیز پر حمل ہو، جیسے سقراط، یہ انسان، وہ انسان وغیرہ۔ اس بناء پر تشخص کا معنی غیر پر
حمل نہ ہونا قرار پائے گا۔ تشخص کی ایک اہم خصوصیات یہ ہے کہ وہ ایک فرد میں منحصر ہوتا ہے۔ تشخص کا منشأ اور اصلی سبب شیء سے مختص وہ خصوصیت ہے جس کی بناء پر اس کا ایک فرد میں منحصر ہونا لازم آتا ہے۔
عیسائیوں کی نظر میں کلامی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ
تثلیث کا مسئلہ اور اس کا
اللہ تعالی کی وحدانیت سے سازگار نہ ہونا ہے۔
قرون وسطی میں مسیحی فلاسفہ نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے تشخص کی بحث کو ابھارا اور اس کے ذریعے سے نظریہِ تثلیث کو اللہ سبحانہ کی وحدانیت کے عقیدہ سے سازگار کرنے کی کوشش کی۔ انہیں مسیحی فلاسفہ میں ایک
بوئثیوس ہے جس نے تثلیث کے بابت میں اس شبہ کو حل کرنے کی سعی و کوشش کی اور تشخص کی بحث کو قدرے منظم پیش کیا۔
ارسطو کے آثار کی متعدد فلاسفہ نے شرح کی ہے جن میں سے بعض شروح میں تشخص سے بحث کی گئی ہے۔ نیز فرفوریوس کی
ایساغوجی میں جو تفسیر درج کی گئی ہے اور اس میں تثلیث و وحدانیتِ الہی کی تشریح بیان کی گئی ہے اس کے ذیل میں تشخص کا دقیق و عمیق جائزہ لیا گیا ہے۔
بوئثیوس کی نظر میں تشخص کی تین سلبی خصوصیات ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:
۱) عدمِ
تقسیم، یعنی افراد و اشخاص دیگر انواع اور اجزاء میں تقسیم کی قابلیت نہیں رکھتے، مثلا
سقراط کو دیگر افراد میں تقسیم نہیں کر سکتے۔
۲)
عدم حمل، یعنی ہر وہ فرد یا خصوصیت جو اسی کے ساتھ مختص اور اسی میں منحصر ہو وہ اس کے غیر پر حمل نہیں ہو سکتی۔
۳) عدم انتقال، یعنی ہر فرد کی
ماہیت کو اس طرح سے ہونا کہ اس کی خصوصیات اسی فرد میں وجود رکھتی ہوں اور اس کے غیر میں قابلِ انتقال نہ ہوں۔
بوئثیوس کی نظر میں
اعراض خصوصا ہر چیز کی خصوصیت جیسے
مکان اس کے تشخص کا سبب ہے۔ غیر مادی وجود جوکہ مادہ اور اعراضِ مادی سے مجرد ہوتا ہے، ان میں عاملِ تشخص وہ خصوصیات ہیں جو فکر و وحدت کی قبیل سے ہے۔
[ترمیم]
فلسفہ اسلامی میں تشخص سے فلسفہ کے امورِ عامہ یعنی الالہیات بمعنی اعم میں بحث کی جاتی ہے۔ عموما احکامِ ماہیت سے مربوط ابواب میں اس موضوع سے بحث کی جاتی ہے۔
ابن سینا نے تشخص کا معنی اس طرح سے بیان کیا ہے:
معنى التَّشَخُّص هُوَ أَن لَا يَكُونَ للمُتَشَخّص شرَكَةٌ لِغَيۡرِهِ فِيۡمَا تَشَخَّصَ بِهِ؛ تشخص کا معنی یہ ہے کہ متشخص کے لیے اس کے غیر کی اس میں شرکت نہ ہو جس کے ذریعے سے وہ متشخص ہوا ہے۔
وہ جس کے ساتھ اس کی مثل نہ پائی جائے اسے متشخص کہتے ہیں۔
میرزا مہدی آشتیانی بیان کرتے ہیں کہ وجود کے
عوارضِ ذاتی میں سے ایک تشخص ہے۔ بلکہ اہل تحقیق کے مطابق عینِ وجود ہے۔ چنانچہ مناسب یہ ہے کہ تشخص سے مباحثِ
وجود میں بحث کی جائے۔ البتہ اگر ہم اس جہت سے جائزہ لیں کہ ماہیاتِ کلی اور ذہنی مفاہیم تشخص کے محتاج ہیں نہ کہ وجود کے جیساکہ بعض حکماء نے تشخص کو ماہیت کی
سنخ سے قرار دیا تو ہمیں تشخص کے متعلق بحث احکامِ ماہیت سے مربوط ابواب میں کی جانی چاہیے۔
[ترمیم]
بعض فلاسفہ اور مسلمان
متکلمین نے تشخص کو خودِ
تعین یا
تمیز قرار دیا ہے اور ان دونوں کو ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال کرنا اور مترادف کے طور پر لینا صحیح شمار کیا ہے۔ حتی بعض نے ایسے امور کو بھی تشخص کے اسباب میں سے شمار کیا ہے جو واقع میں تشخص کے اسباب نہیں ہیں بلکہ ایک شیء کے تعین و تمیز کے اسباب ہیں۔
البتہ بعض دیگر علماء اس باب میں لفظی اور معنوی اشتباہات سے محفوظ رہے ہیں اور انہوں نے تشخص کو تعین و تمیز سے جدا کرتے ہوئے دونوں میں نمایاں فرق روشن کیا ہے۔ ان علماء کی نظر میں
تعین اور تمیز دونوں
مترادف اور ہم معنی ہیں۔
[ترمیم]
تشخص اور تعین میں فرق کو بیان کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو تشخص کو تعین سے جدا نہیں کیا جا سکے گا اور تشخص کے اسباب واضح نہیں ہوں گے۔ تشخص کے سبب و منشأ کے بارے میں حکماء و
فلاسفہ میں اختلاف پایا جاتا ہے جس سے اسی وقت آگاہ ہوا جا سکتا ہے جب تشخص اور تعین میں فرق کیا جائے۔
[ترمیم]
تشخص اور تعین میں کلی طور پر دو فرق پائے جاتے ہیں:
۱) تمیز یا تعین مانع نہیں بنتا کہ ایک متعین اور متمایز شیء ایک عمومی امر میں دیگر دوسری اشیاء کے ساتھ اشتراک رکھتی ہو۔ اسی وجہ سے تعین اور تمیز کو
امرِ نسبی قرار دیا گیا ہے۔ بالفاظِ دیگر ایک شیء کو جب دوسری اشیاء کے ساتھ مقائسہ کیا جائے تو یہ شیء ان دیگر اشیاء کے ساتھ جہاں بعض جہات سے مشترک ہوتی ہے وہیں ان سے جدا اور متمایز و متغایر بھی ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف تشخص ایک
امرِ نفسی ہے جو ایک وجود کو حاصل ہوتا ہے۔ لہذا جب ہم ایک وجود کو اس کے غیر سے قطع نظر ملاحظہ کریں اور اس کا مقائسہ کسی دوسری شیء کے ساتھ نہ کریں جس کے ساتھ یہ مشترک ہو بھی سکتا ہے اور نہبں بثی تو معلوم ہو گا کہ یہ وجود متشخص ہے۔
۲) اگرچے تشخص اور تعین و تمیز ہر دو چند یا دو اشیاء کے درمیان افتراق و تمایز کا باعث بنتے ہیں لیکن
تعین کی وجہ سے ایک شیء میں حاصل ہونے والے تمایز میں شیء جزئی نیہں بنتی۔ یعنی تعین یا تمیز کثیر موارد و امور میں اشتراک، انطباق اور صدق سے مانع نہیں بنتا۔ جبکہ تشخص ایک شیء کے جزئی ہونے کا سبب بنتا ہے اور اس کے علاوہ اس کے غیر پر صدق و انطباق سے مانع بن جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر، تمیز اور تعین
کلی اور تشخص جزئی سے سازگار ہے۔ البتہ
جزئی ہونے اور تشخص میں فرق
مصداق و مفہوم میں تفاوت کا ہونا ہے یا تفاوت
ذہن کا امرِ خارجی میں سے ہونا ہے۔
[ترمیم]
تشخص اور تعین میں
عموم و خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ تشخص و تعین میں جہاں تمایز اور افتراق پایا جاتا ہے وہاں ان میں موافقت بھی پائی جاتی ہے۔ عموم و خصوص من وجہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں ایک جہت سے مشترک شمار ہوں گے اور بعض موارد میں دونوں ایک دوسرے جدا۔ اگر جہت اختلاف کو مدنظر رکھیں تو بعض موارد ایسے ہیں جن میں فقط تشخص ہوتا ہے اور تعین و تمیز نہیں ہوتا۔ یہ اس جگہ ہوتا ہے کہ جہاں ایک شیء تشخص رکھتی ہے اور ہر قسم کے اشتراک سے عاری ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض ایسے موارد ہیں جن میں فقط تمیز و تعین ہوتا ہے اور تشخص نہیں ہوتا، جیسے ایک کلی دوسری کلی سے تمیز رکھتی ہے مثلا
انسان گھوڑے سے تمایز رکھتا ہے۔ اسی طرح بعض موارد میں تشخص اور تعین دونوں متحقق ہوتے ہیں، جیسے انسان کے افراد۔
[ترمیم]
باب تشخص میں دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس کا منشأ و سبب کیا ہے ؟ تشخص کہاں سے جنم لیتا ہے؟ کیونکہ ماہیت ذاتًا متعدد امور پر صدق کرنے سے ذاتًا مانع نہیں ہے اور
ماہیت کی چند امور میں شراکت محال نہیں ہے۔ لہذا تشخصِ شیء یعنی اس کا متعدد امور میں صدق و مشارکت کا ممتنع ہونے کا سبب ماہیت کی ذات و ذاتیات سے خارج کوئی امر زائد ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے حکماء نے تشخص کے سبب کی تحقیق و جستجو کی ہے۔ البتہ حکماء کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
تشخص کے بارے میں
فارابی کی عبارات دو قسم کی ہیں:
۱۔ ایک جگہ بر فارابی بیان کرتے ہیں کہ تشخص کی
علت اور سبب شیء کی خاص صفات و
اعراض ہیں جوکہ غیر مشترک ہوتی ہے، جسے وضع،
زمان اور
مکان (= [[
أین]] ) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
۲۔ دوسری جگہ فارابی تحریر کرتے ہیں:
شیء کے تشحص سے مراد اس کا وجودِ خاص ہے جسے
ہویت،
عینیت اور
وحدت کہا جاتا ہے۔ تشخص اور شیء کا منفرد وجود دونوں ایک ہی چیز ہیں جوکہ اپنے غیر سے اشتراک نہیں رکھتیں۔
ابن سینا کی نظر میں تشخص کا سبب
وضع، زمان اور [[این |
أیْن]] ہے۔ ان کی نظر میں
تشخص کا سبب ماہیت یا
ماہیت کی عرضیِ لازم نہیں بلکہ شیء کے وجود پر عارض ہونے والی
عَرَض لازم ہے۔ چونکہ یہ امور مشترک ہیں اس لیے
ذات سے خارج عرض کا عارض ہونا تشخص کا باعث بنتا ہے۔ اس عرضِ خارج کو اس طرح کے امور میں سے نہیں ہونا چاہیے جو تبدیل کیے جا سکیں کیونکہ ایسی صورت میں اس کے تبدل سے شیء کے تشخص کا تبدیل ہونا لازم آئے گا جس کا لازمہ یہ نکلتا ہے کہ وہ شیء خود نہیں ہے۔
ابن سینا
کے نزدیک وہ موجود جس کی ماہیت عینِ وجود ہے جیسے
اللہ سبحانہ، اس کے تشخص کا سبب ماہیت اور خود اس کی اپنی ذات ہے، یعنی وہ
بِذَاتِہِ متشخص ہے۔ اس کے مقابلے میں مجردات اور
عقول مفارقہ ہیں جن کے تشخص کا سبب ان کی ذات کے لوازم ہیں۔
اسی طرح ابن سینا کا کہنا ہے کہ شیء کا تشخص اس عرضی کے عارض ہونے کی وجہ سے ہے جو اولِ وجود یا وجود کے بعد اس پر عارض ہوتی ہے۔
بہمنیار اس باب میں اپنے استاد
ابن سینا کی پیروی کی ہے اور انہی کے نظریہ کو اختیار کیا ہے۔
سہروردی کی نظر میں شیء کے تشخص کا باعث اس کی
ہویتِ عینی ہے۔ ایک شیء اپنی عینی ہویت کی وجہ سے شرکت و اشتراک سے مانع ہو جاتی ہے، کیونکہ مشارکت اور
کلیت معنی مطابقی ہیں جن میں انسان ایک امرِ ذہنی کو انجام دیتے ہوئے
مماثل و مشابہ امور میں ہویتِ عینی کو مفقود کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اس مفہوم میں کلیت و مشارکت حاصل ہو جاتی ہے۔
فلسفی کتب میں تشخص کے بارے میں ایک یہ رائے بھی ذکر ہوئی ہے کہ تشخص ایک نوعِ ادراک اور
علمِ حسی یا حضوری مشاہدہ ہے نہ کہ
مُدرَکِ خارجی۔ تشخص کوئی خارجی شیء نہیں ہے بلکہ حسّ کے ذریعے قابل درک مفہوم ہے۔ پس اگر ایک شیء
حس یا حضوری مشاہدہ کے ذریعے درک ہو تو حاصل ہونے والا معلوم
جزئی اور متشخص ہو گا اور اگر
تعقل کے ذریعے اسے ادراک کیا جائے تو وہ
کلی ہو گا۔ اس رائے کی نسبت بعض کتب میں
جلال الدین دوانی اور
صدرالدین دشتکی کی طرف دی گئی ہے۔
تشخص کے باب میں دیگر اقوال کے ذیل وارد ہوا ہے کہ شیء کا تشخص فاعل کی وجہ سے ہے۔ اس اعتبار سے تشخص غیر مادی امور سے وابستہ قرار پائے گا اور ان غیر مادی کا تحقق ان کے
امکانِ ذاتی اور فاعل سے تعلق رکھتا ہے۔ بالفاظِ دیگر فاعل مفیدِ وجود ہے اور وجود عینِ تشخص ہے۔ پس جو مفیدِ وجود ہے وہی مفیدِ تشخص بھی ہے اور ہر وجود اپنے فاعل کے ذریعے سے تشکیل پاتا ہے جس کے نتیجے اس کا تشخص بھی فاعل سے متقوم ہو گا۔
اسلامی فلاسفہ میں برجستہ ترین حکیم
ملا صدرا ہیں جن کا نام محمد بن ابراہیم ہے اور صدر الدین شیرازی یا صدر المتألہین کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ نے تشخص کے باب میں وارد ہونے والے تمام فلاسفہ و متکلمین کے اقوال کی تحقیق کی اور تشخص کے نام سے مستقل ایک رسالہ تحریر کیا۔ ملا صدرا
نے اس باب میں اپنا نکتہِ نظر بیان کرنے کے علاوہ دیگر اقوال کو بھی ذکر کیا ہے اور استدلال کے ساتھ نقد کرتے ہوئے ان اقوال کو رد کیا ہے۔ آپ کی نظر میں
ہر موجود کے تشخص کا سبب اور منشأ بذاتِ خود اس کا اپنا وجودِ خاص ہے۔ کیونکہ ہر موجود کو اس کے
وجودِ خاص سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ملاحظہ کیا جائے تو وہ نکتہِ اشتراک رکھتا ہے اور کثیر امور پر صدق کے قابل ہو جاتا ہے، اگرچے اس کے ساتھ ہزاروں
مخصص ضمیمہ ہو جائیں۔
تشخص کے باب میں ملا صدرا کا خصوصی نظریہ حقیقت میں
اصالتِ وجود اور اعتباریتِ ماہیت کے نظریہ پر موقوف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے تشخص کے باب میں وارد ہونے والے بقیہ اقوال کی توجیہ اصالتِ وجود کے نظریے کے تحت کی اور اسی نظریے کی طرف بقیہ اقوال کا ارجاع دیا۔ آپ نے ان اقوال کی ایسی توجیہ اور تبیین کی کہ وہ اقوال آپ کی رائے کے موافق اور سازگار دکھائی دینے لگے۔
صدرالدین شیرازی نے اعراض جس کو دیگر محققین نے تشخص کا سبب قرار دیا ہے کو تشخص کے لوازم میں شمار کیا ہے اور اسے تشخص اور شیء کے وجود کے تابع قرار دیا ہے۔
علامہ طباطبائی نے تشخص کے باب میں ملا صدرا کا نظریہ قبول کیا ہے اور اس باب میں بقیہ اقوال کو کاملًا حقیقت سے خالی قرار نہیں دیا۔ علامہ کی نظر میں ملا صدرا اور بقیہ اقوال میں فرق یہ ہ ےکہ بقیہ نے جسے تشخص کا سبب قرار دیا ہے وہ سببِ بعید ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ تشخص کے قریب ترین سبب کو ذکر کیا جائے جوکہ بذاتِ خود ایک شیء کا وجود ہے۔ ہر شیء کا خاص وجودِ عینی اس کی ذات کو دیگر کے ساتھ مشترک ہونے سے مانع بن جاتا ہے۔ کیونکہ وجود بذاتِ خود بالذات متشخص ہے اور ہر ماہیت اسی کی وجہ سے متشخص ہوتی ہے۔
[ترمیم]
فلسفی اور کلامی ابحاث میں تشخص کے بارے میں جو قاعدہ ذکر کیا گیا ہے اس کے مطابق تشخص وجود کے مساوق ہے۔ ان کتب میں یہ عبارت وارد ہوئی ہے:
الشَّیۡءُ مَا لَمۡ یَتَشَخَّصۡ لَمۡ یُوۡجَد؛ جب تک ایک شیء متشخص نہ ہو جائے موجود نہیں ہوتی۔ لہذا خارج میں جو چیز موجود ہے وہ متشخص ہے۔
ملا صدرا نے متعدد ابحاث میں بحثِ تشخص سے استفادہ کیا ہے۔ انہی مباحث میں سے ایک معاد اور قیامت کی بحث ہے جس میں ملا صدرا نے تشخص کی بحث سے استفادہ کرتے ہوئے تحقیقات کو پیش کیا ہے۔
میرزا مہدی آشتیانی نے توحید کے ذیل میں وحدتِ شخصی کے نظریے سے بحث کی ہے اور توحیدِ خاصی بلکہ توحیدِ اخص الخواصی کو ثابت کرتے ہوئے اس کو تشخص کی بحث پر موقوف قرار دیا ہے۔ میرزا مہدی آشتیانی کی نظر میں وجود کی وجہ سے توحید اخص الخواصی تشخص کے نظریہ پر متفرع ہے۔
[ترمیم]
(۱) مہدی، آشتیانی، تعلیقہ بر شرح منظومہ حکمت سبزواری، چاپ عبد الجواد فلاطوری و مہدی محقق، تہران ۱۳۶۷ ش۔
(۲) غلام حسین، ابراہیمی دینانی، قواعدکلی در فلسفہ اسلامی، تہران ۱۳۶۵ـ۱۳۶۶ش۔
(۳) حسین، ابن سینا، التعلیقات، قم ۱۳۷۹ ش۔
(۴) حسین، ابن سینا، المباحثات، چاپ محسن بیدارفر، قم ۱۳۷۱ ش۔
(۵) ارسطو، متافیزیک (ما بعد الطبیعہ)، ترجمہ بر پایہ متن یونانی از شرف الدین خراسانی، تہران ۱۳۶۶ ش۔
(۶) محمد، ایلخانی، «اصل فردیت و نظریہ کلیات در آثار بوئثیوس»، نامہ فرہنگ، سال ۶، ش ۲ (تابستان ۱۳۷۵)۔
(۷) محمد، ایلخانی، متافیزیک بوئتیوس: بحثی در فلسفہ و کلام مسیحی، تہران ۱۳۸۰ ش۔
(۸) بہمنیار بن مرزبان، التّحصیل، تصحیح مرتضی مطہری، تہران ۱۳۷۵ش۔
(۹) مسعود بن عمر، تفتازانی، شرح المقاصد، چاپ عبد الرحمن عمیره، قاہره ۱۴۰۹/ ۱۹۸۹، چاپ افست قم ۱۳۷۰ـ ۱۳۷۱ش۔
(۱۰) علی بن محمد، جرجانی، شرح المواقف، چاپ محمد بدر الدین نعسانی حلبی، مصر ۱۳۲۵/ ۱۹۰۷، چاپ افست قم ۱۳۷۰ ش۔
(۱۱) علی بن محمد، جرجانی، کتاب التعریفات، بیروت ۱۴۰۸/ ۱۹۸۸۔
(۱۲) عبد اللّه، جوادی آملی، رحیق مختوم: شرح حکمت متعالیۃ، ج۲، بخش ۱، قم ۱۳۷۶ ش۔
(۱۳) ہادی بن مہدی، سبزواری، شرح المنظومۃ، چاپ حسن حسن زاده آملی، تہران ۱۴۱۶ـ۱۴۲۲۔
(۱۴) یحیی بن حبش، سہروردی، مجموعہ مصنّفات شیخ اشراق، چاپ ہانری کوربن، تہران ۱۳۵۵ ش۔
(۱۵) محمدبن ابراہیم، صدر الدین شیرازی، الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعۃ، تہران ۱۳۳۷ ش۔
(۱۶) محمدبن عمر، فخررازی، کتاب المباحث المشرقیۃ فی علم الالہیات و الطبیعیات، تہران ۱۹۶۶۔
(۱۷) محمدبن ابراہیم، صدر الدین شیرازی، رسائل آخوند ملاصدرا: رسالۃ فی التّشخص، چاپ سنگی، (تہران) ۱۳۰۲۔
(۱۸) محمدبن ابراہیم، صدر الدین شیرازی، الشواہد الربوبیۃ فی المناہج السلوکیۃ، با حواشی ملا ہادی سبزواری، چاپ جلال الدین آشتیانی، مشہد ۱۳۴۶ ش۔
(۱۹) عبد الرزاق بن علی، لاہیجی، شوارق الالہام فی شرح تجرید الکلام، چاپ سنگی تہران ۱۳۰۶۔
(۲۰) محمد حسین، طباطبائی، نہایۃ الحکمۃ، چاپ عباس علی زارعی سبزواری، قم ۱۴۱۷۔
(۲۱) حسن بن یوسف، علامہ حلّی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، چاپ حسن حسن زاده آملی، قم ۱۴۰۷۔
(۲۲) محمد بن محمد، فارابی، التعلیقات، به ضمیمہ کتاب التنبیہ علی سبیل السعادة، چاپ جعفر آل یاسین، تہران ۱۳۷۱ ش۔
(۲۳) محمد بن ابراہیم، صدر الدین شیرازی، الشواہد الربوبیۃ فی المناہج السلوکیۃ، با حواشی ملا ہادی سبزواری، چاپ جلال الدین آشتیانی، چاپ افست تہران ۱۳۶۰ ش۔
[ترمیم]
[ترمیم]
دانشنامہ جہان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، مقالہِ تشخص سے یہ تحریر لی گئی ہے جس کا شمارہ نمبر ہے:۳۵۵۷۔