صدق

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



صدق علم منطق کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب قضیہ حملیہ میں موضوع اور محمول کے درمیان نسبتِ حکمیہ کا واقع اور نفس الامر کے مطابق ہونا ہے اور اسی طرح قضیہ شرطیہ میں مقدم اور تالی کے درمیان اتصال یا انفصال کے حکم کا واقع و نفس الامر کے مطابق ہونا ہے۔


صدق اور کذب کا ملاک

[ترمیم]

صدق اور کذب کا تعلق قضایا سے ہے جس کی بناء پر ایک قضیہ صادق یا کاذب کہلاتا ہے۔ منطق میں جب قضایا سے بحث کی جاتی ہے تو قضیہ کی حقیقت اور اس کے اجزاء کو دقیق انداز میں ملاحظہ کیا جاتا ہے۔ منطق میں قضیہ سے بحث کرنے کے لیے مرکبِ تام کو پہلے تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ قضیہ کی پہلے تعیین کر سکیں اور اس کے بعد قضیہ کے اجزاء کو ملاحظہ کیا جا سکے۔

← مرکب تام کی اقسام


علم منطق مرکبِ تام کو دو قسموں میں تقسیم ہوتا ہے:
۱) مرکبِ تامِ خبری
۲) مرکبِ تام انشائی
ان دونوں قسموں میں فرق صدق و کذب کی قابلیت کے ہونے یا نہ ہونے سے ہے۔ مرکبِ تامِ خبری جسے قضیہ بھی کہتے ہیں صدق و کذب کی قابلیت رکھتا ہے جبکہ مرکبِ تام انشائی کو صادق یا کاذب نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ اس کی صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتا۔ صدق یعنی مفادِ قضیہ کا واقع کے مطابق ہونا اور کذب یعنی واقع کے مطابق نہ ہونا ہے۔ صدق و کذب کا تعلق قضایا کی دنیا سے ہے اس لیے مفردات میں یہ جاری نہیں ہوتے۔ پس کلمات و مفردات کو صادق یا کاذب نہیں کہہ سکتے۔ صدق و کذب نسبتِ قضیہ کے ساتھ مختص ہیں۔

← صدق کا تعلق نسبت قضیہ سے ہے


اگر ہم دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ صدق و کذب کا تعلق اس نسبت سے ہوتا ہے جو قضیہ میں موضوع و محمول کے درمیان موجود ہے۔ ذہن میں موجود قضیہ کی نسبت کو نسبتِ ذہنی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ نسبتِ ذہنی اگر نسبتِ خارجی کے مطابق ہے تو صدق کہلاتا ہے اور اگر مطابق نہ ہو تو کذب۔ نسبتِ ذہنی کی خارج میں موجود نسبت کے ساتھ مطابقت کبھی سلب و ایجاب کی جہت سے ہوتی ہے اور کبھی ضرورت و لاضرورت کے اعتبار سے۔ پس ان اعتبارات کو مدنظر رکھتے ہوئے نسبتِ ذہنی نسبتِ خارجی کے مطابق ہو تو قضیہ صادق کہلاتا ہے اور عدمِ مطابقت کی صورت میں قضیہ کاذبہ کہلائے گا۔
[۳] قطب‌الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۱۱۳-۱۱۵۔


قضیہ کے صدق و کذب کا ملاک اور معیار نسبتِ قضیہ کا واقع اور نفس الامر کے مطابق ہونا ہے۔ اگر قضیہ خارجیہ ہے تو اس کی نسبت کا خارج کے عین مطابق ہونا صدق کہلائے گا اور اگر قضیہ ذہنیہ ہے تو اس کی نسبت کا نفس الامر کے مطابق ہونا صدق کہلائے گا۔ نفس الامر سے مراد حدِ ذات شیء ہے۔ بعض نے نفس الامر سے مراد ثبوتِ عام لیا ہے جو خارج اور ذہن ہر دو کو شامل ہے۔ بعض ایسے قضایا ہوتے ہیں جن کا موضوع فقط ذہنی ہوتا ہے جیسے کلی، جزئی وغیرہ، ان قضایا میں حکم کا صادق ہونا تب کہلائے گا جب وہ ذہن کے مطابق ہو کیونکہ ان قضایا کا موطنِ ثبوت ذہن ہے۔ اسی طرح بعض قضایا جن کا موضوع خارج ہوتا ہے، جیسے واجب الوجود بالذات موجود ہے، انسان ہنسنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ان قضایا میں حکم کا صادق ہونا تب کہلائے گا جب وہ خارج میں واقعیت اور وجودِ عینی کے عین مطابق ہو۔ ہر دو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ دیا جاتا ہے کہ قضایا میں حکم کا نفس الامر کے مطابق ہونا صدق کہلاتا ہے۔ اس صورت میں نفس الام سے مراد ثبوت عام ہے جو موطنِ ذہنی اور خارج ہر دو کو شامل ہے۔

مطابقت کے مصادیق

[ترمیم]

نفس الامر اور واقع کے ساتھ مطابقت اور عدمِ مطابقت کے مصادیق قضیہ حملیہ اور قضیہِ شرطیہ میں فرق کر جاتے ہیں۔
۱. قضیہ حملیہ میں صدق سے مراد موضوع او محمول کے درمیان نسبتِ حکمیہ کا نفس الامر کے مطابق ہونا ہے۔ اگر نسبتِ حکمیہ نفس الامر کے مطابق نہ ہو تو وہ کذب کہلائے گا۔
۲. قضیہ شرطیہ کی منطق میں متصلہ اور منفصلہ دو اقسام ذکر کی گئی ہیں۔ قضیہ شرطیہ متصلہ میں صدق سے مراد مقدم اور تالی کے درمیان اتصال یا سلبِ اتصال کے حکم کا نفس الامر کے مطابق ہونا ہے۔ اگر نفس الامر سے یہ مطابقت نہ ہو تو وہ قضیہ شرطیہ متصلہ کذب کہلائے گا۔
۳. قضیہ شرطیہ منفصلہ میں صدق سے مراد مقدم اور تالی کے درمیان انفصال یا سلبِ انفصال کے حکم کا نفس الامر کے مطابق ہونا ہے۔ اگر یہ مطابقت نہ ہو تو قضیہ منفصلہ کذب کہلائے گا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مشکوة الدینی، عبد المحسن، منطق نوین مشتمل بر اللمعات المشرقیۃ فی الفنون المنطقیۃ، ص۲۴۶-۲۴۸۔    
۲. یزدی، عبد اللہ بن شہاب الدین، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق، ص ۵۵۔    
۳. قطب‌الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۱۱۳-۱۱۵۔
۴. سبزواری، ملا ہادی، منطومہ، ج ۲، ص ۲۱۴۔    
۵. طباطبائی، سید محمد حسین، بدایۃ الحکمۃ، ص ۲۱۔    
۶. خواجہ طوسی، محمد بن محمد، اساس الاقتباس، ص ۸۰-۸۲۔    
۷. علامہ حلی، حسن بن یوسف، الجوہر النضید، ص۴۳-۴۵۔    
۸. مشکوة الدینی، عبد المحسن، منطق نوین مشتمل بر اللمعات المشرقیۃ فی الفنون المنطقیۃ، ص۲۶۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، برگرفتہ از مقالہ صدق، تاریخ لنک:۱۳۹۶/۱/۲۷۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : علم منطق | منطقی اصطلاحات




جعبه ابزار