تقلید (قربانی)
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
تقلید قربانی کے باب میں جانور پر علامت لگانے کے معنی میں ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ
حج کی قربانی ہے۔
[ترمیم]
حج کی علامت کے ساتھ تقلید شدہ جانور
شعائر الہٰی میں سے ہیں:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُحِلُّواْ شَعَـٰٓئِرَ ٱللَّهِ . . . وَلَا ٱلۡقَلَـٰٓئِدَ . . .مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بے حرمتی نہ کرنا ۔۔۔ اور نہ قربانی کے جانوروں کی ۔
اس آیت میں شعائر اللہ کو ذکر کرنے کے بعد قربانی کے جانوروں کا الگ سے ذکر
خاص کو
عام کے بعد ذکر کرنے کے باب سے ہے۔
اس آیت میں
پیغمبر پر نازل ہونے والے چند اہم احکام بیان ہوئے ہیں کہ جن میں سے سب یا زیادہ تر حج اور خانہ خدا کی
زیارت سے مربوط ہیں:
۱۔ پہلے
مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:
مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بیحرمتی نہ کرنا
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُحِلُّواْ شَعَـٰٓئِرَ ٱللَّهِشعائر الہٰی کے مصداق میں مفسرین کے مابین بہت زیادہ کلام ہے مگر اس آیت کے دیگر اقتباسات کے تناسب اور اس کے حجۃ الوداع سنہ دہم ہجری میں نزول کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوت اہے کہ شعائر سے مراد حج کے
مناسک اور اعمال ہیں کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ ان کا احترام کریں۔ اس
تفسیر میں شاہد یہ ہے کہ قرآن نے عام طور پر شعائر کا کلمہ حج کے مراسم میں استعمال کیا ہے ۔۔۔ حج کیلئے لائی جانے والی قربانی خواہ وہ نشان و علامت کی حامل نہ ہوں (ھدی) اور خواہ علامت کی حامل ہوں (قلائد) (قلائد
قلاده کی جمع ہے اور ایسی چیز کے معنی میں ہے جو
انسان یا حیوان کی گردن میں لٹکائی جائے اور یہاں مقصود وہ چوپائے ہیں کہ جنہیں حج کے اعمال میں قربانی کرنے کیلئے علامت لگائی جاتی ہے کہ قربان گاہ جا کر انہیں قربان کیا جائے:
وَلَا ٱلۡهَدۡیَ وَلَا ٱلۡقَلَـٰٓئِدَ۔
[ترمیم]
نشان دار و بے نشان قربانیاں کہ جن کی حج میں تقلید کی جاتی ہے؛ ان کا معاشروں کے استحکام میں بنیادی کردار ہے:
جَعَلَ ٱللَّهُ ٱلۡكَعۡبَةَ ٱلۡبَيۡتَ ٱلۡحَرَامَ قِيَٰمٗا لِّلنَّاسِ وَٱلشَّهۡرَ ٱلۡحَرَامَ وَٱلۡهَدۡیَ وَٱلۡقَلَـٰٓئِدَۚ...خدا نے عزت کے گھر (یعنی) کعبے کو لوگوں کے لیے موجب امن مقرر فرمایا ہے اور عزت کے مہینوں کو اور قربانی کو اور ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے بندھے ہوں۔
الشهر الحرام اور اس کے مابعد کا «الکعبة» پر عطف ہے اور درحقیقت یہ بھی «جعل» کیلئے مفعول اول ہے اور اس کا مفعول دوم یعنی «قیاما للناس» ما قبل
قرینے کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے۔
سابقہ آیات میں
حرم کی
حرمت کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ اب
کعبہ اور ماہِ حرام کے بارے میں فرماتا ہے:
جَعَلَ ٱللَّهُ ٱلۡكَعۡبَةَ ٱلۡبَيۡتَ ٱلۡحَرَامَ قِيَٰمٗا لِّلنَّاسِ...اللہ نے کعبہ بیت الحرام کو لوگوں کے قیام (اور کسب و کار) کا سبب قرار دیا ہے۔
کلمہ «قیام»
مصدر ہے۔ گویا مقصود یہ ہے کہ
مسلمان اپنے مابین کعبہ نصب ہونے پر قیام کریں گےے اور ان کی
معیشت اور حالات میں اس طرح بہتری آئے گی کیونکہ کعبہ کی زیارت کے دوران ان کی
تجارت رونق پکڑے گی اور ہر قسم کی
خیر و
برکت کے حامل ہوں گے۔
سعید بن جبیر کہتے ہیں: جو اس بیت کی زیارت کو آئے تو
دنیا و
آخرت کی خیر کو طلب کرے۔ یہی مضمون
امام صادقؑ سے بھی مروی ہے۔
ابن عباس کہتے ہیں: یعنی خدا نے کعبہ کو لوگوں کے امن و امان اور خوشحالی کا وسیلہ قرار دیا ہے اور اگر کعبہ نہ ہوتا تو لوگ فنا و
ہلاکت کا شکار ہو جاتے۔
جاہلیت کے لوگ خدا کے گھر کو امن و امان کا مقام سمجھتے تھے۔ اگر کوئی اپنے
باپ یا
بیٹے کے
قاتل کو حرم میں دیکھ لیتا تو اسے قتل نہیں کرتا تھا۔
و الشهر الحرام: اسی طرح ماہ حرام چار مہینے ہیں کہ ان میں سے ایک ماہ
رجب تنہا اور تین دیگر مہینے پے در پے ہیں (
ذی القعد ،
ذی الحج اور
محرم) انہیں ایک شمار کرنے کا سبب یہ ہے کہ «شهر حرام» جنس ہے، نحوی لحاظ سے عطف ہے پہلے مفعول پر۔
و الهدی و القلائد: یہاں هدی (قربانی) و قلائد (علامت دار قربانیاں) کو بھی کعبہ و ماہ حرام کے ردیف میں لوگوں کی زندگی کے قائم رہنے کا وسیلہ کہا گیا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ: یہ بھی
اعمالِ حج کا ایک حصہ ہے اور اس بنا پر خانہ خدا کے امور سے وابستہ ہے۔ جاہلیت کے لوگ حرام مہینوں می
جنگ نہیں کرتے تھے، جنگی اسلحہ اور تلواریں ایک طرف رکھ دیتے تھے اور آسودہ خیالی سے اپنی زندگی کے وسائل کی فراہمی میں مشغول ہو جاتے تھے۔ جب بھی کوئی مرد خود کو یا کسی کو حرم کے درختوں کی ٹہنیوں سے ’’قلادۃ‘‘ کر لیتا تھا، وہ محفوظ رہتا تھا۔ یہ رسم انہیں
اسماعیلؑ کے دین سے وراثت میں ملی تھی اور وہ
ظہور اسلام تک اسی طرح اس پر باقی تھے یہں تک کہ اسلام نے ان کا راستہ روک دیا۔
[ترمیم]
حج کیلئے تقلید شدہ قربانی کی بے حرمتی کے عدم جواز کا حکم دیا گیا ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُحِلُّواْ شَعَـٰٓئِرَ ٱللَّهِ . . . وَلَا ٱلۡقَلَـٰٓئِدَ . . .مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بے حرمتی نہ کرنا ۔۔۔ اور نہ قربانی کے جانوروں کی ۔
اس بارے میں مختلف اقوال ہیں:
۱.
ابن عباس و جبایی کہتے ہیں: اس سے مقصود وہ حیوانات ہیں کہ جن کی گردن میں
قلادہ ہو اور انہیں قربانی کیلئے لایا گیا ہو۔ اس بات کی علت کہ قربانی کے موضوع کا ایک مرتبہ پھر تکرار ہو رہا ہے، یہ ہے کہ خدا یہ حکم دے رہا ہے کہ خواہ قربانی کی گردن میں قلادہ ہو یا نہ ہو، ان کی بے احترامی نہ کی جائے۔
۲. اس سے مراد وہ رسیاں یا پٹے ہیں جو قربانی کے
جانوروں کی گردن میں لٹکائے جاتے ہیں۔ انہیں ان پٹوں کو کھولنے سے منع فرما رہا ہے؛ کیونکہ
واجب ہے کہ ان پٹوں کا بھی
صدقہ دیا جائے۔ یہ
ابو علی جبائی کا قول ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ: قلادہ ایک پشمی رسی تھی جسے قربانی کی گردن پر ڈالا جاتا تھا۔ حسن کا قول ہے: ایک جوتا تھا جسے
شتر اور
گائے کی گردن میں لٹکایا جاتا تھا اور لازم تھا کہ اگر اس کی کوئی قیمت ہو تو اسے صدقہ کر دیا جائے۔
ہمارے نزدیک یہ بہتر ہے کہ یہاں پر ’’قلادۃ‘‘ کو اپنے لیے حلال سمجھنے کی نہی کو مقصود سمجھا جائے، خواہ وہ کسی انسان کی گردن پر ہو یا حیوان کی یا جس کی گردن پر قلادہ ہے، اسے اپنے لیے حلال سمجھنے کی نہی ہو، خواہ قلادہ
حیوان کی گردن پر ہو یا
انسان کی۔
اس آیت میں
مومنین کو ایک مرتبہ پھر خطاب ہے اور خطاب کے تکرار کی وجہ خدائے تعالیٰ کی حرمات کو شدت سے اہمیت دینے کی تاکید ہے۔
جملہ:
لا تحلوا (حلال مت کرو) میں کلمہ احلال کہ جس کا مصدر
فعل ہے، حلال کرنے کے معنی میں ہے اور حلال کرنا اور
مباح سمجھنا
حرمت اور مقام و منزلتِ
پروردگار کی نسبت لا پروائی کے باعث ہے۔ شعائر اللہ کے احلال کا معنی ان شعائر کی بے احترامی یا نہیں ترک کرنا ہے اور (احلال شھر الحرام) کا معنی یہ ہے کہ ان چار مہینوں کی حرمت کا خیال نہ کریں کہ جن میں
جنگ حرام ہے اور ان میں جنگ کریں ، اسی طرح حرمت کا دیگر مقامات پر معنی مورد کی مناسبت سے کیا جائے گا۔ کلمہ قلائد ، قلادۃ بمعنی گردن بند (ہار) کی جم ہے اور یہاں ہر اس چیز کے معنی میں ہے کہ جسے
قربانی کی علامت کے عنوان سے حیوان کی گردن پر ڈالا جاتا ہے اور اس کے ذریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ گائے یا اونٹ یا
گوسفند راہ خدا میں قربانی ہے، اگر گم ہو جائے اور کسی کو مل جائے تو وہ
منیٰ کی طرف بھیج تاکہ اس کے مالک کی طرف سے اس کو قربان کر دیا جائے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرهنگ قرآن، مرکز فرهنگ و معارف قرآن، ماخوذ از مقالہ «تقلید قربانی»۔