تقلید
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
کسی مجتہد کے فتوے کو مان کر اس کی وجہ اور دلیل پوچھے بغیر اس فتوے کے مطابق عمل اور اس کی پیروی کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔
[ترمیم]
فقہی اصطلاح میں تقلید کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے:
۱. مجتہد کے فتوے کو ماننا یا اس پر عمل کرنا، تقلید کے اس معنی کے سلسلے میں باب اجتہاد اور تقلید میں گفتگو ہوتی ہے۔
۲. ایسی پرانی نعلین جسے پہن کر نماز پڑھی گئی ہو، اسے قربانی کے جانور کے گلے میں لٹکانے کو بھی تقلید کہا جاتا ہے۔ تقلید کے اس معنی کے بارے میں حج کے مسئلے میں بحث ہوتی ہے۔
[ترمیم]
تقلید کا لفظ «ق ل د» سے ماخوذ ہے۔ اہل لغت کے نزدیک تقلید کسی چیز کو دوسری چیز میں منحصر کرنا اور ان کے درمیان رابطہ قائم کرنے کو کہتے ہیں۔
تقلید کے اسی مفہوم کی مناسبت سے یہ لفظ دیگر معانی میں بھی مستعمل ہے، جیسے، کسی کی گردن میں کوئی چیز ڈالنا،
کمر میں تلوار لٹکانا
اور کسی عمل کو کسے شخص کے ذمہ لگانا
تقلید کے پہلے والے معنی (کسی کی گردن میں کوئی چیز ڈالنا) کا استعمال اس اعتبار سے ہے کہ تقلید کرنے والا شخص اپنے اعمال کی ذمہ داری کو مجتہد(جس کی تقلید کی جاتی ہے) کے گردن پر ڈال دیتا ہے۔
عمومی اصطلاح کے مطابق کسی شخص یا اشخاص کی، کسی توجہ و ہچکچاہٹ اور حقیقت امر کی کھوج لگائے بغیر پیروی کرنے کو تقلید کہتے ہیں
بلافاظ دیگر معاشرتی اور اخلاقی مسائل میں اپنے مستقل اور ذمہ دارانہ فیصلے کو بالائے طاق رکھ کر اکثریت کے مطابق دوسروں کی اندھا دھند پیروی کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔
علم فقہ میں بھی تقلید کی دو اصطلاح رائج ہیں:
۱. پہلی اصطلاح حج کے مسئلے میں رائج ہے جس کے معنی ہیں، قربانی کے اونٹ، گائے یا بھیڑ کی گردن میں قربانی کی نشانی کے طور پر کوئی چیز لٹکانا۔
۲. تقلید کی دوسری رائج اصطلاح، فروعی احکام اور فقہی مسائل میں مستعمل ہے جس کی چند مختلف تعریفیں بیان ہوئی ہیں؛ ان میں سے ایک تعریف یوں بیان ہوئی ہے: فروعی احکام کے سلسلے میں کسی کی بات کو اس پر دلیل اور حجت مانگے بغیر مان لینا،
دوسری تعریف: مجتہد کی رائے کا پابند ہونا اور اسے قبول کرنا اگرچہ اس فتوی پر عمل نہ کیا ہو؛
البتہ مجتہدین کی اکثریت نے تقلید کی اس طرح تعریف کی ہے: کسی کی رائے یانقطہ نظر کے مطابق اس پر دلیل مانگے بغیر عمل کرنے یا مجتہد کے نظریے کے مطابق دلیل مانگے بغیر عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں، چاہے قلبی طور پر اس نظریے کو قبول کرے یا قبول نہ کرے
اور اس انداز میں عمل کرنے کو تقلید کہنے کی وجہ یہ ہے کہ مقلد اپنے عمل کو شرعی نقطہ نگاہ کے مطابق ہونے یا نہ ہونے یا اس عمل کی درستگی یا بطلان کے سلسلے میں مجتہد کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
[ترمیم]
تقلید کرنے والے شخص کو مقلد(لام پر تشدید اور زیر کے ساتھ) کہتے ہیں،
جس مجتہد کی تقلید کی جائے اسے مقلد(لام پر تشدید اور زبر کے ساتھ) کہتے ہیں۔ »
اور جن فروعی مسائل اور موضوعات میں تقلید کی جاتی ہے انہیں مُقَلِّدٌ فیه کہتے ہیں۔
تقلیدی موضوعات کا تعلق کبھی عقاید اور اصول دین سے ہے جسے اصول فقہ کی اصطلاح میں "اصول دین میں تقلید" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
دوسری تعبیر کے مطابق اسے "عقلی موضوعات میں تقلید" کہتے ہیں»
؛ اور کبھی تقلید کا تعلق دین کے فروعی احکام اور مسائل سے ہے جسے "فروع دین میں تقلید" کہتے ہیں۔ »
یا اسے "سمعیات میں تقلید" سے تعبیر کرتے ہیں۔
[ترمیم]
فقہاء کی کتابوں میں مجتہد کی تقلید کے سلسلے میں چند تعریفیں بیان ہوئی ہیں:
۱. قلبی طور پر مجتہد کے فتوی پر عمل کرنے کا عزم و ارادہ کرنااگرچہ عملی طور پر ایسا سرانجام نہ دیا ہو.
۲. قلبی عزم و ارادہ کے علاوہ مجتہد کے فتوی پر عمل پیرا ہونےکا پابند بھی ہو.
۳. مجتہد کے فتوی کے مطابق عین عمل.
۴. مجتہد کے فتوی پر اعتماد کرتےہوئے سرانجام شدہ عمل.
۵. مجتہد کے فتاوا کو ان پر عمل کرنے کی خاطر سیکھنا.
پہلی تعریف کے مطابق مجتہد کے فتوے پر عمل کرنے کا عزم و ارادہ تقلید کہلاتا ہے جبکہ دوسری تعریف کے اعتبار سے فتوی پر عمل پیرا ہونا تقلید کہلاتا ہے۔ تیسری تعریف کے مطابق تقلید یہ ہے کہ انسان کا عمل اس مجتہد کے فتوی سے ہم آہنگ ہو جس کی وہ تقلید کررہا ہے اگرچہ فتوی اور عمل کے درمیان موجود ہم آہنگی اس کے قصد و ارادہ کے ساتھ نہ ہو۔ تقلید کی تیسری تعریف کے مقابلے میں چوتھی تعریف ہے جس میں دو رکن پائے جاتے ہیں: پہلا رکن یہ کہ مجتہد کے فتوی کے مطابق عمل سرانجام دے اور دوسرا رکن یہ کہ عمل اور فتوی کے درمیان ہم آہنگی کا قصد بھی ہو۔ آخری بات یہ کہ: تقلید کی پانچویں تعریف کے مطابق تقلید نہ عزم و ارادہ کا نام ہے اور نہ اس پر عمل پیرا ہونے کا نام بلکہ عمل کرنے کی خاطر فتاوا کو سیکھنے کا نام تقلید ہے۔
[ترمیم]
تقلید- جس کی ماہیت اور حقیقت جاہل کا جاننے والے اور ماہر کی طرف رجوع کرنا ہے- ایک عقلی ضرورت ہے اور اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں۔ لہذا تقلید کا حکم ایک تقلیدی عمل نہیں، تقلید کے اس مفہوم کو ہر عقلمند آدمی اپنے تئیں ایک عقلی ضرورت کے طور پر پالیتا ہے۔
[ترمیم]
تقلید کرنا ہر مکلف پر تین عقلی فرائض اور واجبات میں سے ایک واجب ہے۔ یعنی شرعی احکام پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے میں واجب ہے کہ مکلف یا خود مجتہد ہو، یا مقلد ہو یا احتیاط پر عمل کرنے والا ہو۔
جو شخص شرعی احکام کے استنباط میں اجتہاد یا احتیاط کی اہلیت نہیں رکھتا اس پر تقلید کرنا متعین اور واجب ہے، چنانکہ احتیاط کی اہلیت رکھنے والے کو اختیار حاصل ہے کہ یا احتیاط کے مطابق عمل کرے یا کسی مجتہد کی تقلید کرے۔
[ترمیم]
اصول دین یعنی دین کے بنیادی ترین عقائد، کہ جنہیں یقین اور مضبوط دلیل کے ذریعے ماننا واجب ہے، تقلید کا موضوع نہیں؛ بلکہ دین کے فرعی احکام اور مسائل – البتہ ان احکام کے علاوہ جو دینی ضروریات میں شمار ہوتے ہیں اور سارے اسلامی مذاہب کا جن پر اتفاق ہے، جیسے یومیہ نمازوں کا وجوب،ماہ رمضان کے روزوں کا وجوب اور وہ احکام جن کے وجوب پر مکلف کو مکمل یقین حاصل ہے- تقلید کا موضوع ہیں۔
[ترمیم]
جس مجتہد کی تقلید کی جاتی ہے ضروری ہے کہ ان میں درج ذیل اوصاف اور شرائط موجود ہو:
۱.
عاقل ہو۔
۲.
بالغ ہو۔
۳.
عادل ہو۔
۴.
شیعہ اثنا عشری ہو(بارہ اماموں کو ماننے والا ہو)
۵. مرد ہو. بعض فقہا اس شرط کے قائل نہیں ہیں۔
۶.
حلال زادہ ہو۔
۷. زندہ ہو، مشہور نظریے کے مطابق ابتدائی تقلید کے لیے یہ شرط ضروری ہے جبکہ بقا بر میت میں ایسی شرط معتبر نہیں۔
۸. بعض فقہا کے مطابق مجتہد مطلق ہو۔(مجتہد مطلق سے مراد وہ شخص ہے جو تمام فقہیِ ابواب میں حکم شرعی کے استنباط کی صلاحیت اور ملکہ رکھتا ہو)
بعض فقہاء، مجتہد متجزی کے ان احکامات میں جنہیں اس نے اجتہاد اور استنباط کیا ہو، تقلید کو جائز سمجھتے ہیں۔
۹. اعلم ہو، اس شرط کے بارے میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔
۱۰. دنیوی مال و منال کے سلسلے میں لالچی نہ ہو۔ بعض فقہاء اس شرط کو عدالت سے متصادم نہ ہونے کی صورت میں ضروری سجمھتے ہیں اور اگر یہ شرط عدالت کے منافی قرار پائے تو وہی عدالت کی شرط ہی اس سے بے نیاز کرتی ہے۔
۱۱. آزاد ہو،(غلام نہ ہو)ایک نظریے کی بنا پر۔
فقہاء کی اکثریت اس شرط کو نہیں مانتی۔
[ترمیم]
علمائے اصول کے درمیان مشہور نظریے کے مطابق مرحوم مجتہد کی ابتدائی تقلید جائز نہیں؛ لیکن مجتہد کی فوتگی کے بعد مقلدین اس کی تقلید پر باقی رہ سکتے ہیں یا نہیں؟، یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے، البتہ فقہاء کی اکثریت بقا بر میت کو جائز سمجھتی ہے۔
[ترمیم]
مجتہد کا کسی اور کی تقلید کرنا جائز نہیں، حرام ہے۔
[ترمیم]
جاہل شخص کے وہ گذشتہ اعمال، جو نہ تقلید پر مبنی تھے اور نہ ہی احتیاط کے مطابق، اگر واقع کے مطابق نہ ہو یا اس مجتہد کے فتوے کے مطابق نہ ہو جس کی تقلید کی جانی چاہیے تھی، تو باطل ہیں۔
جاہل کے ان تمام توصلی اعمال پر صحیح ہونے کا حکم لاگو ہوگا جو یا واقع کے مطابق انجام دیے ہوں یا مجتہد کے فتوی کے مطابق ہو۔
وہ تعبدی اعمال جن میں قصد قربت کرنا شرط ہے، ان کی دو صورتیں بنتی ہیں:
۱. پہلی صورت یہ کہ: شخص، عمل سر انجام دیتے وقت اس طرح سے جاہل قاصر تھا، یا غفلت کا شکار جاہل مقصر تھا؛کہ واضح طور پر قصد قربت اس سے سرزد ہونا ممکن ہو۔
۲. دوسری صورت یہ کہ: شخص، عمل سر انجام دیتے وقت جاہل مقصر تھا اور اپنے جھل کی طرف اس طرح سے متوجہ تھا کہ واضح طور پر قصد قربت اس سے ممکن نہیں ہو۔
اس کے تعبدی اعمال پہلی صورت کے مطابق صحیح ہیں لیکن دوسری صورت کے مطابق قصد قربت کی نیت میں جزم و یقین درکار ہونے کو لازمی سجھا جائے تو اس کے اعمال صحیح نہیں، اگرچہ اس کے یہ اعمال واقع کے عین مطابق ہو؛ لیکن اکثر فقہاء قصد قربت کے سلسلے میں جز و یقین کو معتبر نہیں سمجھتے لہذا اس صورت میں بھی اس کے اعمال صحیح قرار پائیں گے۔
[ترمیم]
لفظ تقلید کے دوسرے معنی کے مطابق جس نعلین میں انسان نے نماز پڑھی ہے اسے قربانی کے جانور کی گردن میں لٹکانے کو تقلید کہتے ہیں۔ تقلید کے اس مفہوم کے بارے میں باب حج کے مسائل میں بحث ہوتی ہے۔
[ترمیم]
حج قران میں تقلید کی کیفیت یہ ہے کہ حج قران بجالانے والا شخص اپنے پرانے نعلین کو جس میں اس نے نمازیں پڑھی ہیں، قربانی کے جانور کی گردن میں لٹکا دیتا ہے۔
بعض فقہاء نے اس کی کیفیت یوں بیان کی ہے: تقلید یہ ہے کہ قربانی کے جانور کی گردن میں نشانی کے طور پر نعلین یا رسی یا چمڑے کا پٹا لٹکانا۔
بعض فقہاء، نعلین یا سفری سامان کی گھٹھڑی قربانی کے جانور کی گردن میں لٹکانے کو تقلید سے تعبیر کرتے ہیں۔
[ترمیم]
فقہاء کی اکثریت کے نزدیک حج قران میں تقلید واجب تخییری ہے؛ تقلید کے واجب تخییری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حاجی؛ تلبیہ، اشعار یا تقلید میں سے کسی ایک کے ذریعے محرم ہوسکتا ہے۔ محرم ہونے کے لیے تلبیہ کو انتخاب کرنے کی صورت میں تقلید مستحب ہے۔
قربانی کا جانور گائے اور بھیڑ ہونے کی صورت میں تقلید کا عمل انجام دیاجائے گا لیکن اگر اونٹ کی قربانی کی جائے تو تقلید اور اشعار میں اختیار ہوگا۔
[ترمیم]
(۲) . الاجتهاد والتقلید، تقریرات بحث الخوئی (متوفی ۱۴۱۳ ھ) ، علی الغروی، قم، الهادی، ۱۴۱۰ ھ۔
(۷) . اعانة الطالبین، السید البکری الدمیاطی (متوفی ۱۳۱۰ ھ) ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۸ ھ۔
(۱۷) . التحقیق، المصطفوی، تهران، وزارت ارشاد، ۱۳۷۴ شمسی۔
(۲۵) . التقلید، الانصاری (متوفی ۱۲۸۱ ھ) ، به کوشش لجنة التحقیق، قم، المؤتمر العالمی للانصاری، ۱۴۱۵ ھ۔
(۲۶) . التنقیح فی شرح العروة الوثقی، تقریرات بحث الخوئی (متوفی ۱۴۱۳ ھ) ، میرزا علی تبریزی، قم، انصاریان، ۱۴۱۷ ھ۔
(۳۱) . جامع المقاصد، الکرکی (متوفی ۹۴۰ ھ) ، قم، مؤسسه آل البیت (علیهمالسلام) ، ۱۴۱۱ ھ۔
(۳۲) . جواهر الکلام، النجفی (متوفی ۱۲۶۶ ھ) ، به کوشش قوچانی، بیروت، احیاء التراث العربی.
(۳۳) . الحدائق الناضره، یوسف البحرانی (متوفی ۱۱۸۶ھ) ، به کوشش آخوندی، قم، نشر اسلامی، ۱۳۶۳ شمسی۔
(۳۸) . رسائل الکرکی، الکرکی (متوفی ۹۴۰ ھ) ، به کوشش محمد الحسون، قم، مکتبة النجفی، ۱۴۰۹ ھ۔
(۴۶) . العروة الوثقی، سید محمد کاظم (متوفی ۱۳۳۷ ھ) ، النشر الاسلامی، قم، ۱۴۲۰ ھ۔
(۵۲) . فرائد الاصول (رسائل) ، الانصاری (متوفی ۱۲۸۱ ھ) ، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۷ ھ۔
(۵۸) . فوائد الاصول، تقریرات بحث نایینی (متوفی ۱۳۵۵ ھ) ، به کوشش العراقی، نشر اسلامی، ۱۴۰۴ ھ۔
(۵۹) . القاموس الفقهی لغةً و اصطلاحاً، سعدی ابوجیب، دمشق، دارالفکر، ۱۴۱۹ ھ۔
(۶۱) . القواعد والفوائد، العاملی الشهید الاول (متوفی ۷۸۶ ھ) ، به کوشش سید عبدالهادی الحکیم، قم، مکتبة المفید۔
(۶۷) . لسان العرب، ابن منظور (متوفی ۷۱۱ ھ) ، قم، نشر ادب الحوزة، ۱۴۰۵ ھ۔
(۶۸) . لغت نامه، دهخدا (متوفی ۱۳۳۴ شمسی) و دیگران، تهران، مؤسسه لغت نامه و دانشگاه تهران، ۱۳۷۷ شمسی۔
(۷۰) . مجمع البحرین، الطریحی (متوفی ۱۰۸۵ ھ) ، به کوشش محمود عادل و احمد حسینی، تهران، نشر فرهنگ اسلامی، ۱۴۰۸ ھ۔
(۷۳) . المحصول فی علم الاصول، الفخر الرازی (متوفی ۶۰۶ ھ) ، به کوشش طه جابر فیاض، بیروت، الرسالة، ۱۴۱۲ ھ۔
(۷۷) . مستمسک العروة الوثقی، سید محسن حکیم (متوفی ۱۳۹۰ ھ) قم، مکتبة النجفی، ۱۴۰۴ ھ۔
(۷۸) . مصباح الاصول، تقریر بحث الخوئی (متوفی ۱۴۱۳ ھ) ، حسینی، قم، مکتبة الداوری، ۱۴۱۷ ھ۔
(۷۹) . مصباح المنهاج، سید محمد سعید الحکیم، قم، مؤسسة المنار، ۱۴۱۵ ھ۔
(۸۰) . المصباح المنیر، الفیومی (متوفی ۷۷۰ ھ) ، قم، دارالهجرة، ۱۴۰۵ ھ۔
(۸۱) . مصطلحات الفقه، علی مشکینی، قم، الهادی، ۱۳۷۹ شمسی۔
(۸۲) . معارج الاصول، المحقق الحلی (متوفی ۶۷۶ ھ) ، به کوشش رضوی، مؤسسه آل البیت (علیهمالسلام) ، ۱۴۰۳ ھ۔
(۸۴) . معالم الدین و ملاذ المجتهدین، حسن بن زین الدین العاملی (متوفی ۱۰۱۱ ھ) ، قم، النشر الاسلامی، ۱۴۰۶ ھ۔
(۸۵) . معجم مقاییس اللغه، ابن فارس (متوفی ۳۹۵ ھ) ، به کوشش عبدالسلام محمد، قم، دفتر تبلیغات، ۱۴۰۴ ھ۔
(۸۶) . المغنی والشرح الکبیر، عبدالله بن قدامة (متوفی ۶۲۰ ھ) و عبدالرحمن بن قدامة (متوفی ۶۸۲ ھ) ، بیروت، دارالکتب العلمیة۔
(۹۵) . نضد القواعد الفقهیه، المقداد السیوری (متوفی ۸۲۶ ھ) ، به کوشش کوه کمری، قم، مکتبة النجفی، ۱۴۰۳ ھ۔
(۹۶) . نهایة الاحکام، العلامة الحلی (متوفی ۷۲۶ ھ) ، به کوشش رجائی، قم، اسماعیلیان، ۱۴۱۰ ھ۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت، ج۲، ص۵۸۰-۵۸۳۔ دائرة المعارف قرآن کریم، ماخوذ از مقالہ تقلید، ج۸، ص۴۲۸۔