حجیت علم اجمالی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
حجیتِ علم اجمالی کا اطلاق علم اجمالی کی بناء پر صحتِ تکلیف پر ہوتا ہے۔
[ترمیم]
حجیتِ علم اجمالی کا مطلب علم اجمالی کی بناء پر صحتِ تکلیف کا ہونا ہے جس کا لازمہ
منجزیت اور
معذریت ہے۔ اگر ہم قائل ہو جائیں گے کہ علم اجمالی حجیت رکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جس تکلیف کے بارے میں علم اجمالی حاصل ہو وہ تکلیف ہمارے اوپر عائد ہو گی۔
[ترمیم]
علم اجمالی کی حجیت کے بارے میں تین نظریات پائے جاتے ہیں:
۱. بعض علماء قائل ہیں کہ علم اجمالی مطلقًا کسی بھی مورد میں حجیت نہیں رکھتا۔ اس مطلب ہے کہ علم اجمالی
شک بدوی کے حکم میں ہے۔ چنانچہ علم اجمالی سے متعلق شک مثلا روزِ جمعہ نماز ظہر واجب ہے یا نماز جمعہ؟ جیسے موارد میں مکلف علم اجمالی کے دونوں طرف میں
اصل براءت جاری کر سکتا ہے اور دونوں کو ترک کر سکتا ہے۔
۲. بعض دیگر علماء معتقد ہیں کہ علم اجمالی فی الجملۃ بعض موارد میں
حجت ہے اور اس کی مخالفتِ قطعی
حرام ہے۔ البتہ اس کے ساتھ موافقتِ قطعی
واجب نہیں ہے۔ اوپر دی گئی مثال میں
مکلف نماز ظہر اور نمازِ جمعہ ہر دو کو ترک نہیں کر سکتا۔ اسی طرح مکلف کے لیے احتیاط کے باب سے ہر دو کو انجام دینا بھی ضروری نہیں ہے۔
۳. بعض صاحبانِ نظر قائل ہیں کہ علم اجمالی
قطع کی طرح مطلقًا حجت ہے۔ چنانچہ علم کی قطعی مخالفت حرام اور قطعی موافقت واجب ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۴۰۶، مقالہِ حجیت علم اجمالی سے یہ تحریر لی گئی ہے۔