خلافت ابو بکر اور زید بن علی کی روایت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اہل سنت کتب میں خلافت ابی بکر پر روایت وارد ہوئی ہے جسے زید بن علی نے امام باقر و امام صادق علیہما السلام سے نقل کیا ہے۔ اس روایت کو دلیل بنا کر مختلف شبہات ایجاد کیے جاتے ہیں تاکہ حقائق مسخ کیے جا سکیں ، مثلاً: بعض افراد اس روایت سے حضرت ابو بکر کی خلافت کو قرآن و سنت کے مطابق خلافت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان شخصیات کے ساتھ اہل بیت علیہم السلام کا کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا!!


شبہ کا جواب

[ترمیم]
اگر ہم اہل سنت کی معتبر احادیث کو بنیاد بنا کر بات کریں تو یہ شبہ بآسانی برطرف ہو جاتا ہے۔ ذیل میں ہم اس روایت کا جائزہ لیتے ہیں اور اس شبہ کا جواب حاصل کرتے ہیں:

← خلافت ابو بکر پر زيد بن علی کی روايت


کتاب ناسخ التواریخ میں ایک روایت جناب زید بن علیؑ سے نقل ہوئی ہے جس کو انہوں نے امام باقر و صادق علیہما السلام سے نقل کیا ہے۔ یہ روایت شیخین ابو بکر و عمر کے حق میں ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ ان دونوں کے بارے میں خیر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اس روایت کی سندی جانچ پڑتال کریں:

← زید بن علی کی روایت


جناب زید بن علی سے منقول روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
و عن زید بن علی اخو الباقر و عم الصادق ان ناساً من رؤساء الکوفة و اشرافهم الذین بایعوا زیداً حضروا یوماً عنده، و قالوا له: رحمک الله، ماذا تقول فی حق ابی بکر و عمر؟ قال: ما اقول فیهما الا خیراً کما اسمع فیهما من اهل بیتی الا خیرا، ما ظلمانا و لا احد غیرنا، و عملا بکتاب الله و سنة رسوله؛ زید بن علی نے اپنے بھائی امام باقر ؑ اور اپنے بھتیجے امام صادق ؑ سے نقل کیا ہے کہ کوفہ کے سرداروں اورمال و قدرت رکھنے والوں میں سے جنہوں نے جناب زید کے ہاتھوں بیعت کی تھی وہ ایک دن جناب زید کے پاس جمع ہوئے اور ان سے پوچھا: اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ ابو بکر اور عمر کے حق میں کیا کہتے ہیں؟ جناب زید نے کہا: میں ان دونوں کے بارے میں خیر کے لیے کوئی اور رائے نہیں رکھتا، جیساکہ میں نے ان دونوں کے بارے میں اپنے اہل بیتؑ سے صرف خیر کے کلمات سنے ہیں، ان دونوں نے نہ ہم پر کوئی ظلم کیا اور نہ ہمارے علاوہ کسی اور پر انہوں نے ظلم کیا اور دونوں اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت پر عمل پیرا ہوئے۔
[۱] میرزا تقی‌الدین خان، ناسخ التواریخ، تحت عنوان - احوال الامام زین العابدین ۔

جناب زید کی روایت کا ردّ

[ترمیم]

جناب زید بن علی کی طرف منسوب روایت پر تین اعتراضات پیش خدمت ہیں:

← اول: یہ روایت معتبر کتب میں نہیں


جناب زید بن علیؑ کی طرف منسوب یہ روایت اہل سنت کی کسی معتبر کتبِ احادیث و تاریخ میں وارد نہیں ہوئی۔ بلکہ یہ اصلًا روایت نہیں ہے بلکہ ناسخ التواریخ میں منقول جملات سے ایک جملہ ہے۔ چونکہ یہ کسی مستند اور معتبر منبعِ علمی میں وارد نہیں ہوئی اس لیے اس کا کسی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

← دوم: یہ روایت جناب کشی کی نقل کردہ روایت کے مخالف ہے


معروف شیعہ رجالی جناب کشی نے اس روایت کے مضمون کو جناب زید بن علیؑ سے نقل کیا ہے جوکہ ناسخ التواریخ میں وارد ہونے والے مضمون سے کاملا برعکس ہے۔ کشی نقل کرتے ہیں:
عَنْ سَدِيرٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ (ع) وَ مَعِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ وَ أَبُو الْمِقْدَامِ ثَابِتٌ الْحَدَّادُ وَ سَالِمُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ وَ كَثِيرٌ النَّوَّاءُ وَ جَمَاعَةٌ مَعَهُمْ، وَ عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ ع أَخُوهُ زَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ (ع) فَقَالُوا لِأَبِي جَعْفَرٍ (ع) نَتَوَلَّى عَلِيّاً وَ حَسَناً وَ حُسَيْناً وَ نَتَبَرَّأُ مِنْ أَعْدَائِهِمْ! قَالَ نَعَمْ. قَالُوا نَتَوَلَّى أَبَا بَكْرٍ وَ عُمَرَ وَ نَتَبَرَّأُ مِنْ أَعْدَائِهِمْ! قَالَ فَالْتَفَتَ إِلَيْهِمْ زَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ لَهُمْ أَ تَتَبَرَّءُونَ مِنْ فَاطِمَةَ بَتَرْتُم أَمْرَنَا بَتَرَكُمُ اللَّهُ، فَيَوْمَئِذٍ سُمُّوا الْبُتْرِيَّةَ؛ سدیر کہتے ہیں: میں امام باقر ؑکی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ سلمہ بن کہیل بھی تھے ... امام باقرؑ کے پاس ان کے بھائی زید بن علیؑ بھی تشریف فرما تھے، (جو جماعت وہاں حاضر تھی) اس نے امام باقر ؑ سے کہا: ہم علی، حسن و حسین (علیہم السلام) سے محبت کریں اور ان کے دشمنوں سے براءت کا اظہار کرتے ہیں ، امامؑ نے اس پر فرمایا: صحیح ۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: ہم ابو بکر و عمر سے بھی محبت کرتے ہیں اور ان کے دشمنوں سے اظہار براءت و نفرت کرتے ہیں۔ اس پر جناب زید بن علیؑ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: کیا تم لوگ ان کی خاطر جناب فاطمہ ؑ سے براءت و نفرت کرتے ہو ؟ تم نے ہمارے امر کو کاٹ کر ضائع کیا ہے اللہ تمہیں نامراد کرے ، پس اس دن سے اس جماعت کو تبریہ کہا جانے لگا۔

← سوم: غیر معصوم کا کلام حجت نہیں ہے


اگر ہم فرض کریں اور تصوراتی طور پر تسلیم کر لیں گے کہ جناب زید بن علیؑ اس طرح کے عقائد کے مالک تھے تو یہ ان کا ذاتی نظریہ اور اعتقاد کہلائے گا۔ کیونکہ جناب زید معصوم نہیں ہیں اور ان کی بات ہمارے اوپر حجت نہیں ہے۔ نیز یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ اگر بالفرض ہم جناب زید کے کلمات کو قبول کر لیں تو سیاقِ کلام اور حالات ہر دو واضح طور پر بتاتے ہیں کہ جناب زید نے یہ بات سیاسی مصلحت کی بناء پر کی تھی۔ چونکہ کوفہ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اہل سنت پر مشتمل تھا اور یہ افراد جناب زید کے ہاتھوں پر بیعت کر چکے تھے ۔ واضح سی بات ہے کہ اموی حکومت کے خلاف قیام میں لوگوں کی بڑی مدد اور افرادی قوت درکار تھی اس لیے عقل و حکمت کا تقاضا ہے ایسے مسائل سے اجتناب کیا جائے جو باہمی طور پر اختلافات کو جنم دے اور لشکر کی قوت کو پارہ پارہ کر دیں۔ لہذا جناب زید نے انتہائی خوبصورت انداز میں جواب دیتے ہوئے اختلافی مسائل سے اجتناب کیا تاکہ بے جا اختلافات وجود میں نہ آئیں اور لشکر میں دلجمعی و وحدت قائم رہے۔ جبکہ جناب کشی نے جو روایت نقل کی ہے اس سے جناب زید کا واضح موقف آشکار ہو جاتا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. میرزا تقی‌الدین خان، ناسخ التواریخ، تحت عنوان - احوال الامام زین العابدین ۔
۲. مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء والتاریخ، ج ۶، ص ۵۰۔    
۳. ابن العبری، ابو الفرج غریغوریوس، تاریخ مختصر الدول، ص ۱۱۶۔    
۴. طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۵۰۴ - ۵۰۵ - شماره ۴۲۹۔    


مأخذ

[ترمیم]
موسسہ ولی‌عصر، برگرفتہ از مقالہ آیا روایت:ما اقول فیهما الا خیراً، از قول زید بن علی، در حق ابوبکر و عمر صحت دارد؟۔    






جعبه ابزار