جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



جناب فاطمہ علىہا السلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) كى بیٹی اور آپ صلى اللہ عليہ وآلہ كى سب سے محبوب ترين ہستى تھيں۔ جناب فاطمہ علىہا السلام چہاردہ معصومين عليہم السلام ميں سے تيسرى معصوم اور دنیا كى پانچ مقدس ترين خواتين ميں سے ايك شمار كى جاتى ہيں۔ آپ علىہا السلام كا مشہور ترين لقب زہراء ہے۔ آپ كى کنیت أُمّ أَبِیہا ہے۔
آپ علىہا السلام كو يہ امتياز و شرف حاصل ہے آپ علىہا السلام معصوم كى بيٹى، معصوم كى زوجہ اور معصوم كى ماں ہيں۔ آپ علىہا السلام كى مظلوميت كے واقعات ميں سرفہرست آپ كے والد بزرگوار رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ كى رحلت اور آپ علىہا السلام كے شوہر نامدار امام على عليہ السلام كے حق كا ان كے ہاتھوں سے چھين ليا جاناہے جس نے آپ علىہا السلام كى قلب و روح انتہائى تكليف و كرب ميں مبتلا كر ديا اور اسى كشمكش ميں آپ علىہا السلام كو بے دردى كے ساتھ شہيد كر ديا گيا۔ آپ علىہا السلام كى وصيت كے مطابق آپ كو رات كى تاريكى ميں مخفى طور پر دفن كيا گيا جس كى وجہ سے آج بھى آپ علىہا السلامكى قبر مبارك مخفى اور نا معلوم ہے۔


ولادت سيدہ زہراء علىہا السلام

[ترمیم]

مؤرخين اور سيرت نگاروں ميں جناب زہراء سلام اللہ علىہا كى تاريخِ ولادت كے بارے ميں اختلاف پايا جاتا ہے۔ اہل سنت كے اكثر و بيشتر منابع و مصادر كے مطابق آپ علىہا السلام كى تاريخِ ولادت بعثت سے پانچ سال پہلے اس دور ميں ہوئى جب قريش خانہ کعبہ كى مرمت ميں مشغول تھے۔ جبكہ اكثر و بيشتر شیعہ منابع كے مطابق آپ علىہا السلام كى ولادت بعثت كے پانچ سال بعد ہوئى۔
اكثر علماء و محققين كے مطابق جناب سيدہ علىہا السلام كى ولادت بعثت كے دوسرے سال بيس (۲۰) جمادی الثانی بروز جمعہ ہوئى۔ بعض نے تاريخِ ولادت بعثت كے پانچويں سال تحرير كى ہے۔
[۴] شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد شیخ طوسی، بیروت، اعلمی، ص۵۵۱۔
۔ علامہ مجلسی (رحمہ الله) حیاة القلوب ميں بيان كرتے ہيں كہ صاحب عُدَد نے روایت نقل كى ہے كہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا بعثتِ رسالت كے پانچ سال بعد جناب خدیجہ سے متولد ہوئيں۔

جناب زہراء علىہا السلام كے نام اور القاب

[ترمیم]

نومولود بچے كا نام ركھنا صرف انسانوں ميں رائج رسم نہيں ہے بلكہ يہ الہى سنّت ہے۔ اللہ تعالى نے پہلى خلقت كو خلق كرنے كے بعد اس كا نام تجويز كيا۔ آدم اور حوّا وہ پہلے بشر ہيں جن كے نام تجويز كيے گئے اور جناب آدم عليہ السلام كو تمام اسماء كى تعليم دى گئى۔ قرآن كريم ميں ارشاد بارى تعالى ہوتا ہے: وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها (اللہ نے آدم كو تمام اسماء كى تعليم دى)۔
اس كے بعد بشر كے پاس اپنے رابطے اور تعلق كو برقرار كرنے كا فقط ايك راستہ تھا كہ وہ اشخاص اور اشياء كے نام ركھے اور ان كے ذريعے سے روابط قائم كرے۔ لہذا انسان كے پاس باہمى گفتگو اور ان چيزوں كے سكيھنے سيكھانے كے ليے اس طريقے كے علاوہ كوئى اور ذريعہ موجود نہيں ہے كہ وہ اشياء كے نام قرار دے اور پھر ان ناموں كے ذريعے سے گفت و شنيد كرے۔
پس انسانوں كے نام ركھنے كى كس قدر اہميت ہے كہ اللہ تعالى نے بعض ہستيوں كے نام خود نامزد كيے جن ميں سے ايك نام جناب زکریا عليہ السلام كے فرزند كا ہے جن كى ولادت سے پہلے اللہ تعالی كى جانب سے یحیی نام تجويز كيا گيا، جيساكہ قرآن كريم ميں وارد ہوا ہے: فَهَبْ لي‌ مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا ... يا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى‌ لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا [جناب زكريا نے دعا كى]: بارالہا ! اپنى جانب سے ميرے ليے ايك جانشين عطا فرما، جو ميرے اور آل يعقوب كى جانب سے وارث بنے، اور اے ميرے ربّ تو اس كو موردِ رضايت قرار دے، اے زكريا ! بے شك ہم تجھ كو ايك بچے كى بشارت ديتے ہيں جس كا نام يحيى ہے، اس سے پہلے ہم نے كسى كا يہ نام تجويز نہيں كيا ۔

← اسماء و القاب جناب زہراء علىہا السلام احاديث كى روشنى ميں


ابن بابويہ نے معتبر سند كے ساتھ یونس بن ظبیان سے روايت نقل كى ہے كہ امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہيں: حقّ تعالی كے نزديك فاطمہ (عليہا السلام) كے نو (۹) نام ہيں: فاطمہ عليہا السلام، صِدِّیقہ، مُبَارکہ، طاہره، زَکِیّہ، راضِیّہ، مرضیّہ، مُحَدَّثہ، زہرا/زہراء۔ اس كے بعد امام عليہ السلام فرماتے ہيں: كيا تم فاطمہ كے معنى جانتے ہو؟ يونس نے كہا: اے ميرے سيّد و سردار آپ مجھے اس كى تعليم ديجيے، امام عليہ السلام نے فرمايا:فُطِمَتْ مِنَ الشَّرِ انہيں شرّ سے كاٹ كر دور كر ديا گيا ہے، پھر امام عليہ السلام نے فرمايا: اگر امیر المؤمنین (علیہ السلام) جناب فاطمہ سے تزویج نہ كرتے تو روزِ قيامت تك روئے زمين پر جناب آدم اور ان كے علاوہ كوئى بھى ان كا ہم كفو نہ ہوتا۔
علامہ مجلسى رحمہ اللہ اس حدیث كا ترجمہ ذكر كرنے كے بعد بيان كرتے ہيں كہ صدیقہ يعنى معصومہ، مبارکہ يعنى علم اور فضل اور كمالات و معجزات اور اولادِ كرام ميں برکت، طاہره يعنى صفاتِ نقص يعنى نقص و عيب پر مشتمل صفات سے پاك و طاہر ہونا، زکیہ كا معنى نيكى و خير اور كمالات ميں نشوونما و نموّ پانا، راضيہ يعنى قضاءِ حقّ تعالى پر راضى ہونا، مرضيہ يعنى اللہ اور اولياءِ الہى كى محبوب ترين شخصيت، محدّثہ يعنى فرشتے كا جناب زہراء سلام اللہ عليہا سے بات چيت كرنا، اور زہراء يعنى نورِ صورى اور معنوى سے نورانى ہونے والى ہستى كے ہيں۔ يہ حديث دلالت كرتى ہے كہ امير المؤمنين (عليہ السلام) سوائے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ كے تمام پیغمبروں اور ان كے وصی /اوصیاء سے افضل ہيں۔ بلكہ بعض دلائل كے مطابق فاطمہ زہراء (عليہا السلام) بھى ان سے افضل ہيں۔
[۹] مجلسی، محمدباقر، جلاء العیون، چاپ سرور، قم، ص۱۶۲۔
احادیث متواتره جو خاصہ اور عامہ سے نقل ہوئى ہيں كے مطابق رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ نے اس ليے فاطمہ نام تجويز كيا كيونكہ حق تعالى نے آپ عليہا السلام اور ان كے شیعوں كو آتشِ جھنّم سے كاٹ كر دور كر ديا ہے۔
[۱۰] مجلسی، محمدباقر، جلاء العیون، چاپ سرور، قم، ص۱۶۵۔
[۱۱] فیروز آبادی، سید رضا، فضائل پنج تن، ج۴، ص۹۔
ايك روايت ميں وارد ہوا ہے كہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ سے پوچھا گيا كہ فاطمہ عليہا السلام كو بتول كيوں كہا جاتا ہے؟ آپ صلى اللہ عليہ وآلہ نے فرمايا: خواتين اپنے مخصوص ايام ميں جو خون ديكھتى ہيں آپ عليہا السلام اسے نہيں ديكھتىں اور اس سے پاك و منزہ ہيں، انبياء كى بيٹياں كا خون ديكھنا خوش آئند نہيں ہے۔
آپ عليہا السلام كے متعدد القاب ہيں، جيسے زہراء، صِدِّیقہ، طاہره، بتول، زکیہ، راضیہ، مرضیہ ۔۔ وغيرہ۔ آپ عليہا السلام كا سب سے مشہور لقب ’’زہراء‘‘ ہے۔
[۱۴] شہیدی، سید جعفر، زندگانی فاطمہ زہرا (سلام‌ الله ‌علیہا)، تهران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چ۴۶، ۱۳۸۶، ص۳۳۔
ڈكشنرى ميں زہراء كا مطلب روشن و درخشندہ كے ہيں۔
[۱۵] دهخدا، علی اکبر، لغت نامه دھخدا، معنای کلمه زہرا۔


← جناب فاطمہ علىہا السلام كے آسمانى نام


خاتونِ جنّت جناب فاطمه صدیقہ طاہره (سلام‌ الله‌ علیہا) كے بعض ايسے نام و القاب ہيں جو آسمانى ہيں اور اللہ سبحانہ كى طرف سے تجويز كيے گئے ہيں جبكہ بعض ايسے ہيں جو اللہ كے برگزيدہ و منتخب بندوں كى طرف سے قرار ديئے گئے ہيں۔
جہاں تك آسمانى ناموں كا تعلق ہے تو نو (۹) نام حدیث ميں وارد ہوئے ہيں۔ امام جعفر صادق (علیہ السّلام) فرماتے ہيں: اللہ عزّ وجلّ كے نزديك فاطمہ عليہا السلام كے نو (۹) نام ہيں: فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہره، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہراء۔

← جناب فاطمہ علىہا السلام القاب اور كنيت


حروفِ تہجى كى ترتيب سے آپ علىہا السلام كے درج ذيل نام، القاب اور كنيت ہيں:

←← ‌اُم الآئمہ


اُم الآئمہ (يعنى آئمہ طاہرين علىہم السلام كى والدہ ماجدہ):
اہل تسنن و شیعہ كتب احاديث ميں روایات وارد ہوئى ہيں كہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ كى پاك و پاكيزہ نسل آپ (ص) كى بيٹى سے چلى اور دنيا بھر ميں پھيلى۔ رسول اکرم (صلی‌ الله ‌علیہ ‌و‌آلہ) فرماتے ہيں: خدائے بزرگ و برتر نے ہر نبى كى نسل خود اس كے صلب سے قرار دى ہے جبكہ ميرى نسل على (عليہ السلام) كے صلب ميں قرار دى ہے۔
آنحضرت صلى اللہ عليہ وآلہ نے كئى مرتبہ اپنى عزيز ترين بيٹى سے فرمايا: اے فاطمہ ميں آپ كو بشارت ديتا ہوں كہ آپ كى نسل سے گيارہ (۱۱) معصوم، امام فرزند آئيں گے اور ان ميں سے آخرى مہدی (علیہ ‌السّلام) ہيں۔

←← اُم ابىہا


اُم اَبِىْہا یعنی: اپنے باپ كى ماں (اور غمخوار)۔
رسول اللہ (صلى اللہ عليہ وآلہ) جناب فاطمہ علىہا السلام كو اُم ابىہا كى كنيت سے پكارا كرتے تھے۔ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ كى زندگى طرح طرح كے مصائب اور كرب و اذيت سے پُر تھى۔ آپ صلى اللہ عليہ وآلہ ابھى بچپنے ميں ہى تھے كہ والدہ ماجدہ جناب آمنہ علىہا السلام كى جدائى كا غم اٹھانا پڑا۔ جناب خدیجہ سے ازدواج سے پہلے بلكہ اس كے بعد بھى مشرکین طعنہ تشنيع اور ديگر ظلم و زيادتى كے ذريعے طرح طرح كى اذيتيں و تكليفيں ديتے رہتے۔ كبھى ايك طرف سے جنگ مسلط كر دى جاتى تو كبھى دوسرى طرف سے حملہ آور ٹوٹ پڑتے۔ انہى خطرات اور مشكلات ميں آپ (صلى اللہ عليہ وآلہ) كى زندگى گزرتى رہى۔ ليكن جب آپ (ص) كى عزيز ترين دختر جناب فاطمہ علىہا السلام كى ولادت با سعادت ہوئى وہ ان تمام حالات ميں اپنے پچپن كے باوجود آپ (ص) كے ہمراہ اس طرح سے رہيں جيسے پروانہ شمع كے گرد ہوتا ہے۔ جناب فاطمہ علىہا السلام اپنے والد گرامى سے كبھى جدا نہيں ہوئيں۔ آپ (ص) كے غم و اندوه كو دور كرنے اور اپنے شفيق باپ كى دلجوئى كرنے ميں آپ علىہا السلام ہميشہ كوشاں رہتيں۔ اگر آپ كے والد بزرگوار (صلى اللہ علىہ وآلہ) جنگ ميں زخمى ہو جاتے تو آپ علىہا السلام اپنى كمسنى كے باوجود ان كى مرہم پٹى كرتيں اور ان كے آرام و سكون اور صحت و سلامتى كى بحالی كے ليے بے چين رہتيں۔ رسول اللہ (صلى اللہ عليہ وآلہ) آپ (علىہا السلام) كى اس دلسوزى و ايثار و قربانى كو ملاحظہ فرماتے تو اشك جارى ہو جاتے اور فرماتے: وہ اپنے باپ كى ماں ہے۔
[۲۷] بحرانی اصفہانی، عبدالله، عوالم العلوم، ج۶، ص۳۷۔

اُمّ كا مطلب ماں كے ہيں۔ لفظِ اُم كے اصلى حروف كا معنى جڑ اور اساس و بنياد كے ہيں۔ ضرورى ہے كہ آپ علىہا السلام كى شخصىت كو مادرِ نبوت قرار ديا جائے۔ اس كنيت كو شيعہ و سنى ہر دو نے نقل كيا ہے۔
[۲۸] اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة، ج۲، ص۸۸۔
ام ابىہا كہنے كى متعدد وجوہات بيان كى گئى ہيں۔ ان ميں سے بہترين وجہ يہ ہے كہ اُم لغت ميں ہدف اور مقصود كے معنى ميں بھى آيا ہے اور چونكہ جناب فاطمہ علىہا السلام درختِ نبوت كا ثمرہ اور ختمى مرتبت صلى اللہ عليہ وآلہ كى زندگى كا ماحاصل تھيں اس ليے انہيں ام ابيہا كہا جاتا ہے۔ يعنى نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ كى زندگى كا حقيقى و اصلى ہدف اور ثمرہ اور وہ ہستى جس سے آپ صلى اللہ عليہ وآلہ كى نسل اور اولاد پہچانى گئى جناب زہراء علىہا السلام ہيں۔
[۳۰] رسولی محلاتی، سیدہاشم، زندگانی حضرت فاطمہ زہراء، ص۱۴ و۱۔


←← ‌امّ الحسن اور امّ الحسین


‌ام الحسن. ‌ام الحسین (مادر حسن (علیہ ‌السّلام). مادر حسین (علیہ ‌السّلام))
جناب سيدہ علىہا السلام كے پہلے فرزند امام حسن مجتبى (علیہ‌السّلام)ہىں جن كى ولادت با سعادت مدینہ منورہ مىں تىن ہجرى ۱۵ رمضان المبارك كو ہوئى ۔ اس وقت آپ علىہا السلام كى عمر مبارك ۱۲ سال تھى ۔
امام حسن علىہ السلام كى ولادت كے چھ ماہ بعد وجودِ مقدس امام حسىن علىہ السلام نے دنىا مىں قدم ركھا۔ امام حسىن علىہ السلام كى ولادت با سعادت تىن شعبان چار ہجرى كو ہوئى ۔

←← ‌اُم محسن


‌اُم محسن (مادر محسن (علیہ‌السّلام) )
جناب سىدہ علىہا السلام كى اولاد پانچ تھىں جن كے نام درج ذىل ہىں:
۱۔ حسن (علیہ ‌السّلام)، ۲۔ حسین (علیہ ‌السّلام)، ۳۔ زینب علىہا السلام ،۴۔ ‌ام کلثوم (علیہاالسّلام) ۵۔ محسن (علیہ‌السّلام). جناب محسن آپ علىہا السلام كے آخرى فرزند اوراہل بىت مىں سے پہلے شہید ہىں جو رسول اللہ صلى اللہ علىہ وآلہ كى شہادت كے بعد شكم مادر مىں حمل كے آخرى مہىنے سقط كر دىنے كى وجہ سے شہىد كر دىئے گئے۔

←← بتول


بتول كا مطلب دوسروں سے جدا اور ممتاز ہونے كے ہىں۔ اس خاتون كو بھى بتول كہا جاتا ہے جو حیض نہ دىكھے۔
بتول كا مطلب دوسروں سے جدا اور ممتاز ہونے كے ہىں۔ اس خاتون كو بھى بتول كہا جاتا ہے جو حیض نہ دىكھے۔
ابن اثیر اپنى كتاب النہایہ مىں لكھتے ہىں:وَسُمِّيَتْ فاطمةُ البَتُول لِانْقِطَاعِهَا عَنْ نِسَاءِ زَمَانِهَا فضْلا ودِينا وحَسَبا. وَقِيلَ لِانْقِطَاعِهَا عَنِ الدُّنيَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى فاطمہ (علىہا السلام) كو اس لىے بتول كہا جاتا ہے كىونكہ آپ (علىہا السلام) اپنے زمانے كى خواتین اور اپنے زمانے سے پہلے اور بعد كى خواتىن سے جدا اور ممتاز ہىں اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ آپ علىہا السلام دنيا سے تعلق منقطع كر كے اللہ تعالى كے ساتھ خاص ہو گئيں۔

←← حانىہ و حُرة


حانیہ : وہ خاتون جو اپنے شوہر اور اپنے بچوں پر انتہائى مہربان و شفىق ہو۔
الحرة : آزاد خاتون

←← حصان


حصان كا مطلب عفیف و عفت دار كے ہيں۔
[۴۱] بحرانی اصفہانی، عبدالله، عوالم العلوم، ج۶، ص۲۴۔


←← حوراء انسيہ


حورا/حوراء انسيہ سے مراد زمىن پر انسانى شكل مىں بہشت کی حور كا ہونا ہے۔ [حوریہ ای شبیہ آدمی] رسول اللہ (صلى اللہ علىہ وآلہ) نے آسمان كى طرف متعدد معراج كے سفر مىں سے اىك موقع پر جنّت كے پھل ، تازہ كھجور اور بہشتى سيب تناول فرماىاور اللہ تعالى نے ان بہشتى غذاؤں كو آنحضرت (صلى اللہ علىہ وآلہ) كى پشت و صلب مىں قرار دىا ۔ آپ (صلى اللہ علىہ وآلہ) جب معراج سے زمین كى طرف پلٹے تو جناب خدیجہ علىہا السلام سے ہمبسترى فرمائى اور اسى ترتىب سے جناب فاطمہ (سلام‌الله‌علیہا) جناب خدىجہ علىہا السلام كے رحم مىں قرار پائىں۔ اس وجہ سے جناب فاطمہ (سلام‌الله‌علیہا) كو حوراء انسىہ كہا جاتا ہے۔

←← راضیہ


راضیہ: وہ جو تقدىرِ الہى اور اللہ کے قوانین سے راضى و خوشنود ہو۔
اس صفت كا شمار ایمان كے بلند ترىن درجات ميں ہوتا ہے۔ جناب فاطمہ علىہا السلام كى تمام زندگى اللہ عز و جل كے خوف و عبادت، زندگى كى مشكلات و مصائب اور دىن كى راہ مىں طرح طرح كى اذىت و ظلم وستم كو جھىلتے ہوئے گزرى اور ان تمام مراحل مىں آپ علىہا السلام اپنے ربّ سے راضى و خوشنود رہىں اور كسى جگہ اپنے قلب و زبان پر شكوہ شكايت ظاہر نہىں كى اور نہ كبھى كسى قسم كا گلہ كىا يہاں تك كہ اس آيت كريمہ مىں آپ علىہا السلام كے اس وصف كو بىان كىا گىا : يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً اے نفس مطمئہ اپنے ربّ كى طرف اس حال مىں لوٹ جا كہ تو اپنے ربّ سے راضى اور وہ تجھ سے راضى ہے۔

←← زکیہ


جناب فاطمہ علىہا السلام كے ناموں مىں سے ايك زكىہ ہے جس كا مطلب پاكدامن و پاكىزہ ىا پُر بركت وجود كے ہىں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن سعد، محمد بن عمر، طبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۱۰، ج۸، ص۱۶۔    
۲. ابن حجر عسقلانی، احمدبن علی، الاصابہ، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت دارالکتب، ج۱، ۱۴۱۵، ج۸، ص۲۶۳۔    
۳. امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، ۱۴۰۳ه.ق.، ج۱، ص۳۰۲۔    
۴. شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد شیخ طوسی، بیروت، اعلمی، ص۵۵۱۔
۵. بقره/سوره۲، آیه۳۱۔    
۶. مریم/سوره۱۹، آیه۵-۷۔    
۷. مریم/سوره۱۹، آیه۵-۷۔    
۸. شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، باب التسعہ، حدیث سوم، ج۱، ص۴۱۴۔    
۹. مجلسی، محمدباقر، جلاء العیون، چاپ سرور، قم، ص۱۶۲۔
۱۰. مجلسی، محمدباقر، جلاء العیون، چاپ سرور، قم، ص۱۶۵۔
۱۱. فیروز آبادی، سید رضا، فضائل پنج تن، ج۴، ص۹۔
۱۲. معانی الاخبار شیخ صدوق، ص۶۴۔    
۱۳. روضہ الواعظین، ج۱، ص۱۴۹۔    
۱۴. شہیدی، سید جعفر، زندگانی فاطمہ زہرا (سلام‌ الله ‌علیہا)، تهران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چ۴۶، ۱۳۸۶، ص۳۳۔
۱۵. دهخدا، علی اکبر، لغت نامه دھخدا، معنای کلمه زہرا۔
۱۶. صدوق، محمد بن علی، أمالی صدوق، ص۶۸۸۔    
۱۷. صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، ج۱، ص۱۷۸، ح۳۔    
۱۸. صدوق، محمد بن علی، خصال، ص۴۱۴۔    
۱۹. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، ص۷۹-۸۰۔    
۲۰. مجلسی، سیدمحمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۰، ح۱۔    
۲۱. مجلسی، سیدمحمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۶۔    
۲۲. خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، ج۱، ص۳۳۳۔    
۲۳. خوارزمی، موفق بن احمد، مناقب خوارزمی، ص۳۲۸۔    
۲۴. ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۱۳۲۔    
۲۵. مجلسی، سیدمحمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۶۔    
۲۶. ابن اثیر، علی بن محمد، اسدالغابہ، ج۶، ص۲۲۰۔    
۲۷. بحرانی اصفہانی، عبدالله، عوالم العلوم، ج۶، ص۳۷۔
۲۸. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة، ج۲، ص۸۸۔
۲۹. ابن حجرعسقلانی، احمد بن علی، الاصابة، ج۸، ص۲۶۲۔    
۳۰. رسولی محلاتی، سیدہاشم، زندگانی حضرت فاطمہ زہراء، ص۱۴ و۱۔
۳۱. مجلسی، سیدمحمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۶۔    
۳۲. ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۱۳۲۔    
۳۳. ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۱۳۲۔    
۳۴. مجلسی، سیدمحمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۶۔    
۳۵. ابن الاثیر، مجد الدین، النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر،ج ۱، ص۹۴۔    
۳۶. صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ص۶۴۔    
۳۷. سلیمان بن ابراہیم، قندوزی، ینابیع المودة، ج۲، ص۳۲۲۔    
۳۸. مجلسی، سیدمحمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۷۔    
۳۹. مجلسی، سیدمحمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۶۔    
۴۰. ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۱۳۳۔    
۴۱. بحرانی اصفہانی، عبدالله، عوالم العلوم، ج۶، ص۲۴۔
۴۲. فرات کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات کوفی، ص۷۶۔    
۴۳. مجلسی، سیدمحمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۸۔    
۴۴. مجلسی، سیدمحمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۶۔    
۴۵. فجر/سوره۸۹، آیت۲۷-۲۸۔    


ماخذ

[ترمیم]

منتهی الآمال شیخ عباس قمی۔
سایت پژوهه، ماخوذ از مقالہ «حضرت فاطمه زهرا سلام‌الله‌علیها»، تاریخِ لنک ۱۳۹۵/۹/۹۔    
(س) سایت اطلاع رسانی حوزه، ماخوذ از مقالہ «فرہنگ القاب فاطمہ (سلام‌ الله‌علیہا)»، تاریخِ لنک ۱۳۹۵/۱۱/۲۳۔    






جعبه ابزار