زھیر بن قین
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
زُهَیْر بن قَیْن بَجَلیّ
قبیله بَجیلہ کے ایک بزرگ تھے جو
کوفہ میں رہائش پذیر تھے۔ آپ
کربلا میں
امام حسینؑ کی سپاہ کے کمانڈر تھے۔
[ترمیم]
زهیر بن قین،
قبیلہ بَجیلہ کی بڑی شخصیت تھے اور
کوفہ میں مقیم تھے۔
ایک قول ضعیف کے مطابق زهیر پہلے «
عثمان» کے طرفدار تھے یہاں تک کہ سنہ ۶۰ ہجری میں
مکہ کے سفر سے واپسی کے دوران راستے کی ایک منزل پر (دینورى کی روایت کے مطابق یہ ملاقات «زَرُود» کے مقام پر انجام پائی)
امام حسینؑ کے کاروان کے ساتھ ایک منزل پر ایک ساتھ پڑاؤ ڈالا۔ امامؑ نے ایک شخص کو زھیر کے پاس بھیجا اور ملاقات کی خواہش کی۔ زھیر پہلے اس ملاقات سے گریز کر رہے تھے لیکن اپنی زوجہ دیلم یا دَلْهم بنت عَمرو
کے کہنے پر امام حسینؑ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ یہ ملاقات بہت مبارک ثابت ہوئی اور زھیر کی زندگی تبدیل ہو گئی۔ اس ملاقات کے بعد وہ اپنے گھر والوں اور دوستوں کے پاس خوشی کے عالم میں واپس آئے اور حکم دیا کہ ان کا خیمہ اور ساز و سامان امامؑ کے خیمے کے پاس منتقل کر دیا جائے۔
اپنی زوجہ سے بھی الوداع کیا اور کہا: میں امام حسینؑ کے ساتھ
شہادت کی طرف جا رہا ہوں، تم اپنے بھائی کے ساتھ واپس اپنے گھر چلی جاؤ؛ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میری طرف سے تمہیں اچھائی کے سوا کچھ اور پہنچے۔
پھر اپنے ساتھیوں سے کہا: جو شہادت کو چاہتا ہے، میرے ساتھ آ جائے ورنہ چلا جائے اور یہ میرا آپ لوگوں کے ساتھ آخری دیدار ہے۔
تاہم تمہارے لیے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں: جب ہم
جنگ بَلَنْجَر پر گئے تھے تو بڑی کامیابی ملی اور بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ لہٰذا ہم بہت خوش ہوئے۔
سلمان فارسی (بعض مصادر میں سلمان فارسی کی بجائے سلمان باھلی کا نام ہے)
جو ہمارے ہمراہ تھے، نے کہا: جب آل محمد کے جوانوں کے سید و سردار کو درک کرو گے تو ان کے ہمراہ جنگ اور مارے جانے پر اس مال غنیمت ملنے سے زیادہ خوشی کرنا۔
بعض مصادر میں ہے کہ زھیر کے چچا زاد
سلمان بن مضارب ان کے ساتھ ملحق ہو گئے اور امام حسینؑ کے لشکر میں شامل ہوئے۔
[ترمیم]
تاریخ طبری کی روایت کے مطابق امام حسینؑ نے
حر بن یزید ریاحی کی فوج سے روبرو ہونے کے بعد
منزل گاه ذِی حُسُم میں ایک خطبہ دیا اور اس میں معاشرے پر حکمفرما کجرویوں کو شمار کیا اور اپنے ساتھیوں کو اسلامی اقدار کے احیا کیلئے
جہاد اور راہ خدا میں
شہادت کی تشویق فرمائی۔ زھیر پہلے آدمی تھے جنہوں نے امامؑ کے خطاب کے بعد حضرتؑ کے احکام پر عمل درآمد کیلئے اپنی آمادگی کا اظہار کیا اور کہا: اے
رسول خداؐ کے فرزند! ہم نے آپ کی باتوں کو سنا ہے، خدا کی قسم! اگر
دنیا کی زندگی ہمیشہ کیلئے ہوتی اور ہم اس میں جاویداں ہوتے اور اس سے جدائی صرف آپ کی مدد اور ہمراہی کے سبب ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ قیام کو دنیا میں رہنے پر ترجیح دیتے؛ امامؑ نے بھی ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔
[ترمیم]
امام حسینؑ کا کاروان، بروز جمعرات دو
محرم سنہ اکسٹھ ہجری کو حر کی سپاہ کی نگرانی میں
نینوا کی سرزمین پر پہنچا۔ اتنے میں
عبید اللہ بن زیاد کا خط پہنچ گیا۔ اس خط میں حر کو حکم دیا گیا تھا کہ امام حسینؑ پر سختی کرے اور انہیں
پانی اور آبادی سے دور سرزمین پر ٹھہرائے۔ حر نے خط کے مضمون کی امامؑ اور ان کے اصحاب کو اطلاع دی اور ان سے اسی جگہ ٹھہرنے پر اصرار کیا۔ امامؑ کے انصار نے حر سے مطالبہ کیا کہ وہاں سے نزدیک کسی آبادی میں پڑاؤ ڈالا جائے لیکن حر نے کہا: وہ ایسی اجازت نہیں دے سکتا کیونکہ ابن زیاد کا
جاسوس اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس موقع پر زہیر بن قین نے امامؑ کو یہ تجویز دی کہ حر کے لشکر کے ساتھ جنگ کریں کیونکہ ان کے خلاف جنگ ان سے جنگ کی نسبت آسان ہو گی جو ان کی مدد کو آئیں گے۔ امامؑ نے فرمایا: میں
جنگ کا آغاز نہیں کروں گا۔
زھیر نے عرض کیا: پس یہ نزدیک کی آبادی جو فرات کے کنارے پر ہے اور اس میں دفاعی وسائل موجود ہیں؛ وہاں کا رخ کرتے ہیں۔
امامؑ نے اس کا نام پوچھا۔ زھیر نے کہا: «عَقْر»۔ امامؑ نے فرمایا: خدایا! میں عقر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ پھر اسی مقام (نینوا) پر پڑاؤ ڈال دیا۔
[ترمیم]
عصر تاسوعا، جب
عمر بن سعد کے سپاہیوں نے امام حسینؑ کے خیموں پر حملہ کیا اور جنگ شروع کرنے کا قصد کیا تو امامؑ نے اپنے برادر بزرگوار
حضرت عباسؑ سے فرمایا کہ ان کے پاس جا کر دیکھیں کہ ان کا کیا ارادہ ہے؟! انہوں نے کہا: ہمیں حکم ملا ہے کہ ابن زیاد کا حکم تسلیم نہ کرنے کی صورت میں آپؑ سے جنگ کریں۔ حضرت عباسؑ نے فرمایا: جلدی نہ کرو تاکہ تمہارا پیغام ابا عبد اللہ کے گوش گزار کر دوں۔ انہوں نے قبول کر لیا اور جواب کے منتظر رہے۔
اس فرصت میں حبیب بن مظاہر اور زھیر بن قین عمر سعد کے سپاہیوں کو نصیحت کرنے لگے۔ پہلے حبیب نے بات کی اور انہیں
پیغمبرؐ کی عترت اور ان کے شیعوں کے قتل سے
نہی کی اور امامؑ کے ساتھیوں اور عزیزوں کا ذکر خیر کیا اور ان کی بعض اعلیٰ صفات کو شمار کیا۔
اس موقع پر دشمن کے ایک آدمی «
عزرة بن قیس» نے حبیب کو مخاطب کر کے کہا: جتنی خود ستائی کر سکتے ہو، کر لو!
زھیر بن قین نے اس کے جواب میں کہا: اے عزرہ! وہ خدائے متعال کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں، خدا سے ڈر، میں تیرا خیر خواہ ہوں۔ تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ مبادا پاکیزہ اشخاص کو قتل کرنے میں گمراہوں کا ساتھ دو!
عزرہ نے کہا: اے زھیر! تم اس خاندان کے شیعہ نہیں تھے اور عثمان کے طرفدار تھے!
زھیر نے جواب دیا: کیا تم میرے اس مقام پر کھڑے ہونے سے یہ نہیں سمجھ رہے ہو کہ میں ان میں سے ہوں (یعنی ان کا شیعہ ہوں)؟! خدا کی قسم، میں نے کبھی انہیں (امام حسینؑ) کو خط نہیں لکھا، ان کی طرف قاصد نہیں بھیجا اور ان سے نصرت کا وعدہ نہیں کیا بلکہ میں نے راستے میں ان سے ملاقات کی۔ جب انہیں دیکھا تو رسول خداؐ یاد آ گئے اور ان کا پیغمبرؐ کے نزدیک مقام مجھے یاد آ گیا۔ اسی طرح مجھے معلوم ہوا کہ دشمن اور تمہارے گروہ کی جانب سے انہیں کن سختیوں کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ ان کی نصرت اور حمایت کروں اور اپنی جان کو ان پر فدا کر دوں، تاکہ تم نے خدا و رسولؐ کے جس حق کو ترک کر دیا ہے، اس کی پاسداری کروں!
[ترمیم]
شب عاشور، جب امام حسینؑ نے اپنے ساتھیوں کو گھر واپسی کی اجازت دے دی تو ان میں سے ہر ایک نے اپنی
وفاداری اور
استقامت کا اظہار کیا؛ زھیر بن قین نے کہا: خدا کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ قتل ہو جاؤں، پھر زندہ ہو جاؤں، یہاں تک کہ ہزار مرتبہ اس طرح قتل کیا جاؤں اور خدا اس کے ذریعے آپ اور آپؑ کے خاندان کے جوانوں کی
جان کو سلامت رکھے۔
[ترمیم]
امام حسینؑ نے
عاشور کے دن
نماز صبح کے قیام کے بعد اپنے ساتھیوں کو منظم کیا اور زھیر بن قین کو میمنہ کی سربراہی عطا کی کہ جس سے زھیر کی اخلاقی اور فوجی اہلیت و قابلیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔
[ترمیم]
روز عاشور جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے روبرو ہوئے تو پہلے امام حسینؑ نے دشمن کے سپاہیوں کو نصیحت فرمائی۔ پھر زھیر نے انہیں مخاطب کیا اور کہا: اے اہل کوفہ! تمہیں عذاب الہی سے ڈراتا ہوں۔
مسلمان پر
واجب ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کا خیر خواہ ہو۔ ہم ابھی تک بھائی ہیں، ایک دین و مذہب کے حامل ہیں اور تم
نصیحت کے سزاوار ہو۔ البتہ جب تک ہمارے درمیان جنگ شروع نہ ہو۔ مگر جنگ چھڑ جانے کے بعد ہمارا دینی اور بھائی چارے کا تعلق ٹوٹ جائے گا اور دو جداگانہ امت ہو جائیں گے۔
پروردگار متعال ہمیں اور تمہیں اپنے پیغمبرؐ کے نواسوں کے واسطے سے آزما رہا ہے تاکہ دیکھے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو۔ اب تمہیں ان کی مدد اور عبید اللہ بن زیاد ظالم کو چھوڑنے کی دعوت دیتے ہیں؛ کیونکہ تم نے ان دو افراد (عبید اللہ اور اس کے باپ) کی حکومت کے دوران سوائے بدی کے کچھ نہیں دیکھا ہے: یہ تمہاری آنکھوں میں سلائیاں پھیرتے تھے، تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالتے تھے اور تمہیں سخت شکنجہ دیتے تھے۔
خرما کے درخت کی شاخوں پر تمہیں سولی دیتے تھے۔ تمہارے نیک لوگوں اور قرآن کے قاریوں کو قتل کرتے تھے؛ جیسے
حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں اور
ہانی بن عروہ جیسوں کو قتل کیا۔ عمر سعد کے سپاہیوں نے زھیر کو گالیاں دیتے ہوئے عبید اللہ زیاد کی تعریف کی اور کہا: ’’ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک تمہارے رفیق اور اس کے ساتھیوں کو قتل نہ کر دیں یا یہ کہ وہ خود کو ہمارے حوالے کر دیں اور ہم انہیں ابن زیاد کے پاس بھجوا دیں۔
زھیر نے کہا: اے خدا کے بندو!
فاطمہؑ کی اولاد نصرت اور دوستی کیلئے
سمیہ کے بیٹے کی نسبت سزاوار ہے۔ اگر ان کی مدد نہیں کرتے تو خدا کے واسطے مبادا انہیں قتل کرو۔ ان (امام حسینؑ) کے اور یزید کے معاملے میں نہ پڑو، مجھے اپنی جان کی قسم! امام حسینؑ کو قتل کیے بغیر بھی یزید تمہاری فرمانبرداری سے راضی رہے گا۔
اس وقت
شمر نے ایک تیر ان کی طرف پھینکا اور کہا: خاموش ہو جا، خدا تیری آواز کو خاموش کرے؛ تو نے بول بول کر ہمیں تھکا دیا ہے۔
زھیر نے کہا: اے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والے کے بیٹے! میں تجھ سے بات نہیں کر رہا۔ تو ایک حیوان سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ خدا کی قسم، میرا نہیں خیال کہ
قرآن کی دو
آیات کو درست جانتے ہو! تمہیں خبر دیتا ہوں
قیامت کے دن کی خواری، رسوائی اور درد ناک
عذاب کی!
شمر نے کہا: کچھ دیر تک خدا تجھے اور تیرے رفیق کو قتل کر دے گا!
زھیر نے جواب دیا: کیا تم مجھے
موت سے ڈراتے ہو؟! خدا کی قسم، ان کے ہمراہ موت تمہارے ساتھ ہمیشہ کی زندگی سے میرے لیے زیادہ محبوب ہے! پھر لوگوں کی طرف رخ کیا اور بلند آواز سے کہا: خدا کے بندو! یہ بد اخلاق احمق اور اس جیسے لوگ تمہیں تمہارے دین کے بارے میں فریب نہ دیں۔ خدا کی قسم، محمدؐ کی
شفاعت ان کو نہیں ملے گی جنہوں نے ان کی اولاد، ان کے
اہل بیتؑ اور ساتھیوں اور مددگاروں کو قتل کیا!
اس لمحے، کسی نے زھیر کو آواز دی اور کہا: ابا عبد اللہ فرماتے ہیں کہ واپس آ جاؤ! مجھے اپنی جان کی قسم، جیسے
مومن آل فرعون نے اپنے لوگوں کو نصیحت کی، تو نے بھی انہیں نصیحت کی؛ اگر نصیحت کا کوئی نفع ہو!
[ترمیم]
زھیر، دشمنوں کے نزدیک بھی ایک
شجاع ، ممتاز اور نامور شخصیت تھے؛ چنانچہ جب عاشور کے دن
عبد اللہ بن عمیر کلبی، عبید اللہ اور ان کے والد زیاد کے دو
غلاموں سالم اور یسار کے مقابلے پر گئے، تو ان دونوں نے انہیں کہا: ہم تمہیں نہیں پہچانتے، زھیر بن قین یا حبیب بن مظاھر کو ہمارے خلاف جنگ کیلئے بھیجو!
[ترمیم]
زھیر کی جنگ کے یادگار مناظر میں سے ایک وہ ہے کہ جب شمر اور چند دوسرے دشمنوں نے امام حسینؑ کے خیموں پر حملہ کر دیا اور آگ لگانا چاہتے تھے، انہوں نے امامؑ کے دس دیگر اصحاب کی مدد سے ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کرنے کے بعد انہیں خیموں سے دور کر دیا۔
[ترمیم]
زُهَیر و حُرّ، نے روز عاشور کا کچھ وقت ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بھرپور جنگ کی اور جب بھی ان دو میں سے کوئی ایک دشمن پر حملہ آور ہوتا، اگر محاصرہ میں گھر جاتا تو دوسرا اسے نجات دیتا۔ یہاں تک کہ حر
شہید ہو گئے۔
[ترمیم]
ظہر عاشور، زهیر اور
سعید بن عبدالله حنفی نے اپنی جان کو سپر بنایا تاکہ امام حسینؑ اپنے کچھ اصحاب کے ہمراہ
نماز خوف بجا لائیں۔
نماز کے بعد دشمن کے حملوں میں شدت آ گئی۔ زھیر اور امامؑ کے باقی ماندہ تھوڑے انصار نے پوری قوت سے حضرتؑ اور آپ کے اہل بیتؑ کا دفاع کیا۔
[ترمیم]
زھیر جنگ کے وقت یہ
رجز پڑھ رہے تھے:
انَا زُهَیْرٌ وَانَا ابْنُ الْقَیْنِ • اذُودُکُمْ بِالسّیْفِ عَنْ حُسَیْنِ میں زھیر ہوں، قین کا فرزند؛ تمہیں
شمشیر کے ساتھ حسینؑ سے دور کر رہا ہوں!
بعض مصادر نے زھیر کے رجز میں آگے چل کر دو مزید شعر نقل کیے ہیں:
انَّ حُسَيناً احَدُ السِّبْطَينِ • مِنْ عِتْرَةِ البَرِّ التَقِىّ الزِّيْنِذَاكَ رَسُولُ اللَّهِ غَيْر المَيْنِ • اضْرِبُكُمْ وَلا ارى مِنْ شَيْنِ پھر بشارت اور خوشخبری کے عنوان سے امامؑ کو خطاب کرتے ہوئے یہ فرماتے تھے:
الْیَوْمَ نَلْقَی جَدَّکَ النَّبیَّا • وَحَسَناً وَالْمُرتَضَی عَلِیَّاوَذَا الْجَنَاحَیْنِ الْفَتَی الْکَمِیَّا • واسد الله الشهید الحیّا آج ہم آپؑ کے جد ،
امام حسنؑ اور
امام علیؑ ، ذو الجناحین
جعفر طیار اور اسد اللہ (حضرت حمزہؑ) کا دیدار کریں گے!
بعض مصادر نے ان اشعار کی نسبت
حجاج بن مسروق کی طرف بھی دی ہے۔
[ترمیم]
زھیر دلیرانہ اور کم نظیر جنگ میں ۱۲۰ کے لگ بھگ دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد آخرکار «
کثیر بن عبدالله شعبی» اور «
مهاجر بن اوس» کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
[ترمیم]
خوارزمی لکھتے ہیں: جب زھیر
زمین پر گر گئے تو امام حسینؑ نے ان سے فرمایا: خدا تجھے اپنی رحمت سے دور نہ کرے اور تیرے
قاتل پر ایسے لعنت کرے جیسے ان لوگوں پر لعنت کی جنہیں
بندر اور
خنزیر کی شکل میں مسخ کیا۔
لایبعدنک الله یا زهیر و لعن الله قاتلک لعن الذین مسخهم قردة و خنازیر [ترمیم]
زھیر کی شہادت کے بعد ان کی زوجہ نے ان کے غلام سے کہا: جا کر اپنے آقا کو کفن دو! غلام کہتا ہے: جب میں آیا تو حسینؑ کو بے کفن پایا، تو میں نے خود سے کہا: اپنے مالک کو کفن دوں اور حسینؑ کو چھوڑ دوں؟! پھر حسینؑ کو کفن پہنا کر لوٹ گیا۔ جب یہ ماجرا زھیر کی
زوجہ کے گوش گزار کیا تو انہوں نے مجھے آفرین کہا اور ایک اور کفن دے کر کہا: جاؤ! اپنے مالک کو کفن دے آؤ اور میں نے ایسا ہی کیا ۔
[ترمیم]
زیارت
ناحیه مقدسه میں زھیر کی وفاداری اور
فداکاری کی اس طرح تحلیل کی گئی ہے:
السَّلامُ عَلی زُهَیْرِ بْنِ الْقَیْنِ الْبَجَلِیِّ، الْقائِلِ لِلْحُسَیْنِ وَقَدْ اذِنَ لَهُ فِی الانْصِرافِ: لا وَاللَّهِ لا یَکُونُ ذلِکَ ابَداً، اتْرُکُ ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ اسیراً فِی یَدِ الَاعْداءِ وَانْجُو! لا ارانِیَ اللَّهُ ذلِکَ الْیَوْمَسلام ہو زهیر بن قین بَجَلیّ پر! وہی کہ جب امام حسینؑ نے انہیں لوٹ جانے کی اجازت دی تو حضرتؑ سے عرض کیا: خدا کی قسم! نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ کیا رسول خداؐ کے فرزند کو دشمنوں کے ہاتھوں میں
اسیر چھوڑ جاؤں اور خود کو نجات دوں؟! خدا مجھے وہ دن نہ دکھائے!
[ترمیم]
[ترمیم]
جمعی از نویسندگان ، پژوهشی پیرامون شهدای کربلا،ص۱۶۸-۱۷۵۔
پیشوایی، مهدی، مقتل جامع سیدالشهداء، ج۱، ص۷۸۵-۷۸۶۔