شب و روز عاشور کے مصائب
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
محرم کی راتوں کے نام
تعینی طور پر مرور زمان کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ یہ کام
اہل بیتؑ کے ذاکرین کے توسط سے کچھ خاص راتوں جیسے
عاشورا اور تاسوعا کی تقلید میں انجام پایا ہے۔ نویں رات یا شب تاسوعا کے دوران
امام حسینؑ کے سب سے بڑے یاور و مددگار
قمر بنی ہاشم علمدار کربلا حضرت عباسؑ ہیں۔
[ترمیم]
ایک نمایاں شخصیت جن کا واقعات عاشورا میں بنیادی کردار ہے اور انہوں نے
حجت خدا کے دفاع اور
امام کے فرمان کی اطاعت میں بہت سے ماندگار مناظر یادگار چھوڑے ہیں؛
حضرت عباس بن علیؑ ہیں۔ انہوں نے ایک طرف میدان جنگ میں ایسی شجاعت کا مظاہرہ کیا کہ دشمن کو مشکل میں ڈال دیا؛ اور دوسری طرف سے امام حسینؑ کے ایسے مطیع اور وفادار تھے کہ طول تاریخ میں انہیں ایک فداکار سپاہی اور وفادار بھائی کے عنوان سے یاد رکھا جائے گا۔ عباس کا معنی وہ شیر ہے جس کے تیور بدل چکے ہوں اور یہ نام سقائے کربلا کی طاقت اور ثابت قدمی کی علامت ہے۔
آپ علیؑ کے فرزند اور
امام حسینؑ کے بھائی تھے۔ اس کے باوجود اپنے بھائی کو نام سے نہیں پکارتے تھے۔ عباسؑ اس ادب اور تواضع کو زندگی کی آخری سانسوں تک خود پر
واجب سمجھتے تھے۔ حضرت عباسؑ کی شجاعت، وفاداری اور تواضع عاشورا کے ایسے سنہری باب ہیں جن سے پوری دنیا انگشت بدنداں ہے۔
واقعہ
کربلا کے دوران
حضرت ابو الفضل العباسؑ ۳۴ برس کے تھے اور اس بابرکت زندگی کے چودہ سال اپنے والد، نو سال اپنے بھائی
امام مجتبیٰ اور گیارہ برس
امام حسینؑ کی خدمت میں رہے۔
آپؑ کے القاب، حضرت قمر بنی ہاشم،
سقّاء،
علمدار،
العبد الصالح
المواسی الصابر،
اور المحتسب
ہیں۔
[ترمیم]
امام صادقؑ حضرت عباسؑ کی توصیف میں فرماتے ہیں:
کانَ عَمُّنَا الْعَبَّاسَ نافِذَ البَصیرَةِ، صَلْبَ الْایمانِ، جاهَدَ مَعَ اَبی عَبْدِاللَّهِ (علیهالسلام) وَاَبْلی بَلاءً حَسَناً وَمَضی شَهیدا؛ہمارے چچا عباس نافذ بصیرت اور محکم ایمان کے حامل تھے۔ انہوں نے حسینؑ کے ساتھ
جہاد کیا اور امتحان میں سربلند ہوئے اور آخرکار درجہ
شہادت پر فائز ہوئے۔
امام سجادؑ اپنے چچا عباسؑ کی ان الفاظ میں توصیف کرتے ہیں:
رَحِمَ اللَّهُ عَمِیَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ واَبْلی وفَدی اَخاهُ بِنَفْسِهِ حَتَّی قُطِعَتْ یَداهُ فَاَبْدَلَهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ مِنْهُما جِناحَیْن یَطیرُ بِهِما مَعَ الْمَلائِکَةِ فی الْجَنَّةِ کَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ اَبی طالِبْ علیه السلام؛ وَانَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّهِ تَبارَکَ وَتَعالی مَنْزِلَةٌ یَغبِطَهُ بِها جَمیعَ الشُّهدَاءِ یَوْمَ القِیامَةِ؛اللہ میرے چچا عباس پر رحمت کرے کہ انہوں نے ایثار کیا اور خود کو سختی میں ڈالا اور اپنے بھائی پر اپنی جان نثار کر دی یہاں تک کہ ان کے ہاتھ بدن سے جدا کر دئیے گئے۔ تو اللہ نے ان کے بدلے انہیں دو پر عطا کر دئیے کہ جن کے ساتھ وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ محو پرواز ہیں جیسا کہ
جعفر بن ابو طالب کو عطا کیے گئے؛ عباس کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا مقام ہے جس پر قیامت کے دن سب شہدا رشک کریں گے۔
[ترمیم]
حضرت عباسؑ نے پہلی مہم نو محرم کی عصر کو انجام دی کہ
بھائی کے حکم پر دشمنوں کے پاس گئے اور ان سے ایک رات کی مہلت طلب کی تاکہ خدا کے ساتھ راز و نیاز کر سکیں۔
اس وقت حضرت ابو الفضل العباسؑ کے ماموں زاد
عبد اللہ بن ابی محل کا غلام کزمان، حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں کیلئے امان نامہ لایا کہ جسے
شمر اور عبد اللہ بن ابی المحل نے
ابن زیاد سے حاصل کیا تھا۔ جب
ام البنین کے بیٹوں کی نگاہ امان نامے پر پڑی تو انہوں نے کہا: ہمارے ماموں کو سلام کہنا اور کہو کہ ہمیں تمہارے امان نامے کی ضرورت نہیں ہے، خدا کی امان
سمیہ کے جنے ہوئے کی امان سے بہتر ہے۔
ایک روایت کی بنا پر شمر جو خود
قبیلہ بنی کلاب سے تھا، خیمے کے پچھلے حصے میں آیا اور بلند آواز سے کہا: کہاں ہیں میری بہن کے بیٹے؟! اولاد علی نے انہیں جواب نہیں دیا۔ امام ؑ نے فرمایا: اسے جواب دو، اگرچہ
فاسق ہے۔
عباس،
جعفر اور
عثمان باہر نکلے اور پوچھا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟! اور کیا چاہتے ہو؟! کہنے لگا: اے میری بہن کے بیٹو! میری طرف آ جاؤ چونکہ تمہیں امان ہے اور خود کو حسینؑ کے ساتھ ہلاکت میں نہ ڈالو!
انہوں نے اس کی سرزنش کی اور کہا: خدا تجھ پر اور تیرے امان نامے پر لعنت کرے! تو ہمارا ماموں ہونے کے ناطے ہمیں امان دے رہا ہے؟ مگر
رسول خداؐ کے فرزند کیلئے کوئی امان نہیں؟ کیا ہمیں یہ حکم دے رہے ہو کہ ملعون اور ملعونوں کی اولاد کی اطاعت کریں؟! شمر غصے میں واپس چلا گیا۔
شب عاشورا، امامؑ نے اپنے ساتھیوں کو بلایا اور ایک
خطبے کے ضمن میں اپنی
بیعت کو اٹھا دیا اور فرمایا: آپ چلے جاؤ، ان کا سروکار مجھ سے ہے۔ اس لمحے جس نے سب سے پہلے وفاداری کا اظہار کیا، وہ عباس بن علیؑ تھے۔ انہوں نے عرض کیا: ہم ایسا کیوں کریں؟! کیا اس لیے کہ آپ کے بعد زندہ رہیں؟ خدا کبھی ایسا دن نہ لائے اور ہمیں نہ دکھائے!
[ترمیم]
حضرت عباسؑ کا کربلا میں ایک افتخار سقائی یعنی حسینی لشکر کیلئے پانی کی فراہمی تھا؛ کیونکہ ساتویں کے دن سے ان پر پانی بند کر دیا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے آپ کا ایک لقب ’’سقا‘‘ تھا۔
حضرت عباس کا ایک رجز
(انی انا العباس اغدو بالسقا) اس امر کا مؤید ہے۔
امامؑ کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد اہل حرم کو پانی کی سخت ضرورت محسوس ہوئی اور خود امام حسینؑ بھی شدت سے پیاسے تھے۔ امامؑ اور ان کے بھائی عباسؑ پانی کی فراہمی کیلئے نکلے۔ دونوں نے مل کر میدان جنگ میں قدم رکھا اور
فرات کی سمت حرکت کی۔
(انّ الحسین (علیهالسّلام) لمّا غلب علی عسکره العطش رکب المسناة یرید الفرات....)
حضرت عباسؑ، امام حسینؑ کے ساتھ ساتھ رواں دواں تھے اور جس سمت میں حسینؑ جاتے وہ بھی اسی طرف مڑ جاتے تھے۔
پھر امام حسینؑ نے فرات کا رخ کیا لیکن
عمر بن سعد نے ان کا راستہ روک لیا۔
قبیلہ بنی دارم کے ایک شخص نے کہا: ان کے اور پانی کے درمیان حائل ہو جاؤ اور انہیں پانی تک نہ پہنچنے دو۔
امام حسینؑ نے دارمی شخص کو
بددعا دی اور کہا: خدایا! اسے پیاس میں مبتلا کر دے۔ راوی کہتا ہے: خدا کی قسم! ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ خدا نے اس شخص پر پیاس کا غلبہ کر دیا اور وہ پانی پی پی کر بھی سیراب نہیں ہو پا رہا تھا، چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد اس کا پیٹ مردہ اونٹ کی طرح پھٹ گیا۔
اس سے قبل وہ شخص امامؑ کی بددعا سے غصے میں آ گیا اور اس نے ایک تیر چھوڑا جو حضرتؑ کے گلے پر لگا۔ امام حسینؑ نے تیر کو باہر کھینچا اور اپنے ہاتھوں کو گلے کے نیچے رکھا جو
خون سے بھر گئے جسے امامؑ نے پھینک دیا؛ اس وقت فرمایا: خدایا! تیری درگاہ میں شکایت کرتا ہوں۔
(اللهم انّی اشکو الیک ما یفعل بابن بنت نبیک)[ترمیم]
پھر دشمن کے لشکر نے حضرت عباسؑ کا ہر طرف سے محاصرہ کر لیا اور انہیں امام حسینؑ سے جدا کر دیا۔ حضرت عباسؑ نے اپنے بھائی سے جدا ہونے کے بعد تن و تنہا دشمنوں کے ساتھ جنگ کی۔
آپ اپنے حملوں کے دوران یہ رجز پڑھ رہے تھے:
اقسمت بالله الاعز الاعظم وبالحُجُون صادقاً وزمزم•••وذوالحَطیم والفناء المُحرم•••لیخضیّن الیوم جسمی بالدم•••امام ذی الفضل وذی التکرمِ ذاک حسین ذو الفخار الاقدم؛خدائے عزیز و عظیم کی قسم! اور حجون و
زمزم کی قسم؛
حطیم اور
کعبہ کے مقدس آستانے کے مالک کی قسم، آج بافضیلت و باکرامت شخصیت یعنی حسینؑ کہ جو دیرینہ افتخارات کے حامل ہیں؛ کی موجودگی میں میرا پیکر خون سے رنگین ہو گا۔
خوارزمی کہتے ہیں: حضرت عباسؑ جب پانی لانے کی مہم پر تھے تو یہ رجز پڑھ رہے تھے:
لاارهب الموت اذا الموت زقا•••حتٰی اُواری فی المصالیت لقا••• نفسی لنفس المُصطفی الطهر وقا••• انّی انا العبّاس اغدو بالسقا•••و لا اخاف الشر یوم المُلتقی؛جب موت کا پرندہ آواز دیتا ہے تو میں
موت سے نہیں ڈرتا یہاں تک کہ ہوشیار اور چست جوانوں کے دریا کی تہ تک چلا جاؤں اور غائب ہو جاؤں۔ میری جان پاک و برگزیدہ حسینؑ پر قربان ہو! میں عباس ہوں اور ہر صبح میرا کام پانی پلانا ہے۔ جس دن میرا جنگ سے سامنا ہو جائے تو میں اس سے نہیں ڈرتا۔ پھر حملہ کیا اور دشمن کو تتر بتر کر دیا۔
[ترمیم]
مرحوم
مجلسی حضرت کی شہادت کی کیفیت کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: جب عباسؑ نے
بھائی کی تنہائی کا مشاہدہ کیا تو ان کے پاس آئے اور ان سے میدان میں جانے کی اجازت مانگی۔ امامؑ نے فرمایا: تو میرا پرچمدار ہے اور اگر تو چلا گیا تو میرا لشکر بکھر جائے گا۔ آپؑ نے عرض کیا: میرا سینہ تنگ ہو چکا ہے اور بھرپور زندگی گزار چکا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان منافقین سے اپنا انتقام لوں۔ امامؑ نے فرمایا: پس ان بچوں کیلئے کچھ پانی کا بندوبست کرو۔ عباس
دشمن کی طرف آئے اور انہیں بہت وعظ و نصیحت کیا مگر فائدہ نہیں ہوا۔ پھر اپنے بھائی کے پاس واپس آ گئے اور انہیں آگاہ کیا۔ اس وقت سنا کہ بچے ’’العطش‘‘ کی دہائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے مشک اٹھائی اور گھوڑے پر سوار ہو کر فرات کی طرف روانہ ہو گئے۔ چار ہزار افراد نے ان کا محاصرہ کر لیا اور ان پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی۔ مگر آپ فرات میں داخل ہو گئے۔۔۔۔ مشک کو پانی سے بھر لیا۔ اسے اپنے دائیں شانے پر لٹکایا اور خیموں کی طرف روانہ ہو گئے۔ دشمن نے راستہ بند کر دیا اور چاروں طرف سے گھیر لیا۔
حضرت عباسؑ کی پانی خیموں تک پہنچانے کی سخت کوشش کے دوران ہونے والی جنگ میں
زید بن ورقاء جہنی نے ایک دوسرے شخص
حکیم بن طفیل کی مدد سے حضرت عباسؑ کے دائیں ہاتھ پر وار کیا۔ حضرت عباسؑ نے مشک کو بائیں کندے پر لٹکا لیا؛ تلوار کو بائیں ہاتھ سے پکڑ لیا اور ان پر حملہ آور ہو گئے اور یہ رجز پڑھ رہے تھے:
والله ان قطعتموا یمینی••• انّی احامی ابداً عن دینی•••و عن امام صادق الیقین•••نجل النبی الطاهر الامین؛خدا کی قسم! اگر تم نے میرا دایاں ہاتھ قطع کر دیا ہے تو میں پھر بھی اپنے دین اور اپنے صاحب یقین صادق امامؑ، کا دفاع کروں گا۔
حضرت عباسؑ نے اس قدر جنگ کی کہ بے حال و ناتوان ہو گئے۔ اس دوران حکیم بن طفیل جو ایک کھجور کے پیچھے گھات لگا کر بیٹھا تھا؛ نے ان کے بائیں ہاتھ پر ایک ضربت لگائی اور اسے تن سے جدا کر دیا۔ حضرت عباسؑ نے اس وقت یہ رجز پڑھا:
یا نفس لاتخشی من الکفار•••و ابشری برحمة الجبّار•••مع النبی السید المختار•••قد قطعوا ببغیهم یساری•••فاصلهم یا رب حر النار؛ اے نفس! کفار سے نہ ڈر اور سید و مختار نبی کی معیت میں خدائے جبار کی رحمت تجھے مبارک ہو! انہوں نے ظلم سے میرا بایاں ہاتھ قطع کر دیا ہے؛ خدایا! انہیں
دوزخ کی آگ میں ڈال دے۔
پھر حضرت عباسؑ نے مشک کو دانتوں سے دبا لیا، اتنے میں ایک تیر آیا جو مشکیزے کو جا لگا اور پانی بہہ گیا جبکہ ایک اور تیر آپؑ کے سینہ مبارک پر آن لگا۔ اس کے بعد گھوڑے سے زمین پر آئے اور امام حسینؑ کو آواز دی: «
یا اخا ادرک اخاک؛ اے بھائی! اپنے بھائی کی خبر لیجئے۔ امام حسینؑ کی آمد سے قبل وہ ملعون سامنے آیا اور لوہے کے گرز سے آپؑ کی پیشانی پر وار کیا۔ (فقتله الملعون بعمود من الحدید)
حضرت عباسؑ تیروں اور دشمن کی ضربوں کے نتیجے میں شدید زخمی ہو چکے تھے اور آپ میں ہلنے جلنے کی سکت نہ رہی۔
اور اس طرح دشمنوں کے ایک گروہ کو قتل کرنے کے بعد شہید ہو گئے۔
[ترمیم]
جب امام حسینؑ نے اپنے بھائی عباس کو فرات کے کنارے پر دیکھا، تو بہت زیادہ روئے۔
اور عاجزی سے فرمایا: «الآن انکسر ظهری و قلت حیلتی؛ اب میری کمر ٹوٹ گئی ہے اور میری تدبیر ختم ہو گئی ہے۔
زیارت ناحیہ مقدسہ میں حضرت عباسؑ کو ان الفاظ میں یاد کیا گیا ہے:
السَّلامُ عَلی ابی الْفَضْلِ العَبَّاسِ بْنِ اَمیرِالْمُؤمنینَ المُواسی اَخاهُ بِنَفْسِهِ، اَلآخِذُ لِغَدِهِ مِنْ اَمْسِهِ، الْفادی لَهُ الواقی السَّاعی اِلَیْهِ بِمائِه، الْمَقطُوعَةِ یَداه؛سلام ابو الفضل العباس ابن امیر المومنین پر؛ وہی کہ جنہوں نے بھائی کی راہ میں اپنی جان قربان کر دی۔ وہی کہ جنہوں نے اپنے کل سے آج کو اخذ کر لیا اور اپنی جان کو فدا کر دیا اور سپر قربان کر دیا اور پانی پہنچانے کی بہت کوششیں کی؛ اور ان کے ہاتھ قطع ہو گئے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
پایگاہ اطلاعرسانی حوزہ، ماخوذ از مقالہ «عشرہ محرم کی راتیں»، بازنویسی توسط گروہ پژوهشی ویکی فقہ۔