صدیقہ کبریٰ کے خصائص
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
اس امر میں کوئی تردید نہیں ہے کہ
پیغمبر اکرمؐ ذاتی
خواہشات کے تحت بات نہیں کرتے تھے اور
وحی کے سوا لبوں کو جنبش نہیں دیتے تھے۔
اس اعتبار سے آنحضرتؐ اپنے
قرابتداروں کی نسبت جو فرماتے ہیں، اس کا سرچشمہ الہٰی اسرار ہیں کہ اکثر
عقل ان کی حقیقت تک دسترس حاصل نہیں کر پاتی؛ جیسے
آئمہ معصومینؑ سے منقول
متواتر احادیث میں وارد ہوا ہے کہ:
حَدِيثُنَا صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ، لاَ يَحْتَمِلُهُ إِلاَّ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ، أَوْ نَبِيٌّ مُرْسَلٌ، أَوْ عَبْدٌ اِمْتَحَنَ اَللَّهُ قَلْبَهُ للإيمانہماری حدیث سخت و دشوار ہے اور اس کا مقرب
فرشے یا
پیغمبرمرسل پیغمبر یا اس بندے کے سوا کوئی تحمل نہیں کر سکتا کہ جس کے
قلبی ایمان کا اللہ نے امتحان لے لیا ہو۔
[ترمیم]
آل رسول کے فضائل و امتیازات کے بارے میں جو کچھ وارد ہوا ہے، وہ
ذہن میں نہیں سما سکتا۔ سزاوار نہیں ہے کہ اسے
شک و تردید یا
انکار کی نگاہ سے دیکھا جائے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ
مستقبل میں اس کا کوئی پہلو روشن ہو جائے۔
متعدد
شیعہ سنی روایات نبی اکرمؐ کے حضرت فاطمہؑ کے ساتھ خاص طرز عمل کی حکایت کرتی ہیں، ان میں تھوڑے سے اعتراض کی بھی گنجائش نہیں ہے۔
منجملہ یہ کہ بکثرت اپنی بیٹی کو بوسہ دیتے تھے۔ ایک زوجہ نے اعتراض کیا تو پیغمبرؐ نے اس کے جواب میں فرمایا:
وَمَا يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ؟ فَانّی أَشَمُّ مِنْهَا رَائِحَةَ اَلْجَنَّةِ وَهِیَ اَلْحَوْرَاءُ اَلْإِنْسِيَّةُ کیوں، ایسا نہ کروں جبکہ اس سے بہشت کی خوشبو محسوس کرتا ہوں اور وہ انسانی شکل میں
حوریہ ہے۔
جب زہراؑ اپنے پدر کے پاس آتیں، تو آپ کے احترام و اکرام میں آنحضورؐ بقد قامت کھڑے ہو جاتے تھے۔
بوقت سفر سب سے آخر میں فاطمہؑ کو الوداع کہتے تھے اور واپسی پر سب سے پہلے فاطمہؑ سے ملاقات کرتے تھے۔
پیغمبرؐ نے
حسنینؑ کا ہاتھ تھاما اور فرمایا:
مَنْ أَحَبَّنِي وَ أَحَبَّ هَذَيْنِ وَ أَبَاهُمَا وَ أُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ جو مجھ سے محبت رکھے اور ان دونوں سے محبت رکھے اور ان کے ماں باپ سے محبت رکھے وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجے پر ہو گا۔
آیت تطہیر نازل ہونے کے بعد چھ ماہ تک
فجر کے وقت بیت فاطمہؑ پر تشریف لے جاتے تھے، انہیں اہل بیتؑ کے نام سے پکار کر نماز کی صدا دیتے تھے اور فرماتے تھے:
إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُذۡهِبَ عَنكُمُ ٱلرِّجۡسَ أَهۡلَ ٱلۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيرًا بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
نیز اپنی دختر سے فرمایا:
يَا بُنَیَّةُ مَنْ صَلَّى عَلَيْكِ غَفَرَ اَللَّهُ لَهُ وَ أَلْحَقَهُ بِي حَيْثُ كُنْتُ مِنَ اَلْجَنَّةِ بیٹی! جو تجھ پر
درو و سلام بھیجے، خدا اس کے
گناہوں سے درگزر کرتا ہے اور اسے
بہشت میں میرے ساتھ اس مقام پر ملحق فرماتا ہے، جہاں پر میں ہوں۔
نیز
خمسہ طیبہ کے بارے میں بیان فرمایا:
أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَھُمْ وَ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَھُمْ وَعَدوّ لِّمَنْ عَادَاھُمْ میری اس کے ساتھ
جنگ ہے جو ان کے ساتھ جنگ کرے اور میری اس سے عداوت ہے، جو ان سے دشمنی کرے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا:
فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي ، يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا وَيَرِيبُنِي مَا رَابَهَا فاطمہ میری پارہ تن ہیں، مجھے وہ چیز تکلیف دیتی ہے جو اس کو تکلیف دے اور مجھے تکلیف و اذیت دیتی ہے وہ بات، جس سے اس کو تکلیف و ایذا ہوتی ہے، جو چیز اسے تشویش اور بے چینی میں مبتلا کرتی ہے، اس سے مجھے تشویش اور بے چینی ہوتی ہے۔
اِنَّ فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي ، یُغْضِبُنِي مَنْ أَغْضَبَهَا قطعا فاطمہ میری پارہ تن ہیں جو اسے غضبناک کرے گا، اس نے مجھے غضبناک کیا۔
اس کے علاوہ حضرت ختمی مرتبت کے دیگر فرامین جو خداوند متعال کے اس عظیم بانو کی نسبت خاص الطاف و عنایات کی حکایت کرتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ آپؑ کے وجود کا نور ذات اقدس کے نورِ (وجود) سے ماخوذ ہے؟! نیز پیغمبرؐ کسی سے صرف عطوفت و قرابت کی وجہ سے محبت نہیں کرتے بلکہ ہر سخن جو کسی فرد کے بارے میں کہتے ہیں یا ہر انداز جو کسی کے ساتھ اختیار کرتے ہیں، ایک حقیقتِ محض کو کشف کرتا ہے؛ نہ یہ کہ (معاذ اللہ) ذاتی خواہش و رجحان کے تحت آنحضرت کسی کی ستائش و تعریف کرتے ہوں!
اس رو سے حضرت صدیقہ کبریٰ کی تعریف میں صادر ہونے والی احادیث وحی کی بنیاد پر تھیں اور بشری تعلق و ارتباط کی وجہ سے نہیں تھیں۔
جی ہاں، فاطمہؑ اپنے پدر محمد مصطفیٰ کی حقیقت کا آئینہ ہیں اور جلالت و عظمت میں
علی مرتضیٰ کی ہم پلہ ہیں (سلام اللہ علیھم اجمعین)؛ یہ وہی ذوات مقدسہ ہیں جو ذات کبریائی اور
عالم ممکنات کے مابین اتصال و تعلق کا واسطہ ہیں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
از کتاب ’’وفاة الصدیقة الزهراء علیها السلام‘‘، عبد الرزاق المقرم۔