قرآنی لفظ سقر
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
قرآن کریم میں جہنم کے متعدد نام وارد ہوئے ہیں۔ بعض نے انہیں
جہنم کی مختلف وادیاں یا گھاٹیاں شمار کیا ہے۔ جہنم کے انہی ناموں میں سے ایک لفظ سقر ہے۔
[ترمیم]
لفظِ سقر کے لغوی معنی جلانے اور آگ کے ذریعے داغ کر شیء کو ظاہر کرنے کے ہیں۔
ابن فارس بیان کرتے ہیں:
السين والقاف والراء أصل يدلّ على إحراق أو تلويح بنار، يقال: سقرتْهُ الشمس، إذا لوّحته؛ اس لفظ کے اصلی حروف ’’س -ق-ر‘‘ ہے جس کے معنی جلانا اور آگ کے ذریعےداغنہ کے ہیں ، کہا جاتا ہے:
سقرتہ الشمس،جب سورج کسی شیء کو انتہائی گرم کر دے۔
بعض
اہل لغت کا کہنا ہے کہ جہنم کو اس لیے سقر کہتے ہیں کیونکہ وہ جسم کو پگھلا دے گی۔
بعض اہل لغت قائل ہیں کہ یہ لفظ عربی زبان کا نہیں بے بلکہ عجمی ہے۔
[ترمیم]
قرآن کریم میں یہ لفظ چار مرتبہ آیا ہےاور ان تمام موارد میں ایک ہی معنی میں استعمال ہوا یعنی جہنم کی جلا دینے والی آگ۔
ان موارد میں سے ایک مورد ہے جس میں
اللہ تعالیٰ سقر کے اوصاف بیان کیے ہیں ، جیساکہ رب العزت کا ارشاد فرماتا ہے یہ ہے:
وَ مَآ أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ؛ اور تمہیں کیا معلوم سقر کیا ہے۔
لَا تُبْقِى وَ لَا تَذَرُ؛ ایک ایسی آگ ہے جو کسی کو باقی رہنے دیتی ہے اور نہ کسی کو چھوڑتی ہے۔
لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ؛ جلد کو جھلسا دینے والی ہے۔
سقر کے ان اوصاف سے معلوم ہوتا ہے کہ
دوزخ کو یہ نام دینے میں عربی لغت کی رعایت کی گی ہے۔ سقر کی خصوصیات یہ بتاتی ہیں کہ یہ شدید آگ ہے جو آن پڑے تو کچھ بچتا نہیں ہے اور جس کے پیچھے یہ پڑ جائے اس کو چھوڑتی نہیں ہے۔ اس آگ کا شکار ہونے والے مجرموں کا جرم کفر و شرک اور نماز نہ پڑھنا اور یتیم مسکین کو کھانا نہ کھلانا ہت۔ اس آیات کریمہ کے ذریعے کفر و
شرک کے سردار
ولید بن مغیرہ کو سرزنش کی گئی ہے ۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ دوزخ میں سقر نامی ایک جگہ ہے جس کا
عذاب دوزخ کے تمام مقامات سے زیادہ ہے ۔ اس مطلب کی تصریح مختلف
احادیث مبارکہ میں بھی پائی جاتی ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
• محمد محمدی ری شہری، بہشت و دوزخ از نگاه قرآن و حديث، ج۲، قم: دارالحدیث، چاپ اول، ۱۳۸۹ش، ص۵۳۔