محمد بن ابی بکر کے بارے صحیح السند روایات

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



محمد بن ابی بکر امام علیؑ کے عظیم ترین صحابی اور جانثار و فدا کار شیعوں میں سے تھے۔ محمد ۱۰ ہجری کو حجۃ الوداع کے موقع پر متولد ہوئے اور ۳۸ ھ کو مصر میں شہید کر دیئے گئے۔ نسب کے اعتبار سے اگرچے محمد بن ابی بکر خلیفہ اول ابو بکر کی اولاد ہیں لیکن ابھی آپ ڈھائی یا تین سال کے تھے کہ امام علیؑ کے زیر تربیت آ گئے جس کی وجہ امام علیؑ کا خلیفہ اول کی وفات کے بعد ان کی زوجہ اسماء بنت عُمَیس سے ازدواج کرنا ہے۔ امام علیؑ نے اپنے دورِ خلافت میں آپ کو مصر کی ولایت و گورنری دی اور عمرو بن عاص نے آپ کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا اور ایک مرے ہوئے گدھے کی کھال میں ڈال کر آپ کو جلا دیا۔ امام علیؑ آپ کی شہادت پر بہت حزین و غمگین ہوئے اور گریہ فرمایا۔


محمد بن ابی بکر کی ولادت اور صحیح السند روایت

[ترمیم]

کلینی نے الکافی میں اور صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں صحیح السند طریق سے متعدد احادیث نقل کی ہیں جن میں جناب محمد بن ابی بکر کی ولادت کی جگہ اور تاریخ کا بیان وارد ہوا ہے۔ ان روایات کے صدور کی وجہ خواتین کے حالت نفاس کے احکام کا بیان کرنا ہے۔ ان احکام کے ذیل میں آپ کی جائے ولادت اور تاریخ ولادت کو آئمہؑ نے ذکر کیا ہے۔ من لا یحضرہ الفقیہ میں معاویہ بن عمار امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں: إِنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ نَفِسَتْ بِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ بِالْبَيْدَاءِ لِأَرْبَعٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ فِي حَجَّةَ الْوَدَاعِ، فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ ’، فَاغْتَسَلَتْ وَاحْتَشَتْ وَأَحْرَمَتْ وَلَبَّتْ مَعَ النَّبِيِّ ’ وَأَصْحَابِهِ؛ حجۃ الوداع کے موقع پر ذی القعدۃ کے ختم ہونے میں ابھی چار دن باقی تھے، مکہ کے قریب بیداء کے مقام محمد بن ابی بکر کی ولادت کی وجہ سے اسماء بنت عُمیس حالت نفاس میں آ گئیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ غسل کریں اور روئي رکھیں اور نبیؐ اور ان کے اصحاب کے ساتھ احرام باندھیں اور تلبیہ کہیں ۔۔۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد بن ابی بکرؓ کی ولادت ۱۰ ہجری ۲۶ یا ۲۵ ذی القعدۃ کو بیداء کے مقام پر ہوئی۔

محمد بن ابی بکر کا نجیب ہونا

[ترمیم]

احادیثِ معتبرہ میں بعض ایسے افراد کی جانثاری اور وفاداری کا تذکرہ وارد ہوا ہے جو نسل کے اعتبار سے مخالفین کے قوم قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن امام علیؑ کی محبت و اطاعت میں سرشار تھے اور امام علیؑ کی اتباع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ عبد اللہ بن سنان امام جعفر صادقؑ سے روایت نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں میں نے امام صادقؑ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع): يَقُولُ كَانَ مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (ع) مِنْ قُرَيْشٍ خَمْسَةُ نَفَرٍ، وَكَانَتْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ قَبِيلَةً مَعَ مُعَاوِيَةَ، فَأَمَّا الْخَمْسَةُ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَتَتْهُ النَّجَابَةُ مِنْ قِبَلِ أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، وَكَانَ مَعَهُ هَاشِمُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ الْمِرْقَالُ، وَكَانَ مَعَهُ جَعْدَةُ بْنُ هُبَيْرَةَ الْمَخْزُومِيُّ، وَكَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (ع) خَالَهُ، وَهُوَ الَّذِي قَالَ لَهُ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ إِنَّمَا لَكَ هَذِهِ الشِّدَّةُ فِي الْحَرْبِ مِنْ قِبَلِ خَالِكَ!! فَقَالَ لَهُ جَعْدَةُ: لَوْ كَانَ خَالُكَ مِثْلَ خَالِي لَنَسِيتَ أَبَاكَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُذَيْفَةَ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالْخَامِسُ سَلَفُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ابْنُ أَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ وَهُوَ صِهْرُ النَّبِيِّ أَبُو الرَّبِيعِ؛ قریش میں سے پانچ افراد امیر المؤمنینؑ کے حمایتی تھے اور معاویہ کے ساتھ تیرہ قبیلے تھے، ان پانچ میں پہلے محمد بن ابی بکر رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن میں نجابت ان کی والدہ اسماء بنت عُمیس کی جانب سے آئی، امیر المؤمنینؑ کے ساتھ (دوسرے) ہاشم بن عتبہ بن ابی وقّاص مرقال تھے، ان کے ساتھ (تیسرے) جعدہ بن ہبیرہ مخزومی تھے، امیر المؤمنینؑ ان کے ماموں تھے، جعدہ وہی شخص ہیں جن سے ابو سفیان کے بیٹے عتبہ نے کہا تھا کہ اپنے ماموں کے لیے جنگ میں تم اس قدر شدت دکھاتے ہو!! جعدہ نے پسر ابو سفیان کو جواب دیا: اگر تمہارا ماموں میرے ماموں جیسا ہوتا تو تم اپنے باپ کو بھی بھول جاتے، (چوتھے) محمد بن ابی حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ ہیں اور (پانچویں) امیر المؤمنینؑ کا ہم زلف ابن ابی العاص بن ربیعۃ جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ کا داماد ہے اور اس کی (کنیت) ابو الربیع ہے۔

← ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاصؓ


اس حدیث میں محمد بن ابی بکر کے علاوہ چار راویوں کا تذکرہ وارد ہوا ہے جن میں دوسرے فرد جناب ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاصؓ ہیں۔ آپ کا شمار امام علیؑ کے شجاع ترین اصحاب میں ہوتا ہے۔ آپ سعد بن ابی وقاص کے بھتیجے تھے۔ قرطبی نے تحریر کیا ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ اکثر اہل سنت علماء رجال نے آپ کو رسول اللہؐ کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ہاشم بن عتبہ اپنے چچا کے برخلاف امام علیؑ کے شدید حامی اور بنو امیہ کے سخت مخالف تھے۔ آپ نے امام علیؑ کی جانب سے جنگ جمل اور جنگ صفین میں شرکت کی اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ خلیفہ دوم کے دور میں ہاشم بن عتبہ نے جنگ یرموک میں شرکت کی اور اس معرکہ میں ان کی ایک آنکھ شہید ہو گی۔ اسی طرح آپ نے جنگ قادسیہ میں بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ مسلمانوں کی فتح كا سہرا آپ کے سر پر بندھا اور شہرِ جلولاء کے فاتح کہلائے۔ امام علیؑ سے آپ کو انتہائی عقیدت اور محبت تھی اور ان کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگانے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے تھے۔ امام علیؑ جنگوں میں ہاشم بن عتبہ پر بہت اعتماد کرتے تھے اور ان کو پرچم دے کر لشکر کو ان کے ماتحت قرار دیتے۔ جنگوں میں آپ کے حملے کا خاص انداز ہوتا تھا جس کی وجہ سے آپ کو مِرۡقَال کا لقب ملا اور اسی لقب سے آپ کی شہرت تھی۔ آپ نے جنگ جمل میں امام علیؑ کے ساتھ شرکت کی جنگ صفین میں امام علیؑ نے آپ کے ہاتھوں میں پرچم دیا اور اپنے لشکر کا علمبردار بنایا۔ جنگ صفین میں آپ نے کمال شجاعت کا مظاہرہ کیا اور اس جنگ میں آپ کا ایک پاؤں کٹ گیا لیکن آپ مسلسل دلیری کے ساتھ لڑتے رہے یہاں تک کہ شہادت کی سعادت سے ہمکنار ہو گئے اور اس طرح امام علیؑ کا یہ عظیم ستون ان سے جدا ہو گیا۔ جنگ صفین کے بعد جب مصر کے حالات خراب ہوئے اور محمد بن ابی بکرؓ شہید کر دیئے گئے تو اس وقت امام علیؑ نے ارشاد فرمایا تھا جیساکہ نہج البلاغہ میں وارد ہوا ہے:وَقَدْ أَرَدْتُ تَوْلِيَةَ مِصْرَ هَاشِمَ‌ بْنَ‌ عُتْبَةَ وَلَوْ وَلَّيْتُهُ إِيَّاهَا لَمَّا خَلَّى لَهُمُ الْعَرْصَةَ وَلَا أَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ بِلَا ذَمٍّ لِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ فَلَقَدْ كَانَ إِلَيَّ حَبِيباً وَكَانَ لِي رَبِيبا؛ میں یہ چاہتا تھا کہ مصر کی حکومت ہاشم بن عتبہ کے سپرد کرو، اگر میں مصر کی حکومت اسے دے دیتا تو وہ کبھی دشمنوں کے لیے میدان خالی نہ کرتا اور نہ انہیں کسی قسم کی مہلت فراہم کرتا، اس بات سے محمد بن ابی بکر کی مذمت کرنا مقصود نہیں ہے، محمد بن ابی بکر تو میرا محبوب اور ہاتھوں پلنے والا تھا۔

← جعدۃ بن ہبیرہ مخزومی


آپ کا نام جعدۃ بن ہبیرۃ بن ابی وہب بن عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم قرشی تھا۔ آپ کی والدہ حضرت ابو طالبؑ کی بیٹی اور امام علیؑ کی بہن امّ ہانئ تھیں جن کا اصلی نام فاختہ تھا۔ جناب ام ہانئ کا ازدواج ہبیرۃ مخزومی سے ہوا۔ ہبیرہ سے ام ہانئ کے چار بیٹے پیدا ہوئے جن کے نام جعدۃ، عمر، ہانئ اور یوسف تھا۔ جعدۃ باپ کی طرف سے قرشی اور ماں کی طرف سے ہاشمی تھے اور امام علیؑ کے سگے بھانجے تھے۔ ام ہانئ کے شوہر ہبیرۃ کے بارے میں شیعہ محدثین اور اہل سنت علماء رجال نے تحریر کیا ہے کہ ام ہانئ اپنے شوہر اور بچوں سمیت مکہ میں زندگی بسر کیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے وہ تاخیر سے اسلام لائیں۔ جب مکہ فتح ہوا تو ام ہانئ نے رسول اللہؐ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا اور آنحضرتؐ نے انہی کے گھر میں قیام فرماتے ہوئے غسل بھی کیا اور ان کے گھر میں آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ ام ہانئ کا شوہر ہبیرۃ فتح مکہ کے موقع پر فرار کر کے نجران چلا گیا اور بالآخر قتل کر دیا گیا۔ ابو بصیر نے امام باقرؑ یا امام صادقؑ سے روایت نقل کی ہے کہ ہبیرہ کے قتل ہو جانے کے بعد رسول اللہؐ نے جناب ام ہانئ کو شادی کا پیغام بھجوایا تو انہوں نے رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کی کہ میری گود میں یتیم بچے ہیں جن کی خدمت و کفالت میں گرفتار ہوں اور آپؐ کے لیے مناسب وہ خاتون ہے جو فارغ ہو۔ اس طرح ام ہانئ کا ازدواج رسول اللہؐ سے نہیں ہوا۔ کتب تشیع و تسنن میں ایسی احادیث وارد ہوئی ہیں جن سے جناب ام ہانئ کی بلند منزلت، بہترین خواتین میں سے ہونا اور جنتی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ شیخ صدوق امالی میں، علی بن محمد خزاز نے کفایۃ الاثر میں اور طبرانی نے المعجم الاوسط و المعجم الکبیر اور ابن المغازلی نے مناقبِ امیر المؤمنینؑ میں رسول اللہؐ سے روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ اے لوگو! میں تمہیں نانا اور نانی کے اعتبار سے بہترین لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟! اور جو چچا اور پھپھو کے اعتبار سے بہترین ہیں اور جو ماموں اور خالہ کے اعتبار سے بہترین ہیں اور جو ماں اور باپ کے اعتبار سے سب سے بہترین ہیں کیا ان کے بارے میں تمہیں نہ بتاؤں؟ پھر آپؐ نے فرمایا: وہ حسن اور حسین علیہما السلام ہیں، جن کے نانان رسول اللہؐ اور نانی خدیجہ بن خویلد ہیں، ان کی والدہ فاطمہ بنت رسول اللہؐ اور والد علی بن ابی طالبؑ ہیں، ان کے چچا جعفر بن ابی طالب اور چچی ام ہانئ بنت ابی طالبؑ ہیں، ان کے ماموں قاسم فرزندِ رسول اللہؐ اور خالہ زینب، رقیہ اور ام کلثوم اور رسول اللہؐ کی بیٹیاں ہیں۔ حسن اور حسین علیہما السلام نانا اور نانی بھی جنتی ہیں، ان کے والدین بھی جنتی ہیں، ان کے چچا اور چچی ام ہانی بھی جنتی ہیں اور ان کے ماموں اور ان کی خالائیں بھی جنتی ہیں۔

جعدۃ کے صحابی ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ عجلی نے آپ کو ثقہ تابعی شمار کیا ہے اور شیخ طوسی نے بھی آب کے صحابی ہونے کا انکار کیا ہے۔ اگر ہم محدثین کی نقل کردہ احادیث پر غور کریں اور رجالی کتب میں جناب ام ہانئ کا کو رسول اللہؐ کا شادی کا پیغام بھجوانے والے واقعہ پر دقت کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ جعدۃ بن ہبیرۃ فتح مکہ سے پہلے پیدا ہو چکے تھے اور انہیں صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس بات کی تائید معروف اہل سنت رجالی عالم ابن حجر عسقلانی نے واضح الفاظ میں کی ہے اور جعدۃ کو صغارِ صحابہ میں شمار کیا ہے۔ شیخ طوسی نے بھی تصریح کی ہے کہ آپ رسول اللہؐ کے زمانے میں متولد ہوئے۔ ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا ہے کہ بخاری نے جعدۃ کو صحابی قرار دیا ہے اور جناب ام ہانئ کے حالات زندگی میں اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ جعدۃ نے رسول اللہؐ کو درک کیا ہے تو ان لوگوں کا قول باطل ہو جائے گا جنہوں نے جعدۃ کو تابعی قرار دیا ہے۔

جعدۃ بن ہبیرۃ اپنے بقیہ بھائیوں کی نسبت اعلی صفات کے حامل اور بلند شرف و منزلت رکھنے والے تھے۔ آپ کو امام علیؑ سے شدید محبت تھی اور ان کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لیے آمادہ رہتے تھے۔ امام علیؑ کو بھی جعدۃ سے خصوصی انس و محبت تھی۔ جعدۃ کی بلند شخصیت اور اطاعت گزاری کی وجہ سے امام علیؑ نے انہیں خراسان کا گورنر و والی مقرر کیا۔

← محمد بن ابی حذیفہ


محمد بن ابی حذیفہ امام علیؑ کے شیعوں میں سے تھے جنہیں معاویہ نے اس لیے شہید کر دیا کہ آپ نے امام علیؑ کی نصرت کی اور معاویہ کے کہنے پر امام علیؑ کو سب و شتم نہیں کیا۔ آپ کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور آپ معاویہ کے ماموں کے بیٹے یعنی کزن لگتے تھے۔ آپ رسول اللہؐ کے صحابی اور مضبوطی سے اسلام پر عمل پیرا ہونے والی شخصیت ہیں جس کی گواہی دوست دشمن سب دیتے تھے۔ علماء رجال و اہل سیر نے تحریر کیا ہے کہ آپ کا نام محمد بن ابی حذیفہ بن عتبۃ بن ربیعۃ بن عبد شمس بن عبد مناف قرشی عَبَشمی ہے۔ آپ کی والدہ سہلہ بنت سہیل بن عمرو عامریہ ہیں۔ آپ کی کنیت ابو القاسم اور قبیلہ قریش کی شاخ بنو امیہ سے تعلق تھا۔ جب رسول اللہؐ کی رحلت ہوئی تو اس وقت محمد کی عمر ۱۱ یا ۱۲ سال تھی۔ محمد کے والد ابو حذیفہ بدری صحابہ میں سے ہیں لیکن دادا عتبہ بن ربیعہ مشرکین کا سردار تھا جوکہ غزوہ بدر میں قتل ہوا۔ رسول اللہؐ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی پہلی جنگ ۱۲ ہجری کو مسیلمہ کذاب کے ساتھ ہوئی جوکہ جزیرہ عرب میں یمامہ کے علاقے میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں محمد کے والد ابو حذیفہ ۳۵ سال کی عمر میں مارے گئے اور اس طرح وہ یتیم ہو گئے۔ باپ کے قتل ہونے کے بعد محمد کو خلیفہ سوم نے انہیں منہ بھولا بیٹا بنا لیا اور اپنی ہی گھر میں پالا بوسا۔

محمد بن ابی حذیفہ امام علیؑ انتہائی وفا دار ور جانثار صحابی تھے جوکہ دشمنوں نے پر انتہائی سخت اور اللہ کی معصیت کو ذرہ برابر برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس وجہ سے ابن ابی حذیفہ لوگوں کو خلیفہ سوم عثمان کے خلاف بھڑکایا کرتے تھے۔ اکثر مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب مصر کے حالات خراب ہو رہے تھے تو خلیفہ سوم نے محمد بن ابی حذیفہ کے والی عبد اللہ بن ابی سرح کی مدد کے لیے بھیجا، لیکن محمد نے اہل مصر سے تعلق بھال کر کے ابن ابی سرح کو مصر سے بے دخل کر دیا اور خود مصر پر قابض ہو گئے۔ بعد میں معاویہ نے آپ کا محاصرہ کر کے قید کر کے شہید کر دیا۔ جب محمد بن ابی حذیفہ نے ابن ابی سرح کو مصر سے بے دخل کر دیا تو بعد میں محمد بن ابی بکر بھی ان سے آ ملے اور دونوں نے اہل مصر کو خلیفہ سوم کے خلاف بھڑکایا اور دونوں خلیفہ سوم کی کثرت سے عیبِ جوئی کرتے۔ شیعہ علماءِ رجال اور بعض مؤرخین نے تصریح کی ہے کہ امام علیؑ نے مصر کا پہلا عامل محمد بن ابی حذیفہ کو مقرر کیا۔

محمد بن ابی حذیفہ کی تاریخ شہادت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ واقدی نے آپ کی تاریخ شہادت ۳۶ ھ تحریر کی ہے جبکہ ہشام بن محمد کلبی نے ۳۸ ھ محمد بن ابی بکر کی شہادت کے بعد آپ کے شہید ہوںے کو بیان کیا ہے۔ بعض نے امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے جوکہ ظاہرًا درست نہیں ہے۔ قرائن و شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ۳۸ ھ میں جنگ صفین کے بعد معاویہ نے اہل شام کے باہمی مشاورت اور عمرو بن عاص کو ملا کر مصر میں معاویہ بن خدیج جیسے ناصبیوں کی مدد سے مصر پر حملہ کر دیا اور جناب محمد بن ابی بکر کو شہید کر دیا۔ جب محمد بن ابی بکر شہید ہو گئے تو محمد بن ابی حذیفہ اپنے مختصر لشکر کے ساتھ فرار کر گئے لیکن انہیں فلسطین کے مقام پر گھیرے میں لے لیا گیا اور وہی انہیں بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔

← ابن ابی العاص بن ربیعۃ


اس حدیث کے اختتام میں سلف امیر المؤمنین ابن ابی العاص بن بیعۃ کا ذکر وارد ہوا ہے۔ ابو العاص بن ربیعۃ وہی شخص ہے جس سے رسول اللہؐ سے منسوب بیٹی جناب زینب کا نکاح ہوا کیونکہ اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ جناب زینب حقیقی بیٹی تھیں یا رسول اللہؐ کے پاس پلنے بڑھنے کی وجہ سے انہیں آپؐ کی طرف نسبت دی گئی تھی۔ ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ ابو العاص بن الربیع بن عبد العزی بن عبد شمس قرشی کے نام میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض کے مطابق اس کا نام لقیط تھا اور بعض نے قاسم اور بعض مہشم اور بعض نے یاسر تحریر کیا ہے اور ذہبی نے تصریح کی ہے کہ ابو العاص کے باپ کا نام ربیعۃ تھا جوکہ جناب خدیجہؑ کا بھانجا تھا، ابو العاص نے صلح حدیبیہ سے پانچ مہینے پہلے ایمان قبول کیا اور اس کی زوجہ جناب زینب زوجہ ابی العاص آٹھ ہجری کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں جبکہ ابو العاص کا انتقال بارہ ہجری کو ہوا۔ ابو العاص کی ایک بیٹی امامۃ تھی جس کو رسول اللہؐ اٹھا کر نماز پڑھا کرتے تھے اور امام علیؑ نے جناب فاطمہؑ کی شہادت کے بعد ان سے ازدواج کیا۔ علامہ مجلسی بیان کرتے ہیں کہ سلف سے مراد زوجہ کی بہن کا شوہر ہے یا مطلقِ دامادی ہے اور آخرِ حدیث میں ھُو ضمیر ابو العاص کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہاں ابن ابی العاص سے یا تو مراد امامۃ بنت ابی العاص ہے جوکہ ابن ابی العاص کی بہن ہے جوکہ امام علیؑ کی زوجیت میں تھی۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ امام علیؑ کی زوجات میں سے زوجہ ابن ابی العاص کی زوجہ کی بہن ہو اور یہ بھی احتمال دیا جا سکتا ہے کہ یہاں سلف امیر المؤمنین نہیں تھا بلکہ ابن سلف تھا لیکن کتاب کی نسخہ برداری کے وقت لکھنے والے سے ابن لکھنا رہ گیا ہے۔ابن ابی العاص بن ربیعۃ رسول اللہؐ سے منسوب ان کی بیٹی جناب زینب کے شوہر تھے۔

محمد بن ابی بکر کا اپنے والد سے براءت کا اظہار کرنا

[ترمیم]

معتبر احادیث میں وارد ہوا ہے کہ محمد بن ابی بکر امام علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابنے والد سے بیزاری و براءت کرتے رہنے پر امامؑ کے ہاتھوں میں بیعت کی۔ براءت سے مراد یہ ہے کہ امام علیؑ کا موقف خلافت اور ان تمام موارد میں برحق تھا جن میں امام علیؑ کا شیخین سے اختلاف ہوا اور ابن ابی بکر امام علیؑ کی حمایت اور ان کے مخالف خلیفہ اول سے بیزار ہیں اور براءت کرتے رہیں گے۔ کشی نے امام باقرؑ سے صحیح السند روایت ان الفاظ کے ساتھ اپنی رجال میں نقل کی ہے جس میں امام باقرؑ فرماتے ہیں:حَمْدَوَيْهِ بْنُ نُصَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عُمَيْرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَعْيَنَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (ع) أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ بَايَعَ عَلِيّاً (ع) عَلَى الْبَرَاءَةِ مِنْ أَبِيهِ؛ محمد بن ابی بکر نے اس شرط پر امام علیؑ کے ہاتھوں پر بیعت کی کہ وہ اپنے والد سے بَری اور بیزار ہیں۔

محمد بن ابی بکر گناہ کو پرداشت نہیں کرتے تھے

[ترمیم]

محمد بن ابی بکر کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ آپ انتہائی عبادت گزار، زاہد اور اطاعتِ الہی میں شدید تھے۔ امام علیؑ کے متعدد اصحاب کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی معصیت اور حدودِ الٰہیہ کی پامالی برداشت نہیں کرتے تھے۔ امام جعفر صادقؑ سے صحیح السند روایت میں وارد ہوا ہے کہ جناب عمار بن یاسر اور محمد بن ابی بکر اللہ تعالی کی معصیت اور حدود کی پامالی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:حَمْدَوَيْهِ وَ إِبْرَاهِيمُ ابْنَا نُصَيْرٍ، قَالا حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ صَفْوَانَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ وَ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ: كَانَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ لَا يَرْضَيَانِ أَنْ يُعْصَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ؛ عمار بن یاسر اور محمد بن ابی بکر راضی نہیں ہوتے تھے کہ اللہ عز و جل کی معصیت و نافرمانی کی جاتی رہے۔

محمد بن ابی بکر کا اپنے والد کو اہل جہنم میں شمار کرنا

[ترمیم]

محمد بن ابی بکر ولایت و حمایتِ امیر المؤمنینؑ کے مسئلہ میں انتہائی شدید تھے۔ آپ ایک لحاظ کے لیے بھی امام علیؑ کی مخالفت کو قبول نہیں کرتے تھے اور امامؑ کے مخالفین سے نرمی کا رویہ رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ لٰہذا امام علیؑ کا حکم ہوتا تو مخالف سے نرم رویہ اختیار کرتے اور امامؑ کے کہنے پر انتہائی شدید ہو جاتے۔ امام جعفر صادقؑ سے ایک روایت منقول ہے جس میں وارد ہوا ہے:حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى، عَنْ زُحَلَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ جَمِيلِ بْنِ دَرَّاجٍ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ الطَّيَّارِ، قَالَ: ذَكَرْنَا مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع)، فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ (ع): رَحِمَهُ اللَّهُ وَصَلَّى عَلَيْهِ، قَالَ لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (ع) يَوْماً مِنَ الْأَيَّامِ: ابْسُطْ يَدَكَ أُبَايِعْكَ! فَقَالَ، أَ وَمَا فَعَلْتَ؟ قَالَ: بَلَى، فَبَسَطَ يَدَهُ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ إِمَامٌ مُفْتَرَضٌ طَاعَتُكَ وَأَنَّ أَبِي فِي النَّارِ. فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ (ع) كَانَ إِنْجَابُهُ مِنْ قِبَلِ أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهَا لَا مِنْ قِبَلِ أَبِيه؛ حمزہ بن محمد طیار کہتے ہیں کہ ہم نے امام صادقؑ کے سامنے محمد بن ابی بکر کا تذکرہ کیا، امام صادقؑ نے فرمایا: اللہ اس پر رحمت نازل فرمائے اور اس پر اللہ کا درود ہو، محمد بن ابی بکر نے ایک دن امیر المؤمنینؑ سے فرمایا: اے امامؑ آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں میں آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرنا چاہتا ہوں، امام علیؑ نے فرمایا: کیا تم بیعت کر نہیں چکے؟ ابن ابی بکر نے کہا: جی، بیعت کر چکا ہوں، پھر امام علیؑ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور محمد بن ابی بکر نے یہ کہتے ہوئے بیعت کی: میں گواہی دیتا ہوں بے شک آپ امام ہیں، آپ کی اطاعت فرض کی گئی ہے اور میرے والد جہنم میں ہیں۔ پھر امام صادقؑ نے فرمایا: محمد بن ابی بکر میں نجابت ان کی والدہ اسماء بنت عُمیس رحمۃ اللہ علیہا کی جانب سے تھی نہ کہ ان کے والد کی جانب سے۔ ممکن ہے کہ اس روایت کی سند میں عمر بن عبد العزیز اور حمزۃ بن محمد طیار پر اعتراض کیا جائے کہ ان کی توثیق میں اختلاف ہے۔ لیکن اس کی تائید بعض ایسی روایات سے ہو جاتی ہے جن میں خلفاء سے براءت کا اظہار کیا جاتا تھا اور محمد بن ابی بکر اس پر خاموشی اور رضایت کا اظہار کرتے۔ رجال الکشی میں صحیح السند طریق سے وارد ہوا ہے کہ خلیفہ سوم کے غلام مہدی امام علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور محمد بن ابی بکر وہاں موجود تھے اور مہدی نے آ کر کہا: أُبَايِعُكَ عَلَى أَنَّ الْأَمْرَ كَانَ لَكَ أَوَّلًا وَ أَبْرَأُ مِنْ‌ فُلَانٍ‌ وَ فُلَانٍ‌ وَ فُلَانٍ‌، فَبَايَعَه‌؛ یا علیؑ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں اس شرط پر کہ امرِ (خلافت و امامت شروع سے آپ کا حق تھا اور میں فلاں اور فلاں اور فلاں سے بَری و بیزار ہوں، پھر مہدی نے آگے بڑھ کر بیعت کی۔

محمد بن ابی بکر کا خلیفہ دوم سے براءت کا اظہار کرنا

[ترمیم]

محمد بن ابی بکر جس طرح سے اپنے والد اور خلیفہ سوم کے شدید مخالف اور ان سے براءت و بیزاری کا اظہار کرتے تھے اسی طرح سے خلیفہ دوم کے بھی شدید مخالف تھے اور انہیں بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ امام باقرؑ سے روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام باقرؑ فرماتے ہیں: حَمْدَوَيْهِ وَ إِبْرَاهِيمُ، قَالا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو جَمِيلَةَ، عَنْ مُيَسِّرِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (ع) قَالَ بَايَعَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ عَلَى الْبَرَاءَةِ مِنَ الثَّانِي؛ محمد بن ابی بکر نے امام علیؑ کے ہاتھوں میں اس شرط پر بیعت کی کہ وہ خلیفہ دوم سے بَری اور بیزار ہیں۔

اہل بیتِ سوء میں نجیب فرد

[ترمیم]

اللہ تعالی کے عظیم شاہکار اور انمول قدرت کے نمونوں میں سے ایک اشقیاء سے سعداء اور سعداء سے اشقیاء کا آنا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ ایک گھرانہ اہل سوء ہو لیکن اس سے ایک طیب و پاک فرد وجود میں آئے اور اس کے برعکس بھی ممکن ہے۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ برے گھرانے میں نجیب و پاکیزہ و شرافت کی حامل شخصیت کا وجود میں آنے کی بہترین مثال محمد بن ابی بکر ہیں۔ محمد بن شعیب بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: حَمْدَوَيْهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى، عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُوسَى بْنِ مُصْعَبٍ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: مَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ إِلَّا وَمِنْهُمْ نَجِيبٌ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَأَنْجَبُ النُّجَبَاءِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ سَوْءٍ مِنْهُمْ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ؛ کوئی ایسا گھرانہ نہیں ہے مگر ان میں انہی میں سے ایک نجیب و پاکیزہ فرد ہوتا ہے، برے گھرانوں میں نجیب ترین اور پاکیزہ ترین افراد میں سے ایک محمد بن ابی بکر ہیں۔

محمد بن ابی بکر کا امام علیؑ کی نگاہ میں مقام

[ترمیم]

نہج البلاغہ میں محمد بن ابی بکر کے بارے میں امام علیؑ کے جو کلمات و مکتوبات وارد ہوئے ہیں ان سے آپ کی عظیم شخصیت اور بلند منزلت کا علم ہوتا ہے۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں: وَلَداً نَاصِحاً وَعَامِلًا كَادِحاً وَسَيْفاً قَاطِعاً وَرُكْناً دَافِعا؛ محمد بن ابی بکر ہمارا خیر خواہ، سرگرم کار کن، کاٹ کھانے والے تلوار اور دفاع کا محکم ستون تھا۔ نہج البلاغہ خطبہ ۶۶ میں امام علیؑ فرماتے ہیں: فَلَقَدْ كَانَ إِلَيَّ حَبِيباً وَكَانَ لِي رَبِيبا؛ محمد بن ابی بکر مجھے بہت محبوب تھا اور میرے ہاتھ کا پروردہ تھا۔ امام علیؑ نے جب محمد بن ابی بکر کو مصر کی حکومت سے ہٹایا تو محمد بن ابی بکر اس بات پر محزون و غمگین تھے کہ وہ امام علیؑ کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے اور شاید اطاعت میں کوئی کوتاہی رہ گئی ہے۔ امام علیؑ نے مکتوب لکھ محمد بن ابی بکر کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا اور ان الفاظ میں ان پر اعتماد اور بھروسہ کو بیان کیا: أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِي مَوْجِدَتُكَ‌ مِنْ تَسْرِيحِ‌ الْأَشْتَرِ إِلَى عَمَلِك‌ وَإِنِّي لَمْ أَفْعَلْ ذَلِكَ اسْتِبْطَاءً لَكَ فِي الْجَهْدَ وَلَا ازْدِيَاداً لَكَ فِي الْجِدِّ وَلَوْ نَزَعْتُ مَا تَحْتَ يَدِكَ مِنْ سُلْطَانِكَ لَوَلَّيْتُكَ مَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكَ مَئُونَة؛ مجھے خبر ملی ہے کہ تمہاری جگہ پر مالک اشتر کو مقرر کرنے کی وجہ سے تمہیں ملال ہوا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ میں نے یہ تبدیلی اس لیے نہیں کی تمہیں کام میں ڈھیلا پایا ہو اور نہ اس لیے کیا ہے کہ تم بھاگ دوڑ میں سرعت دکھانے لگو، تمہارے ہاتھوں میں جو حکومت تھی اگر اس سے میں نے تمہیں برطرف کیا ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ میں تمہیں ایسی جگہ کی حکومت دینا چاہتا ہوں جس میں تمہیں زحمت کم کرنا پڑے اور وہ حکومت تمہیں پسند بھی آئے۔ ان كلمات سے واضح ہوتا ہے کہ امام علیؑ جناب محمد بن ابی بکر کی اطاعت گزاری اور حُسن سیاست سے راضی تھے اور اپنا ایک مضبوط ستون سمجھتے تھے اور اس قدر ان پر اعتماد کرتے تھے کہ اہم جگہوں کی ولایت و حکومت ان کے سپرد کرنا چاہتے تھے۔

محمد بن ابی بکر کی شہادت پر امام علیؑ کا غمگین ہونا

[ترمیم]

محمد بن ابی بکر جب شہید کر دیئے گئے تو امام علیؑ بہت غم ناک اور افسردہ ہوئے۔ امام علیؑ نے ابن ابی بکر کی شہادت پر عبد اللہ بن عباس کو مکتوب لکھا جس میں فرمایا:أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ مِصْرَ قَدِ افْتُتِحَتْ وَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ قَدِ اسْتُشْهِدَ فَعِنْدَ اللَّهِ نَحْتَسِبُهُ‌ وَلَداً نَاصِحاً وَ عَامِلًا كَادِحاً وَسَيْفاً قَاطِعاً وَ رُكْناً دَافِعاً وَقَدْ كُنْتُ حَثَثْتُ النَّاسَ عَلَى لَحَاقِهِ وَأَمَرْتُهُمْ بِغِيَاثِهِ قَبْلَ الْوَقْعَةِ وَدَعَوْتُهُمْ سِرّاً وَجَهْراً وَعَوْداً وَبَدْءاً فَمِنْهُمُ الْآتِي كَارِهاً وَمِنْهُمُ الْمُعْتَلُّ كَاذِباً وَمِنْهُمُ الْقَاعِدُ خَاذِلًا أَسْأَلُ اللَّهَ تَعَالَى أَنْ يَجْعَلَ لِي مِنْهُمْ فَرَجاً عَاجِلًا فَوَاللَّهِ لَوْ لَا طَمَعِي عِنْدَ لِقَائِي عَدُوِّي فِي الشَّهَادَةِ وَتَوْطِينِي نَفْسِي عَلَى الْمَنِيَّةِ لَأَحْبَبْتُ أَلَّا [۴۷]     أَلْقَى مَعَ هَؤُلَاءِ يَوْماً وَاحِداً وَلَا أَلْتَقِيَ بِهِمْ أَبَدًا؛ مصر کو دشمنوں نے فتح کر لیا اور محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ شہید کر دیئے گئے، ہم اللہ ہی سے اس فرزند کے مارے جانے پر اجر کے طلبگار ہیں جو ہمارا خیر خواہ، سرگرم کارکن، تیغ براں اور دفاع کا ستون تھا، میں نے لوگوں کو اس کی مدد کے لیے بلایا اور اس حادثہ کے رونما ہونے سے پہلے اس کی فریاد کو پہنچنے کا حکم دیا، لوگوں کو اعلانبہ اور پوشیدہ بھی بارہا پکارا مگر ہوا یہ کہ کچھ آئے بھی تو بادل ناخواستہ اور کچھ حیلے بہانے کرنے لگے اور کچھ نے جھوٹ بہانے کر کے مدد سے منہ موڑ لیا، میں تو اب اللہ سے یہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے ان کے ہاتھوں سے جلد از جلد چھٹکارا دے دے، اللہ کی قسم! اگر مچھے دشمن کا سامنا کرتے ہوئے شہادت کی تمنا نہ ہوتی اور اپنے آپ کو موت پر آمادہ نہ کر چکا ہوتا تو میں ان کے ساتھ ایک دن بھی رہنا پسند نہ کرتا اور انہیں لے کر کبھی دشمن سے جنگ نہ کرتا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۲، ص ۳۸۰۔    
۲. محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج ۲۲۹، ص ۶۔    
۳. محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج ۱، ص ۱۷۴۔    
۴. کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، ص ۶۳۔    
۵. مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج ۱۴، ص ۳۴۹۔    
۶. ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۴، ص ۱۵۴۶۔    
۷. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۴۸۶۔    
۸. رضی، سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۹۸۔    
۹. بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۲، ص ۴۰۴۔    
۱۰. خان مدنی، علی خان بن احمد، ج ۱، ص ۔۴۱۲    
۱۱. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج ۱، ص ۵۹۰۔    
۱۲. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۳۲۷۔    
۱۳. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص ۳۱۴۔    
۱۴. صدوق، محمد بن علی، الامالی، ج ۱، ص ۵۲۳۔    
۱۵. خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الاثر فی النص علی الآئمۃ الاثنی عشر، ص ۹۸۔    
۱۶. طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الاوسط، ج ۶، ص ۲۹۸۔    
۱۷. ابن مغازلی، علی بن محمد، مناقب امیر المؤمنین علی بن ابی طالبؑ، ص ۱۹۷۔    
۱۸. طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۳۳۔    
۱۹. عجلی، احمد بن عبد اللہ، الثقات، ص ۹۶۔    
۲۰. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج ۱، ص ۶۲۹۔    
۲۱. ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۱، ص ۲۴۰۔    
۲۲. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۴۸۰۔    
۲۳. ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۳، ص ۱۳۶۹۔    
۲۴. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج ۶، ص ۹۔    
۲۵. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۱۰۸۔    
۲۶. طبری، ابن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۳۴۱۔    
۲۷. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۴۴۶۔    
۲۸. یفة عصفری، خیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ص ۱۵۲۔    
۲۹. طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۸۲۔    
۳۰. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۸۰۔    
۳۱. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص ۷۰۔    
۳۲. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۴۸۱۔    
۳۳. ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، ج ۶۷، ص ۳۔    
۳۴. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص ۲۴۶۔    
۳۵. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص ۶۴۔    
۳۶. محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج ۱، ص ۱۷۵۔    
۳۷. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص ۶۳۔    
۳۸. محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج ۱، ص ۱۷۴۔    
۳۹. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص ۶۴۔    
۴۰. محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج ۲، ص ۱۵۶۔    
۴۱. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص ۱۰۴۔    
۴۲. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص ۶۴۔    
۴۳. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص ۶۴۔    
۴۴. سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۳، ص ۶۷ ۔    
۴۵. سید رضی، نہج البلاغۃ، ج ۱، ص ۱۱۳۔    
۴۶. سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۳، ص ۶۶۔    
۴۷. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۸۳۔    
۴۸. سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۳، ص ۶۷۔    


مأخذ

[ترمیم]

یہ مقالہ محققینِ ویکی فقہ کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے۔






جعبه ابزار