محمد تقی مصباح یزدیؒ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
محمد تقی مصباح یزدی (سنہ ولادت: ۱۳۱۳شمسی بمطابق ۱۹۳۴)، فلسفی،
مجتہد،
استادِ اخلاق، مفسر، متکلم،
حوزہ علمیہ قم کے ممتاز استاد اور
امام خمینیؒ،
آیت الله بروجردیؒ،
علامہ طباطبائیؒ اور
آیتالله بهجت کے شاگرد تھے۔
امام خمینیؒ تعلیمی و تحقیقاتی انسٹیٹیوٹ کی سربراہی،
مجلس خبرگان رہبری اور
شورائے عالی انقلاب فرہنگی کی رکنیت،
جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کی رکنیت وغیرہ جیسے مناصب پر فائز رہے۔ آپ کی دیگر خدمات میں سے
مدرسہ حقانی کی تاسیس، مدارس و یونیورسٹی میں باہمی تعاون کے دفتر کی تاسیس، باقر العلوم علمی و تربیتی فاؤنڈیشن کی تاسیس، امام خمینیؒ تعلیمی و تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ کی تاسیس قابل ذکر ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک معروف شخصیت کے عنوان سے آپ
اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے بھی ہمیشہ مختلف سیاسی، علمی اور تربیتی سرگرمیوں میں مشغول رہے اور مذکورہ موضوعات پر متعدد تالیفات یادگار چھوڑی ہیں۔ آپ نے انقلاب کے آغاز میں دشمنوں بالخصوص
مارکسزم کی عقائدی سازشوں کو دیکھتے ہوئے یہ طے کیا کہ انقلاب کی نظریاتی بنیادوں کی حفاظت کیلئے مختلف مراکز خصوصا ٹی۔وی اور یونیورسٹی کی سطح پر مناظروں، خطابات اور شبہات کا جواب دیا کریں گے۔
مذہبی اور علمی معاملات کے ساتھ ساتھ آیت اللہ مصباح سیاسی مسائل کو بھی خصوصی اہمیت دیتے تھے اور ہمیشہ سیاسی سطح پر ایک سرگرم شخصیت کے عنوان سے کردار ادا کرتے رہے۔ آپ سیاست میں
ولی فقیہ کو
اسلامی حکومت کے سیاسی نظام کا مرکز قرار دیتے ہوئے باقی مفاہیم کی تفسیر و تاویل کرتے تھے اور یہی امر موجب بنا کہ علما میں سے ان کا تفکر خصوصی طور پر ابھر کر سامنے آ گیا۔
آپ آخرکار جمعۃ المبارک ۱۲ دی سنہ ۱۳۹۹ شمسی بمطابق ۲ جنوری ۲۰۲۱ء کو اسلام اور اسلامی حکومت کی سربلندی کیلئے بھرپور جدوجہد کرنے کے بعد رحلت فرما گئے۔
[ترمیم]
محمد تقی مصباح یزدی سنہ ۱۳۱۳ شمسی بمطابق ۱۹۳۴ء کو پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی دینی تعلیم کو یزد میں مکمل کیا اور اعلیٰ تعلیم کیلئے
نجف تشریف لے گئے۔ البتہ سخت مالی مشکلات کے باعث مجبور ہو کر نجف کو چھوڑنا پڑا اور مزید تعلیم کیلئے قم تشریف لے آئے۔ آپ قم کے بزرگ اساتذہ سے کسب فیض کرنے کے ساتھ ساتھ علمی، سیاسی اور تربیتی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے ایران کے
اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اور کامیابی کے بعد امام خمینیؒ کی حمایت اور ترغیب سے کئی یونیورسٹیاں، مدارس اور انسٹی ٹیوٹ قائم کیے۔
وفات سے قبل تک آپ
مجلس خبرگان رہبری اور
شورائے عالی انقلاب فرہنگی کے رکن تھے جبکہ امام خمینیؒ تعلیمی و تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ تھے۔
[ترمیم]
آیت اللہ مصباح یزدی نے اپنے زمانہ طالب علمی میں بہت سے اساتذہ سے کسب فیض کیا کہ جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:
حاج شیخ محمدعلی نحوی، (یہ استاد حوزہ یزد میں آپ کو خصوصی وقت دیتے تھے۔ آیت اللہ مصباح یزدی نے عربی
ادبیات اور مقدماتی دورے کا بڑا حصہ ان کے پاس مکمل کیا)
شیخ عبدالحسین عجمین، سید علی رضا مدرّسی (
شرح لمعہ اور
رسائل کے کچھ حصے ان سے پڑھے)
حاج میرزا محمد انواری (قوانین کا کچھ حصہ ان سے پڑھا)
حاج آقا مرتضی حائری (
مکاسب کے دروس کیلئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے)
شیخ عبد الجواد جبل عاملی (
کفایۃ الاصول کی جلد اول ان کے پاس مکمل کی)
امام خمینیؒ (اصول کا
درس خارج امامؒ سے پڑھا)
آیت اللہ بروجردی (فقہ کے درس خارج میں شرکت کی)
علامہ سید محمد حسین طباطبائی (
تفسیر و
فلسفہ کی تعلیم علامہ سے حاصل کی)
آیت الله بہجت (۱۵ سال تک آیت اللہ بہجت کے درس میں شرکت کی)
آیت اللہ خوئی جب نجف میں تھے تو آیت اللہ خوئی کے درس میں شرکت کرتے تھے۔
علامہ سید علی فانی ( نجف میں
اصول فقہ علامہ سے پڑھی)
[ترمیم]
آیت اللہ مصباح یزدی کی ایک اہم فعالیت آپ کی تدریس تھی۔ مثلا آپ نے
مدرسہ حقانیہ اور
مؤسسہ راہ حق میں شہید صدر کی کتب «فلسفتنا» اور «اقتصادنا»، علامہ طباطبائیؒ کی کتاب «
نهایة الحکمه»،
ملا ہادی سبزواری کی کتاب «اسفار اربعه» اور
بو علی سینا کی کتاب «
شفا» کی تدریس کی۔
[ترمیم]
آیت اللہ مصباح یزدی کا حوزات علمیہ میں ایک اہم اثاثہ آپ کے لاتعداد شاگرد ہیں کہ جن میں سے بڑے نام یہ ہیں:
غلام رضا فیاضی، محمود رجبی،
مرتضیٰ آقا تہرانی، عباس علی شاملی، احمد رہنمایی، محسن غرویان۔
[ترمیم]
آیت اللہ مصباح یزدی کی تالیفات کو شاید ان کے سب سے اہم علمی ثمرات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے مختلف اسلامی موضوعات پر بہت سی کتب تالیف کی ہیں کہ جن میں سے کچھ انقلاب سے قبل لکھی گئیں اور کچھ انقلاب کے بعد۔ یہاں ہم ان کتب میں سے بعض اہم کتابوں کا تذکرہ کریں گے:
۱. خدا شناسی، جہان شناسی، انسان شناسی، راہ و رہنما شناسی، معارف قرآن (اس کتاب میں قرآنی نقطہ نگاہ سے
خدا شناسی،
جہان شناسی،
انسان شناسی،
راہ شناسی،
رہنما شناسی،
قرآن شناسی،
اخلاق یا
انسانسازی قرآن کے عبادی پروگرام اور قرآن کے انفرادی، اجتماعی، سیاسی اور معاشی احکام بیان کیے گئے ہیں)
۲. قرآن میں اخلاق (اس کتاب میں دس کلی موضوعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ منجملہ: قرآن کے اعلیٰ اخلاقی مفاہیم، اسلام کے اخلاقی نظام کا دیگر نظاموں کے ساتھ تفاوت، اسلام میں اخلاقی قدروں کی اساس، اخلاقی اقدار کو کسب کرنے کی راہ، قرآن کی رو سے اخلاق کے سقوط کے کلی عوامل اور ۔۔۔ )
۳. فلسفہ اخلاق (اس کتاب کے بعض مطالب یہ ہیں:
مفہومِ اخلاق،
علمِ اخلاق،
فلسفہ اخلاق، اقدار کے مفاہیم ، اخلاقی مکاتب، آیا اخلاق مطلق ہے یا نسبی؟ دین کا اخلاق سے رابطہ...)
۴. قرآن کے نقطہ نظر سے معاشرہ اور تاریخ (یہ کتاب بارہ حصوں میں سماجیات، فرد یا معاشرے کی اصالت، معاشرے کی قانون مندی، فرد پر معاشرے کا اثر، سماجی بنیادیں، سماجی تغیرات اور ۔۔۔ کے مسائل پر تصنیف کی گئی ہے)
۵. قران میں حقوق اور سیاست، اسلام و اخلاق (اخلاق کیا ہے اور کس طرح پیدا ہوتا ہے؟! اخلاق کا
انسان کی
سعادت و
شقاوت ایسی مباحث ہیں جس کا اس کتاب میں جائزہ لیا جاتا ہے)
۵. قران میں حقوق اور سیاست، اسلام و اخلاق (اخلاق کیا ہے اور کس طرح پیدا ہوتا ہے؟! اخلاق کا
انسان کی
سعادت و
شقاوت میں کردار؛ ایسی مباحث ہیں جن کا اس کتاب میں جائزہ لیا گیا ہے)
۶. آموزش فلسفہ، شرح نہایۃ الحکمہ، شرح جلد اول
اسفار اربعہ، شرح جلد ہشتم اسفار اربعہ، دروس فلسفہ اخلاق ( یہ کتاب خود شناسی برائے خود سازی، (
کمال، شناختِ کمال، آرائے فلاسفہ دربارہ کمال،
خدا کا قرب، حقیقتِ
عبادت اور دیگر موضوعات پر مشتمل ہے)
۷. بر درگاہ دوست،
مارکسزم کے اصول پر اجمالی تنقید، آموزشِ عقائد، (یہ کتاب درج ذیل موضوعات میں ساٹھ دروس پر مشتمل ہے: دین کیا ہے؟! خدا شناسی کا سادہ طریقہ،
صفاتِ خدا،
مادی آئیڈیالوجی،
جبر و اختیار،
قضا و قدر،
عدلِ الہٰی،
عصمتِ انبیاء،
معجزہ،
پیغمبر اسلام، مصونیتِ قرآن از تحریف،
امامت،
حضرت مہدیؑ،
معاد، قرآن میں
قیامت کا تصور،
شفاعت)
۸. قرآن نہج البلاغہ کے آئینے میں، نظریہ
ولایت فقیہ پر مختصر نظر،
ثقافتی یلغار (اس کتاب میں ثقافتی یلغار کے موضوع پر بحث کی گئی ہے اور اس کے ثقافتی تعاون جیسے موضوعات سے تفاوت کو بیان کرتی ہے)
۹. اسلام کا سیاسی نظریہ (ان سلسلہ وار خطابات کا مجموعہ ہے جو تہران کی نماز جمعہ سے قبل پیش کیے جاتے تھے اور انہیں دو جلدوں میں شائع کیا گیا ہے)
۱۰. کربلا کے آسمان پر بجلی (یہ آیت اللہ مصباح کی
ماہ محرم کے عشرے کی مجالس ہیں اور اس کتاب میں
قیام عاشورا کو عصر حاضر کے حالات پر منطبق کیا گیا ہے)
[ترمیم]
آیت اللہ مصباح یزدی نے
حوزہ علمیہ قم میں اپنی آمد کے ابتدائی دور میں تعلیمی، اخلاقی اور تبلیغی میدان میں موجود کچھ خامیوں کا ادراک کر لیا تھا۔ لہٰذا انہوں نے یہ عزم کر لیا کہ ایک درسی نصاب کی تالیف و تدوین کر کے ان مشکلات کو برطرف کریں گے۔ اس مقصد کے تحت حوزہ علمیہ کے دو سو بزرگوں کے دستخطوں سے ایک نصاب مرتب کر کے آیت اللہ العظمیٰ بروجردیؒ کی خدمت میں پیش کیا جس کی انہوں نے بھی توثیق کر دی۔ پھر
شہید بہشتیؒ اور
آیت اللہ ربانی شیرازی کے ہمراہ
مدرسہ حقانیہ کے نام سے ایک مدرسے کی تاسیس کی۔
آیت اللہ قدوسی کو اس مدرسے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ چار سال کے بعد شہید قدوسی نے درخواست کی کہ مدرسے کو شوریٰ کے تحت چلایا جائے، جس کے بعد آیت اللہ مصباح کو بھی اس میں شامل کر لیا گیا۔ اس اجتماعی جدوجہد کے نتیجے میں ایسے طلبہ کی تربیت ہوئی کہ جو تاحال اسلامی جمہوریہ ایران کے مختلف اداروں میں مصروف عمل ہیں۔
آیت اللہ مصباح یزدی کی دیگر تعلیمی و تربیتی خدمات میں سے مؤسسہ در راہِ حق کے تعلیمی شعبے کی ذمہ داری کو قبول کرنا ہے۔ آپ نے نوجوانوں کے
مادیت پرستی،
مارکسزم اور
مغربی ثقافت کی طرف رجحان کے باعث ’’مؤسسہ در راہِ حق‘‘ کے شعبہ تعلیم کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’دفتر برائے معاونتِ حوزہ و دانشگاہ‘‘ اور ’’باقر العلوم تربیتی فاؤنڈیشن‘‘ کی تاسیس آیت اللہ مصباح کی دیگر خدمات میں سے ہیں۔ آپ نے ابتدائے انقلاب سے ہی دشمنوں کی چالوں کو دیکھ کر یہ طے کر لیا تھا کہ انقلاب کی فکری بنیادوں کی حفاظت کیلئے مختلف مراکز بالخصوص یونیورسٹیوں کے پلیٹ فارم پر خطابات اور شبہات کے جوابات پیش کریں گے۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے مرکز برائے معاونت حوزہ و دانشگاہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی جسے شورائے انقلاب فرہنگی نے منظور کر لیا اور اس کے ثمرات آج تک ہماری یوینورسٹیوں میں آشکار ہیں۔ آگے چل کر انہوں نے باقر العلوم تربیتی انسٹی ٹیوٹ کی تاسیس کر کے مؤسسہ راہ حق کے فارغ التحصیل طلبہ کو
قرآنیات،
معیشت، تاریخ،
کلام،
دین شناسی،
نفسیات، تربیتی علوم، مینجمنٹ، سیاسیات،
فلسفہ،
قانون اور
جامعہ شناسی میں تخصصی دورے کرنے کی دعوت دی۔ انسٹی ٹیوٹ کی توسیع اور طلبہ کی روز بروز بڑھتی تعداد کے پیش نظر یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ زیادہ وسائل کے ساتھ ایک وسیع ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے یہاں تک کہ آیت اللہ مصباح کی تدبیر اور حضرت
امام خمینیؒ اور
آیت اللہ خامنہ ای کی خصوصی توجہ کے تحت ’’امام خمینیؒ تعلیمی و تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔
[ترمیم]
آیت اللہ مصباح یزدی زندگی بھر مذہبی و علمی مسائل کے ہمراہ سیاسی مسائل کو بھی خاص اہمیت دیتے رہے اور ہمیشہ سیاسی منظر نامے میں ایک سرگرم عنصر کی صورت میں کردار ادا کرتے تھے۔
آپ نے انقلاب سے قبل امام خمینیؒ کے زمانے میں بعض فعال علما جیسے آیت اللہ خامنہ ای،
حجۃ الاسلام ہاشمی رفسنجانی، شہید قدوسی اور آیت اللہ ربانی شیرازی کے تعاون سے
پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد کیلئے ایک ٹیم تشکیل دی۔ یہ گروہ تاریخی کتب میں ’’گیارہ رکنی کمیٹی‘‘ یا ’’ہیئت مدرسین‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
آپ نے ہمیشہ ان بیانات اور خطوط میں حکومت کے مختلف معاملات پر طرز عمل منجملہ علما و فضلا سے بدسلوکی، سیاسی نظام پر حکمفرما گھٹن اور سنسر شپ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔
ان اقدامات کا ایک نمونہ وہ کھلا خط ہے جو آپ نے دیگر علما کے ہمراہ
ہویدا کو ملکی حالات پر لکھا تھا۔ اس خط کے اندر ملک میں حکمفرما سنسرشب، آزادی کے فقدان اور
امام خمینیؒ کی
ترکی جلا وطنی پر سخت اظہار افسوس کے علاوہ جلد از جلد ان کی ایران واپسی کو یقینی بنانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
آیت اللہ مصباح یزدی نے پہلوی گھٹن کے زمانے میں صریح طور پر امام خمینیؒ کی حمایت کا اعلان کیا کہ اس حوالے سے آپ کے دیگر علما کے ہمراہ امام خمینیؒ کے نام خط کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ جس میں امام سے بدسلوکی پر گہرے دکھ کے ساتھ ان کی
نجف جلا وطنی پر اظہارِ افسوس کیا گیا تھا۔
انقلاب سے قبل آپ کی دیگر سیاسی سرگرمیوں میں سے حکومت مخالف جرائد کی اشاعت قابل ذکر ہے کہ جن میں سے ’’بعثت‘‘ اور ’’انتقام‘‘ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
پہلوی دور میں سائڈ لائن رہنے والے متعدد فکری اور سیاسی گروہوں اور قوتوں کی انقلاب کے بعد پرجوش فعالیت بہت سے مسائل کا باعث بن رہی تھی۔ مذکورہ گروہوں کے نظریات کو چار کلی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
یہ لوگ عوام میں اپنے افکار و نظریات کی ترویج میں مشغول رہتے تھے۔ ان میں سے ’’مارکسٹ‘‘ دوسروں سے زیادہ منظم تھے۔
وہ مشہور شعرا اور روشن خیال کالم نگاروں اور مصنفین کی مدد سے دسیوں اخبار و جرائد شائع کر کے اپنے نظریات کی ترویج میں مصروف تھے
اور بہت سی یونیورسٹیوں اور علمی مراکز میں ان کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ اس بنا پر وہ بہت بڑا خطرہ شمار ہوتے تھے۔ اسی وجہ سے آیت اللہ مصباح یزدی ڈاکٹر سروش کے ہمراہ ان گروہوں اور احسان طبری اور فرخ نگہدار کے ساتھ ٹی۔وی مناظروں میں بھرپور طریقے سے شریک ہوتے تھے۔
آپ دوسروں کے ساتھ مقابلے کی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ: ’’ہماری دوسروں کے ساتھ جنگ نظریاتی ہے ۔۔۔ مکاتب کی جنگ ہے ۔۔۔ تمام جنگیں اور خون ریزیاں ۔۔۔
حق کے روشن ہونے کیلئے ہیں۔
[ترمیم]
آیت اللہ مصباح یزدی اسلامی انقلاب کی نمایاں شخصیت تھے اور آپ کے سیاسی نظریات اور سرگرمیاں بہت نمایاں تھیں۔ یہاں ہم آپ کے بعض بنیادی نوعیت کے سیاسی افکار کی طرف اشارہ کریں گے:
آیت اللہ مصباح کے سیاسی افکار کا بنیادی عنصر
ولایت فقیہ کے مفہوم کی خاص تفسیر کے تناظر میں
اسلامی حکومت کی تشکیل ہے۔ آپ ولایت فقیہ کو
اسلامی احکام کے اجرا کیلئے ضروری و لازم سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے آپ کا یہ خیال ہے کہ
جمہوری حکومت میں اسلامی احکام کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا۔
اس بنا پر آپ اسلامی حکومت کی واحد ممکنہ صورت اس امر کو سمجھتے ہیں کہ جامع الشرائط فقیہ
معصومؑ والے اختیارات کے ساتھ حکومت کا سربراہ ہو اور لوگوں کی رہبری کا کردار ادا کرے۔ اس طرز حکومت میں تمام قوانین، ضوابط اور دستور العمل صرف اور صرف ولی فقیہ کے
اذن سے
مشروعیت حاصل کرتے ہیں۔ ولی فقیہ کی حکومت کے علاوہ کوئی اور حکومت درحقیقت
طاغوت کی حکومت ہے۔
آپ کے نزدیک اسلامی نظام میں قانون سازی اور قانون کا نفاذ سب سے پہلے اسلامی اصول و اقدار کی بنیاد پر ہے اور پھر اس امر کی نگرانی ولی فقیہ کے ذمے ہے۔
اس نوعِ حکومت میں عوام ولی فقیہ کی مشروعیت میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے کیونکہ وہ
خدا کی طرف سے منصوب ہے اور لوگوں کا فرض صرف ولی فقیہ کی حکومت کا قیام ہے۔ اس سیاسی نظم میں عوام کی شرعی ذمہ داری ہے کہ ولایت فقیہ کی پیروی کریں۔اگر کوئی یہ کہے کہ میں ولایت فقیہ کو نہیں مانتا تو یہ ایسے ہی ہے کہ کہے: میں
امام معصومؑ کو نہیں مانتا اور اگر کوئی یہ کہے کہ میں امام معصومؑ کو نہیں مانتا تو یہ خدا کے ساتھ
شرک ہے کیونکہ اس نے خدا کی ربوبیتِ تشریعی کے ایک مرحلے کا انکار کیا ہے۔
آیت اللہ مصباح کے نزدیک انتخابات، مروجہ جمہوری نظاموں کے برخلاف کسی قسم کی مشروعیت کو ایجاد نہیں کرتے اور صرف ایک میکانزم ہے جس کے ذریعے عوام ولی فقیہ پر یقین اور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ ان معنوں میں کہ انتخابات کے ذریعے عوام رہبر کے سامنے کسی شخصیت کے حق میں رائے دیتے ہیں اور رہبر سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ مصلحت کو دیکھتے ہوئے ان کی رائے کو نافذ کر دیں۔ اس بنا پر ولی فقیہ ان مقامات پر لوگوں کی تجویز کو قبول کر کے موردِ نظر شخص کو منصوب کر سکتا ہے اور یا یہ کہ کلی طور پر عوام کے انتخاب کی نفی کر دے اور کسی دوسرے شخص کو مقرر کرنے کی تجویز پیش کر دے۔
آپ کا ایک نہایت اہم اور پر بحث نظریہ
آئین کی حیثیت اور اس کی ولایت فقیہ کے منصب سے نسبت کے بارے میں ہے۔ آپ کے نزدیک
اسلامی جمہوریہ ایران جیسے کسی ملک کے آئین کا اعتبار اس لحاظ سے نہیں ہے کہ ایک ملک کا آئین ہے اور بہت سے عوام نے اس کو رائے دے کر پاس کیا ہے بلکہ اس قانون کا اعتبار اس لیے ہے کہ اس پر ولی فقیہ کے دستخط ثبت ہیں۔ جب آئین نے اپنا اعتبار ولی فقیہ سے حاصل کیا ہے پس اس میں صلاحیت نہیں ہے کہ ولی فقیہ کے اختیارات کو محدود کرے۔ اس فہم کے مطابق ولی فقیہ کا مقام اور منصب آئین سے ما فوق ہے۔ یہ فقیہ ہے جو آئین پر حاکم ہے (آپ کے نزدیک ولی فقیہ خدا کے قانون اور احکام سے ما فوق نہیں ہے بلکہ آئین سے ما فوق ہے، کیونکہ اس آئین کو بلا خطا حکمِ خدا نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ یہ حکمِ خدا کے حوالے سے عوامی فہم ہے اور یہ چیز فقیہ کے اختیارات میں کسی محدودیت کو ایجاد نہیں کرتی) نہ یہ کہ آئین ولایت فقیہ پر حاکم ہو۔
جمہوری نظام حکومت کی دنیا بھر میں مشروعیت اور معاشرے کی تشکیل میں عوامی آرا کی اہمیت کے باوجود آیت اللہ مصباح اس بارے میں خاص فکر کے حامل ہیں۔ آپ ولی فقیہ کی حکومت اور درست معنوں میں اسلامی حکومت کے جمہوری نظام حکومت کے ساتھ کسی قسم کے اشتراک کو تسلیم نہیں کرتے۔ آپ کے نزدیک ان دو نظاموں کے درمیان فرق بہت ہی زیادہ ہے جس پر چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اس حوالے سے اپنا نظریہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ: ہم ہرگز اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کے نظریے کو
جمہوریت پر منطبق نہیں کر سکتے اور جو لوگ چاہتے ہیں کہ یہ کام انجام دیں ۔۔ یا
اسلام کی درست شناخت نہیں رکھتے یا خاص سیاسی اور شخصی اغراض کے تحت ایسا کر رہے ہیں۔ »
آیت اللہ مصباح کے نزدیک
دین فرامین و احکام کا ایسا مجموعہ ہے جو انسان کی
دنیا و
آخرت کو شامل ہے اور انسانوں کے تمام انفرادی اور اجتماعی ابعاد کو شامل ہے۔ آپ کی تشریح کے مطابق، دین تمام سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی مسائل، تمام مدنی ، بین الاقوامی اور جزائی قوانین، خاندانی زندگی، ازدواج، بچوں کی تربیت، معاملات و تجارت اور سونے جاگنے ۔۔۔ کے دستور العمل اور اوامر و نواہی کا حامل ہے۔ لہٰذا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو دین کی حدود سے باہر ہو۔
اسی وجہ سے
سیکولرزم کی دنیوی اور اخروی امور کی بنیاد پر رائج تقسیم بندی (کہ دین سیاست سے جدا ہے اور کچھ امور عرفی ہوتے ہیں) کو قبول نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ ایک ایسی سازش ہے جو مغربی معاشروں اور مغربی ثقافت کی طرف سے اسلامی معاشروں پر مسلط کی گئی ہے۔
جب دین تمام دنیوی و اخروی امور کو شامل ہے تو ضروری ہے کہ مشخص کیا جائے کہ کون سا دین کس تفسیر کے ساتھ؟! کیا اسلام کی ہر تفسیر و تشریح معتبر ہو سکتی ہے یا یہ کہ اسلام کی صرف خاص تفسیر معتبر ہے۔ آپ نے دین کی مختلف تفاسیر
اور
مذہبی کثرتیت (Religious pluralism)،
کے نظریے کو رد کرتے ہوئے دین کی صرف اس تشریح و تفسیر کو معتبر قرار دیا ہے جو
حوزات علمیہ کے مسلمہ اصولوں اور معیارات کے مطابق ہو۔ اسی بنیاد پر غیر حوزوی طریقوں اور مذہبی روشن خیالوں سے برآمد ہونے والے اسلام کے شدید مخالف ہیں۔
[ترمیم]
آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی کا جسمانی نقاہت اور نظام انہضام کی بیماری کے باعث ۲ جنوری ۲۰۲۰ء سے گھر میں علاج شروع کیا گیا۔ مگر بیماری کی علامات بڑھ جانے پر ڈاکٹروں کی تجویز پر ۲۶ دسمبر ۲۰۲۰ء کو تہران کے ایک ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔
آپ نے آخر کار یکم جنوری ۲۰۲۱ء کو اسلام کی سربلندی اور اسلامی نظام کے قیام کی راہ میں بھرپور جدوجہد کرنے کے بعد ۸۶ برس کے سن میں داعی اجل کو لبیک کہا اور اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ «محمدتقی مصباح یزدی»، تاریخِ نظر ثانی ۱۳۹۹/۰۹/۲۳۔