موجہہ مرکبہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



قضیہ موجہہ مرکبہ علم منطق کی اصطلاح ہے۔ علم منطق میں قضیہ سے مادہ اور جہت سے بحث کی جاتی ہے تو جہت کو موجہہ بسیطہ اور موجہہ مرکبہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ موجہہ کو مادہ کے مقابلے میں شمار کیا ہے۔ مادہ سے مراد خارج میں واقع نسبت ہے۔ جبکہ جہت یا موجہہ سے مراد قضیہ سے ظاہر ہونے والی نسبت ہے۔


موجہات کی تقسیم

[ترمیم]

علم منطق میں قضایا موجہات کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے: قضایا موجہہ بسیطہ اور قضایا موجہہ مرکبہ۔ قدماء نے وسیع پیمانے پر موجہات کی اقسام کو بیان کیا ہے جس کی وجہ سے علم منطق بجائے اس کے کہ محققین کے لیے ایک وسیلہ و میزان فکر قرار پائے اس سے زیادہ ایک پہیلی بوجھنے کا منظر پیش کرنے لگا۔ متأخرین نے آ کر یہ کوشش کی کہ ان اقسام میں اہم اقسام کا انتخاب کیا جائے اور قضایا موجہات کی ہر نوع بسیط اور مرکب کو زیر بحث لایا جائے۔ اس کے نتیجہ میں موجہات کی اہم اقسام کو منطق میں ذکر کیا جانے لگا۔

موجہات مرکبہ کو مرکبہ کہنے کی وجہ

[ترمیم]

موجہہ مرکبہ کو اس لیے مرکبہ کہا جاتا ہے کیونکہ حقیقت میں وہ دو قضیہ ایک موجبہ اور دوسرا سالبہ سے مرکب ہوتا ہے۔ ہر قضیہِ مرکبہ کو اگر کھول کر دیکھا جائے تو وہ دو قضایا میں منحل ہو گا۔ پہلا قضیہ اس مرکب کا ایک جزء کہلائے گا اور دوسرا جزء عدم دوام یا عدمِ ضرورت کی قید کے ساتھ حکایت کیا جاتا ہے۔ ان دونوں میں سے ہر قضیہ کا نام جزء کی اساس کی بناء پر رکھا جاتا ہے۔ اگر قضیہ سالبہ ہو تو اس کا نام سالبہ اور اگر موجبہ ہو تو قضیہ موجبہ کہلائے گا۔ مرکبات کی اقسام کو صحیح طرح سے سجھنے کے لیے ضروری ہے کہ موجہات بسیطہ اور قضایا میں پہلے مادہ اور جہت کو سمجھا جائے کیونکہ مرکبات انہی قضایا بسائط اور لادوام یا لا بالضرورۃ کی قید سے ترکیب پاتے ہیں۔

مشروطہ خاصہ

[ترمیم]

قضیہ مشروطہ عامہ کو جب لا دوام ذاتی سے مقید کیا جائے تو مشروطہ خاصہ بنتا ہے۔ موجہات بسیطہ کی اقسام میں بیان ہو چکا ہے کہ مشروطہ عامہ اس قضیہ کو کہتے ہیں جس میں محمول کو موضوع کے لیے اس وقت تک ثابت کرنا ضروری ہے جب تک موضوع وصف کے ساتھ متصف ہے اور یہ وصف موضوع کے لیے ثابت ہے۔ ہر مشروطہِ عامہ میں یہ احتمال موجود ہوتا ہے کہ محمول تب بھی موضوع کے لیے ضروری الثبوت ہو جب موضوع وصف سے خالی ہو اور اس کے برخلاف یہ بھی احتمال ہے کہ محمول موضوع کے لیے دائمی طور پر ثابت نہ ہو۔ اہل منطق اس مقام پر احتمال کا دروازہ بند کرنے کے لیے اور یہ احتمال زائل کرنے کے لیے کہ اگر موضوع وصف کے ساتھ متصف نہ ہو تو تب بھی محمول موضوع کے لیے ضروری الثبوت ہے لادوام ذاتی کی قید کا اضافہ کرتے ہیں۔ لا دوام ذاتی کی قید ایک اور قضیہ سے حکایت کر رہی ہے جوکہ مطلقہ عامہ ہے۔ پس مشروطہ عامہ اگر موجبہ ہے تو مطلقہ عامہ سالبہ بنے گا اور اس سے وہ مورد ہمارے سامنے آ جائے گا جس میں موضوع وصف کے ساتھ متصف نہیں ہے اس لیے محمول کو موضوع پر حمل نہیں کیا جا رہا۔

← مثال


مشروطہ خاصہ کی مثال اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ کاتب جب تک کتابت کی صفت کے ساتھ متصف ہے اس کی انگلیوں کا متحرک ہونا ضروری ہے۔ انگلیوں کا دائمی طور پر متحرک ہونا کاتب کے لیے اس وقت تک ثابت ہے جب تک وہ وصفِ کتابت کے ساتھ متصف ہے۔ اس کے ساتھ اگر لا دوام ذاتی کی قید لگائیں تو لا دوام ذاتی مطلقہ عامہ بنتا ہے۔ اس صورت قضیہ دوم یہ بنے گا کہ کاتب کی انگلیاں بالفعل متحرک نہیں ہیں۔ پہلا قضیہ چونکہ موجبہ تھا اس لیے قضیہ دوم کو سالبہ لایا گیا ہے کیونکہ موجہاتِ مرکبہ میں ضابطہ ہے کہ دونوں قضیوں میں کیف کے اعتبار سے مخالفت اور کمیت کے اعتبار سے توافق ہونا چاہیے۔ لہٰذا اگر پہلا موجبہ ہے تو دوسرا سالبہ ہو گا۔

عرفیہ خاصہ

[ترمیم]

عرفیہ خاصہ وہی عرفیہ عامہ ہے لیکن لا دوام ذاتی کی قید سے مقید ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ محمول موضوع کے لیے دائمی طور پر اس وقت تک ثابت ہے جب تک موضوع وصف کے ساتھ مقید ہے۔ اگر اس کو لا دوام ذاتی کے ساتھ مقید کر دیا تو لا دوام ذاتی مطلقہ عامہ کی صورت میں ہمارے سامنے آئے گا اور اس طرح عرفیہ عامہ اور مطلقہ عامہ کی ترکیب سے عرفیہ خاصہ وجود میں آتا ہے۔ یہاں پر بھی یہ احتمال پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ محمول موضوع کے لیے اس وقت بھی دائمی الثبوت ہو جب موضوع وصف کے ساتھ متصف نہ ہو!! لہٰذا اس احتمال کو دور کر کرنے کے لیے لا دوام ذاتی کی قید لگائی گئی جس کو کھولا جائے تو وہ قضیہ مطلقہ عامہ بنتا ہے۔

← مثال


ہر کاتب انگلیوں کو ہمیشہ حرکت دینے والا ہے جب تک کاتب کتابت کے وصف کے ساتھ متصف ہے۔ یہ قضیہ عرفیہ عامہ ہے۔ اس کے ساتھ جب لا دوام ذاتی کی قید لگائی جاتی ہے یہ ترکیب پا کر عرفیہ خاصہ بن جائے گا۔ لا دوام ذاتی جوکہ موجہہ مرکبہ کا دوسرا جزء بن رہا ہے کو اگر کھولا جائے تو یہ مطلقہ عامہ بنے گا، جس کی مثال یہ بنتی ہے: کاتب کی جانب سے کسی بھی انگلی کی حرکت بالفعل موجود نہیں ہے۔ مطلقہ عامہ سے یہ معلوم ہو گیا کہ موضوع جب وصفِ کتابت کے ساتھ متصف نہ ہو تو بالفعل اس پر انگلیوں کی حرکت (محمول) حمل نہیں ہو گا۔ عرفیہ خاصہ کو اس لیے خاصہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مشروطہ عام سے اخص تر ہے۔

وجودیۃ لا ضروریۃ

[ترمیم]

اگر مطلقہ عامہ کو لا ضرورتِ ذاتی کے ساتھ مقید کیا جائے تو قضیہ وجودیہ لا ضروریۃ تشکیل پاتا ہے۔ مطلقہ عامہ میں یہ احتمال موجود ہوتا ہے کہ محمول ذات موضوع کے لیے ضروری الثبوت ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ ایسا نہ ہو۔ پس احتمال کو برطرف کرنے کے لیے مطلقہ عامہ کو لا ضرورۃ ذاتیہ سے مقید کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے واضج ہو جاتا ہے کہ محمول موضوع کے لیے ضروری نہیں ہے۔ لا ضرورۃ ذاتیہ کو کھولا جائے تو وہ امکان عام میں تبدیل ہوتا ہے۔ پس مطلقہ عامہ اور امکانِ عام مل کر وجودیہ لا ضروریۃ کے قضیہ کو وجود دیتے ہیں۔ اس کو لا وجودیہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ قضیہ مطلقہ عامہ میں وجود خارجی پر حکم لگاتا ہے اور لا ضروریہ اس لیے کہا گیا تاکہ بیان کیا جا سکے کہ مطلقہ عامہ لا ضرورۃ ذاتیہ کی قید کے ساتھ مقید ہے۔

وجودیۃ لا دائمۃ

[ترمیم]

قضیہ مطلقہ عامہ کو جب لا دوام ذاتی کے ساتھ مقید کیا جائے تو وجودیۃ لا دائمۃ وجود میں آتا ہے۔ مطلقہ عامہ میں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ محمول ذاتِ موضوع کے لیے دوام اور استمرار رکھتا ہے کیونکہ ہم موجہہ بسیطہ میں پڑھ چکے ہیں کہ مطلقہ عامہ قضیہ ضروریۃ اور قضیہ دائمۃ سے اعم تر ہوتا ہے اور اس میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ محمول موضوع کے لیے ضروری ہو جیساکہ وجودیہ لا ضروریۃ میں اس احتمال کو برطرف کیا گیا ہے اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ محمول موضوع کے لیے دائمی ہو، اس احتمال کو دور کر کرنے کے لیے وجودیہ لا دائمہ کو تشکیل دیا گیا ہے۔ لا دوام ذاتی کی قید کو اگر کھولا جائے تو یہ مطلقہ عامہ بنتا ہے۔ پس وجودیہ لا دائمہ دو قضیہ مطلقہ عامہ سے تشکیل پاتا ہے۔ اس کو وجودیہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ مطلقہ عامہ میں وجودِ خارجی پر حکم لگایا جاتا ہے جبکہ لا دائمہ کہنے کی وجہ سے مطلقہ عامہ کا اس قید کے ساتھ مقید ہونا ہے۔

حینیۃ لا دائمۃ

[ترمیم]

حینیہ مطلقہ کو جب لا دوام ذاتی کے ساتھ مقید کیا جائے تو قضیہ حینیہ لا دائمہ تشکیل پاتا ہے۔ حینیہ مطلقہ کا مطلب یہ ہے کہ محمول ذاتِ موضوع کے لیے اس وقت تک فعلی طور پر ثابت ہے جب تک موضوع وصف کے ساتھ متصف ہے۔ لہٰذا یہاں یہ احتمال پیدا ہوتا ہے کہ موضوع اگر وصف کے ساتھ متصف نہ ہو تو بھی محمول کو موضوع پر بالفعل حمل ہو رہا ہے۔ اس احتمال کو دور کرنے کے لیے لا دوام ذاتی کی قید لگائی ہے جوکہ مطلقہ عامہ کی طرف اشارہ ہے۔ پس حینیہ مطلقہ دو قضایا یعنی حینیہ مطلقہ اور مطلقہ عامہ سے مرکب ہو کر تشکیل پاتا ہے۔ اس قید سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ذاتِ موضوع اگر وصف کے ساتھ متصف نہ ہو تو محمول کو موضوع پر حمل کرنا ضروری نہیں ہو گا۔

ممکنۃ خاصۃ

[ترمیم]

اگر ممکنہ عامہ کو لا ضرورتِ ذاتی کے ساتھ مقید کیا جائے تو ممکنہ خاصہ تشکیل پاتا ہے۔ ممکنہ عامہ میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ جانب موافق یا جانب مخالف ضرورت ہو۔ اس احتمال کو دور کرنے کے لیے ممکنہ عامہ کو لا ضرورۃ ذاتیۃ سے مقید کر دیا جاتا ہے۔ لا ضرورۃ ذاتیہ ممکنہ عامہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پس ممکنہ خاصہ دو ممکنہ عامہ سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ لا ضرورۃ ذاتیہ کی قید لگانے سے یہ احتمال دور ہو جاتا ہے کہ ممکنہ عامہ میں طرف موافق یا مخالف ضروری ہے۔ پس دو ممکنہ عامہ کا نتیحہ ممکنہ خاصہ جس میں دو اطراف کی ضرورت کو سلب کرنے کا بیان ہے ثابت ہو جاتا ہے۔

نتیجہ

[ترمیم]

تمام موجہاتِ مرکبہ لا دوام اور لا ضرورۃ کی قید لگانے سے تشکیل پاتے ہیں۔ نیز یہ قید موجہہ بسیطہ کو لگائی جاتی ہے اور موجہہ بسیطہ سے یہ موجہہ مرکبہ میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ابن سینا نے تحریر کیا ہے کہ قدماء کے نزدیک جہات، نقیض اور عکسِ قضایا موجہہ کو اہمیت کی حامل مباحث قرار دیتے تھے اس لیے انہوں نے موجہات کو وسیع پیمانے پر اہتمام کیا۔
[۱] ابن سینا، حسین بن عبد الله، الاشارات و التنبیہات، مع الشرح للمحقق الطوسی، ج۱، نمط چہارم۔
[۲] طوسی، نصیر الدین، اساس الافتباس، ص۱۲۹-۱۴۸۔
[۳] یزدی، مولی عبد الله، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق، ص۶۱-۶۴۔
[۴] مظفر، محمد رضا، المنطق، ص۱۵۲-۱۵۵۔
[۵] حسن ملکشاهی، ترجمہه و تفسیر تہذیب المنطق تفتازانی، ص۲۰۵-۲۰۶۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن سینا، حسین بن عبد الله، الاشارات و التنبیہات، مع الشرح للمحقق الطوسی، ج۱، نمط چہارم۔
۲. طوسی، نصیر الدین، اساس الافتباس، ص۱۲۹-۱۴۸۔
۳. یزدی، مولی عبد الله، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق، ص۶۱-۶۴۔
۴. مظفر، محمد رضا، المنطق، ص۱۵۲-۱۵۵۔
۵. حسن ملکشاهی، ترجمہه و تفسیر تہذیب المنطق تفتازانی، ص۲۰۵-۲۰۶۔


مأخذ

[ترمیم]

سایت پژوہشکده باقر العلوم علیہ السلام، یہ تحریر مقالہ موجہات مرکبۃ سے مأخوذ ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : احکام قضایا | قضایا موجہہ | موجہات




جعبه ابزار