عرفیہ عامہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



عرفیہ عامہ علم منطق کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب ہہ ہے کہ محمول موضوع کے لیے دائمی طور پر ثابت ہے یا دائمی پر سلب ہے اس شرط کے ساتھ کہ موضوع معین وصف کے ساتھ متصف ہے۔ عرفیہ عامہ کا شمار قضیہ موجہہ بسیطہ میں ہوتا ہے۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

قضیہ عرفیہ عامہ قضایا موجہہ بسیطہ کی اقسام میں سے ہے۔ عرفیہ عامہ میں محمول موضوع کے لیے دائمی طور پر ثابت یا سلب ہے اس شرط کے ساتھ کہ ذاتِ موضوع صفت کے ساتھ متصف ہو۔ یہ قضیہ اس اعتبار سے کہ اس میں محمول کے حمل کی شرط موضوع کا وصف سے متصف ہونا ہے مشروطہ عامہ سے مشابہ ہے۔

← مثال


قضیہ موجبہ: ہر کاتب جب تک کاتب ہے دائمی طور پر انگلیوں کو حرکت دینے والا ہے۔ اس قضیہ میں انگلیوں کا تحرک اس پر شرط پر ہمیشگی کے ساتھ موضوع کے لیے ثابت ہے کہ موضوع کتابت کی صفت کے ساتھ متصف ہو، کیونکہ انگلیوں کے تحرک کا حکم ذات موضوع کے وجود سے مشروط نہیں ہے بلکہ کاتب یعنی وہ موضوع جو کتابت کے وصف کے ساتھ متصف ہے سے مشروط ہے۔
مثال قضیہ سالبہ: لا شیء من الکاتب بساکن الاصابع دائماً مادام کاتباً؛ اس مثال میں انگلیوں کے ساکن ہونے کو کاتب سے سلب کیا گیا ہے جب تک موضوع کتابت کے وصف کے ساتھ متصف ہے تب تک انگلیوں کے ساکن ہونے کو دائمی طور پر موضوع سے سلب کیا گیا ہے۔
[۱] فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال ‌المیزان، ص۵۵۔
[۲] مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۷۱۔


وجہ تسمیہ

[ترمیم]

عرفیہ عامہ دو کلمات عرفیہ اور عامہ سے مرکب ہے۔ اس کو عرفیہ عرف کی وجہ سے کہتے ہیں کہ عرف قضیہ موجبہ اور قضیہ سالبہ سے مطلق صورت میں یہی معنی سمجھتی ہے، مثلا کل کاتب متحرک الأصابع، عرف جب اس قضیہ کو سنتی ہے تو یہ سمجھتی ہے کہ محمول دائمی طور موضوع کے لبے جب تک وہ حالتِ کتابت میں ہے کے لیے ثابت ہے۔ جبکہ عامہ کہنے کی وجہ اس کا خاصہ کے مقابلے میں ہونا ہے۔ قضایا موجہات مرکبہ کی اقسام میں سے ایک قسم عرفیہ خاصہ ہے۔ اہل منطق کی نظر میں عربی زبان میں دو قضیہ مشروطہ عامہ اور عرفیہ عامہ کو عامتان یعنی دو عمومی قضیہ بھی کہا جاتا ہے۔
[۶] شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج (منطق)، ص۸۴۔


اس مقالہ کے منابع

[ترمیم]

اس مقالہ کو ترتیب دینے کے لیے درج ذیل منابع سے استفادہ کیا گیا ہے:
• شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج (منطق)۔
• مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد۔
• فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال‌ المیزان۔
علامہ حلی، حسن بن یوسف، الجوہر النضید۔    
مظفر، محمد رضا، المنطق۔    
خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، اساس الاقتباس۔    
مشکوة الدینی، عبد المحسن، منطق نوین مشتمل بر اللمعات المشرقیۃ فی الفنون المنطقیۃ۔    

حوالہ جات

[ترمیم]

{{حوالہ جاات}}

مأخذ

[ترمیم]

پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، یہ تحریر مقالہ عرفیہ عامہ سے مأخوذ ہے، مشاہدہ لنک کی تاریخ:۱۳۹۶/۳/۱۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اقسام قضایا | منطقی اصطلاحات | موجہات




جعبه ابزار