نسبت خارجی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



نسبت خارجی کا اطلاق اس نسبت اور ربط پر ہوتا ہے جو خارج میں دو چیزوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اصول فقہ میں بالخصوص اس سے بحث کی جاتی ہے۔


تعریف

[ترمیم]

نسبت خارجی کے مقابلے میں نسبت ذہنی آتا ہے۔ عالمِ خارج میں دو چیزوں کے درمیان ارتباط و تعلق کو نسبتِ خارجی سے تعبیر کیا جاتا ہے، مثلا خارج میں آگ اور ہیٹر میں ربط و تعلق، زَیۡدٌضَرَبَ میں زید اور ضرب کے درمیان ربط و تعلق ہے۔ زید اور ضرب میں نسبت خارجی ہے جس کے مطابق زید سے ضرب صادر ہوئی ہے۔ پس دو چیزوں میں تعقل اور وجودِ ذہنی سے قطع نظر ہو کر ان میں ربط اور تعلق کو ملاحظہ کریں تو خارج سے انتزاع ہونے والے ربط اور تعلق کو نسبتِ خارجی سے موسوم کیا جاتا ہے۔

اہم نکتہ

[ترمیم]

نسبتِ خارجی کا شمار اعتباری امور میں ہوتا ہے کیونکہ یہ نسبت خارج سے انتزاع کی جاتی ہے۔ پس اس کا منشأِ انتزاع خارج میں موجود ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. تہانوی، محمد علی، کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم، ج۲، ص۱۶۹۰۔    
۲. سجادی، جعفر، فرہنگ معارف اسلامی، ج۳، ص۲۰۰۶۔    
۳. خمینی، روح الله، تہذیب الاصول، ج۱، ص۵۴۔    
۴. صدر، محمد باقر، بحوث فی علم الاصول، ج۱، ص۲۳۹۔    
۵. صدر، محمد باقر، بحوث فی علم الاصول، ج۱، ص۲۶۹۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۸۲۶، مقالہِ نسبت خارجی سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار