ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص صحابیِ رسول اللہؑ اور امام علیؑ کے جانثار و وفا داری انصار میں سے ہیں جنہوں نے امام علیؑ کے ماتحت بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے شہادت کی سعادت حاصل کی۔ آئمہ اطہارؑ نے جناب ہاشم بن عتبہ کی مدح و ستائش کی ہے اور انہیں امام علیؑ کے خصوصی اصحاب میں شمار کیا ہے۔ جنگ صفین میں ہاشم بن عتبہ کی شہادت ہوئی۔


ہاشم بن عتبہ کا نام اور لقب

[ترمیم]

ہاشم بن عتبہ کا پورا نام ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص ہے جوکہ قریش کے قبیلہ زہرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ قریش سے تعلق ہونے کی وجہ سے آپ کو قرشی زہری کہا جاتا ہے۔ آپ کی کنیت ابو عمرو اور لقب مِرقَال ہے۔ آپ کے والد کا نام عتبہ بن ابی وقاص ہے جس نے غزوہ احد کے موقع پر رسول اللہؐ کے آگے دندانِ مبارک کو زخمی کیا تھا اور آپؐ کے مبارک ہونٹوں کو زخمی کر کے خون سے رنگین کر دیا۔ رسول اللہؐ نے عتبہ کو بد دعا دی اور وہ ایک سال کے اندر اندر کافر مر گیا۔ بعض جگہوں میں آپ کا نام ہاشم کی بجائے ہشام وارد ہوا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آب کا نام ہاشم تھا۔

مرقال کہنے کی وجہ

[ترمیم]

ہاشم بن عتبہ کا لقب مرقال تھا اور اسی لقب سے دوست دشمن سب میں معروف تھے۔ آپ کو مرقال اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ آپ جنگ میں حملہ انتہائی برق رفتاری کے ساتھ کرتے تھے۔ اہل تاریخ و رجال نے لکھا ہے کہ جنگوں میں آپ کے حملے کا خاص انداز ہوتا تھا جس کی وجہ سے آپ کو مِرۡقَال کا لقب ملا۔

ہاشم بن عتبہ صحابی رسولؐ

[ترمیم]

ہاشم بن عتبہ سعد بن ابی وقاص کے بھتیجے تھے۔ قرطبی نے تحریر کیا ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ اکثر اہل سنت علماء رجال نے آپ کو رسول اللہؐ کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ہاشم بن عتبہ اپنے چچا کے برخلاف امام علیؑ کے شدید حامی اور بنو امیہ کے سخت مخالف تھے۔ آپ نے امام علیؑ کی جانب سے جنگ جمل اور جنگ صفین میں شرکت کی اور بہادری کے جوہر دکھائے۔

ہاشم کا جنگ یرموک اور جنگ قادسیہ میں شرکت کرنا

[ترمیم]

خلیفہ دوم کے دور میں روم اور ایران کے خلاف جو جنگیں ہوئی ان میں امام علیؑ کے متعدد اصحاب نے شرکت کی، جن میں نمایاں جناب مالک اشتر، عمار یاسر، حجر بن عدی، ہاشم بن عتبہ وغیرہ ہیں۔ ہاشم بن عتبہ نے روم کے خلاف ہونے والی جنگ یرموک میں شرکت کی اور اس معرکہ میں آپ کی ایک آنکھ شہید ہو گی۔ اسی طرح آپ نے ۱۷ ھ کو جنگ قادسیہ میں شرکت کی اور بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ مسلمانوں کی فتح كا سہرا آپ کے سر پر بندھا اور شہرِ جلولاء کے فاتح کہلائے اور اس معرکہ کا نام فتح الفتوح پڑ گیا۔

خلافت عثمان میں سعيد بن عاص كا ہاشم کا گھر جلا دينا

[ترمیم]

ہاشم بن عتبہ کو خلیفہ سوم کے دور میں بقیہ اصحابِ امام علیؑ کی مانند اپنی دین داری اور استقامت کی بناء پر شديد زد و کوب کیا گیا اور ظلم و ستم کا نشانہ بنا گیا۔ اہل سیر و رجال نے ذکر کیا ہے کہ خیلفہ سوم عثمان نے سعید بن عاص کوفہ کا تقریبا پانچ سال حاکم بنائے رکھا اور سعید بن عاص نے اہل کوفہ بہت تنگ کیا اور ان پر ظلم و ستم ڈھایا۔ لوگ سعید بن عاص کو بحالت مجبوری قبول کرتے اور اس کی بے دینی کی وجہ سے متنفر تھے۔ ایک سال ماہِ رمضان کے اختتام پر شوال کا چاند دیکھنے اور اس کے متعلق گواہیاں لینے کی نوبت آئی تو لوگوں نے سعید بن عاص کو کہا کہ ہم نے چاند نہیں دیکھا سوائے ہاشم بن عتبہ کے کہ وہ کہتا ہے کہ میں نے چاند دیکھا ہے۔ اس پر سعید بن عاص نے کہا: ان لوگوں میں سے صرف تم نے اس کانی آنکھ کے ساتھ چاند دیکھا ہے۔ ہاشم نے سعید کو جواب دیا کہ تم اس آنکھ پر مجھے طعنے دے رہو جو اللہ کی راہ میں شہید ہوئی ہے، اے سعید تم تو وہ جو یمامہ میں اپنی ماں کے ساتھ مویشی چرایا کرتے تھے (پھلا تمہیں ان امور کا کیا علم!!)۔ اگلے دن ہاشم بن عتبہ نے روزہ افطار کیا اور لوگ ان کے پاس آ کر کھا پی کر چلے جاتے۔ یہ خبر سعید بن عاص کو پہنچ گئی، اس نے ہاشم کی طرف افراد بھیجے جنہوں نے جا کر ہاشم پر خوب تشدد کیا اور سعید نے ہاشم کا گھر جلا دیا۔ ہاشم کی بہن ام حکیم بنت عتبہ جوکہ ہجرت کرنی والی خواتین میں شمار ہوتیں تھیں اور ان کا بھائی نافع بن عتبہ دونوں نکلے اور سیدھا مدینہ کی راہ لی اور مدینہ میں آ کر سعد بن ابی وقاص کو سارے ماجرے کی خبر دی۔ سعد بن ابی وقاص عثمان بن عفان کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ کیسے سعید نے ہاشم پر تشدد کیا ہے اور اس کا گھر جلا دیا ہے۔ عثمان نے حکم دیا کہ جیسے سعید نے تشدد کیا اور گھر جلایا ہے تم بھی بندے بھیجو اور سعید کو مارو اور اس کا گھر جلا دو۔ سعد بن ابی وقاص کا بیٹا عمر بن سعد جوکہ قاتلان امام حسینؑ میں سے ہے تب وہ بچہ تھا وہ آگ لے کر مدینہ میں موجود سعید بن عاص کے گھر کو جلانے نکلا۔ اس پر حضرت عائشہ آگے بڑھیں اور انہوں نے سعد بن ابی وقاص کو اپنے پاس بلایا اور اس سے سعید بن عاص کو معاف کرنے کی سفارش کی جسے سعد بن ابی وقاص نے قبول کر لیا اور اس طرح معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ اس کے بعد کوفہ سے عثمان کے پاس مدینہ میں پوری ایک جماعت سعید بن عاص کی شکایات لے کر آئی اور پُر زور عثمان سے مطالبہ کیا کہ سعید بن عاص کو برطرف کیا جائے۔ اس جماعت کے سرکردہ افراد میں مالک اشتر، کمیل بن زیاد، صعصعہ بن صوحان، جندب بن زہیر، ثابت بن قیس ہیں۔ انہوں نے شدت سے عثمان سے سعید بن عاص کو برطرف کرنے کا مطالبہ جاری رکھا لیکن عثمان نے کسی بھی بات کو ماننے سے انکار کر دیا اور سعید بن عاص کو مسلسل حاکم بنائے رکھا۔

ہاشم کا جنگ جمل میں شرکت کرنا

[ترمیم]

ہاشم بن عتبہ کو امام علیؑ سے انتہائی عقیدت اور محبت تھی اور ہر لحظہ امامؑ کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگانے کے لیے آمادہ رہتے۔ آپ نے تمام جنگوں میں امام علیؑ کا ساتھ دیا اور امام علیؑ کے خصوصی معتمد اصحاب میں ہونے کا آپ کو شرف حاصل تھا۔ آپ نے جنگ جمل میں امام علیؑ کے ساتھ شرکت کی اور ام المؤمنین عائشہ کے لشکر کے خلاف بہادری کے جوہر دکھائے۔ جنگ جمل میں آپ امام علیؑ کے ساتھ ربذہ کے مقام پر ملحق ہوئے۔ امام علیؑ نے ہاشم بن عتبہ ہی کے ذریعے سے والی کوفہ ابو موسی اشعری کو امام علیؑ کا ساتھ دینے کے لیے ابھارا لیکن ابو موسی اشعری نے امام علیؑ کی حمایت اور ان کی اطاعت سے واضح طور انکار کر دیا جس پر امام علیؑ شدید غضبناک ہوئے اور ابو موسی اشعری کو معزول کر دیا۔

جنگ صفین میں ہاشم کا علمبردار ہونا

[ترمیم]

جنگ صفین میں امام علیؑ نے آپ کے ہاتھوں میں پرچم دیا اور اپنے لشکر کا علمبردار بنایا۔ جنگ صفین میں آپ نے کمال شجاعت کا مظاہرہ کیا اور اس جنگ میں آپ کا ایک پاؤں کٹ گیا لیکن آپ مسلسل دلیری کے ساتھ لڑتے رہے یہاں تک کہ شہادت کی سعادت سے ہمکنار ہو گئے اور اس طرح امام علیؑ کا یہ عظیم ستون ان سے جدا ہو گیا۔ جنگ صفین کے بعد جب مصر کے حالات خراب ہوئے اور محمد بن ابی بکرؓ شہید کر دیئے گئے تو اس وقت امام علیؑ نے ارشاد فرمایا تھا جیساکہ نہج البلاغہ میں وارد ہوا ہے:وَقَدْ أَرَدْتُ تَوْلِيَةَ مِصْرَ هَاشِمَ‌ بْنَ‌ عُتْبَةَ وَلَوْ وَلَّيْتُهُ إِيَّاهَا لَمَّا خَلَّى لَهُمُ الْعَرْصَةَ وَلَا أَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ بِلَا ذَمٍّ لِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ فَلَقَدْ كَانَ إِلَيَّ حَبِيباً وَكَانَ لِي رَبِيبا؛ میں یہ چاہتا تھا کہ مصر کی حکومت ہاشم بن عتبہ کے سپرد کرو، اگر میں مصر کی حکومت اسے دے دیتا تو وہ کبھی دشمنوں کے لیے میدان خالی نہ کرتا اور نہ انہیں کسی قسم کی مہلت فراہم کرتا، اس بات سے محمد بن ابی بکر کی مذمت کرنا مقصود نہیں ہے، محمد بن ابی بکر تو میرا محبوب اور ہاتھوں پلنے والا تھا۔

صفین میں لیلۃ الہریر میں ہاشم بن عتبہ کی تقریر

[ترمیم]

جنگ صفین میں لیلۃ الہریر میں ہاشم بن عتبہ نے لوگوں کو پکار کر کہا: جو شخص اللہ اور دارِ آخرت کو چاہتا ہے وہ میرے پاس آئے، یہ سن کر بہت سے لوگ ہاشم کے گرد اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے ان افراد کو لے کر شامیوں پر پُر زور حملے شروع کر دیئے، شامی بھی مدمقابل ڈٹ کر دفاع کرتے۔ پھر ہاشم بن عتبہ کھڑے ہوئے اور لوگوں میں ایک تقریر کی جس کے الفاظ یہ ہیں: تم شامیوں کی ثابت قدمی دیکھ کر گھرانا مت، تم ان کی جو ثابت قدمی کا مشاہدہ کر رہے ہو وہ صرف ان کا عرب قومیت کی حمیت و جوش کی بناء پر ہے، ان کا مقصد یہ ہے کہ یہ اپنے پرچم کو گاڑھے رکھیں اور مرکز پر ثابت قدم رہیں ، یہ لوگ گمراہ ہیں اور تم حق پر ہو، اے قوم! صبر اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو، آپس میں متحد و یکجا رہو، اور باہمی مل کر دشمن کی جانب بڑھو، آگے قدم بڑھاتے رہو اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو، ایک دوسرے کی بھر پور مدد کرو اور اللہ کا ذکر کرتے رہو، تم میں سے کوئی دوسرے سے کسی شیء کا تقاضا نہ کرے اور ادھر ادھر اپنی توجہ نہ بٹنے دو، ثابت قدم رہتے ہوئے شدت سے حملہ کرو اور اللہ سے اجر کی امید رکھتے ہوئے ان دشمنوں سے اس وقت تک حہاد کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے، اور وہ ہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

صفین میں امام علیؑ کو بے نمازی کا طعنہ اور ہاشم کا جواب

[ترمیم]

جب ہاشم نے اپنے اطراف میں لشکر والوں کو ابھار کر بھر پور تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے تو ایک دشمن کی فوج سے ایک جوان نکل کر آیا اور یہ اشعار پڑھنے لگا کہ مجھے ایک درد ناک خبر ملی ہے کہ علیؑ نے عثمان کو قتل کر دیا ہے۔ یہ پڑھ کر وہ جوان جوش میں آتا اور حملے کے لیے آگے بڑھتے ہوئے تلوار چلاتے ہوئے امام علیؑ کو گالیاں دیتا جاتا اور لشکرِ علوی پر لعن طعن کرتا۔ اس جوان نے آگے بڑھ کر حملے شروع کر دیئے۔ ہاشم بن عتبہ نے اس جوان کو آواز دی اور کہا: اے بندہِ خدا! تیرے یہ بدکلامی اور اس کے بعد لڑائی !! کیا تو جانتا نہیں کہ اس جنگ کے بعد (اللہ کی بارگاہ میں) حساب ہے، اللہ کا خوف کھاؤ، تم اللہ کی طرف لوٹ کر جانے والے ہو، پھر اللہ تجھ سے اس جنگ اور اس موقف کے بارے پوجھ گچھ کرے گا۔ اس جوان نے آگے سے جواب دیا میں اس لیے جنگ کر رہا ہوں کیونکہ تمہارا امیر نماز نہیں پڑھتا اور تم لوگ بھی نماز پڑھتے، میں تو اس لیے جنگ کر رہا ہوں کیونکہ تمہارے امیر نے ہمارے خلیفہ کو قتل کر دیا ہے اور تم لوگ بھی خلیفہ کو قتل کرنے پر رضا مند تھے۔ جناب ہاشم بن عتبہ نے آگے سے جواب دیا: تیرا عثمان بن عفان سے کیا تعلق!! عثمان کو تو رسول اللہؐ کے صحابہ اور اولادِ صحابہ و قاریوں نے قتل کیا ہے اور اس وقت عثمان کو قتل کیا گیا جب عثمان نے نئی نئی بدعات کو ایجاد کیا اور کتابِ الہی کے حکم کی صریح مخالفت کی، یہ جنگ لڑنے والے تجھ سے اور تیرے ساتھیوں سے زیادہ دقتِ نظر رکھتے ہیں اور اس تجھ اور تیرے ساتھیوں سے زیادہ اس امت کی بھلائی و بہتری کا علم رکھتے ہیں اور تم لوگوں سے زیادہ دین سے واقف ہیں۔ تم ذرا کچھ دیر ٹھہر جاؤ۔ اس پر وہ جوان رُک گیا۔ ہاشم زہری نے اس کو سمجھایا کہ تم جس مسئلہ کو بیان کر رہے ہو اس کو (امام علیؑ اور ان کی جماعت) زیادہ بہتر جانتی ہے، اللہ کی قسم! میں تم سے جھوٹ نہیں بول رہا کیونکہ جھوٹ تو نقصان پہنچانے والا ہے اور کسی قسم کا فائدہ نہیں دیتا، اس لیے اس معاملہ کو تم انہی لوگوں پر چھوڑ دو جو تم سے زیادہ اس مسئلہ سے واقف ہیں۔ ہاشم کی نصیحت نے اس جوان پر اثر کیا اور وہ کہنے لگا: آپ نے مجھے بہترین نصیحت کی ہے۔ ہاشم نے کہا: جہاں تک تمہارے اس الزام تراشی و بہتان کا تعلق ہے کہ ہمارا امیر نماز نہیں پڑھتا تو علیؑ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے رسول اللہؐ کے ساتھ نماز پڑھی اور مخلوقِ خدا میں دینِ الہی کو سب سے زیادہ سمجھنے بوجھنے والے ہیں اور رسولؐ کا بعد سب سے زیادہ اولویت اور حق (خلافت) رکھنے والے ہیں، میرے ساتھ تم جتنے افراد دیکھ رہے ہو سب کے سب کتابِ الٰہی کے قاری ہیں جو راتوں کو بیدار رہتے ہوئے نمازِ شب پڑھتے ہیں، ہوشیار رہو! تمہیں یہ ظالم شقی مغرور لوگ تیرے دین سے اغواء کر کے گمراہ نہ دیں۔

ہاشم بن عتبہ کی اس نصیحت و تبلیغ کا اس جوان پر گہرا اثر ہوا اور اس نے ہاشم کو مخاطب کر کے کہا کہ اے بندہِ الہٰی میری نظر میں تم ایک صالح نیک شخص ہو، مجھے بتاؤ کیا میری توبہ ہو سکتی ہے؟ جناب ہاشم نے کہا: تم اللہ سے توبہ کرو وہ تمہاری توبہ قبول کرنے والا ہے، بے شک اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں کو کو معاف کر دیتا ہے اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ وہ جوان اہل شام کو ترک کر کے حق کی طرف پلٹ آیا۔ اس پر ایک شامی نے کہا: تجھے ایک عراقی نے دھوکا دے دیا ہے، جوان نے کہا: ایسا نہیں ہے بلکہ اس نے تو مجھے نصیحت کی ہے۔

ہاشم بن عتبہ کی شہادت

[ترمیم]

ہاشم بن عتبہ امام علیؑ کے لشکر کے علمبردار تھے اور ان کے ہاتھ میں جھنڈا تھا۔ اس کے باوجود وہ انتہائی شجاعت اور دلیری سے میدانِ جنگ میں لڑتے رہے۔ ہاشم دشمن کی صفوں میں گھس جاتے اور سخت جنگ کرتے۔ وہ اسی روش کی بناء پر مرقال کے لقب سے معروف تھے۔ ہاشم نے جنگ صفین میں دشمن کی صفوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا اور انہیں اپنی کامیابی قریب دکھائی دینے لگی۔ مغرب کے قریب اچانک ان پر تنوخیوں کے ایک لشکر نے حملہ کر دیا اور اس شدید حملے کا ہاشم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

← ہاشم بن عتبہ کا جناب عمار سے مکالمہ


ہاشم جب لشکرِ علوی کا پرچم لے کر آگے بڑھے تو جناب عمار نے انہیں کہا: اے ہاشم! کیا تم ایک آنکھ ہونے اور بزدلی کا احساس کرتے ہو! ایک آنکھ والے کے لیے اس وقت تک کوئی خیر و خوبی نہیں جب تک وہ شدائد و سختیوں پر چھا نہ جائے، اے ہاشم سوار ہو۔ ہاشم گھوڑے پر سوار ہوئے اور عمار کے ساتھ آگے بڑھے اور رجز پڑھنے لگے۔

← ہاشم بن عتبہ کے رجز


جب ہاشم آگے بڑھے تو اس وقت ہاشم یہ رجز پڑھ رہے تھے:
أَعْوَرُ يَبْغِي أَهْلَهُ مَحَلَّا ... لَا بُدَّ أَنْ يَفُلَّ أَوْ يُفَلَّا
ایک آنکھ والا اپنے اہل کو ان کی شایان شان منزلت پر رکھنا چاہتا ہے
ضروری ہے کہ یا تو مقابل شکست دے دے یا مقابل خود ہار مان جائے
قَدْ عَالَجَ الْحَيَاةَ حَتَّى مَلَّا ... يَتُلُّهُمْ بِذِي الْكُعُوبِ تَلَّا
زندگی کا علاج کرتے کرتے اب وہ تھک گیا ہے
انہی گرہ دار نیزوں سے ان دشمنوں پر وہ حملہ کرتا رہے گا۔
جناب عمار بن یاسر نے ہاشم بن عتبہ کو مزید ابھارتے ہوئے کہا: تَقَدَّمْ يَا هَاشِمُ، الْجَنَّةُ تَحْتَ‌ ظِلَالِ‌ السُّيُوفِ‌ وَالْمَوْتُ‌ تَحْتَ‌ أَطْرَافِ الْأَسَلِ وَقَدْ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَزُيِّنَتِ الْحُورُ الْعینُ، الْيَوْمَ أَلْقَى الْأَحِبَّةَ، مُحَمَّداً وَحِزْبَه‌؛ اے ہاشم! آگے بڑھو، جنت تلواروں کے سائے تلے ہے اور موت نیزے کی اَنیوں کے نیچے ہے، آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں اور حور العین کو مزین کر دیا گیا ہے،آج کے دن دوست و احباء ملیں گے محمدؐ اور ان کے لشکر کے ساتھ۔

← ہاشم بن عتبہ پر حارث بن منذر اور خلیفہ دوم کے پیٹے کا حملہ


بعض نے ذکر کیا ہے کہ اس وقت ہاشم بن عتبہ نے نو یا دس بندے قتل کیے۔ جب ہاشم ان افراد کو قتل کر چکے جبکہ وہ لشکر کا پرچم مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے کہ اتنے میں حارث بن منذر تنوخی نے نیزے سے ہاشم پر وار کیا جس کی وجہ سے وہ زمین پر گر گے۔ امام علیؑ نے لشکر کو حکم دیا کہ پرچم کو آگے بڑھاؤ، لوگوں نے امام علیؑ کا حکم اعلانیہ بیان کیا۔ ہاشم نے کہا: ذرا میرا پیٹ دیکھ وہ دشمن کے وار سے پھٹ چکا ہے۔ اس پر بکر بن وائل سے تعلق رکھتے والے ایک شخص نے پرچم تھام لیا اور ان کے بعد ہاشم بن عتبہ کے بیٹے عبد اللہ بن ہاشم نے پرچم کو مضبوطی سے تھام کر بلند رکھا۔ ہاشم بن عتبہ نیزے اور تلواروں کے وار کی وجہ سے زمین پر گر گئے، ان کے گرتے ساتھ خلیفہ دوم کے بیٹے عبید اللہ بن عمر نے ہاشم کو وار کر کے شہید کرنا چاہا، جیسے ہی عبید اللہ بن عمر نزدیک آیا ہاشم نے رہی سہی قوت جمع کر کے اس پر حملہ کر دیا اور اپنے دانت اس کے سینے میں گاڑ دیئے اور اسی حالت میں شہادت کی سعادت سے ہمکنار ہو گئے۔

ہاشم کی شہادت پر امام علیؑ کے کلمات

[ترمیم]

جب ہاشم شہید ہو گئے تو لوگوں نے ان کا بہت غم منایا اور شدید جزع اور گریہ و آہ بکاء کیا۔ ہاشم بن عتبہ کے لشکر میں بنی اسلم کے بڑے بڑے قاریِ قرآن اور نامور شخصیات بھی تھیں جو ہاشم کے ساتھ شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کی خبر سن کر امام علیؑ ان کے پاس تشریف لائے اور ہاشم و اسلمی شہداء کے بارے میں ان الفاظ میں اپنے غم کا اظہار فرمایا:
جَزَى‌ اللَّهُ‌ خَيْراً عُصْبَةً أَسْلَمِيَّة ۔۔۔ حِسَانَ وُجُوهٍ صُرِّعُوا حَوْلَ هَاشِمٍ‌
اللہ اسلمی جماعت کو بہترین جزاء عطاء کرے
خوبصورت روشن چہرے ہاشم کے ہمراہ گرا دئیے گئے
شَقِيقٌ وَ عَبْدُ اللَّهِ مِنْهُمْ وَ مَعْبَدٌ ۔۔۔ وَ سفیانُ وَ ابْنَا هَاشِمٍ ذِي الْمَكَارِمِ‌
ان میں شفیق اور عبداللہ اور معبد
اور سفیان اور بلند و بالا خصلتوں والے ہاشم کے دو بیٹے
وَ عُرْوَةُ لَا يَنْأَى وَ قَدْ كَانَ فَارِساً ۔۔۔ إِذَا الْحَرْبُ هَاجَتْ بِالْقَنَاءِ وَ الصَّوَارِمِ‌
اور عروہ جو دور نہیں بھاگتا تھا اور وہ بہترین جنگجو تھا
جب جنگ نیزوں اور تلواروں کے ساتھ اوج پر پہنچ جاتی تھی
إِذَا اخْتَلَفَ الْأَبْطَالُ وَ اشْتَبَكَ الْقَنَا ۔۔۔ وَ كَانَ حَدِيثُ الْقَوْمِ ضَرْبَ الْجَمَاجِم‌
جب یہ بہادر ہیرو چھپٹتے پلتٹے تھے اور نیزے آپس میں ٹکراتے تھے
اور لوگوں کی گفتگو کھوپڑیوں کی ٹکریں ہوتی تھیں۔

ہاشم کربلا میں یا صفین میں شہید ہوئے

[ترمیم]

بلا شک و شبہ ہاشم بن عتبہ امام علیؑ کے ساتھ صفین کے مقام پر شہید ہوئے جیساکہ سابقہ سطور میں متعدد کتب کے ذیل میں ہاشم کے حالات ذکر کیے گئے ہیں۔ بعض متأخر کتب میں وارد ہوا کہ ہاشم نے روز عاشور امام حسینؑ کا ساتھ دیا اور ان کے ہمراہ شہید ہوئے، اس لیے کا ان کا شمار بعض نے شہداء کربلا میں کیا ہے۔
[۳۳] نراقی، محمد مہدی، محرق القلوب، ج۱، ص ۸۵-۸۶ (خطى نسخہ)۔
شہید مطہری نے جناب ہاشم مرقال کو امیر المؤمنینؑ کے اصحاب میں شمار کرتے ہوئے ان کی امام حسینؑ کے ساتھ کربلا میں موجودگی کو عاشوراء کے واقعات میں تحریفِ لفظی قرار دیا ہے۔ صاحب ریاض الشہادۃ مجمد حسن قزوینی نے جمع کرتے ہوئے دو ہاشم ہونے کا احتمال دیا ہے کہ ان میں سے ایک امام علیؑ کے صحابی اور جنگ صفین کے شہداء میں سے ہیں اور دوسرے امام حسینؑ کے صحابی اور کربلا کے شہداء میں سے ہیں۔
[۳۷] قزوینی، محمد حسن، ریاض الشہادة، ج۲، ص۱۴۱-۱۴۲۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابۃ، ج ۵، ص ۱۹۷۔    
۲. نمازی شاہرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ج ۵، ص ۲۰۴۔    
۳. طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۵۷۹۔    
۴. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج ۶، ص ۴۰۴۔    
۵. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۴۸۶۔    
۶. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج ۶، ص ۴۰۴۔    
۷. ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۴، ص ۱۵۴۶۔    
۸. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ، ج ۷، ص ۷۹۔    
۹. ابن سعد، محمد بن سعد، البطقات الکبری، ج ۵، ص ۲۴۔    
۱۰. ابو العرب تمیمی، محمد بن احمد، المحن، ص ۳۰۴۔    
۱۱. ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، ج ۲۱، ص ۱۱۵۔    
۱۲. ابن سعد، محمد بن سعد، البطقات الکبری، ج ۵، ص ۲۴۔    
۱۳. ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۲۶۰۔    
۱۴. ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۴، ص ۱۵۴۶۔    
۱۵. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۴۸۶۔    
۱۶. رضی، سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۹۸۔    
۱۷. بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۲، ص ۴۰۴۔    
۱۸. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۳۰۔    
۱۹. ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۳۱۳۔    
۲۰. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۳۰۔    
۲۱. ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۳۱۳۔    
۲۲. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۳۱۔    
۲۳. ابن حیون، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام، ج ۱، ص ۳۹۲۔    
۲۴. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، ج ۱، ص ۲۵۷۔    
۲۵. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۳۳، ص ۱۴۔    
۲۶. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، ج ۱، ص ۲۵۸۔    
۲۷. ابن مزاحم، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص ۳۵۵۔    
۲۸. ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۳۱۴۔    
۲۹. ابن مزاحم، نصر بن مزاحم؛ وقعۃ صفین، ص ۳۵۶۔    
۳۰. مبیدی، حسین بن معین الدین، دیوان امیر المؤمنین، ص ۱۳۱۔    
۳۱. ابن العدیم، عمر بن احمد، بغیۃ الطلب فی تاریخ حلب، ج ۱۰، ص ۴۷۰۰۔    
۳۲. واعظ کاشفی، ملا حسین، روضۃ الشہداء، ج۱، ص ۳۷۶۔    
۳۳. نراقی، محمد مہدی، محرق القلوب، ج۱، ص ۸۵-۸۶ (خطى نسخہ)۔
۳۴. مطہری، مرتضی، حماسہ حسینی، ج۱، ص۲۹۔    
۳۵. مطہری، مرتضی، حماسہ حسینی، ج۳، ص۲۶۴۔    
۳۶. مطہری، مرتضی، حماسہ حسینی، ج۳، ص۲۸۳۔    
۳۷. قزوینی، محمد حسن، ریاض الشہادة، ج۲، ص۱۴۱-۱۴۲۔


مأخذ

[ترمیم]

عبدالسلام ترمانینی، رویدادہای تاریخ اسلام، ترجمہ پژوهشگاه علوم و فرہنگ اسلامی، ج۱، ص۱۶۸۔
اس مقالہ کے اکثر وبیشتر مطالب اور حوالہ جات محققین ویکی کی جانب سے تحریر کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار