ہانی بن عروہ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ہانی بن عروۃ،
کوفہ کی بڑی شخصیت اور
امام علیؑ کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ آپ ہانی بن عروة بن نمران بن عمرو بن قعاس بن عبد یفوث بن مخدش بن حصر بن غنم بن مالك بن عوف بن منبۃ بن غطیف بن مراد بن مذحج، ابویحیى المذحجى المرادى الغطیفى ہیں۔
[ترمیم]
آپ ہانی
بن عروة بن نمران بن عمرو بن قعاس بن عبد یفوث بن مخدش بن حصر بن غنم بن مالك بن عوف بن منبة بن غطیف بن مراد بن مذحج، ابویحیى المذحجى المرادى الغطیفى ہیں۔
قبیله بنی مراد عظیم قبیلے مذحج کی شاخ ہے۔ قبیلہ مزحج علی بن ابی طالبؑ کے
یمن کے خلاف سریہ میں
مسلمان ہوا تھا۔
کوفہ میں مقیم جنوب (یمن) کے عربوں کی تاریخ ولادت اور بچپن کے زمانے سے متعلق درست معلومات موجود نہیں ہیں۔ بعض نے انہیں
رسول اکرمؐ کے اصحاب میں سے قرار دیا ہے۔
ہانی بن عروة مرادی،
رسول خداؐ اور
امام علیؑ کے اصحاب میں سے ہیں اور کوفہ کی بڑی شخصیت اور عظیم قاری تھے۔
آپ
تشیع پر پوری طرح کاربند تھے۔ ھانی قبیلہ بنی مراد کے بزرگوں میں سے تھے اور ان کے سربراہ تھے۔ جب آپ اپنی سواری پر نکلتے تھے تو چار ہزار سوار اور آٹھ ہزار پیدل آپ کے ساتھ حرکت کرتے تھے اور جب بھی
قبیلہ کندہ سے اپنے حلیفوں کو مدعو کرتے تھے تو ان کے گرد تیس ہزار افراد جمع ہو جاتے تھے
اور اہل کوفہ کے نزدیک بہت صاحب حیثیت تھے۔
امیر المومنین علیؑ کے خاص صحابی تھے
آپ نے امام علیؑ کے ہمراہ جنگوں میں شرکت کی۔
جنگ جمل میں یہ
اشعار پڑھ رہے تھے:
یا لک حربا حثها جمالها یقودها لنقصها ضلالها
هذا علی حوله اقیالها
وہ جنگ جسے اونٹ سوار شعلہ ور کر رہے تھے اور گمراہوں کے ہاتھ میں اس کی کمان تھی۔ اب یہ علیؑ ہیں کہ جن کے گرد جنگجو فاتحین جمع ہو چکے ہیں۔
معاویہ کی بغاوت کے بعد امیر المومنینؑ
شام پر حملے کیلئے جلدی میں تھے مگر لوگ خوفزدہ ہو گئے اور انہوں نے کوفہ میں رہنے کی خواہش ظاہر کی؛ جبکہ ہانی اور
مالک اشتر،
عدی بن حاتم،
عمرو بن حمق خزاعی،
سعید بن قیس همدانی جیسے افراد
دشمن کی پرواہ کیے بغیر جانفشانی کے ساتھ کہہ رہے تھے: ہماری تمنا ہے کہ آپؑ کے دشمنوں پر کامیاب ہوں یا آپؑ کی رکاب میں مارے جائیں۔
جنگ صفین کے دوران ہانی نے کچھ افراد کے ساتھ قبیلہ کندہ اور ربیعہ کی سربراہی کی تبدیلی کے بارے میں گفتگو کی۔
حضرت
مسلم بن عقیل کے کوفہ ورود تک ان کی زندگی کے بارے میں بہت کم اطلاعات ہیں۔ انہوں نے
جنگ جمل میں جمل]]
اور صفّین
میں شرکت کی اور صفین میں امام علیؑ ان کے ساتھ
مشاورت فرماتے تھے۔ جب امام نے
اشعث بن قیس کو قبیلہ ربیعہ و کندہ کی سربراہی سے برطرف کیا تو ھانی نے امام کو تجویز دی کہ اشعث کا ہم پلہ جانشین ان دو
قبیلوں کی سربراہی کیلئے منتخب کریں۔
ہانی
حجر بن عدی کے ابن زیاد کے خلاف قیام کا ایک اہم رکن تھے۔
جب معاویہ نے اپنے بیٹے
یزید کیلئے اہل کوفہ سے
بیعت لی تو ھانی نے ان کی مخالفت کی؛ یہاں تک کہ معاویہ کے اس کام پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے یزید کی بد صفات گنواتے تھے۔
[ترمیم]
ان کے والد عروۃ بھی نامور
شیعہ تھے اور انہوں نے حجر بن عدی کے ہمراہ قیام کیا۔ معاوہ نے انہیں مارنے کا قصد کیا مگر
زیاد بن ابیہ کی سفارش پر وہ بچ گئے۔
اسی وجہ سے ابن زیاد کی کوفہ آمد کے بعد ھانی نے انہیں کہا: کیونکہ تمہارے والد نے میرے والد کی خدمت کی ہے، اس لیے اب اس کا صلہ دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اپنے اہل خانہ اور مال اسباب کو جمع کرو اور صحیح و سالم شام واپس چلے جاؤ؛ کیونکہ تم سے اولیٰ تر آ چکے ہیں۔
مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد عبید اللہ بن زیاد نے آسودہ خیالی سے ھانی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس دوران محمد بن اشعث نے بہت سفارشیں کیں اور اپنے قبیلے میں اس کے عظیم مقام کا ذکر کیا مگر ابن زیاد پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ عبید اللہ نے حکم دیا کہ ھانی کو شہر کے بازار میں بھیڑ بکریوں کی خرید و فروخت کے مقام پر لے جا کر اس کی گردن اڑا دی جائے۔ جب حکم پر عملدرآمد کیلئے ھانی کو لے جایا جا رہا تھا تو وہ مسلسل اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کو مدد کیلئے بلا رہے تھے اور پکار کر کہہ رہے تھے: اے قبیلہ مذجح! تم کہاں ہو؟! میرا قبیلہ مذجح سے کوئی مددگار نہیں ہے؟!
کوفہ کی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود کسی کو ان کی امداد کرنے کی جرات نہیں تھی۔
جب ھانی نے دیکھا کہ کوئی مدد کرنے کیلئے کھڑا نہیں ہو رہا تو اپنے بندھے ہاتھوں کو آزاد کر لیا اور کہا: کوئی چھڑی یا خنجر یا پتھر یا ہڈی نہیں کہ اس سے اپنا دفاع کر سکوں؟! نگہبانوں نے دوبارہ انہیں پکڑ کر مضبوطی سے باندھ دیا۔ آخر کار عبید اللہ کے ترک غلام رشید نے ایک وار کر کے ھانی کو زخمی کر دیا، ھانی نے اس حال میں کہا: «الی الله المنقلب والمعاد اللهم الی رحمتک و رضوانک» سب نے اللہ کی طرف ہی پلٹ کر جانا ہے، خدایا! مجھے اپنی
رحمت اور خوشنودی کا راہی قرار دے۔ رشید نے ایک اور وار کر کے ھانی کو شہید کر دیا۔ (البتہ بعد میں مختار کے قیام کے دوران
ابراہیم بن مالک اشتر اور عبید اللہ بن زیاد کے مابین واقع ہونے والی جنگ میں
عبد الرحمان بن حصین مرادی نے جب (ھانی کے قاتل) رشید کو خازر میں عبید اللہ بن زیاد کو دیکھا تو کہا: خدا مجھے موت دے، اگر اس کو قتل نہ کروں یا اس راہ میں مارا نہ جاؤں! پھر ایک نیزے کے ساتھ اس پر حملہ کر کے ایک وار میں اس کا کام تمام کر دیا)
پھر عبید اللہ کے حکم پر اس کا جنازہ سولی پر الٹا لٹکا دیا گیا۔
ہانی یوم ترویہ بمطابق آٹھ ذی الحج سنہ ساٹھ ہجری
نوے برس سے زائد کے سن میں
شہید ہوئے۔
عبد الله بـن زبـیـر اسـدی نے مـسـلم و ہانی کے مرثیے میں ذیل کے اشعار کہے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ
فرزدق کے ہیں اور عبد الله بن زبیر نے اسے نقل کیا ہے:
ان کنت لا تدرین ما الموت فانظری الی ہانی فی السوق و ابن عقیل الی بطل قد هشم السیف وجهه و آخر یهوی من طمار قتیل
عبد الله بن زبیر اسدی نے مسلم و ہانی کے مرثیے میں درج ذیل اشعار کہے ہیں۔ ایک قول کے مطابق فرزدق نے کہے اور عبد اللہ بن زبیر نے نقل کیے ہیں:
فَإِن كُنْتَ لا تَدْرینَ مَاالمَوتُ فَانْظُری إِلی هانِىَ فی السُّوقِ وَ ابْنِ عَقیلٍ
إِلی بَطَلٍ قَد هَشَمَّ السَّیفُ وَجْهَهُ وَ آخَرَ يُهوی مِنْ جِدارِ قَتیلٍ
اصابَهُما فَرْخُ البَفِىِّ فَاصبَحا أَحادیثَ مَنْ يَسری بِكُلِّ سَبیلٍ
تَری جَسَداً قَدْ غَيَّرَ المَوتُ لَونَهُ وَ نَضْحَ دَمٍ قد سالَ كُلِّ مَسیلٍ
فَتىً کانَ أَجبی مِن فَناةٍحَيِيَّةٍ وَ اقطَعَ مِنْ ذی شَغْرَتَینِ صَقیلٍ
أَيَركَبُ أَسماءُ الهَمالیجَ آمِناً وَ قدْ طالَبَتُهُ مَذحِجٌ بِذُحولٍ
تَطیفُ حِفافَیه مُرادٌ وَ كُلُّهُم عَلی رَقبَةٍ مِن سائِلٍ وَ مسؤلٍ
فَإِنْ أَنتُمُ لَم تَثارُوا بِأَخیكُم فَكُونوا بَغایا أُرضِيَتْ بِقَلیلٍ.
[ترمیم]
ھانی کا جسد خاکی چند دن تک زمین پر رہا اور پھر میثم تمار کی زوجہ رات کے وقت لوگوں کے سو جانے کے بعد اسے اپنے گھر لے گئیں اور آدھی رات کو کوفہ کی بڑی مسجد کے پاس لے جا کر اسی خون آلود حالت میں سپرد خاک کر دیا۔ یہ بات ھانی کی زوجہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں تھی جو ان کے ساتھ ہی تھیں۔
لہٰذا ان کی قبر مسجد کوفہ کے پچھلے حصے میں مسلم بن عقیل کی قبر کے پاس آشکار ہے اور اس پر گنبد اور مزار موجود ہے اور ہر خاص و عام کیلئے زیارت گاہ ہے۔
[ترمیم]
(۱) ابنابیالحدید، شرح نهجالبلاغه، چاپ محمد ابوالفضل ابراهیم، قاهره ۱۳۸۵ـ ۱۳۸۷/ ۱۹۶۵ـ ۱۹۹۷۔
(۲) ابناثیر، اسدالغابه فیمعرفةالصحابه، قاهره ۱۲۸۰ـ ۱۳۸۶، چاپ افست بیروت۔
(۳) ابناثیر، الکامل فیالتاریخ، بیروت ۱۳۸۵ـ ۱۳۸۶/ ۱۹۶۵ـ ۱۹۶۶۔
(۴) ابناعثم کوفی، کتابالفتوح، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۱/ ۱۹۹۱۔
(۵) ابنحبیب، المحبر، چاپ ایلزه لیختن شتیتر، حیدرآباد، دکن ۱۳۶۱۔
(۶) ابنحجر عسقلانی، الاصابه فی تمییزالصحابه، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت ۱۴۱۲/ ۱۹۹۲۔
(۷) ابنحزم اندلسی، جمهرةالانساب العرب، چاپ عبدالسلام محمد هارون۔
(۸) ابنخلدون، کتابالعبر و دیوان المبتداء و الخبر، بیروت ۱۳۹۱/ ۱۹۷۱۔
(۹) ابنسعد، الطبقات الکبرى۔
(۱۰) محمد بن علی بن طقطقی، الفخری فیالآداب السلطانیه و الدول الاسلامیه، بیروت، دارصادر۔
(۱۱) ابنعبدربه، العقد الفرید، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۱/ ۱۹۹۰۔
(۱۲) ابنقتیبه دینوری، الامامة والسیاسه، چاپ طه محمد زینی، قاهره ۱۳۷۸/ ۱۹۶۷۔
(۱۳) ابنکثیر، البدایه والنهایه، بیروت، مکتبةالمعارف۔
(۱۴) نصر بن مزاحم منقری، وقعةالصفین، چاپ عبدالسلام محمد هارون، ۱۴۰۴۔
(۱۵) ابوعلی مسکویه، تجاربالامم، چاپ ابوالقاسم امامی، ۱۳۶۶ش/ ۱۹۸۷۔
(۱۶) ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، چاپ سیداحمد صقر، قاهره ۱۳۶۸/ ۱۹۴۹۔
(۱۷) سیدمحسن امین، اعیانالشیعه۔
(۱۸) حسین بن احمد نراقی، تاریخالکوفه، چاپ محمدصادق بحرالعلوم، بیروت ۱۴۰۷/ ۱۹۸۷۔
(۱۹) احمد بن یحیی بلاذری، انسابالاشراف، چاپ زکار۔
(۲۰) شیخ محمدتقی تستری، قاموسالرجال، چاپ موسسه النشرالاسلامی۔
(۲۱) ابراهیم بن محمد ثقفی، الغارات، چاپ میرجلالالدین حسینی ارموی۔
(۲۲) احمد بن داود دینوری، الاخبار الطوال، چاپ عبدالمنعم عامر، قاهره ۱۹۶۰۔
(۲۳) دهخدا، لغتنامه۔
(۲۴) محمد بن احمد ذهبی، تاریخالاسلام و وفیاتالمشاهیر و الاعلام، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، بیروت ۱۴۰۷۔
(۲۵) زرکلی، الاعلام، بیروت۔
(۲۶) فضل بن حسن طبرسی، اعلام الوری باعلام الهدی، چاپ مؤسسه آلالبیت۔
(۲۷) محمد بن حسن طوسی، رجالالطوسی، چاپ جواد قیومی اصفهانی، ۱۴۲۰۔
(۲۸) طبری، تاریخ، بیروت۔
(۲۹) شیخ عباس قمی، مفاتیحالجنان۔
(۳۰) مسعودی، مروج، بیروت۔
(۳۱) محمد بن محمد مفید، الارشاد، قم ۱۴۱۳۔
(۳۲) مطهر بن طاهر مقدسی، البدء و التاریخ، چاپ ارنست لروصحاف، ۱۸۹۹۔
(۳۳) یعقوبی، تاریخ، بیروت۔
(۳۴) ابصارالعین۔
(۳۵) مقتلالحسین۔
(۳۶) اخبار الطوال۔
(۳۷) فرسان الهیجاء۔
(۳۸) تاریخ حبیب السیر۔
(۳۹) ناسخ التواریخ۔
(۴۰) وسیلةالدارین۔
(۴۱) مراقدالمعارف۔
[ترمیم]
[ترمیم]
ماخوذ از مقالہ «ہانی بن عروة»، شماره۷ ۔ پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا، ص۳۷۷-۳۸۸۔ سائٹ پژوهہ، ماخوذ از مقالہ «هانی بن عروه» تاریخ بازیابی ۹۵/۰۲/۱۹۔