رحمت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
رحمت معروف عربی کلمہ ہے جس کے معنی اس کے متضاد سے سمجھے جا سکتے ہیں۔ بہت الفاظ کے معانی ان کے متضاد معنی سے سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک لفظ رحمت ہے جس کا متضاد
غضب ہے۔ رحمت کا لفظ جب
انسان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد انسان کا نرم و نازک دل والا ہونا اور مہربانی کرنا ہے۔ لیکن یہی لفظِ رحمت جب
اللہ تعالی کی ذات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اللہ تعالی کا مہربانی و احسان کرنا اور اپنی مخلوقات سے نعمات کا نہ سلب کرنا اور عفو و بخشش کرنے والا ہے۔ علم فقہ میں اس کلمہ کو
طہارت،
صلاۃ اور
نکاح کے ابواب میں ضمنی طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔
[ترمیم]
رحمت کا لغوی معنی واضح و آشکار ہے اور عربی زبان میں رحمت کے جو معنی رائج ہیں اسی معنی میں اس صفت کو اللہ تعالی کی
ذات سے متصف کیا جاتا ہے۔ لیکن اس
صفت کو اللہ کے لیے ثابت کرتے ہوئے ہر قسم کے عیب و نقص اور محتاجی کی اللہ تعالی سے نفی کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی ہر قسم کے عیب و نقص اور ہر قسم کی محتاجی و
فقر سے بے نیاز و پاک و منزہ ہے۔ اس لیے ہم اللہ تعالی کے لیے رحمت کا ایسا معنی مراد نہیں لے سکتے جس سے اللہ تعالی کے لیے کسی احتیاج یا
نقص کا ہونا لازم آئے۔ یہی وجہ ہے کہ لفظِ رحمت انسان کے لیے نرمی،
محبت سے پیش آنا اور لغزشوں و کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ لیکن یہی لفظ جب اللہ سبحانہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس کے معنی اللہ تعالی کی ذات اور ہستی کے شایان شان مراد لینا ہوں گے۔ اس طور پر اللہ تعالی کا
رحیم ہونے سے مراد اللہ تعالی کا انسان کی خطائیں بخش دینا اور انسان کی غلطیوں اور بڑے بڑے جرائم پر فورا پکڑ نہ کرنا اور
نعمات سے اس کو نوازنا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اسی بنا پر اپنی ذات کو
رحمن اور
رحیم کی صفت سے متصف کیا ہے۔
[ترمیم]
قرآن کریم میں رحیم کی صفت اللہ تعالی کے لیے رسول اللہ ﷺ کے لیے بھی استعمال کی گئی ہے اور آپ ﷺ کے ہمراہ جو صحابہ کرام رہے ان کے لیے رحیم کی جمع رُحماء استعمال کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ؛ بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ﷺ تشریف لائے، تمہارا (گمراہ رہنے کی صورت میں ہمیشہ کی) تکلیف و مشقت میں پڑے رہنا ان پر بہت سخت و بھاری ہے، وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مؤمنین کے لئے نہایت شفیق اور مہربان ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رہنے والوں کے لیے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُمْ؛ محمد اللہ کے
رسول ہیں اور جو ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر شدید اور آپس میں رحم کرنے والے اور مہربان ہیں۔
امام صادقؑ ایک مفصل
حدیث میں رحمت کی
فضیلت بیان کرتے ہوۓ ارشاد فرماتے ہیں کہ رحمت
عقل کے لشکر میں سے ہے اور
غضب جہل کے لشکر میں سے ہے۔
[ترمیم]
روایات میں اپنے مرحومین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرنے کا حکم آیا ہے۔ خصوصا جب اپنے مرحومین کی قبور پر جائیں تو
مستحب ہے کہ ان کے لیے دعا مغفرت کریں۔
[ترمیم]
قرآن کریم اور روایات میں اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے والے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اس کو
گناہان کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے۔
اللہ تعالی
قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
إِنَّهُ لا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْكافِرُون؛ بے شک اللہ کی رحمت سے کوئی مایوس نہیں ہوتا سوائے قومِ کافرین کے۔
[ترمیم]
جن آیات میں
رحمت الہی کا ذکر ہو ان کو پڑھتے یا سنتے وقت اللہ تعالی سے رحمت کی درخواست کرنا
مستحب ہے۔
[ترمیم]
نماز استسقاء پڑھتے وقت ایسے اعمال انجام دینا مستحب ہے جو اللہ کی رحمت کے حصول کا باعث بنیں، مثلا
متقی و پرہیزگار افراد کو ساتھ لے جانا، بچوں اور معذوروں کو ہمراہ لے جانا، جس جگہ نماز استسقاء پڑھی جا رہی ہے اس جگہ تک ننگے پاؤں بغیر جوتوں کے جانا اور بچوں کو ان کی ماؤں سے جدا کر دینا وغیرہ ہے۔
مستحب ہے کہ نماز استسقاء پڑھتے ہوئے اس کے
قنوت میں اللہ تعالی سے رحمت کو
طلب کیا جائے۔
[ترمیم]
مستحب ہے کہ بچوں سے شفقت و محبت سے پیش آتے ہوئے بوسہ دیا جائے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج۴، ص۷۹۔