ابراہیم بن مسلم بن عقیل

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



تاریخی منابع میں ابراہیم اور محمد نام کے دو بچوں کا نام مذکور ہے۔
[۳] قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۷۹۔
ان کے والد کے نام ، ان کے گرفتار ہونے کی کیفیت اور شہادت کے حالات میں اختلاف ہے، تاہم ان کی شہادت کا واقعہ مختلف مصادر میں منقول ہونے کی وجہ سے ان کے وجود میں قارئین کیلئے کسی قسم کی تردید باقی نہیں رہتی۔


ابراہیم کے والد کے بارے میں اقوال

[ترمیم]


← ابراہیم بن عبد الله جعفر


قدیم منابع میں بعض نے ان دو کو عبد اللہ جعفر کے بیٹوں یا پوتوں میں شمار کیا ہے اور نقل کیا ہے کہ انہوں نے قبیلہ طے کے ایک شخص کے گھر میں پناہ لی تھی اور اس نے ان کا سر تن سے جدا کر دیا اور ان کے سر ابن زیاد کے پاس لے گیا۔ مگر اس نے حکم دیا کہ قاتل کی گردن بھی ماری جائے اور اس کے گھر کو گرا دیا جائے۔ بعض دوسروں نے ان دو کو عبد اللہ جعفر کی اولاد قرار دیا ہے اور کہا ہے: کہ یہ عبد اللہ بن قطبہ طائی کی بیوی کے گھر میں پناہ لیے ہوئے تھے، دوسری طرف سے عمر سعد نے اعلان کیا کہ جو کوئی ان دونوں کو لے کر آئے گا، اسے ہزار درہم انعام دیا جائے گا۔ جب عورت نے یہ دیکھا تو اپنے شوہر سے کہا کہ انہیں مدینہ بھیج دے اور ان کے خاندان کے حوالے کر دے۔ اس کے شوہر نے قبول کر لیا لیکن انہیں اپنی تحویل میں لینے کے بعد ان دونوں کا سر تن سے جدا کر دیا اور انعام کی امید لیے عبید اللہ کے پاس لے گیا۔ تاہم عبید اللہ نے اسے کچھ نہیں دیا اور کہا کہ میں انہیں زندہ اپنی تحویل میں لینا چاہتا تھا تاکہ عبد اللہ جعفر پر احسان کروں۔ عبد اللہ نے یہ بات سننے کے بعد کہا: اگر بچوں کو میرے حوالے کرتے تو میں دو ملین درہم انعام دیتا۔

← ابراهیم بن جعفر طیار


بعض کا خیال ہے کہ یہ دو بچے جعفر طیار کے تھے۔
البتہ یہ احتمال بہت بعید ہے کہ یہ دونوں جعفر طیار کے بیٹے ہوں؛ کیونکہ جعفر آٹھویں ہجری میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے اور سنہ ۶۱ ہجری یعنی اس واقعہ کے ۵۲ سال بعد ان کے بیٹے خرد سال نہیں ہو سکتے تھے، اس کے علاوہ جعفر کے بیٹوں کا نام تاریخ میں مشخص ہے اور اس نام کے اور افراد نہیں ہیں۔
[۶] محلاتي، ذبيح الله، فرسان الهیجاء، ج۱، ص۱۷۔


شیخ عباس قمی کا نظریہ

[ترمیم]

متاخر مصنفین کا بھی اس بارے میں مختلف نظریہ ہے منجملہ شیخ عباس قمی شیخ صدوقؒ سے یہ داستان نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ دو بچوں کی اس کیفیت کے ساتھ شہادت بعید معلوم ہوتی ہے لیکن چونکہ شیعہ محدثین کے رئیس اور اہل بیتؑ کے علوم کے مروج شیخ صدوقؒ نے اسے نقل کیا ہے اور اس روایت کی سند میں ہمارے کچھ بزرگ اصحاب موجود ہیں تو ہم نے بھی ان کی پیروی میں اس واقعے کو نقل کر دیا ہے۔واللَّه تعالى العالم.
[۷] قمی، شیخ عباس، منتهى الآمال، ج۱، ص۳۲۰۔
[۸] صدوق، محمد بن علی، الامالى، مجلس ۱۹، ص۷۶۔
مرحوم صدوقؒ انہیں مسلم کے فرزند سمجھتے ہیں۔

شعرانی

[ترمیم]

شعرانی کہتے ہیں کہ ان ستم کاروں کے آل محمدؐ پر مظالم اس سے زیادہ ہیں۔ اگر حدیث کی اسناد میں ضعیف افراد ہوں تو ان کے ضعف سے روایت کے کذب کا علم حاصل نہیں ہوتا کہ اس کی نقل جائز نہ ہو.
[۹] قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۷۸۔


ابراهیم کی شہادت پر کاشفی کا بیان

[ترمیم]

ملا حسین کاشفی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے اس واقعے کے ناقلین میں مزید شخصیات کا نام ذکر کیا ہے۔ ملا حسین کاشفی کے کلام کا خلاصہ یہ ہے:
مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد ان کے بچے ان کی وصیت کے مطابق قاضی شریح کے گھر میں پناہ گزین تھے، یہاں تک کہ ابن زیاد کو خبر ہو گئی کہ مسلم کے دونوں بچے کوفہ میں ہیں۔ اس نے دھمکی دی کہ جو بھی انہیں اپنے پاس رکھے گا اور ہمارے حوالے نہیں کرے گا تو اس کا خون مباح ہے اور اس کا مال بھی لوٹ لیا جائے گا۔
اس پر قاضی شریح نے بچوں کو اپنے پاس بلایا۔ پہلے گریہ و زاری کی، جب بچوں نے سبب پوچھا تو کہا کہ تمہارے والد شہید ہو گئے ہیں، دونوں بچوں نے گریہ کیا اور اپنے گریبان چاک کیے۔ قاضی شریح نے کہا: گریہ نہ کرو کیونکہ ابن زیاد تمہارے تعاقب میں ہے اور چاہتا ہے کہ تمہیں گرفتار کر لے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں کسی ایسے امین کے حوالے کر دوں جو تمہیں مدینہ پہنچا دے۔ پھر اس نے اپنے بیٹے اسد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ان دونوں کو دروازہ عراقین پر لے جاؤ اور مدینہ کی طرف روانہ ہونے والے کاروان کے ساتھ ملحق کر دو۔ جب وہ پہنچے تو قافلے والے کچھ سفر کر چکے تھے۔ اسد نے دور ایک سایہ دیکھا تو کہا: یہ قافلے والوں کی سیاہی ہے، جلدی کرو، ان سے ملحق ہو جاؤ اور خود واپس چلا گیا۔ بچوں کو راستے کا علم نہیں تھا، وہ گم ہو گئے اور کوفیوں کے ہاتھ لگ گئے۔ پس انہیں ابن زیاد کے حوالے کر دیا گیا۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ انہیں زندان میں ڈال دیا جائے۔ زندان بان کا نام مشکور تھا اور وہ اہل بیتؑ کے چاہنے والوں میں سے تھا۔ اس نے بچوں کو آزاد کر دیا اور انہیں راستہ سمجھایا لیکن بچے پھر راستہ بھول گئے اور اتفاق سے حارث کے گھر چلے گئے کہ جو ان کے تعاقب میں تھا...
[۱۰] واعظ کاشفی، ملاحسین، روضة الشهداء، ص۲۳۔
اور پھر بعد کا سارا واقعہ!

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیه‌السلام، ج۲، ص۵۴۔    
۲. سماوی، محمد بن طاهر، ابصارالعین، ج۱، ص۲۲۸۔    
۳. قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۷۹۔
۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۵، ص۳۹۳۔    
۵. بغدادی، محمد بن سعد، ترجمة الامام الحسین علیه‌السلام، ص۷۷۔    
۶. محلاتي، ذبيح الله، فرسان الهیجاء، ج۱، ص۱۷۔
۷. قمی، شیخ عباس، منتهى الآمال، ج۱، ص۳۲۰۔
۸. صدوق، محمد بن علی، الامالى، مجلس ۱۹، ص۷۶۔
۹. قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۷۸۔
۱۰. واعظ کاشفی، ملاحسین، روضة الشهداء، ص۲۳۔


ماخذ

[ترمیم]
جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شهدای کربلا، ص۶۴-۶۶۔    






جعبه ابزار