ابو عمرہ زیاد بن عریب

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



زیاد، قبیلہ همدان کی ایک شاخ بنی‌صائد سے تھے۔ وہ معروف تہجد گزار، عابد ، زاہد، شجاع اور پرہیزگار تھے۔
[۳] نمازی شاهرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ج۳، ص۴۵۰، تهران، ابن المؤلف، طبع اول۔
بعض نے ابو عمره کو شہدائے کربلا میں سے قرار دیا ہے۔


ابو عمره کے نسب میں تحقیق

[ترمیم]

ابی عمرہ کے والد رسول خداؐ کے اصحاب میں سے تھے۔ قدیم سیرت نگاروں اور مورخین نے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے لیکن بعض معاصرین نے انہیں عریب بن حنظلہ بن دارم بن عبداللَّه بن کعب الصائد ... بن همدان کا فرزند قرار دیا ہے۔ مذکورہ بالا سلسلہ سند رجالی منابع میں نظر نہیں آتا۔ البتہ ابن ‌حزم اندلسی نے زیاد بن عمرو کے بارے میں اسی طرح کا سلسلہ نقل کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں: «زیاد بن عمرو بن عریب بن حنظلۃ بن دارم بن عبداللَّه.» علامہ سماوی اور بعض دوسرے مورخین نے متن میں مذکور سند کے ساتھ استناد کرتے ہوئے ابو عمرو نهشلی کے معرکے کی داستان کو ابو عمره زیاد بن عریب کے بارے میں نقل کیا ہے۔
[۱۰] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۱۴۵۔


ابوعمره ، صحابی رسولؐ

[ترمیم]

سماوی کہتے ہیں: ابوعمره نے پیغمبرؐ کی صحبت کو درک کیا اور ان کے والد بھی صحابی تھے۔
[۱۲] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۱۴۵۔


ابوعمره کی کربلا میں موجودگی

[ترمیم]

وہ ایک شجاع، عابد اور شب‌ بیدار شخصیت تھے، بہت زیادہ اہل نماز تھے، انہوں نے کربلا میں شرکت کی اور سخت لڑائی کے بعد جام شہادت نوش کیا۔ ۔ یوم عاشور کو انہوں نے امامؑ سے اذن جہاد مانگا اور اجازت طلب کرنے کے بعد تیزی سے عمر بن سعد کی فوج پر حملہ کیا۔ مہران کاہلی (جو عمر بن سعد کا ایک سپاہی تھا) سے منقول ہے کہ کہتا تھا: میں کربلا میں موجود تھا، میں نے ایک شخص کو دیکھا جو شجاعت کے ساتھ جنگ کر رہا تھا، اس کی دلیری اور شجاعت میدانِ جنگ میں اس طرح تھی کہ کوئی اس کے سامنے ٹھہرنے پر قادر نہیں تھا، وہ دشمن کی فوج کے جس حصے پر حملہ کرتا، اس حصے کو منتشر کر دیتا تھا۔ وہ کچھ دیر تک لڑنے کے بعد امامؑ کی خدمت میں واپس چلا گیا اور آپؑ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:
ابشر هدیت الرّشد یابن احمدا فی جنّة الفردوس تعلو صعّدا
اے فرزند احمد ! آپؑ کیلئے بشارت ہے کہ آپ راہ ہدایت پر ہیں؛ بہشت فردوس میں آپؑ کا رتبہ بلند و بالا ہو گا!
میں نے پوچھا: وہ کون ہے؟!
کہنے لگے: وہ ابو عمرہ حنظلی ہے۔
آخر کار کچھ دیر تک لڑنے کے بعد عامر بن نہشل نامی شخص نے ان کا راستہ روک کر انہیں شہید کر دیا اور ان کا سر بدن سے جدا کر دیا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین (علیه‌السّلام)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، ص۱۳۵، مرکز الدرسات الاسلامیه لممثلی الولی الفقیه فی حرس الثورة الاسلامیه، طبع اول۔    
۲. امین، محسن، اعیان الشیعه، تحقیق حسن الامین، ج۷، ص۷۷، بیروت، دارالتعارف۔    
۳. نمازی شاهرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ج۳، ص۴۵۰، تهران، ابن المؤلف، طبع اول۔
۴. سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین (علیه‌السّلام)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، ص۱۳۵، مرکز الدرسات الاسلامیه لممثلی الولی الفقیه فی حرس الثورة الاسلامیه، طبع اول۔    
۵. امین، محسن، اعیان الشیعه، تحقیق حسن الامین، ج۷، ص۷۷، بیروت، دارالتعارف۔    
۶. سماوی، محمد بن طاهر، ابصارالعین فی انصار الحسین علیه‌السلام، ص۱۳۴- ۱۳۵۔    
۷. اندلسی، ابن حزم، جمهرة انساب العرب، ص ۳۹۵۔    
۸. حلی، ابن نما، مثیرالاحزان، ص۴۲۔    
۹. سماوی، محمد بن طاهر، ابصارالعین فی انصار الحسین علیه‌السلام، ص۱۳۵۔    
۱۰. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۱۴۵۔
۱۱. سماوی، محمد بن طاهر، ابصارالعین فی انصار الحسین علیه‌السلام، ص۱۳۴- ۱۳۵۔    
۱۲. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۱۴۵۔
۱۳. محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء، ج۱، ص۲۰۳۔    
۱۴. سماوی، محمد بن طاهر، ابصارالعین فی انصار الحسین علیه‌السلام، ص۱۳۴- ۱۳۵۔    
۱۵. مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال، ج۲۹، ص۱۰۔    
۱۶. امین، محسن، اعیان الشیعه ج۱، ص۶۰۶۔    
۱۷. امین، محسن، اعیان الشیعه، ج۷، ص۷۷۔    
۱۸. حلی، ابن‌ نما، مثیر الاحزان، ص۵۷، قم، مدرسه امام مهدی (عجّل‌الله‌فرجه‌الشریف)، ۱۴۰۶۔    
۱۹. بحرانی، عبدالله، العوالم الامام الحسین (علیه‌السّلام)، تحقیق مدرسه الامام المهدی (عجّل‌الله‌فرجه‌الشریف)، ص۲۷۳-۲۷۴، قم، طبع اول، ۱۴۰۷۔    


منبع

[ترمیم]

جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا،ص۸۷-۸۸۔    
سایت پژوهه، برگرفته از مقاله «یاران امام حسین (علیه‌السّلام)»، تاریخ بازیابی ۱۳۹۵/۳/۳۱۔    






جعبه ابزار