احد کا مفہوم
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
أَحَد، یکتا و یگانہ کے معنی میں ہے۔
[ترمیم]
أحد کی اصل’’وحد‘‘ ہے اور یہ واحد کی طرح ’’و ح د‘‘ سے مشتق ہے؛ اس کی ’’واو‘‘ کو ’’ہمزہ‘‘ میں تبدیل کیا گیا ہے اور اس کا معنی یکتا و یگانہ ہے۔
بعض نے اس کی اصل کو ’’أوحد‘‘ قرار دیا ہے کہ جس کی ’’واو‘‘ کو حذف کر دیا گیا تاکہ اسم اور صفت میں فرق کیا جا سکے۔
اگرچہ کلمہ ’’واحد‘‘ اور ’’احد‘‘ کا مادہ ایک ہے مگر اکثر علما ان کے مابین فرق کے قائل ہیں۔
[ترمیم]
۱۔ ’’واحد‘‘ ، ’’اثنان‘‘ سے پہلے اعداد کی گنتی کا نقطہ آغاز ہے جبکہ ’’احد‘‘ گنتی کا نقطہ آغاز واقع نہیں ہوتا؛ اس بنا پر ’’احد‘‘ اور ’’اثنان‘‘ کی ترتیب درست نہیں ہے۔
۲۔ ’’أحد‘‘ کا اطلاق ایسی چیز پر ہوتا ہے جو خارجی یا
ذہنی طور پر قابل کثرت نہ ہو جبکہ ’’واحد‘‘ خارج یا ذہن میں قابل کثرت ہوتا ہے۔
۳۔
واحد اکثر و بیشتر اثبات کیلئے استعمال ہوتا ہے جیسے رأیت رجلا واحدا جبکہ ’’احد‘‘ زیادہ تر سلب اور نفی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
۴۔ ’’احد‘‘ عموم کی نفی کرتا ہے جبکہ واحد صرف ایک فرد کی نفی کرتا ہے؛ مثال کے طور پر جب کہا جاتا ہے:
لایقاومه أحد تو مقصود یہ ہے کہ کوئی بھی اس کے مقابلے میں مزاحمت نہیں کر سکتا؛ مگر جب
لایقاومه واحد کی تعبیر استعمال کی جائے تو مقصود یہ ہے کہ ایک فرد اس کے مقابلے میں مزاحمت نہیں کر سکتا؛ مگر دو یا زیادہ افراد مزاحمت کر سکتے ہیں۔
۵۔ ’’احد‘‘ ’’واحد‘‘ سے عام ہے؛ اس معنی میں کہ جب بھی ’’احد‘‘ ہو گا تو ’’واحد‘‘ اس کے ضمن میں ہو گا۔
۶۔ ’’واحد‘‘ ہر چیز کیلئے وصف ہو سکتا ہے جیسے رجل واحد، ثوب واحد؛ ’’احد‘‘ کے برخلاف کہ جملہ اثبات میں یہ صرف
اللہ کا وصف واقع ہوتا ہے اور منفی جملے میں
حق تعالیٰ کے علاوہ غیر کی صفت بھی واقع ہو سکتا ہے؛ جیسے
ما رأیت احدا اس بنا پر ’’احد‘‘ اور ’’واحد‘‘
رحمن و
رحیم کی طرح ہیں کہ رحمان خدا کی خاص صفت ہے مگر رحیم غیر خدا کی صفت بھی واقع ہو سکتا ہے۔
بعض علما ’’احد‘‘ پر الف لام داخل کرنے کی صورت میں اسے خدا کی مخصوص صفت قرر دیتے ہیں۔
مگر
فخر رازی نے یہ احتمال دیا ہے کہ چونکہ احد کو صرف خدا کیلئے وصف لایا جاتا ہے تو اس لیے اس سے الف لام تعریف کو حذف کر دیا گیا ہے اور یہ حق تعالیٰ سے مخصوص ہو چکا ہے۔
[ترمیم]
کچھ لوگوں نے ان دونوں کو مترادف قرار دیا ہے اور ایک معنی میں لیا ہے حتی’’واحد‘‘ کو ’’احد‘‘ کی اصل قرار دیا ہے اور کہا ہے: ’’واو‘‘ کے ’’ہمزہ‘‘ میں قلب کے بعد دو ہمزہ کا
عربی زبان میں اجتماع ثقیل ہے تو ان میں سے ایک ہمزہ تخفیف کی خاطر حذف کر دی گئی ہے۔
یہ رائے درست نہیں ہے چونکہ اس صورت میں ان دونوں کی جمع
آحاد ہونی چاہئیے تھی حالانکہ ’’آحاد‘‘ فقط واحد کی جمع ہے؛ جیسے اشھاد و شاھد، ’’احد‘‘ کی کوئی جمع نہیں ہے؛ جیسا کہ ازہری نے کہا ہے:
احمد بن یحییٰ سے آحاد کے بارے میں پوچھا گیا کہ آیا ’’احد‘‘ کی کوئی جمع بھی ہے؟! تو انہوں نے جواب میں کہا: اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ ’’احد‘‘ کی کوئی جمع ہو۔
بعض نے کہا ہے: ان دو کلمات کے مترادف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ’’احد‘‘ اعداد کی گنتی میں واحد کی جگہ آ سکتا ہے؛
تاہم اکثر علما نے اس بات کو غلط قرار دیا ہے۔
[ترمیم]
’’احد‘‘ قرآن کریم کی ۳۱ سورتوں میں ۷۴ مرتبہ استعمال ہوا ہے کہ جن میں سے صرف ایک مورد میں اسم الہٰی کے عنوان سے آیا ہے۔
[ترمیم]
اس کے چند معانی بیان کیے گئے ہیں؛ جو درج ذیل ہیں:
۱۔ احد کا اطلاق ایسے موجود پر ہوتا ہے جو کسی طرح کی کثرت (ذہنی یا خارجی)
خواہ عددی ہو یا مقداری ہو؛
کو قبول نہیں کرتا؛ اس لیے
عرفا کی اصطلاح میں ’’احد‘‘ مقام
غیب کا اسم ہے کہ جس میں کثرت اور لحاظِ کثرت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ مقام؛ اسم، رسم اور صفت کا حامل نہیں ہوتا، کسی طور اس کی خبر نہیں دی جا سکتی؛ اس اعتبار سے سورہ توحید کی پہلی آیت ذاتِ الہٰی میں ہر نوع کے
تجزیہ و ترکیب کی طرف ناظر ہے؛
اور خداوند عالم ہر چیز جیسے
جنس فصل ،
مادّه و
صورت ، اعراض، اجزا،
اعضا ، اشکال،
الوان اور ہر نوع کی ترکیب و کثرت
جو ذات باری تعالیٰ کیلئے شائستہ نہیں ہے؛ سے منزہ و مبرہ ہے؛ جیسا کہ اس کے شان نزول میں آیا ہے کہ مشرکین کا ایک گروہ،
دو آدمی،
یا
یہود کا ایک گروہ
نصارائے نجران کا وفد
یا پانچ جماعتوں یعنی مادہ پرستوں، مشرکین، ثنویہ، یہود اور
نصاریٰ کے رہنما
پیغمبر اکرمؐ کے پاس آئے اور کہا: ہمارے سامنے خدا کی توصیف کیجئے اور ہمیں بتائیے کہ خدا کیا ہے اور کس جنس سے ہے؟
کیا
سونے،
چاندی،
لوہے یا
لکڑی کا ہے؟!
اور کیا کھاتا پیتا ہے؟!
خدا تعالیٰ نے ان کے جواب میں سورہ توحید کو ستر ہزار
فرشتوں کے ہمراہ
پیغمبرؐ پر نازل فرمایا
اور ہر قسم کی ترکیب یا ترکیب پر منتہی ہونے والے احتمال جیسے جسمانیت؛ کو اپنی ذات سے سلب کیا۔
۲۔ ’’أحد‘‘، صفات سلبیہ کا جامع ہے کیونکہ احدیت کا معنی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی ذات میں ہر ترکیب سے منزہ ہے؛ کیونکہ ہر مرکب اپنے اجزا کی طرف احتیاج رکھتا ہے اور مرکب کا ہر جزو مرکب کا غیر ہے؛ اس بنا پر ہر مرکب جو اپنے غیر کا نیازمند ہو، وہ اپنی ذات میں ممکن ہو گا؛ لیکن چونکہ امکان حق تعالیٰ میں جاری نہیں ہو سکتا تو ترکیب بھی محال ہو گی؛ لہٰذا احدیت (بمعنی ترکیب ذاتی کی نفی) کے اثبات کیساتھ
صفات سلبیہ جیسے مکان رکھنا، حلول، تغییر وغیرہ کی بھی خداوند عالم سے نفی ہو جائے گی؛ اس جہت سے کہا جاتا ہے کہ ’’احد‘‘ صفات سلبیہ کا جامع ہے۔
۳۔ خداوند
صفات ذات میں
یگانہ ہے؛ اس معنی میں کہ
وجود ،
علم ،
قدرت اور
حیات فقط اس کیلئے واجب و ضروری ہیں اور غیر خدا کیلئے واجب و ضروری نہیں ہیں۔
۴۔ خدا تعالیٰ افعال میں یگانہ ہے؛ کیونکہ دوسرے اپنے کاموں کو منفعت کے حصول اور نقصان کے دفع کیلئے انجام دیتے ہیں؛ جبکہ خدائے متعال اپنے افعال کو مخلوقات کی بہتری کیلئے انجام دیتا ہے۔
۵۔ خدائے متعال ’’احد‘‘ ہے؛ اس معنی میں کہ اشیا کی ایجاد اور اظہار میں یکتا و یگانہ ہے۔
۶۔ ’’احد‘‘ اول کے معنی میں ہے؛ کیونکہ خدا ہر چیز کی ابتدا کرنے والا اور ہر چیز پر سابق ہے۔
۷۔ خدا تعالیٰ الوہیت و ربوبیت میں یکتا و یگانہ ہے۔
۸۔ خدا تعالیٰ ذات، فاعلیت، صفات، سرمدیت اور معبود ہونے میں یگانہ ہے۔
۹۔ ’’احد‘‘ ذات میں یکتائی اور ’’واحد‘‘ حق تعالیٰ کے صفات میں یکتا و یگانہ ہونے کی حکایت کرتا ہے۔
۱۰۔ ’’احد‘‘، صفات میں حق تعالیٰ کے یکتا ہونے اور ’’واحد‘‘ ذات میں یکتائی کی خبر دیتا ہے۔
۱۱۔ ’’احد‘‘، یعنی خداوند بسیط ہے اور کسی طرح کے اجزا نہیں رکھتا اور واحد یعنی
شریک و نظیر نہیں رکھتا۔
۱۲۔ بعض نے ’’احد‘‘ اور ’’واحد‘‘ کو مترادف قرار دیا ہے اور ان کا معنی کچھ اس طرح کیا ہے: یہ دونوں، اس خدا کی صفات ہیں جو کسی صورت شریک و نظیر نہیں رکھتا؛ جیسا کہ
عبد اللہ بن مسعود کی قرائت میں منقول ہے کہ انہوں نے
سورہ توحید کی پہلی آیت کو ’’قل هو اللّه واحد‘‘ قرائت کیا
اور چونکہ وہ بعض کلمات کی قرائت کی بجائے ان کے ایسے مترادف استعمال کرتے تھے جو زیادہ واضح ہوں؛ اس امر کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ’’واحد‘‘ کو ’’احد‘‘ کا مترادف سمجھتے تھے۔ یہ قرائت
اعمشی سے بھی نقل ہوئی ہے
اور
امام باقرؑ سے منقول ایک روایت میں ’’احد‘‘ اور ’’واحد‘‘ ہم معنی ہیں۔
امام علیؑ سے منقول ایک روایت میں ہے کہ آپؑ نے واحد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کا خدائے متعال کی نسبت یہ معنی ارشاد فرمایا: کہ خدا کی نسبت سے واحد کا درست معنی ہے:
احدیّ المعنی یعنی جو وجود،
عقل اور خیال میں قابل تجزیہ و تقسیم نہیں ہے۔
بعض نے سورہ
رعد کی آیت ۱۶
قُلِ اللّهُ خلِقُ کُلِّ شَیء و هُوَ الوحِدُ القَهّار میں دو مرکب صفات ’’الواحد القهّار‘‘ کا ماحصل باری تعالیٰ کی صفتِ احدیت کو قرار دیا ہے۔
[ترمیم]
بیان السعادة فی مقامات العباده؛ تاج العروس من جواهرالقاموس؛ تسنیم تفسیر قرآن کریم؛ التفسیر الکبیر؛ تفسیر نورالثقلین؛ التوحید؛ جامع البیان عن تأویل آی القرآن؛ شرح اسماء اللّه الحسنی (لوامع البینات)؛ شرح الاسماء او شرح دعاء الجوشن الکبیر؛ شرح المنظومة السبزواری؛ روحالمعانی فی تفسیر القرآن العظیم؛ الفرقان فی تفسیر القرآن؛ کشف الاسرار و عدة الابرار؛ مجمع البیان فی تفسیر القرآن؛ معجم الفروق اللغویه؛ مفاهیم القرآن؛ مفردات الفاظ القرآن؛ المیزان فی تفسیرالقرآن۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرھنگ و معارف قرآن،مقالہ مفهوم احد۔