استصحاب مسببی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



استصحاب کی اقسام میں سے ایک استصحاب مسبّبی ہے۔ استصحاب مسببی سے مراد ایک استصحاب میں دوسرے استصحاب کی وجہ سے شک کا زائل ہونا ہے۔ پس کسی دوسرے استصحاب کے مستصحَب کا شک برطرف ہو جائے اس لیے کیونکہ ایک استصحاب اس دوسرے استصحاب کے شک کو زائل کر رہا ہے۔ سبب بننے والے استصحاب کو استصحاب سببی کہتے ہیں جبکہ مسبب بننے والے استصحاب کو استصحاب مسببی۔ اصول فقہ میں اصول عملیہ کے ذیل میں اس سے بحث کی جاتی ہے۔


استصحاب مسببی کی وضاحت

[ترمیم]

استصحاب مسببی کے مقابلے میں استصحاب سببی آتا ہے۔ استصحاب مسببی سے مراد کسی دوسرے استصحاب کے جاری ہونے کی وجہ سے ایک استصحاب کے شک کا برطرف ہونا لازم آئے۔

← مثال


دو استصحاب کبھی ایک دوسرے کے عرض میں واقع ہوتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کے طول میں۔ استصحابِ سببی اور مسببی میں دو استصحاب ایک دوسرے کے طول میں واقع ہوتے ہیں۔ استصحاب سببی کو ایک مثال سے بیان کیا جاتا ہے، مثلاً ہمارے پاس دو استصحاب ہیں:
۱. پہلا استصحاب پانی کی طہارت کا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں یقین تھا کہ بالٹی میں موجود پانی پاک تھا۔ اب شک ہوتا ہے کہ بالٹی کا پانی نجس ہے یا پاک؟ یہاں حالتِ سابقہ جوکہ طہارت ہے کو اختیار کریں گے اور پانی کی طہارت کا استصحاب کریں گے۔
۲. دوسرا استصحاب ہمارے پاس نجس لباس کا استصحاب ہے۔ ہم نے اس بالٹی کے پانی سے نجس لباس کو پاک کیا۔ اب حالتِ سابقہ لباس کا نجس ہونا ہے۔ پس جب اس بالٹی سے نجس لباس کو پاک کیا تو شک ہوتا ہے کہ آیا لباس نجس ہے یا پاک؟ کیونکہ اگر بالٹی کا پانی نجس تھا تو لباس پاک نہیں ہوا اور اگر بالٹی کا پانی پاک تھا تو لباس پاک ہو گیا ہے۔

اس جگہ ہم پانی کی طہارت کا استصحاب کریں گے۔ بالٹی کے پانی پر استصحاب کے نتیجے میں طہارت کا حکم لگائیں گے تو اس سے ہمیں نجس لباس سے متعلق پاک ہونے یا نہ ہونے کا شک رفع اور دور ہو جائے گا۔ پس طہارتِ آب کا استصحاب سبب بن رہا ہے دوسرے استصحاب میں شک کے زائل ہونے کا اور نجس لباس کے پاک ہونے کا باعث بن رہا ہے۔ چنانچہ سبب بننے والے استصحاب کو استصحابِ سببی کہیں گے اور مسبب بننے والے استصحاب کو استصحاب مسببی۔ پس جہاں پر بھی ایک استصحاب دوسرے استصحاب کے مستصحَب میں شک کے دور ہونے کا باعث بنے اس پہلے کو استصحابِ سببی کہتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر ایک شیء پر استصحاب جاری کرنے کی وجہ سے دوسرے استصحاب سے شک دور ہو جائے تو پہلے استصحاب جو دوسرے سے شک کے دور ہونے کا سبب بن رہا ہے کو استصحابِ سببی کہیں گے اور جس سے شک دور ہوا اس کو استصحاب مسببی کہیں گے۔
[۶] سیری کامل در اصول فقہ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۱۴، ص۸۳۔


اہم نکتہ

[ترمیم]

اگر دو استصحاب میں تعارض اور ٹکراؤ پایا جائے جن میں سے ایک استصحاب سببی ہو اور دوسرا استصحاب مسببی ہو تو استصحاب سببی کو استصحاب مسببی پر مقدم کریں گے۔
[۱۰] سیری کامل در اصول فقہ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۱۵، ص۸۵۔
[۱۱] سیری کامل در اصول فقہ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۱۴، ص ۹۱-۷۹۔



حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. الرسائل، خمینی، روح الله، جزء ۱، ص۱۵۸۔    
۲. الحلقۃ الثالثۃ فی اسلوبہا الثانی، ایروانی، باقر، ج۴، ص۳۷۵۔    
۳. آراؤنا فی اصول الفقہ، طباطبائی قمی، تقی، ج۱، ص۳۲۰۔    
۴. نہایۃ الافکار، عراقی، ضیاء الدین، ج۴، جزء ۲، ص۶۔    
۵. الوصول الی کفایۃ الاصول، شیرازی، محمد، ج۵، ص۱۰۶۔    
۶. سیری کامل در اصول فقہ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۱۴، ص۸۳۔
۷. الحلقۃ الثالثۃ فی اسلوبہا الثانی، ایروانی، باقر، ج۴، ص۳۷۵۔    
۸. کفایۃ الاصول، آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، ص۴۳۱۔    
۹. آراؤنا فی اصول الفقہ، طباطبائی قمی، تقی، ج۳، ص۷۳۔    
۱۰. سیری کامل در اصول فقہ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۱۵، ص۸۵۔
۱۱. سیری کامل در اصول فقہ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۱۴، ص ۹۱-۷۹۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۱۷۹، یہ تحریر مقالہ استصحاب مسببی سے مأخوذ ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : استصحاب | استصحاب کی اقسام | اصول عملیہ




جعبه ابزار