اسماء بنت یزید انصاری اوسی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اسماء بنت یزید انصاری اوسی کا شمار صدرِ اسلام کی نامور خواتین اور صحابیات میں ہوتا ہے جو اپنی بہترین خطابت اور شجاعت و دلیری کی وجہ سے عرب خواتین میں شہرت رکھتی تھیں۔ آپ سے متعدد احادیثِ مبارکہ نقل کی گئی ہیں۔ آپ نے جنگ یرموک میں شرکت کی اور ۹ رومیوں کو قتل کیا۔


اجمالی تعارف

[ترمیم]

یزید بن سکن انصاری اوسی کی ایک بیٹی اسماء ہیں جن کا شمار عرب کی بہترین خطیبہ خواتین میں ہوتا ہے۔ آپ کا پورا نام اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ اوسیہ اَشہلیۃ ہے۔ آپ کی کنیت ام سلمہ ذکر ہوئی ہے۔ آپ کی شہرت کی بنیادی وجہ رسول اللہ ؐ سے احادیث کو نقل کرنا، بہترین خطابت کرنا اور جنگوں میں انتہائی شجاعت و دلیری کی تاریخ رقم کرنا ہے۔ اہل سنت کتبِ رجال میں آپ کے مختصر حالات زندگی وارد ہوئے ہیں۔ آپ کو صحابیت کا شرف حاصل ہے اور آپ نے جنگ یرموک میں شرکت کی اور مجاہدینِ اسلام تک پانی پہنچایا اور ان کے زخموں کی مرہم پٹی میں مدد کی۔ جنگ یرموک میں جب جنگ شدت اختیار کر گئی اور رومیوں نے آپ کے خیمے پر قبضہ کر لیا اور بالآخر آپ کو جنگ کے میدان میں اترنا پڑا۔ اسماء نے جنگ کرتے ہوئے نو (۹) رومیوں کو واصل جہنم کیا۔

اسماء بنت یزید کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے رسول اللہ ؐ کے ہاتھوں پر بیعت کی اور متعدد روایات آپ ؐ سے نقل کی ہیں۔ بخاری نے اپنی صحیح میں دو احادیث اسماء بنت یزید سے نقل کی ہیں۔ مرحوم طبرسی نے کتاب مکارم الاخلاق میں اسماء بنت یزید سے یہ حدیث نقل کی ہے: عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ‌ يَزِيدَ قَالَتْ‌ إِنَّ النَّبِيَّ ص مَرَّ بِنِسْوَةٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِنَّ؛ اسماء بنت یزید بیان کرتی ہیں: نبیؐ خواتین کے پاس سے گزرے اور آپؐ نے انہیں سلام کیا۔ کشف الغمۃ میں مرحوم اربلی نے ذکر کیا ہے کہ اسماء بنت یزید نے جناب فاطمہ علیہا السلام کی شادی میں شرکت کی تھی۔ ذہبی کے مطابق آخری ایام میں آپ دمشق منتقل ہو گئیں اور وہیں ۶۱ یا ۷۰ ھ کو انتقال ہوا۔ باب صغیر پر آپ کی قبر موجود ہے۔ زرکلی نے الاعلام میں آپ کی وفات ۳۰ ھ تحریر کی ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. زرکلی، خیر الدین، الاعلام، ج۱، ص ۳۰۶۔    
۲. ابن عبد البر، یوسف بن عبد الله، الاستیعاب، ج۴، ص۱۷۸۷۔    
۳. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۸، ص۲۱۔    
۴. طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاف، ص ۱۶۔    
۵. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الآئمۃ، ج ۱، ص ۳۶۱۔    
۶. ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام، ج ۵، ص ۷۴۔    
۷. زرکلی، خیر الدین، الاعلام، ج۱، ص ۳۰۶۔    


مأخذ

[ترمیم]

عبدالسلام ترمانینی، رویدادہای تاریخ اسلام، ترجمہ پژوهشگاه علوم و فرہنگ اسلامی، ج۱، ص۱۵۴۔
بعض مطالب محققینِ ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار