باب اشتغالپی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریںاشتغال عربی زبان کا لفظ ہے جوکہ افتعال کے وزن پر آتا ہے۔ اس کے اصلی حروف ش-غ-ل ہیں اور مصدر فہرست مندرجات۱.۱ - اصطلاحی معنی ۲ - اشتغال کا نام دینے کی وجہ ۳ - اشتغال کا مورد ۴ - اشتغال کے ارکان ۴.۱ - ۱. مشغول ۴.۱.۱ - چند اہم نکات ۴.۱.۱.۱ - اول ۴.۱.۱.۲ - دوم ۴.۱.۱.۳ - سوم ۴.۱.۱.۴ - چہارم ۴.۲ - ۲. مشغولعنہ ۴.۲.۱ - مشغول عنہ کی شرایط ۴.۳ - ۳. مشغول بہ ۴.۳.۱ - چند اہم نکات ۵ - عامل کا مقدَّر (مفسّر) ہونا ۵.۱ - چند اہم نکات ۵.۱.۱ - اول ۵.۱.۲ - دوم ۵.۱.۳ - سوم ۶ - قرآن کریم میں اشتغال کے نمونے ۶.۱ - سورہ نحل:آیت ۵ ۶.۲ - سورہ قمر:آیت ۴۹ ۷ - حدیث مبارک میں اشتغال کے نمونے ۸ - اہم نکتہ ۹ - حوالہ جات ۱۰ - مأخذ اشتغال کے لغوی معنی[ترمیم]عربی لغت میں شغل کے لغوی معنی فراغت کے برعکس یعنی مصروف و سرگرم ہونا ہے۔ اسی کلمہ کو ← اصطلاحی معنیعلم نحو میں اس باب کو [۵]
استرآبادی، محمد بن حسن، شرح الرضی علی کافیۃ ابن الحاجب، ج ۱، ص ۴۳۷ ـ ۴۳۹۔
مثلا اشتغال کا نام دینے کی وجہ[ترمیم]مذکورہ بالا لغوی اور اصطلاحی تعریف سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس باب کو بابِ اشتغال اس لیے کہا جاتا ہے کہ عامل اسم مقدم کی بجائے اس کی ضمیر کے ساتھ مشغول اور سرگرمِ عمل ہو گیا ہے۔ اشتغال کا مورد[ترمیم]باب اشتغال میں اہمیت کا حامل مورد اسم مقدم یعنی مشغول عنہ ہے۔ علماء نحو اس اسم مقدم کے اعراب کے بارے میں بحث کرتے ہیں اور اس بحث کو علم نحو میں مرفوعات اور منصوبات ہر دو مورد میں ذکر کیا ہے۔ کیونکہ اسم مقدم کو بعض مورد میں مرفوع کیا گیا ہے اور بعض موارد میں منصوب۔ اس کے مقابلے میں بعض نحویوں نے اس کو فقط منصوبات کی بحث قرار دیا ہے اور مفعول بہ کے عنوان میں اس کو ذکر کیا ہے۔ مفعول بہ کے عنوان میں ایک بحث کی جاتی ہے کہ وہ موارد جن میں مفعول بہ کا عامل وجوبًا محذوف ہوتا ہے جن میں سے ایک مورد باب اشتغال ہے جس میں اسمِ مقدم کا عامل وجوبًا محذوف ہے۔ نیز اس کو مفعول بہ کے علاوہ [۹]
جمعی از نویسندگان، جامع المقدمات، کتاب الہدایۃ فی النحو، ص۳۴۷۔
[۱۰]
استرآبادی، محمد بن حسن، شرح الرضی علی کافیۃ ابن الحاجب، ج ۱، ص ۴۳۷۔
اشتغال کے ارکان[ترمیم]اشتغال کی تعریف سے اشتغال کے تین ارکان سامنے آتے ہیں: ۱. مشغول (عامل) ۲. مشغول عنہ (اسم مقدم) ۳. مشغول بہ (عامل کے بعد مذکور ضمیر) ذیل میں ان ارکان کی وضاحت پیش کی جاتی ہے: ← ۱. مشغولمشغول سے مراد وہی عامل ہے جو کہ اسم مقدم عمل انجام دینے سے منصرف ہو گیا ہے اور اس کو چھوڑ کر اس کی ضمیر پر عمل کر رہا ہے، مثلا ←← چند اہم نکات←←← اولضروری نہیں ہے کہ مشغول یعنی عمل فعل ہو بلکہ مشغول اسم بھی ہو سکتا ہے جیسے اسم فاعل اور اسم مفعول؛ مثلا یہ دو مثالیں ملاحظہ کریں: ←←← دومعامل جب مشغول بہ پر عمل کر رہا ہو تو یہ ممکن ہے کہ وہ متعدی بنفسہ ہو، مثلا ←←← سومعامل اپنے ماقبل موجود اسم پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بالفاظ دیگر مشغول (عامل) یہ صلاحیت رکھتا ہو کہ وہ مشغول عنہ (اسم مقدم) پر عمل کر سکے؛ مثلاً فعل متصرف، [۱۶]
صفائی بوشهری، غلامعلی، بداءة النحو، ص ۸۰۔
اسم فاعل، اسم مفعول۔ لہٰذا جن موارد میں فعل غیر متصرف ہو یا اسم تفضیل، اسم فعل، مصدر، صفت مشبہ وغیرہ ... ایسے حروف پر مشتمل ہوں جوکہ عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ باب اشتغال سے خارج ہیں۔ فعل متصرف سے مراد وہ فعل ہے جو ایک جہت میں مقید نہیں رہتا بلکہ اس سے کئی صیغے مشتق ہوتے ہیں، جیسے ←←← چہارممشغول جب فعل ہو تو ضروری ہے کہ اسم مقدم اس مشغول (عامل) کے ساتھ متصل ہو اور ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو۔ البتہ اس سے وہ موارد مستثنی ہیں جن میں فاصلہ کا آنا جائز ہے۔ ← ۲. مشغولعنہاس سے مراد اسم مقدم ہے کہ عامل نے اس سے روگردان ہو گیا ہے اور اس کے غیر یعنی مشغول بہ کے ساتھ مشغول ہو گیا ہے۔ ←← مشغول عنہ کی شرایطمشغول عنہ کی درج ذیل شرائط نحویوں نے ذکر کی ہیں: ۱. ضروری ہے کہ مشغول عنہ (اسم مقدم) عامل پر مقدم ہو۔ پس ۲. مشغول عنہ سے ضمیر لانا ممکن ہو، اگر مشغول عنہ ایسا ہے جس سے ضمیر کو مشغول کے بعد ذکر نہیں کیا جا سکتا تو یہ مورد باب اشتغال سے خارج ہو جائے گا، جیسے حال اور تمییز مشغول عنہ نہیں بن سکتے کیونکہ ان سے ضمیر نہیں لائی جا سکتی۔ ۳. مشغول عنہ ایسا ہو کہ جملہ میں اس سے بے نیازی اختیار نہں کی جا سکتی اور اس کا تذکرہ جملہ کو مکمل کرنے کے لیے ضروری ہو۔ پس ۴. مشغول عنہ مبتدأ بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اگر مشغول عنہ ایسا نکرہ ہو جو مبتدأ نہیں بن سکتا تو یہ مورد باب اشتغال سے خارج ہے۔ کیونکہ مبتدأ میں اصل یہ ہے کہ وہ معرفہ ہو یا مسوِّغات نکرہ میں سے ہو، یعنی مبتدأ ایسا نکرہ ہو جس سے ابتداء ہو سکتی ہے، مثلا نکرہ مضاف مضاف الیہ کی صورت میں لایا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کو تخصیص حاصل ہو جاتی ہے اور اس طرح سے نکرہ مبتدأ قرار پا سکتا ہے۔ ← ۳. مشغول بہمشغول بہ سے مراد وہ ہے جس کے ساتھ عامل مشغول ہو گیا ہے۔ عامل جب مشغول عنہ سے روگردان اور منصرف ہو کر مشغول عنہ کے غیر کے ساتھ مشغول ہو تو ایسی صورت میں عامل جس سے مشغول ہوا ہے اسے مشغول بہ کہا جاتا ہے۔ ←← چند اہم نکاتمشغول بہ اسم مقدم کی ضمیر ہو سکتا ہے، جیسے ۱. ۲. عامل کا مقدَّر (مفسّر) ہونا[ترمیم]انباری نے ذکر کیا ہے کہ عامل کے مقدر ہونے سے مراد یہ ہے کہ ظاہرِ کلام میں اسم مقدم کا عامل اس سے پہلے محذوف ہو اور نیت میں ہو۔ اگر اسم مقدم منصوب ہو تو اس کا عامل تقدیر میں ہو گا۔ اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ اسم مقدم کے عامل کا تقدیر میں ہونا بصریوں کے مذہب کے مطابق ہے۔ جبکہ کوفی منصوب ہونے والے اسم مقدم کا عامل جملہ میں مذکور فعل کو قرار دیتے ہیں، مثلا [۲۶]
استرآبادی، محمد بن الحسن، شرح الرضی علی کافیۃ ابن الحاجب، ج ۱، ص ۴۳۷۔
← چند اہم نکات←← اولتقدیر میں موجود عامل کا حذف کرنا واجب ہے کیونکہ جملہ میں مذکور عامل اس مقدَّر عامل کی تفسیر کر رہا ہے اور اس سے عوض کے طور پر آ رہا ہے۔ لہٰذا اگر کلام میں عاملِ مقدّر ظاہر ہو جائے تو بعد والا عامل مفسِّر اور عوض نہیں کہلائے گا۔ [۲۷]
استرآبادی، محمد بن الحسن، شرح الرضی علی کافیۃ ابن الحاجب، ج ۱، ص ۴۳۷۔
←← دومجملہ میں مذکور عامل (مفسِّر) اور اس کا فاعل مل کر جملہِ مفسِّرہ کو تشکیل دیتے ہیں اور اس جملہ تفسیری کے اعراب نہیں ہوں گے۔بعض علماءِ نحو نے سات موارد ایسے ذکر کیے ہیں میں جملہ کے محلی اعراب نہیں ہوتے جن میں سے ایک جملہِ تفسیریہ ہے جس کے محلًا اعراب نہیں ہوتے۔ [۳۰]
جمعی از علماء، جامع المقدمات، كتاب الصمدیۃ، ج ۲، ص ۵۸۴۔
←← سومعاملِ مقدّر (مفسَّر) اور کلام مین مذکور عامل (مفسِّر) کے درمیان نکتہِ اشتراک کو ملاحظہ کریں تو یہ تین حالتوں سے خالی نیہں ہیں: أ. دونوں میں لفظ اور معنی کے اعتبار سے مشارکت ہے، مثلا ب. دونوں میں صرف معنی کے اعتبار سے یکسانیت و مشارکت ہو، جیسے ج. دونوں میں نہ لفظ کے اعتبار سے یکسانیت و مشارکت پائی جاتی ہے اور نہ معنی کے اعتبار سے بلکہ دونوں میں تلازم پایا جاتا ہے۔ دونوں میں تلازم کی صورت اس طرح بنے گی کہ عاملِ مقدر لازم اور کلام میں مذکور عامل اس کا ملزوم واقع ہو، مثلا قرآن کریم میں اشتغال کے نمونے[ترمیم]قرآن کریم کی متعدد آیات میں باب اشتغال کے نمونے ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں: ← سورہ نحل: آیت ۵← سورہ قمر: آیت ۴۹حدیث مبارک میں اشتغال کے نمونے[ترمیم]رسول اللہ ﷺ اور آئمہ اطہار علیہم السلام کا کلام فصاحت و بلاغت کی اوج پر پہنجا ہوا کلام ہے جس سے عربی قواعد و ضوابط کا بدرجہ اولی استخراج کیا جا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ اور ادعیہ عالیہ نحوی شواہد سے بھری ہوئی ہیں۔ انہی شواہد میں سے باب اشتغال کے شواہد بآسانی ملاحظہ کیے جا سکتے، جیساکہ آئمہ اطہارؑ سے منسوب دعاؤں میں وارد ہوا ہے: اہم نکتہ[ترمیم]اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ باب اشتغال کے اہم مسائل میں اسم مقدم کے اعراب ہیں جس کے لیے باقاعدہ جداگانہ تحریر کی ضرورت ہے جس میں اس کے مسائل اور شرائط کو مثالوں کے ساتھ بیان کیا جائے۔ حوالہ جات[ترمیم]مأخذ[ترمیم]پژوہشکده باقر العلوم ع۔ |