امام جعفر صادقؑ کی امامت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
امام صادقؑ
اہل تشیع کے بارہ آئمہؑ میں سے چھٹے امام ہیں۔
اہل سنت کے فقہ میں پیشوا امام
ابو حنیفہ بھی امام جعفر صادقؑ کے نہ صرف شاگرد تھے بلکہ اس پر فخر کیا کرتے تھے۔ آئمہ اطہارؑ میں سے آپؑ ک و
بنو امیہ اور
بنو عباس کی سیاسی کشمکش اور جنگ و جدال کے باعث یہ فرصت میسر آئی کہ آپؑ اہل اسلام کیلئے اسلامی قوانین و احکام کی ایسی تشریح کر دیں جو آج تک تمام
اسلامی علوم کیلئے روشن چراغ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اہل تشیع کی
فقہ جعفریہ بھی آپؑ ہی کے نام نامی سے منسوب ہے۔
[ترمیم]
امام صادقؑ، شیعوں کے چھٹے امام سنہ ۸۳ ھ
یا سنہ ۸۰ ھ
بمطابق ۱۷
ربیع الاول بروز
جمعۃ المبارک یا
سوموار کی صبح کو
مدینہ میں پیدا ہوئے۔
آپؑ کے والد گرامی
امام باقرؑ اور والدہ
ام فروہ بنت
قاسم بن محمد بن ابوبکر ہیں۔
آپؑ کا نام
پیغمبر اکرمؐ کی ہدایت پر جعفر رکھا گیا۔
آپؑ کی کنیت ابو عبد اللہ یا ابو اسماعیل اور آپؑ کے نمایاں القاب میں سے صادق، صابر، فاضل اور ظاہر ہیں۔
[ترمیم]
حضرتؑ کی
امامت کا دورانیہ ۳۴ سال پر محیط ہے۔
آپؑ کی حیات مبارکہ کے بارہ سال
امام سجادؑ کی امامت میں اور اس کے بعد ۱۹ سال امام باقرؑ کے دوران امامت میں بسر ہوئے جبکہ آپؑ کے زمانہ امامت میں اموی خلفا میں سے
ہشام بن عبد الملک ،
ولید بن یزید بن عبد الملک،
ابراہیم بن ولید،
مروان بن محمد اور عباسی خلفا میں سے
سفاح اور
منصور دوانیقی کی حکومت تھی۔
[ترمیم]
امام صادقؑ سنہ ۱۴۸ھ میں ۲۵
شوال یا نیمہ شوال کو ۶۵ برس کے سن مبارک میں
شہید ہوئے۔
آپؑ کی شہادت کا سبب وہ زہر تھا جو منصور نے حضرتؑ کو دیا تھا۔
[ترمیم]
امام صادقؑ نے
منصور دوانیقی، مدینے کے حاکم، امام موسی کاظمؑ کی والدہ
حمیدہ ،
عبد اللّہ افطح اور
موسی بن جعفرؑ کو اپنا
وصی مقرر کیا اور یہ امام کاظمؑ کو منصور کے
شر سے بچانے کی غرض سے تھا۔
[ترمیم]
امام جعفر صادقؑ کا عصر امامت
تاریخ اسلام کا انتہائی پر آشوب دور تھا اور الرضا من آل محمد کے نعرے کے تحت پورے عالم اسلام میں
بنو عباس کی مسلح جدوجہد جاری تھا اور بعض
علوی اور
شیعہ جنہیں اصل صورتحال کا ادراک نہیں تھا؛ وہ اس نعرے پر یقین کر بیٹھے۔ امام صادقؑ علویوں کے ایک اجتماع میں حاضر ہوئے کہ جو بنو عباس کے چند افراد کے ساتھ
ابواء کے مقام پر جمع تھے اور
مہدی موعود کے عنوان سے
محمد بن عبد الله بن حسن کیلئے بیعت لے رہے تھے؛ امامؑ نے انہیں اس
تحریک سے منع کیا اور واضح فرمایا کہ محمد بن عبد اللہ مہدی موعود نہیں ہیں اور اصل جیت بنو عباس کی ہو گی جبکہ محمد ان کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا۔
امام صادقؑ نے عباسی تحریک کے ایک رہنما
ابو مسلم خراسانی کی دعوت کو مسترد کر دیا اور اس کے خط کے جواب میں لکھا:
مَا أَنۡتَ مِنۡ رِجَالِی وَلَا الزَّمَانُ زَمَانِی؛ نہ تو میرے ساتھیوں میں سے ہے اور نہ ہی یہ میرا زمانہ ہے۔
بنو عباس کی
کامیابی کے بعد
اہل تشیع پر
سیاسی دباؤ کئی گنا زیادہ ہو گیا،
امامؑ نے شیعوں کو
تقیہ کرنے کی ہدایت جاری کی جبکہ منصور نے
مدینہ میں اپنے جاسوس مقرر کر رکھے تھے جو شیعوں کی شناخت کر کے انہیں قتل کرنے پر مامور تھے۔
[ترمیم]
امام صادقؑ کی امامت کے اثبات میں تین طرح کی ادلہ سے
استدلال کیا گیا ہے:
نبی کریمؐ کی روایات میں
امام صادقؑ کی امامت کی تصریح کی گئی ہے۔
حدیث لوح کے ایک اقتباس میں آیا ہے: امام باقرؑ کی امامت کے بعد جعفرؑ میں شک کرنے والے ہلاک ہو جائیں گے اور جو انہیں رد کرے گا اس نے مجھے رد کیا۔۔۔ ۔
حدیثِ معراج اور
ابو بن کعب و جابر کی پیغمبر اکرمؐ سے منقول حدیث امام صادقؑ کی امامت پر تصریح کرتی ہے۔
امام باقرؑ بھی واضح انداز سے آپؑ کے بارے میں
وصیت کرتے ہیں اور آپؑ کی امامت کی تصریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب میں تمہارے درمیان سے چلا جاؤں تو میرے فرزند جعفر کی
اقتدا کرو اور رحلت کے وقت انہوں نے گواہوں کو طلب کیا اور ان کی موجودگی میں امام صادقؑ کے حوالے سے اپنی وصیت کا
ابلاغ کیا اور اسے تحریر کیا۔
امام کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے میں افضل ہو۔ امام صادقؑ دوستوں اور مخالفین کے اتفاق رائے سے
علم اور دیگر انسانی کمالات میں اَوروں سے افضل تھے۔
حنفیوں کے پیشوا
ابو حنیفہ کہتے تھے: میں نے اپنی زندگی میں ہرگز جعفر بن محمد سے بڑا عالم اور فقیہ نہیں دیکھا۔
منصور دوانیقی حضرتؑ کے علم اور معنویت کو سراہتا تھا۔
ابو بحر جاحظ کہتے تھے: جعفر بن محمد کے علم اور
فقہ نے دنیا کو مملو و پر کر رکھا ہے۔
فرمانی کے نزدیک حضرتؑ کی حدیث کے ساتھ وہی منزلت ہے جو سر کی
بدن کے ساتھ ہوتی ہے۔
مالک بن انس حضرتؑ کو علم و فضل میں بے نظیر سمجھتے تھے۔
امام صادقؑ کی دعا سے مردے کے زندہ ہونے، خشک
درخت کے ثمر دار ہونے،
دعا کی قبولیت اور افراد کے غیب و نہاں کی خبر دینے جیسی
کرامات نقل ہوئی ہیں
اور ان سب سے آپؑ کی امامت کی تائید ہوتی ہے۔
بعض
اہل سنت علما نے بھی آپؑ کو
مستجاب الدعا شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ آپؑ جب بھی
خدا سے کوئی حاجت مانگتے تھے تو ابھی ان کا کلام ختم نہیں ہوتا تھا کہ دعا قبول ہو جاتی تھی۔
[ترمیم]
• اثبات الهداة، حر عاملی، محمد بن الحسن، متوفی ۱۱۰۴ھ، تحقیق ابوطالب تجلیل، طبع ایران۔
• اخبار الدول، فرمانی، ا حمد بن یوسف، متوفی ۱۰۱۹ھ، عالم الکتب، بی تا، بیروت۔
• اعلام الوری، طبرسی، امین الاسلام، فضل بن حسن، قرن۶، تحقیق مؤسسة آل البیت، طبع مؤسسة آل البیت، قم، ۱۴۱۷ھ۔
• الارشاد، مفید، محمد بن نعمان، متوفی ۴۱۳، ترجمه سید هاشم رسولی محلاتی، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، تهران، ۱۳۸۳شمسی۔
• امالی، صدوق، محمد بن علی بن حسین، متوفی ۳۸۱، تحقیق مؤسسة البعثة، طبع مؤسسة البعثة، ۱۴۱۷ھ۔
• تاریخ کبیر، بخاری، محمد بن اسماعیل، متوفی۲۵۶، دارالکتب، بیروت، ۱۴۲۲۔
• تاریخ یعقوبی، یعقوبی، احمد بن محمد بن واضح، تحقیق: خلیل منصور، دارالکتب، بیروت، ۱۴۱۹ھ۔
• تذکرة الحفاظ، ذهبی، شمس الدین، نشر المعارف العثمانیة، هند، حیدرآباد، ۱۳۹۰۔
• تذکرة الخواص، ابن جوزی، شمس الدین، متوفی ۶۵۴، منشورات رضی، قم، ۱۴۱۸ھ۔
• تهذیب الکمال، امام مزی، جمال الدین، دارالفکر، بیروت ۱۴۱۴ھ۔
• الثاقب فی المناقب، الطوسی، عمادالدین، محمد بن علی، (قرن ۶)، تحقیق رضا علوان، قم، انتشارات انصاریان، ۱۳۷۷شمسی۔
• جامع کرامات الأولیاء، نبهانی، شیخ یوسف، دارالمعرفة، بیروت، ۱۴۱۴ھ۔
• الخرائج والجرائح، راوندی، قطب الدین، بیروت، لبنان، مؤسسة النور، ۱۴۱۱ھ۔
• دلائل الامامه، طبری، محمد بن جریر، متوفی قرن ۴، مؤسسة الاعلمی، طبع بیروت، ۱۴۰۸ھ۔
• رجال کشی، طوسی، ابوجعفر محمد بن حسن، متوفی ۴۶۰۔
• تحقیق حسن مصطفوی، طبع دانشگاه مشهد، ۱۳۴۸شمسی۔
• روضة الواعظین، نیشابوری، فتال، متوفی ۵۰۸ھ، انتشارات شریف رضی (آفسٹ نجف)، قم، ۱۳۷۵ھ۔
• سیر اعلام النبلاء، ذهبی، شمس الدین، متوفی ۷۴۸، مؤسسة الرسالة، بیروت ۱۴۰۶ھ۔
• شرح نهج البلاغه، ابن ابوالحدید، متوفی ۶۵۶ھ، اعلمی، بیروت، سال ۱۴۱۵ھ۔
• الصواعق المحرقة، هیثمی، ابن حجر، مؤسسة الرسالة، بیروت، ۱۴۱۷ھ۔
• الغیبة، طوسی، ابوجعفر محمد بن حسن، متوفی ۴۶۰ھ۔
• مؤسسة المعارف الإسلامیة، قم، ۱۴۲۵۔
• عوالم العلوم، بحرانی، عبداللّه، تحقیق: مؤسسة الإمام المهدی، قم، ۱۴۱۵۔
• عیون اخبار الرضا، صدوق، محمد بن علی بن حسین، متوفی ۳۸۱ھ، منشورات الحیدریة، النجف، ۱۳۹۰ (منشورات اعلمی تہران)۔
• الفصول المهمة، مالکی، ابن صباغ، علی بن محمد، متوفی ۸۵۵ھ، تحقیق دارالحدیث، نشر دارالحدیث، قم، ۱۴۲۲ھ۔
• کافی، کلینی، محمد بن یعقوب، متوفی ۳۲۸ یا ۳۲۹ھ، تحقیق علی اکبر غفاری، دارالأضواء بیروت، ۱۴۰۵ھ۔
• کشف الغمة، اربلی، علی بن عیسی، متوفی ۶۹۲ھ، انتشارات شریف رضی، قم، سال ۱۴۲۱ھ۔
• کمال الدین، صدوق، محمد بن علی بن الحسین، متوفی۳۸۱ھ، مترجم منصور پهلوان، انتشارات مسجد جمکران، قم، ۱۳۸۴شمسی۔
• مدینة المعاجز، بحرانی، سید هاشم، ۱۱۰۷، تحقیق علاء الدین اعلمی، مؤسسة الاعلمی، بیروت، ۱۴۲۳ھ۔
• مروج الذهب، مسعودی، علی بن حسین، تحقیق عبدالامیر مهنا، اعلمی، بیروت، ۱۴۱۱ھ۔
• المستجاد، حلی، ابومنصور حسن بن ابویوسف، متوفی ۷۲۶ھ، تحقیق محمود البدری، مؤسسة المعارف الاسلامیة، قم، ۱۴۱۷ھ۔
• مقاتل الطالبین، اصفهانی، ابوالفرج، متوفی ۳۵۶ھ، مترجم سید هاشم رسولی محلاتی، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، تهران، ۱۳۸۰شمسی۔
• ملل ونحل، شهرستانی، ابوالفتح محمد بن عبدالکریم، متوفی ۵۴۸ھ، تحقیق احمد فهیمی، دارالکتب العلمیه، بیروت، ۱۴۱۰ھ۔
• مناقب آل ابوطالب، ابن شهر آشوب متوفی ۵۸۸ھ، تحقیق یوسف البقاعی، انتشارات ذوی القربی، قم، ۱۴۲۱ھ۔
• نور الابصار، شبنلجی، مؤمن ابن حسین، دارالکتب، بیروت۔
• وفیات الاعیان، ابن خلکان، احمد بن محمد، تحقیق احسان عباس، دارالصادر، بیروت، ۱۹۶۸ء۔
• ینابیع الموده، قندوزی، سلیمان، متوفی ۱۲۹۴ھ، تحقیق: سید علی جمال اشرف، نشر اسوه قم، ۱۴۱۶ھ۔
• بحارالانوار۔
[ترمیم]
[ترمیم]
دانشنامہ کلام اسلامی، مؤسسه امام صادقؑ، ماخوذ از مقالہ «امامت امام صادق»، شماره۷۶۔